ہفتہ، 23 دسمبر، 2017

کالے ہاتھ ۔۔ بدرِ احمر کے قلم سے




کالے ہاتھ


استاد بسمل بزمی کو اخبار سے اتنی ہی دل چسپی ہے کہ شہ سرخیوں پر اچٹتی سی نظر ڈال لی، ہفتہ وار اشاعتوں میں جھانک لیا، ادبی صفحہ ہوا تو اس پر دو چار منٹ کے لئے اٹک گئے، خالی خولی ورق گردانی کر کے اخبار ایک طرف ڈال دیا۔ کبھی موڈ ہوا تو کالم دیکھ لئے، وہ بھی عنوانات اور کالم نگاروں کے ناموں کی حد تک۔ شین بصرہ نامی کالم نگار البتہ انہیں اچھا لگتا تھا۔ اکثر کہا کرتے کہ: شین بصرہ سچ لکھتا ہے، اور لگی لپٹی رکھے بغیر بہت تلخ باتیں کر جاتا ہے۔ اس کی زبان بہت شستہ ہے، الفاظ کو برتنا جانتا ہے۔ اور اس کی خاص بات لوگوں کی نفسیات کا مطالعہ ہے۔ وہ بریکنگ نیوز سے کہیں زیادہ اہمیت روز مرہ زندگی کے بظاہر چھوٹے چھوٹے مظاہر کو دیتا ہے؛ اور مزید بہت کچھ۔

اُس دن بھی استاد بڑی دیر تک شین بصرہ کے کالم میں کھوئے رہے۔ عنوان تھا: ’’کالے ہاتھ‘‘، کہانی بوٹ پالش والے ایک لڑکے کی تھی جو چوتھی پانچویں جماعت میں رہا ہو گا۔ کالم نگار کو وہ لڑکا چھٹی کے وقت کبھی کسی بس سٹاپ پر، کسی کار پارک کے کونے پر، کسی مارکیٹ کے راستے پر بیٹھا دکھائی دیتا۔ اسکول بیگ ایک طرف ڈالے، وہ کبھی کسی کے جوتے ہاتھ پر چڑھا کر پالش کر رہا ہوتا، اور کبھی کسی پاؤں میں پہنے ہوئے جوتوں پر برش مار رہا ہوتا۔ شین بصرہ نے اس لڑکے کے تلخ حالات اور مجبوریوں کا نقشہ بھی کھینچا تھا؛ تعلیم جاری رکھنے کے عزم کو بھی سراہا تھا اور یہ بھی لکھا تھا کہ وہ لڑکا کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتا جس سے اس کی اپنی خودداری کو ٹھیس پہنچے یا اس کی کمائی کسی بھی انداز میں ناجائز قرار پائے۔ چوری کرنا، دکانوں سے چیزیں غائب کرنا، بھیک مانگنا؛ وغیرہ اس بچے کے نزدیک جرم سے زیادہ شرم سے ڈوب مرنے والی بات تھی ۔ نچلے طبقے کے ان محنت کش بچوں کے ساتھ لوگوں کے تحقیر آمیز رویے کا ذکر بھی کیا تھا۔ ایک مشورہ سفید پوش طبقے کو یہ بھی دیا تھا کہ کبھی کبھی ہی سہی وہ بغیر ضرورت کے بھی جوتے پالش کروا لیا کریں۔ کالم پڑھ چکنے کے بعد انہوں نے سر اٹھایا تو اُن کے چہرے پر ویرانی سی چھائی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر تک چپ چاپ بیٹھے رہے، پھر چلے گئے۔

اگلے دن سرِراہ ملاقات ہو گئی، استاد پریشان سے دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نے خیریت پوچھی تو بیزار سے لہجے میں بولے: ’’چھوڑو یار! سب بکواس ہے، جھوٹ بکتے ہیں یہ لوگ! پیسہ کمانے کے لئے کہانیاں گھڑا کرتے ہیں‘‘۔ ’’یا وحشت! کیا ہوا اُستاد؟ کسی سے الجھ پڑے کیا‘‘؟

’’ہاں، کچھ ایسا ہی سمجھو، اُلجھا نہیں اور نہ الجھنے پر خود سے شرمندہ ہو رہا ہوں‘‘۔ ہمارے پلے کچھ نہیں پڑ رہا تھا۔ وہ ہمیں پکڑ کر تقریباً گھسیٹتے ہوئے ایک قریبی چائے خانے میں داخل ہو گئے۔

ہم بیٹھ چکے تو استاد نے بات شروع کر دی۔ لب لباب یہ تھا کہ  پچھلی مارکیٹ کے کونے پر بیٹھے لڑکے سے ایک شخص نے جوتے پالش کرائے اور اسے دس کا نوٹ تھما دیا۔ وہ لڑکا کہنے لگا: صاحب جی دس روپے سے زیادہ کی تو میری پالش خرچ ہوئی ہے، اس پر میری محنت کے بیس روپے بھی تو دیں۔ وہ شخص الٹا اُس لڑکے پر برس پڑا: تو نے میری کیا گاڑی پالش کی ہے جو تیس روپے مانگ رہے ہو؟ شرم نہیں آتی۔ یہ کہا اور لڑکے کو ایک جھانبڑ دے مارا۔ ایک خوانچے والا بیچ میں آ گیا، اُس نے ’صاحب جی‘ کو خوب سنائیں۔ ایک دکان والا نکل آیا:یہ لوگ ایسے ہی ہیں جی، آپ چھوڑئیے سر، یہ ہے وہ ہے۔ خوانچے والے نے ’صاحب جی‘ کو کلائی سے پکڑ لیا: ’’نکال تیس روپے سیٹھ مکھی چوس! نہیں تو تیرا بازو گیا مونڈھے سے۔ اور یہ تیری گھڑی جو میرے ہاتھ کے نیچے ہے، دس بارہ ہزار کی تو ہو گی! یہ بھی گئی جان لے‘‘۔ مرتا کیا نہ کرتا!’صاحب جی‘ نے جیب میں ہاتھ ڈالا، سو کا نوٹ ہاتھ لگا، وہ خوانچے والے کو دیا اور بڑے رعب سے بولے: اب مجھے چھوڑ دے، کمینے!۔ اس نے چھوڑتے میں ایسا دھکا دیا کہ صاحب لوگ پیچھے سے آتی گدھا گاڑی کے سامنے گر گئے۔

ادھر ایک بندہ دوڑتا ہوا آیا:’’ اوئے ہوئے ہوئے! یہ بصرہ صاحب کو کیا ہوا؟‘‘ استاد بسمل بزمی نے یہ نام سنا تو چونکے: ’’بصرہ صاحب؟ یہ شین بصرہ ہیں؟ وہی جو کالم لکھتے ہیں؟‘‘ .... آنے والے نے اثبات میں سَر ہلا دیا۔

*******

بدرِ احمر ’’مِری آنکھیں مجھے دے دو‘‘
ہفتہ ... ۲۳؍ دسمبر ۲۰۱۷ء


بدھ، 13 دسمبر، 2017

صوفیہ اور یروشلم



صوفیہ اور یروشلم




’’صوفیہ کو جانتے ہو؟‘‘ لالہ مصری خان کے سوال ایسے ہی ہوتے ہیں؛ بظاہر بہت سادہ، لیکن بہت گہرے۔ اس سوال کی گہرائی کو بھی ایک دم پا لینا اپنے بس میں نہیں تھا۔ مگر کچھ جواب تو دینا تھا!

’’صوفیہ کون؟ خان لالہ!‘‘

’’ارے وہی! جس کو ابھی پچھلے دن شہریت دی گئی ہے‘‘۔

’’کون وہی؟ کہاں کی شہریت؟‘‘

’’چلو ہٹو، بنو نہیں! میں اس شیشے کے سر والی کی بات کر رہا ہوں‘‘۔

’’یہ آپ کون سی زبان بول رہے ہیں‘‘۔ ہمارے اس سوال کا جواب تو ملا نہیں، استاد چُٹکی البتہ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ایسی ہنسی کو لالہ مصری خان ہمیشہ توہین سے تعبیر کیا کرتے ہیں اور یک دم سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ مگر لالہ کا چہرہ سپاٹ تھا۔ یا حیرت! ہم نے احمقانہ انداز میں استاد کو گھورا۔ تو انہوں نے ایک اور سوال داغ دیا جو لالہ مصری خان کی صوفیہ سے بھی بڑھ کر تھا۔ بولے: ’’کرپٹو کرنسی جانتے ہو؟‘‘ ہماری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر خود ہی کہنے لگے: ’’ایک فرضی کرنسی ہے، جس میں بے پناہ قوتِ خرید ہے‘‘۔

’’کرنسی فرضی ہے اور اس میں قوتِ خرید بھی ہے، اور وہ بھی بے پناہ؟ اور اس کا اُس شیشے کے سر والی سے کیا تعلق ہے؟ مگر پہلا سوال کہ وہ ہے کون؟ اور اس کو شیشے کے سر والی کیوں کہتے ہیں؟‘‘ ہم نے بے تابی میں ایک سوال میں چھکا مار دیا۔

’’چلو یہ بتاؤ کہ جاپان میں جو بڑا سونامی آیا ، جس نے جاپان کی معیشت کو تہ و بالا کر دیا، وہ کیوں آیا تھا؟ کون لایا تھا؟‘‘

’’خیریت تو ہے استاد؟‘‘ ہم نے غیریقینی ہنسی ہنستے ہوئے پوچھا: ’’سونامی قدرتی طور پر اٹھتے ہیں، کوئی کیسے لا سکتا ہے؟‘‘

’’کیا تمہارے علم میں ہے کہ جاپان ایک نئی کرنسی متعارف کرانے والا تھا؟ وہ سونامی اس کرنسی کو ڈبونے کے لئے آیا تھا‘‘۔

’’یہ استاد چُٹکی کیا کہہ رہے ہیں، خان لالہ؟ اور ان کی توپوں کا رُخ ہماری طرف کیوں ہے؟‘‘ ہم نے احتجاج کے انداز میں سوال کیا، جواب میں خان لالہ کچھ ایسے مسکرائے کہ اگر اُن کا احترام حائل نہ ہوتا تو ہم اسے مکارانہ تبسم قرار دینے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کرتے۔ انہوں نے الٹا ہم سے پوچھ لیا: ’’تاش کھیلتے ہو؟ ترپ کا پتہ کسے کہتے ہیں؟‘‘ ہم سے نہ رہا گیا، ہم نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کر کے زور سے کہا: ’’احتجاج! احتجاج! صاحبو یہ ہم سے کیا پہیلیاں بوجھوا رہے ہو!‘‘۔

’’چھوڑو! یہ بتاؤ کہ ترپ کے پتے کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ اس پر ہمارا چونک جانا یقینی تھا، ہم چونکے! اور وہ بھی تو ایسے کہ صوفیہ کا تو پتہ نہیں، صوفہ جس پر ہم بیٹھے تھے وہ بھی اچھل پڑا۔ ایک جھماکے کے ساتھ بہت کچھ عیاں ہو گیا۔ تاہم کچھ سوال ایسے ضرور تھے جن کے جواب ہمیں درکار تھے۔ ہم سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ سوال کس سے کریں اور کس ترتیب سے کریں۔ ہمارے ذہن پر کئی نام ہارپ بیم بن کر گرنے لگے، ان میں آخری دو نام ہیں: ڈونالڈ ٹرمپ اور یروشلم۔

دیکھئے! ہم بالکل نہیں مسکرا رہے اس لئے وہ مکارانہ تبسم والی بات ہمارے بارے مت سوچئے گا۔ 


مِری آنکھیں مجھ دے دو

بدرِ احمر .... ۱۳؍ دسمبر ۲۰۱۷ء

بدھ، 29 نومبر، 2017

ناراضگی ۔۔۔ ایک بڑا مسئلہ





ناراضگی  ۔۔۔ ایک بڑا مسئلہ


مسئلہ تو ہے نا! لالہ مصری خان  کسی کا ذکر کر رہے تھے۔ کہنے لگے: "ہو گئی، یار! ناراضگی، بس! اب چھوڑو بھی"۔ استاد چٹکی کو شاید ایسے ہی کسی موقعے کی تلاش تھی۔  یوں بھی ان کی خان لالہ سے گاڑھی چھنتی ہے یا نہیں ٹھنتی ضرور ہے، اور وہ بھی بات بے بات۔ جھٹ  بول اٹھے: "یہ ناراضگی ہوتی کیا ہے؟"
خان لالہ بھنک گئے: "کیا مطلب ہے تمہارا؟ پھر کوئی نئی سوجھی کیا؟"
"نئی نہیں سوجھی خانہ خ! بات پرانی ہے۔ اکثر لوگ لکھتے بھی ہیں، بولتے بھی ہیں 'ناراضگی'۔ پر یہ ہے غلط"۔
"اور تم اس غلطی کو چٹکی بجاتے میں دور کر دو گے؟ جی فرمائیے! ہم ہمہ تن گوش ہیں"۔
استاد چٹکی کسی نہ کسی طور خان لالہ کے اس جملے کو پی گئے اور عالمانہ سنجیدگی کے ساتھ بولے: "فارسی والے گاف وہاں لاتے ہیں جہاں بوجوہ ہائے خفی کو بدلنا ہوتا ہے۔ مثلاً: بچہ، بچگان، بچگانہ؛ آزردہ، آزردگی؛ دیوانہ، دیوانگی؛ وارفتہ، وارفتگی؛ ناراض میں تو ہائے خفی نہیں ہے۔ اس پر جہاں لازم ہو، یائے معروف کا اضافہ کریں گے: فیاض، فیاضی؛ مایوس، مایوسی؛ بے ہوش، بے ہوشی؛ ناراض، ناراضی"۔  یہ کہا اور فاتحانہ انداز میں لالہ مصری خان کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں۔
لالہ پر اس کا کچھ اثر ہوا یا نہیں، ہم ضرور استاد کے رعب میں یا شاید بھرے میں آ گئے تھے۔ ہمیں حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا جب ہم نے خان لالہ کے ہونٹوں کو طنزیہ انداز میں پھیلے اور آنکھوں کو چمکتے دیکھا۔ کہنے لگے: "بہت تیز بھاگتے ہو استاد! منہ کے بل گرو گے"۔
"وہ کیسے؟
" وہ ایسے ! سنو"۔ اب کے استاد بھی ہمہ تن گوش تھے، ہم تو تھے ہی۔
 لالہ مصری خان نے پوچھا: "جب نفی بناتے ہو تو کیا کرتے ہو؟ صفت پر سابقہ "نا" لاتے ہو؛ مثلاً: کافی، نا کافی؛ صاف، ناصاف؛ جائز، ناجائز؛ روا، نا روا؛ قابل، ناقابل؛ اور ۔۔۔ راضی، ناراضی!۔۔۔ ناراضی کیا ہوا پھر؟ ناراض ہونا جیسا تم لائے ہو؟ یا وہ جو ناراض ہے جیسا یہاں سے اخذ ہوتا ہے؟"
استاد بھی ہار کب ماننے والے تھے، بولے: "وہ تو ناراض ہوتا ہے۔ ناراضی ہے ناراض ہونا"۔
لالہ بولے: " نالائق، وہ جو لائق نہ ہو؛ ناجائز، وہ جو جائز نہ ہو؛ ناصاف، وہ جو صاف نہ ہو؛ ناکافی، وہ جو کافی نہ ہو؛ میں نے ٹھیک کہا؟"
"ہاں، ٹھیک کہا"۔
"اسی نہج پر ناراضی وہ جو راضی نہ ہو" خان لالہ نے لوہار کی ایک مار دی۔ استاد بہت چیں بہ جبیں ہوئے اور دیر تک "نہ نہ نہ نہ نہ نہ ۔۔۔" کرتے رہے۔ لالہ نے پھر کہا: "سنو! صاف، ناصاف؛ ساز، ناساز؛ روا، ناروا کی نہج پر ناراض وہ ہے جو راض نہیں ہے۔ اور یہ راض کیا ہے؟ جانتے ہو؟"
استاد جیسے بجھ سے گئے، بولے:"یہ تو میں واقعی نہیں جانتا، کہ راض کیا ہے۔ ناراض کا پتہ ہے"۔ لالہ مصری خان نے ایک لمبی سانس لی اور کہا: "خیر، میں بتاتا ہوں۔ راض اور راضی ایک ہی چیز ہے، اس میں کوئی فرق نہیں"۔ استاد پر جیسے حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہوا ہو، بولے: "ک ک ک کیسے؟"
لالہ کہنے لگے: "فان، باغ، عاد؛ یہ تین لفظ تو قرآن شریف میں بھی ہیں، معانی وہی ہیں: فانی، باغی، عادی۔ اور بھی ہوں گے، فوری طور پر ذہن میں نہیں آ رہے۔ اسی نہج پر راض ہے بمعنی راضی! یعنی ان میں کوئی فرق نہیں۔ اس پر آپ  'لا' لگائیں، 'نا' لگائیں: فان فانی سے لافانی، کاف کافی سے ناکافی،راض راضی سے ناراضی!"۔
استاد کو جیسے چپ سی لگ گئی۔ خاموشی کھَلنے لگی تو ہم نے خان لالہ سے پوچھا: "اس کا حل کیا ہے؟"
بولے: "بہت سیدھا سا حل ہے! ناراض آپ کے ہاں رائج ہے، وہ ناراضی کا قائم مقام ہے۔ ناراضی (غلط معانی: ناراض ہونے کی کیفیت) کو بھول جائیے اور 'ناراضگی' کو قبول کر لیجئے جیسے آپ نے بہت سارے اور الفاظ غلط العام، اور غلط العوام، اور وضعی، اور پتہ نہیں کس کس نام سے قبول کئے ہوئے ہیں۔ کہو استاد! کوئی ناراضگی تو نہیں نا؟"
استاد کھسیانی ہنسی ہنس دئے۔ ناراضگی جاتی رہی!

بدرِ احمر  ۔۔۔ بدھ 29 نومبر 2017ء  


منگل، 21 نومبر، 2017

ایک پَینی کا تحفہ


ایک پَینی کا تحفہ
(ایک انگریزی کہانی کی تحویلِ نو)



وہ چاروں ایک میز کے گرد بیٹھے تھے۔ وِلی اور باب کے چہروں پر بشاشت تھی، اور ایڈی کے چہرے پر بے چینی جھلک رہی تھی جب کہ  سیلی کے چہرے کا تناؤ اس کی دل آویز مسکراہٹ میں چھپ گیا تھا۔ وہ تھی ہی ایسی! عین شباب کی عمر میں بھی اس کے مزاج میں بہت ٹھہراؤ تھا۔ میز پر کیک کے دو ڈبے رکھے تھے، ایک درمیانے اور ایک چھوٹے سائز کا۔ ان تینوں نے ڈبوں پر ایک نظر دوڑائی اور پھر ایک دوسرے کے چہروں کو ایسے دیکھنے لگے جیسے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ سیلی نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا اور نگاہیں خلا میں کسی غیر مرئی نقطے پر مرتکز کر دیں۔ چند لمحوں میں تناؤ کی کیفیت جیسے رفع ہو گئی اور وہ پرسکون مگر بہت سنجیدہ دکھائی دینے لگی۔ ایڈی سے رہا نہیں گیا۔ "کیا کر رہی ہو سیلی؟ اب ان ڈبوں کو کھولو بھی!" وِلی اور باب اس کی بے تابی پر کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ایڈی نے کہا کچھ نہیں مگر غصے بھری نظروں سے ان کو گھورا، اور شرمندہ سا ہو کر سر جھکا لیا۔

ان چاروں کے یہاں جمع ہونے، اور کیک کے ڈبوں  کا پس منظر خاصا دل چسپ تھا۔ وہ چاروں باہم دوست تھے۔ ایڈی، وِلی اور باب، تینوں سیلی کی مقناطیسی شخصیت کے حصار میں تھے۔ سیلی سب سے کشادہ پیشانی کے ساتھ پیش آتی، کسی کو اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ اس کا میلان کس کی جانب زیادہ ہے۔ وہ خود بھی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی ان تینوں میں سے کس کو رفیقِ حیات منتخب کرے۔ اس نے یہ بات ان تینوں کو بتا بھی دی تھی ۔ ان تینوں میں بہرحال کچھ خوبیاں ایسی ضرور تھیں جو ایک کو دوسرےسے ممتاز کرتی تھیں؛ اور  ایک مشترکہ خوبی کہ رقابت آشنا کوئی بھی نہیں تھا۔

سیلی نے خود کو قسمت کے حوالے کر دینے کا فیصلہ کر لیا۔ بہ این ہمہ تینوں میں سے کسی ایک کا انتخاب تو اسی کو کرنا تھا۔ اس نے ایک تقریب کی تجویز پیش کر دی کہ وہ چاروں جمع ہوں اور سیلی اپنے فیصلے کا کیک کاٹے۔ کیک میں ایک پینی کا سکہ ہو گا، وہ جس کے منہ میں چلا گیا، سیلی اس سے شادی کر لے گی۔ سیلی اپنے لئے چھوٹا کیک الگ سے بنائے گی تاکہ سکہ خود اس کے منہ میں جانے کا امکان ہی نہ رہے۔ یہ دو کیک وہی تھے۔ سیلی نے بڑا کیک تین برابر حصوں میں کاٹا؛ سب نے اپنی مرضی سے ایک ایک ٹکڑا اٹھایا اور کھانے لگے۔ سیلی چھوٹے کیک سے جی بہلانے لگی۔ ایڈی نے ایک دم ہررا کا نعرہ لگایا، اپنے منہ سے ایک پینی کا سکہ نکال کر میز پر رکھا اور سیلی کا منہ چوم لیا۔ فیصلہ ہو چکا تھا، تقریب ہنسی خوشی اختتام پذیر ہو گئی۔

شادی کی تقریب میں وِلی اور باب نے نو بیاہتا جوڑے کو تحفے میں بالکل ایک جیسے پیکٹ دئے۔ تحفے کھولنے کا وقت آیا، تو ایڈی اور سیلی نے سب سے پہلے اپنے دوستوں کے تحفوں کو کھولا ۔ ارے! یہ کیا؟ دونوں میں پینی کا ایک ایک سکہ؟! ایڈی نے اس کو شرارت سے تعبیر کیا مگر سیلی کی گہری مسکراہٹ کچھ اور کہہ رہی تھی۔ "کیا بات ہے سیلی؟ لگتا ہے کوئی خاص بات ہے"۔ "ہاں! میں نے کیک میں تین سکے رکھے تھے۔ ان دونوں نے  اپنے منہ میں آنے والے سکوں کو منہ میں دبا لیا تھا"۔ایڈی کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ سیلی شرارتی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی: "تم زیادہ بے تاب تھے نا؟ اس لئے!"۔ ایڈی کو ایسا لگا کہ وہ اُسی میز پر سر جھکائے بیٹھا ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭

تحریر: محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان  ۔۔۔ منگل 21 نومبر 2017ء


ہفتہ، 11 نومبر، 2017

حرف آویزی




حرف آویزی


فنِ شعر کی بہت اہم اور مشہور اصطلاح ہے "عیبِ تنافر"؛ اور محل اس کا وہ ہے جہاں تنافر میں کوئی عیب رہ جائے۔ شعر کے اندر الفاظ کچھ ایسے وارد ہوں کہ ان کو ادا کرنے میں کسی نہ کسی درجے کی ثقالت محسوس ہو۔ ایسا وہاں ہوتا ہے جہاں  (مثال کے طور پر):

۔1۔ ایک لفظ کسی حرف ساکن غیر مجزوم پر ختم ہو اور اگلا لفظ اسی حرف سے شروع ہو رہا ہو۔ (عروض کی زبان میں:  پہلا حرف ہجائے کوتاہ ساکن اور دوسرا ہجائے کوتاہ متحرک): یاد دلانا، چالاک کہیں کا، کام مرا، دُور رہو، غیر روایتی، سبز زمیں، خواب درد دیتے ہیں، راس سبھی کو؛ وغیرہ۔

۔2۔ اسی قبیل میں ہم مخرج حروف بھی آتے ہیں؛ وہ  جن کی صوتیت میں ہم عربی فارسی جیسا امتیاز عام طور پر نہیں کرتے: (ت، ط، تھ)، (ث، س، ص)، (ح، ہ)، (ذ، ز، ض، ظ)، (غ، گ، گھ)، (خ، ق، ک، کھ)، (پھ، ف)، (ج، جھ)، (د، دھ، ڈ، ڈھ)۔ مثالیں: سات طریقے، ٹھوس ثبوت، خاص سوال، مکروہ حقیقت، ناجائز ذرائع، ایاغ گری، بے باک قلم؛ وغیرہ۔

۔3۔ ایک لفظ کسی حرف ساکن غیر مجزوم پر ختم ہو اور اگلا لفظ اس کے ہم مخرج متحرک حرف سے جو کسی ہجائے بلند کا حصہ ہو۔ (عروض کی زبان میں: پہلا حرف ہجائے کوتاہ ساکن اور دوسرا حرف ہجائے بلند کا اول حرف): مثلاً: غریب باپ، نیک کام، خاص سامان، ہزار رُخ، ہنوز زِندہ، دروغ گوئی، محتاط طَرز، عجیب بات، رات تک؛ وغیرہ۔

۔4۔ مذکورہ بالا ایسے حروف کا جمع ہونا جن کے مخارج قریب قریب واقع ہوئے ہوں۔ مثلاً: خیاط زادہ، بسیط ظرف، بعید زمانے؛ وغیرہ۔

۔5۔ یاد رہے کہ ایسی جفت میں پہلا حرف کسی وجہ سے متحرک ہو جائے تو ثقالت جاتی رہتی ہے: راہِ حق، عروج و زوال، حقِ قیام، فیوضِ ظاہر و باطن، کلامِ منظوم، ابرِ رواں، ساز و سامان؛ وغیرہ۔

۔6۔ پہلے لفظ کا آخری حرف سببِ خفیف (ہجائے بلند) کا حصہ ہو، تو وہاں تشدید جیسی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً: سب باتیں، سینے کے بل لیٹا ہوا وغیرہ؛ ایسی صورت کو "خلط" کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ تشدید حقیقی کسی ایک لفظ کے اندر ہوتی ہے اور اس سے گریز ممکن ہی نہیں؛ لہٰذا وہ یہاں زیرِ بحث نہیں ہے۔

تصریح:۔
 اردو عروض میں ہجاء اکیلا حرف ہے، متحرک ہو یا ساکن (غیر مجزوم)۔ ہجائے بلند میں دو حرف ہوتے ہیں؛ پہلا متحرک اور دوسرا ساکن (مجزوم)۔ ہجائے بلند اور سببِ خفیف ایک ہی چیز ہے۔ اس کے مقابل سببِ ثقیل ہے یعنی دو ہجائے کوتاہ جو باہم مل کر ہجائے بلند (سببِ خفیف) نہیں بناتے، الگ الگ رہتے ہیں۔ مثالیں:
نزد: نز (ہجائے بلند)، د (ہجائے کوتاہ ساکن)۔ دُور: دُو (ہجائے بلند)، ر (ہجائے کوتاہ ساکن۔ ۔ ترکیب نزد و دور: د(واوِ عطفی کی وجہ سے) متحرک ہو گیا۔ بقیہ وہی کچھ ہے۔۔ وِصال: و (ہجائے کوتاہ متحرک)، صا (ہجائے بلند)، ل (ہجائے کوتاہ ساکن)۔۔ ترکیب وصالِ یار: ل (زیرِ اضافت کی وجہ سے) متحرک ہو گیا، بقیہ وہی کچھ ہے۔۔ ترکیب جبینِ نیاز : جبین کا نون اضافت کی وجہ سے متحرک ہوا، نیاز کا نون اصلاً متحرک ہے، ان دونوں کا مجموعہ (نِ نَ) سببِ ثقیل ہوا۔
  

لفظ "تنافر" کے معانی میں دُور ہونا، دُور دُور ہو جانا، ایک دوسرے سے الگ ہو جانا؛ بھی شامل ہے۔ اصطلاح کے طور پر "تنافر" ایک خوبی ہے یعنی مذکورہ بالا صورتوں میں حروف کے مخارج باہم اتنے دور ہوں کہ خلط یا ثقالت پیدا نہ کریں۔ اسے حسنِ تنافر جیسا نام دینے کی ضرورت ہی نہیں۔ عیبِ تنافر وہ صورت ہوئی جہاں تنافر میں عیب رہ جائے، اس کی تکمیل نہ ہو رہی ہو؛ وہ ساری صورتیں اوپر بیان ہو چکیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے "تنافر" کے مادے (ن، ف، ر) اور اس کے مشتقات کا طائرانہ جائزہ لے لیا جائے۔


ن ف ر (نَفَرَ یَنفِرُ ) نفرت کرنا۔ دور ہونا۔ بھاگنا۔اَنفَرَ (اِنفار) بھگانا۔ نافَرَ:حسب و نسب میں فرق کرنا۔ منافرت: باہمی نفرت۔  تَنفَر: کُوچ کرنا، دور چلے جانا۔ تَنافَرَ  (تنافر) ایک دوسرے کے مقابل فخر کرنا، فرق رکھنا  (آگے لمبی تفصیل ہے)۔ اس مادے کے مشتقات (نفور، نفرت، منتفر، منافرت ، تنافر) سب میں الگ ہونا مشترک ہے۔ یک جا ہونے کے معانی نہیں ہیں۔  لفظ "تنافر" باب تفاعل میں آتا ہے۔ اس میں کم از کم دو فریق ہوتے ہیں۔ باب تفاعل میں کچھ دوسرے الفاظ کو بھی دیکھ لیا جائے: تعاون (ع و ن) ایک دوسرے کی مدد کرنا۔ تقابل  (ق ب ل) ایک دوسرے کے سامنے آنا۔ تواضع  (وضع) ایک دوسرے کے لئے سینہ، دل کو کھولنا۔  تناسل (ن س ل): ایک دوسرے سے نسل بڑھانا۔ تشابہ (ش ب ہ) ایک کا دوسرے جیسا لگنا ۔ توازن (و ز ن) اہمیت میں ایک دوسرے جیسا ہونا۔ و علیٰ ھٰذا القیاس۔


اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔ نفرت، منافرت، نفور، تنافر کے معروف لفظی معانی میں نفرت مشترک ہے اور عام انسانی ذہن اسی طرف پہلے جاتا ہے۔ ایسے میں ہم بات چاہے اصطلاح کی کریں کہ تنافر ایک خوبی ہے تو ذہن اس کو بہ سہولت قبول نہیں کرتا۔ ایسے میں  تاویلات اور تشریحات کا ایک الجھا دینے والا سلسلہ چل نکلتا ہے۔

حسنِ تنافر، عیبِ تنافر اور ان کی تاویلات و  تشریحات میں الجھے رہنے  سے کہیں اچھا ہے کہ آپ اس اصطلاح کو بدل لیجئے۔ جہاں عیب تنافر  نہیں ہے وہاں نہیں ہے، جرح کی ضرورت ہی نہیں! جہاں ہے وہاں اسے کوئی اور نام دے لیجئے؛ مثلاً: لعوق، عالقہ، خلط، گرہ، آویخت وغیرہ۔ اسے یاد رکھنا بھی سہل ہو گا، اور بیان کرنا بھی۔ مجھے ذاتی طور پر "حرف آویزی" اچھا لگا، "خلط" بھی مناسب ہے۔ جو بھی اختیار کیجئے اس میں سہولت پیدا کیجئے، اپنے لئے بھی، دوسروں کے لئے بھی۔ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ "حرف آویزی" ہی کیوں۔ آویزد مضارع ہے آویختن مصدر سے، اس کے معانی میں لٹکنا، لٹکانا، الجھنا، رکاوٹ ڈالنا وغیرہ شامل ہیں۔ کوئی لٹکی ہوئی چیز حسن کا سبب بھی ہو سکتی ہے؛ مثلاً: آویزے (کان کا زیور)، آویزاں کرنا (جھالر وغیرہ کی صورت دے کر سجانا، دکان میں چیزوں کو نمایاں کرنے کے لئے کسی خاص ترتیب میں ٹانگنا)۔ آویزش یا آویخت کے معانی  ہیں: چپقلش، کش مکش، چشمک، کھینچا تانی، عدم موافقت؛ وغیرہ۔

مجوزہ اصطلاح (حرف آویزی) کی طرف آتے ہیں: جہاں حروف کی بنیاد پر اصوات ایک دوسرے سے الجھ جائیں، وہ آویخت کی صورت ہے۔ اسمِ حاصل مصدر آویزی سے ترکیب حرف آویزی  بنی۔ اس کو "خلط" کہنے میں بھی کوئی قباحت نہیں تھی تاہم واحد لفظ  خلط یا آویزش یا آویخت سے بات صاف نہ ہوتی، آویزشِ حرف نسبتاً مشکل ترکیب ہوتی۔ سہولت کی خاطر ہم نے "حرف آویزی"  کو اصطلاح تجویز کیا ہے؛ معارف و معانی وہی ہیں جو "عیبِ تنافر" کی مد میں بیان ہو چکے۔ یہاں کوئی چیز مسلط نہیں کی جا رہی، سہولت کی طرف ایک راہ سجھائی جا رہی ہے۔
ع: "گر قبول افتد زہے عز و شرف"۔ 


محمد یعقوب آسیؔ  (ٹیکسلا) پاکستان ۔۔۔  11 نومبر 2017ء


۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 7 نومبر، 2017

۔۔ حُکمِ بَہِشت ۔۔





۔۔۔۔۔۔۔
ایک مکالمہ

وہ فرمانے لگے:
ایک سوال ہے آپ سے. کیونکہ آپ کھلے ذہن سے سوچتے ہیں

فقیر نے عرض کیا:
اللہ توفیق دے
جی ارشاد
سورہ بقرہ کے آغاز میں ہی
وعلم آدم الاسماء
اور اس نے آدم کو تمام نام سکھا دیے
ثمہ٭ عرضھم الی الملءکۃ فقال انبءونی 
پھر یہ چیزیں فرشتوں کے سامنے پیش کیں اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو ان کے نام بتاو
جب وہ نہیں بتا سکے تو آدم سے کہا انھیں بتاو
اور آدم نے بتا دیے
٭ اغلاط کا ذمہ اُس کا جس نے آیت نقل کی۔ 
میرے ذہن میں ہے۔
سوال عطا ہو
اس میں بظاہر چیٹنگ لگتی ہے
کیا مطلب ؟؟
ایسا کیوں ہے
ایک شاگرد کو جواب بتا دو دوسروں کو نہ بتاو
اور امتحان لو
اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے۔
اس میں ایک باریک نقطہ ہے
اللہ کریم کے بارے میں یوں بات کرنا، مجھے ۔ ۔ ۔ ۔
آپ کو پہنچ جانا چاہیے
نکتہ ۔۔۔۔۔۔۔ خیر وہ بھی بتا دیجئے۔
آدم کو اس طرح نہیں سکھایا تھا کہ دیکھو اس کا نام یہ ہے اور اس کا یہ
بلکہ آدم نے خود سے یہ نام رکھے تھے اور آدم کی سرشت میں علم حاصل کرنا رکھ دیا گیا ہے اس لیے اس کی نسبت اپنی طرف کی
واللہ اعلم
آپ بہت کچھ نظرانداز کر رہے ہیں یا مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے۔
نکات کی طرف اشارہ کئے دیتا ہوں۔
۔ 1 ۔ فرشتوں کو کس نے بتایا تھا کہ آدم (مراد ہے اولادِ آدم) زمین میں فساد مچائے گا، خون بہائے گا۔
۔ 2 ۔ سوال اللہ کی دی ہوئی اسی خبر پر مبنی ہے کہ جب وہ فساد مچائے گا تو اسے بنانا کیوں۔ (یہ میری سوچ نہیں ہے)۔
خلیفہ کہنے اور اختیار دینے سے انھوں نے اخذ کیا
خلیفہ کا فرض منصبی فساد مچانا نہیں ہوتا۔
اختیار سے فساد ہوتا ہے
ضروری نہیں۔
ورنہ اختیار کی وحدانیت نہ ہوتی
فساد کا درست مفہوم کیا ہے؟
گھر میں بھی دفتر میں بھی
دو مرضیاں ٹکرانا اور ہر ایک کا اپنی مرضی کرنے کی خواہش اور کوشش کرنا
نہیں وہ اختلاف ہے۔ فساد کا مطلب ہے متعینہ راستے سے ہٹنا اور دوسروں کو بھی ہٹانا۔
راستے میں سارا کچھ آ گیا۔ ہر وہ چیز جس کا تعلق اوامر و نواہی سے ہے۔
دنیا میں فساد سے مثال؟
ابلیس ۔۔۔۔۔۔۔
اور ابلیس کے پیروکاروں کا عمل
دنیا فساد سے بھری پڑی ہے۔
جرمن کہتے ہیں ہم افضل یہودی کہتے ہیں ہم افضل
جنگ عظیم
کہتے رہیں۔ اللہ کیا کہتا ہے۔ کیا اس سوال سے پہلے وہ دونوں اللہ کو ویسا مانتے تھے جیسا ماننا چاہئے۔
امریکہ کہتا مرضی کوریا کہتا ہے میری مرضی. فساد
میری گزارش کو نظر انداز نہ کیجئے۔
عالمی سے پہلے ۔۔۔۔ یہودی اور جرمن ۔۔ کیا وہ دونوں اللہ کو ویسا مانتے تھے جیسا ماننا چاہئے؟
اللہ کے حکم کو بھی بندوں نے اپنے ذہن سے سمجھنا ہے
نبی کس لئے ہوتا ہے؟
میرے اور آپ کے درمیان بھی اختلاف چل رہا ہے
یہ وہ بندوں کو اللہ کی باتیں سمجھائے، مقاصد، طریقے۔ سارا کچھ ۔۔۔۔۔۔
جب ہر بندے کو اپنے ذہن سے سمجھنا ہے تو نبی کی کیا ضرورت تھی؟
لیکن اختلاف اور فساد تب بھی رہا. لیکن کم
آپ میرے سوالوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
ابھی فساد کی وجوہات پر ہم بات کر رہے ہیں
جی نہیں۔ میرا سوال تھا (جسے آپ نے نظر انداز کر دیا) کہ فساد کا درست مفہوم کیا ہے۔
سارا کا سارا رستہ متعین نہیں ہو سکتا
استغفراللہ ۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کہتا ہے ہے اسلام میں داخل ہو جاؤ کلی طور پر
واسءلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون
اللہ کہتا ہے تمہارا سب کا ضابطہ حیات اسلام ہے
اہل الذکر سے پہلے اس سے کیوں نہ پوچھا جائے جس نے ذکر نازل کیا۔
ورنہ اجتہاد نہ ہو
ایک نئی جرح ۔۔۔۔۔۔
میرے بنیادی سوالوں سے انحراف کر کے آپ بات کو کہیں اور لے جا رہے ہیں۔
آپ کی انگلیاں کیوں نہ کانپ گئیں جب آپ نے اس سیاق و سباق میں چیٹنگ کا لفظ لکھا؟
میں نے بظاہر لکھا تھا
آپ نے شاید نظر انداز کیا
اور اس "بظاہر" پر اپنے دلائل بھی دئے۔ ایک شاگرد، دوسرا شاگرد والی بات۔ میں نے نہیں کی۔
دلیل یہ کہ آدم نے خود سیکھ لیے
ایک لفظ "بظاہر" لکھ کر آپ یا تو چیٹنگ کی نفی کرتے ۔۔۔۔۔۔۔
یہ کون کہنا ہے کہ آدم نے خود سیکھ لیا؟
اللہ کہتا ہے  اس کو سکھا دیے ۔ آپ کا وہ ارشاد نقل کر رہا ہوں جس سے آپ نے مکالمے کی ابتدا فرمائی:َ
۔۔۔ نقل ۔۔۔۔ " وعلم آدم الاسماء اور اس نے آدم کو تمام نام سکھا دیے" ۔۔۔۔ نقل ختم ۔۔۔
قرآن میں رزق کا مفہوم بھی اسی قسم کا ہے
پھر ایک نیا موضوع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے بنیادی بات ۔۔۔۔۔۔
قرآن میں گمراہی کا مفہوم بھی اسی قسم کا ہے
آپ بات کو گھما پھرا کر الجھا رہے ہیں۔
اللہ کہتا ہے ہم نے کیا
آپ کے سوال کا بنیادی جواب میں نے عرض کیا۔ آپ اس سے فرار ہو رہے ہیں۔
خوش رہئے۔
جو چیز لازماً ہونی ہے اور آدم کی سرشت میں ہے اس کی نسبت بعض دفعہ اللہ اپنی طرف کرتے ہیں
آپ کو پتہ نہیں آپ کہہ کیا رہے ہیں۔
ورنہ آپ اس امتحان کی توجیہ بتا دیں
اللہ کریم توفیق سے نوازے۔ کتاب اللہ کو اللہ کا کلام سمجھ کر اس کا مطالعہ فرمائیں۔
یعنی آپ چیٹنگ کے نظریے کی حمایت کر رہے ہیں؟
نہیں
میں بتانے لگا تھا، آپ نے بیچ میں نئی باتیں چھوڑ دیں۔
میں نے توجیہ کی
میں سنوں گا
لفظ بدلنے سے مفہوم نہیں بدلتے۔
میں اپنے فورم پر آپ کا سوال نقل کرتا ہوں۔ آپ توثیق کر دیجئے گا کہ سوال میرا ہی ہے۔ پھر اس پر گفتگو ہو گی۔
ان شاء اللہ
ان شاء اللہ
میں منتظر ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ سوال نقل کر دوں؟
لنک دیجیے گا
میں فون پر ہوں
وہاں پابندی ہے، کوئی دوسرا بندہ پوسٹ نہیں کر سکتا۔
مجھے اتنی بھی جلدی نہیں ہے۔
تیرے آزاد بندوں کی...
اپنا سوال یہاں بھیج دیجئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بندہ ہنور سوال کا منتظر ہے..