بدھ، 1 جولائی، 2015

تھا وہ اک یعقوب آسی (11)۔


تھا وہ اک یعقوب آسی


ایک اور لڑکا اسی بیت المجردین کا باسی تھا، نام تو اس کا یاد نہیں چلئے بابو کہہ لیتے ہیں، اپنے روم میٹ سے جو اسی کے گاؤں کا تھا اکثر کہتا کہ: ’’یار کسی لڑکی سے قلمی دوستی کرا دو!‘‘ (وہ زمانہ قلمی دوستی ہی کا تھا، موبائل فون یا تو کسی سیٹھ کے ہاتھوں میں دکھائی دے جاتا یا کسی بہت پڑھے لکھے بڑے زمیندار کے)۔اس نے سمجھایا بجھایا ہو گا، بابو نہیں مانا تو حشمت سے سازباز کی اور حشمت نے ایک جعلی کردار ’’وسیمہ ناز‘‘ کی حیثیت میں بابو کو پہلا خط لکھا، پتہ ساہی وال شہر کا دے دیا جہاں ان کا کوئی مشترکہ دوست رہتا تھا۔ خط و کتابت کا سلسلہ چل نکلا ؛ وہ مرحلہ آ گیا کہ جنابِ بابو وسیمہ ناز سے ملنے کی منہ زور خواہش کا اظہار کرنے لگے۔ ان کو بہت ٹالا جاتا رہا مگر وہ کہاں ٹلنے والے تھے۔ اس نازک مرحلے پر حشمت اور مڈل مین نے مجھے اعتماد میں لیا کہ یار اس احمق کا یہ سلسلہ بند کراؤ،  اور اُسے احساس بھی نہ ہو کہ میرے ہی ساتھی مجھے بے وقوف بناتے رہے ہیں۔ میں ایک اور فرضی کردار ’’عذرا کوکب‘‘ (وسیمہ کی دوست اور ٹیچر) کی حیثیت سے اس کھیل میں شامل ہوا۔ ملاقات کا لالچ دے کر جنابِ بابو کو خود ان کے گاؤں کے تین چار  ہنگامی چکر لگوائے، ساہی وال کے معروف پبلک پارک، کالج گراؤنڈ، جہاز گراؤنڈ ، ریلوے سٹیشن وغیرہ میں پھروایا۔ جہاز گراؤنڈ عملی طور پر  کوئی گراؤنڈ نہیں ایک محلے کا نام تھا، ایک چوک میں ایک ہوائی جہاز کا ڈھانچا رکھا تھا، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ انڈین جنگی طیارہ تھا جسے ۱۹۶۵ کی جنگ میں اس جگہ مار گرایا گیا تھا۔ بابو بے چارہ دیوانہ وار بھاگا پھرتا۔ ڈراپ سین کے لئے ساہی وال شہر سے تین چار میل باہر جی ٹی روڈ پر واقع ایک مہنگے ہوٹل کا انتخاب کیا گیا۔ بابو سے کہا گیا کہ وہاں فلاں تاریخ کو لنچ کرائے گا۔ وسیمہ، عذرا اور تین چار سہیلیاں عذرا کی کار میں ہوٹل پہنچیں گی؛ بابو اپنے بھائی کو ساتھ لے کر آئے گا۔ اس زمانے میں یہ کوئی سات آٹھ سو روپے کا نسخہ تھا ۔ ہم جانتے تھے کہ بابو میں اتنی پسلی نہیں ہے۔ بابو نے وعدہ کر لیا تو مڈل مین صاحب نے انہیں مشورہ دیا کہ یار کیا پاگل ہوئے ہو؟ تمہاری چھ مہینے کی تنخواہ جتنا خرچہ ہے کوئی بہانہ لکھ بھیجو اور اس ایک دن کی ہنگامی رخصت لے کر گاؤں چلے جاؤ؛ کہیں ایسا نہ ہو وہ تمہیں ڈھونڈتی ہوئی یہاں آن پہنچے۔ یہ بھی بتانا پڑے گا؟ کہ فرار بالجبر کے اس منصوبے کے پیچھے عذرا کوکب کا دماغ کام کر رہا تھا۔ بابو اس خاص دن کو گاؤں چلا گیا اور اگلے دن معذرت کا خط لکھ دیا کہ مجھے ہنگامی طور پر گاؤں جانا پڑا۔ ’’وسیمہ ناز‘‘ کو خط ملا تو اس کا جواب ’’عذرا کوکب‘‘ نے دیا اور ایسا دیا کہ بابو کے عشق کا بھوت ہی اڑن چھو ہو گیا۔

بہت بعد میں بابو کی شادی اپنے ہی گاؤں میں اپنے عزیزوں کے ہاں ہوئی۔ انہوں نے بیت المجردین کے باسیوں کو پارٹی دی،  اس پارٹی میں یہ ڈراما ان پر کھول دیا گیا۔ تاہم میں اس پارٹی میں شریک نہیں ہو سکا (حشمت البتہ موجود تھا)۔  ایک تو میں وہ ادارہ چھوڑ کر انجینئرنگ کالج ٹیکسلا (کیمپ ساہی وال) میں جا چکا تھا۔ دوسرے، اماں کی رحلت کے بعد بیوی بچوں کے ساتھ پاکپتن چوک کے نزدیک کرائے کے ایک چھوٹے سے گھرمیں رہ رہا تھا۔

 ہمارے دفتر کے ساتھیوں میں ایک ریاض نغمی تھے؛ ہمہ وقت لئے دئے رہتے، کسی سے کم ہی گھلتے ملتے، حلیے سے ایک عجیب لااُبالی پن جھلکتا تھا۔ کسی نے بتایا کہ نغمی صاحب شاعر ہیں، ہم نے کچھ جاننے سننے کی خواہش میں ان سے بات کی بھی مگر انہوں نے ہمیں ، ہماری بات کو یا ہماری کاوشوں کو درخورِ اعتنا نہیں جانا؛ یا کم از کم ہمارا تاثر یہی بنا۔ بارے ایک اقبال صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے ہم لوگوں نے بزمِ اقبال کے نام سے ایک ادبی تنظیم بنائی ہے اگلے اجلاس میں آئیے گا، پتہ فرید ٹاؤن ہی کا تھا۔ ہم (میں اور حشمت) گئے تو دیکھا کہ ایک بڑا سا احاطہ ہے جس کے ایک طرف کچھ کمرے بنے ہیں اور باقی زمین خالی پڑی ہے۔ احاطے کے بیچوں بیچ ایک بڑی سی دری بچھی تھی جس پر چار پانچ جوان اور ایک قدرے بزرگ شخصیت چہروں پر بیزاری لئے بیٹھے تھے۔ ہم بھی بیٹھ گئے ، رسمی سا تعارف ہوا اور باتیں ہونے لگیں۔ کوئی نہر کے پانی کی بات کر رہا تھا تو کوئی طویل فلائی اوور کی، کوئی اپنے کسی ساتھی کا گلہ کر رہا تھا تو کوئی کسی ریہڑی والے کا شکوہ کر رہا تھا۔ جی میں آئی کہ اِ ن سے کہا جائے کہ یارو! ادب کی بات نہیں کرتے تو کم از کم کوئی ایسی بات تو کرو جس میں فکر کا کوئی عنصر ہو، کوئی سوچنے کی بات ہو؛ وغیرہ۔ حشمت کے چہرے پر بہت کچھ لکھا ہوا تھا مگر ہم نے اسے پڑھنے سے گریز کرتے ہوئے انہی اقبال صاحب سے ایک بہت عام سا سوال کیا: آپ غزل کہتے ہیں یا نظم؟ مختصر سا جواب دیا: جی میں غزلیں لکھتا ہوں، اور پھر لاری والے کی کہانی وہیں سے شروع کر دی جہاں ہمارے سوال کا سپیڈ بریکر پڑا تھا۔ حشمت نے خاصی بے مروتی سے کہا: چل یار واپس، کالج گراؤنڈ میں چلیں گے۔ ایک اور صاحب کا پتہ چلا کہ معروف شاعر ہیں، کسی اخبار سے بھی وابستہ ہیں، فرید ٹاؤن ہی میں رہتے ہیں۔ پتہ معلوم کیا اور ان کی محل نما کوٹھی کی گھنٹی جا بجائی۔ ایک ملازم نکلا، کہنے لگا صاحب کو بتاتا ہوں۔ پھر صاحب تشریف لائے اور وہیں سڑک پر کھڑے کھڑے ہمیں چلتا کیا۔ وہ تو شکر ہے حشمت ساتھ نہیں تھا ورنہ اپنا وہ توا لگتا کہ دنیا دیکھتی۔ اس کے بعد ہمیں وہاں کے کسی  قلم کُش سے ملاقات کی خواہش نہیں رہی۔ وہ معروف شاعر تو کب کے مشہور ممتاز اور پتہ نہیں کیا کیا خطابات پا چکے ہیں مگر ان کا نام سن کر ہمارا منہ پتہ نہیں کیوں کڑوا ہو جاتا ہے۔

1972 سے 1974 تک کا مکمل بے روزگاری کا زمانہ فی الواقع بہت صبر آزما تھا۔ اس دوران انگریزی کی ٹائپنگ بھی کچھ کچھ سیکھ لی ، اور شارٹ ہینڈ کے وہ اسباق بھی کچھ تازہ  کر لئے جو کبھی جلو موڑ میں اپنے کمرے میں بیٹھ کر پڑھا کرتا تھا۔ تاہم شناختی کارڈ کے محکمے میں اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ ڈسٹرکٹ رجسٹرار (ڈی آر) صاحب کے دفتر میں ایک ٹائپ رائٹر تھی ، اور ایک بابو، محمد امین طاہر ۔ ذیلی برانچوں میں کام کی نوعیت قطعی مختلف تھی: درخواست فارموں کا اندراج رجسٹروں میں ہوتا، کارڈ ہاتھ سے لکھے جاتے، اکاؤنٹس اور سٹورز آفس میں بھی اندراجات وغیرہ ہاتھ سے ہوتے۔ گوشواروں اور رپورٹوں کے لئے چھپے ہوئے فارم تھے جن کی بنیاد پر ماہانہ گوشوارے تیار ہوتے۔ خط و کتابت تھی جس کے لئے ٹاپنگ کی ضرورت ہوتی۔محمد امین طاہر بھی نیا آدمی تھا، جیسے تیسے کام چلا رہا تھا۔

ایک دِن ڈی آر (رشید صاحب) نے طلب کر لیا۔ طلبی کی عام طور پر ایک ہی وجہ سمجھی جاتی تھی کہ سیکشن انچارج نے تحریری شکایت کر دی ہے۔ میں نے خود کو کسی بھی ناخوشگوار صورتِ حال کے لئے تیار کیا تاہم ڈرتے ڈرتے دفتر میں داخل ہوا۔ صاحب گویا ہوئے: ’’آپ یہاں (مراد: اس محکمے میں) آنے سے پہلے کیا کرتے تھے۔‘‘
’’بے کار پھرتا تھا، سر ‘‘
’’بیوی بچے ہیں؟‘‘
’’جی، بیوی بچے بھی ہیں، والدہ بھی ہیں۔‘‘
’’آپ کی والدہ آپ سے خوش ہیں؟‘‘
’’انہی کی دعاؤں کی قبولیت ہے سر، کہ مجھے ڈھنگ کی نوکری مل گئی۔‘‘
’’آپ کے انچارج بتا رہے تھے آپ پہلے کسی دفتر میں کام کرتے تھے۔‘‘
’’جی ہاں، تین سال کے لگ بھگ کام کیا، پھر وہ نوکری جاتی رہی۔‘‘
’’ٹائپ آتی ہے آپ کو اور شارٹ ہینڈ بھی؟‘‘
’’جی، سیکھی تو ہے مگر تجربہ کوئی نہیں، بے روزگار رہا ہوں۔‘‘
’’آپ کی میں اپنے دفتر میں ٹرانسفر کر دوں تو؟‘‘
’’آپ کے پاس اختیار ہے سر، میں کہا کہوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میں دیکھتا ہوں، شکریہ۔ (یعنی دفتر سے نکلنے کا حکم) راؤ صاحب(میرے سیکشن انچارج)  سے کہیں مجھ سے مل لیں۔‘‘

اگلے دن رجسٹریشن سیکشن سے ڈی آر آفس میں تبادلے کا حکم نامہ جاری ہو گیا۔ میں نے راؤ صاحب سے اجازت لی اور اپنے دفتر میں حاضری رپورٹ جمع کرادی۔ دو چار دن میں ہاتھ مشین پر رواں ہو گئے تومحمد امین طاہر کو میری جگہ سیکشن میں بھیج دیا گیا۔ دفتر کا کام میرے لئے نیا نہیں تھا۔ چٹھی آئی، درج ہوئی ، فائل میں لگی، نوٹ لکھا گیا، فائل صاحب کو پیش کی گئی، حکم نوٹ پورشن میں لکھا گیا، اس پر عمل درآمد کی رپورٹ بنی، پیش کی گئی اور کیس فائل؛ چٹھی میں کوئی جواب طلب بات ہوئی یا کوئی گوشوارہ طلب کیا گیا تو وہ تیار کروایا، ایک چٹھی لکھی، دستخط ہوئے، اندراج ہوا، ڈاک میں ڈالی گئی، آفس کاپی فائل میں لگ گئی اور معاملہ ختم۔ ساتھ کے ساتھ کام نمٹانے کی عادت ہو تو کچھ فری وقت بھی مل جاتا ہے۔ ایسے ہی فارغ اوقات میں قواعد و ضوابط کی فائلیں پڑھا کرتا کہ انہی سے تو حوالے دینے ہوتے تھے۔

رشید صاحب مزاج کے اچھے اور انسانی اقدار کا پاس کرنے والے شخص تھے، تاہم  اُن میں خود اعتمادی ویسی نہیں تھی جو میں نے ان کی سطح کے افسروں میں دیکھی تھی۔ دفتری معاملات میں پریشان ہو جایا کرتے اور اکثر مجھے ہی مشورہ دینا پڑتا کہ سر میٹنگ کال کر لیجئے۔ میٹنگ کا ایجنڈا تیار کرنا اور اس کے منٹس لکھنا وہ نیا کام تھا جو میں نے اس دفتر میں سیکھا۔ گفتگو تو ظاہر ہے زیادہ تر پنجابی میں اور کچھ کچھ اردو میں ہوتی تھی، منٹس انگریزی میں لکھنے ہوتے تھے۔ وہاں پہلی بار ایسا سوال سامنے آیا کہ: یہ لوگ آگے پیچھے کیا کرتے پھرتے ہیں وغیرہ وغیرہ کچھ خبر ہو تو بتایا کریں۔ میں نے صاف کہہ دیا کہ: ’’صاحب یہ کام کسی اور کے ذمے لگائیے، میرے پاس میرا اپنا کام بہت ہے۔‘‘

ایک دن کہنے لگے: ’’شارٹ ہینڈ نوٹ بک جاری کروا لیں، اور ڈکٹیشن لیا کریں۔‘‘ گویا میری شارٹ ہینڈ کی مشق کا وقت آ گیا تھا، میں نے بک جاری کروا لی۔ یہاں صورت ایسی تھی کہ جیسا نیا ڈکٹیشن دینے والا ویسا ہی نیا ڈکٹیشن لینے والا، اور پھر چٹھیاں لکھوانے کی نوبت بھی کم کم ہی آتی تھی۔ لطیفہ یہ بنا کہ  مجھ پانچویں سکیل کے کلرک کو یار لوگ پی اے کہنے لگے، حالانکہ وہاں پی اے تو کیا سٹینوٹائپسٹ کی پوسٹ تک نہیں تھی۔ کام کا معاملہ دوسرا ہے، آپ جتنا کچھ اٹھاتے جائیں گے آپ پر ڈال دیا جائے گا اور پھر اٹھانا پڑے گا۔ اپنی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی، بقول سید محمد جعفری:
خالق نے جب ازل میں بنایا کلرک کو
لوح و قلم کا جلوہ دکھایا کلرک کو
کرسی پہ پھر اٹھایا بٹھایا کلرک کو
افسر کے ساتھ پِن سے لگایا کلرک کو
مٹی گدھے کی ڈال کے اس کی سرِشت میں
داخل مشقتوں کو کیا سرنوِشت میں

  چھ سات مہینے گزر گئے۔ اتنا عرصہ صاحب اور پی اے کو ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے بہت ہوتا ہے۔ ایک بات جی میں آئی تو میں نے رشید صاحب سے کہہ بھی دی: آپ کام مجھ سے پی اے اور کلرک دونوں کا لے رہے ہیں اور تنخواہ مجھے کلرک کی مل رہی ہے، پی اے تو گیارہویں سکیل میں ہوتا ہے۔ کہنے لگے: ’’کیا چاہتے ہو نوکری میں تو یہ کرنا پڑتا ہے۔‘‘
کہا: ’’سر، گیارہواں نہ سہی آٹھواں سکیل تو دلوا دیں یعنی سٹینو ٹائپسٹ۔‘‘
’’میرے پاس تو سیٹ ہی نہیں ہے، تمہیں کہاں سے دلوا دوں‘‘
’’سیٹ منگائی جا سکتی ہے، اس دفتر کو اتنا ہی تو نہیں رہنا، اس کی تحصیل برانچیں بھی بننی ہیں۔‘‘
ہنس پڑے، کہنے لگے: ’’کیس تیار کر لاؤ۔‘‘ میں نے کیس تیار کیا؛ اس میں لکھا کہ: ہمارے پاس فلاں نام کا ایک کلرک ہے جس سے وقت کی ضرورت کے مطابق سٹینوٹائپسٹ کا کام لیا جا رہا ہے،ادھر ہمارے پاس بجٹ میں سٹینوٹائپسٹ کی سیٹ نہیں ہے؛ سفارش کی جاتی ہے کہ اس دفتر میں ایک سیٹ  مہیا کی جائے اور مذکورہ کلرک کو سٹنیوٹائپسٹ  کے عہدے پر ترقی دی جائے۔ چٹھی لاہور چلی گئی۔

خاصی طویل خاموشی کے بعد میں نے ریمائنڈر بھجوایا تو جواب آیا کہ اس مذکورہ کلرک کا ٹائپ اور شارٹ ہینڈ کا ٹیسٹ لے کر اس دفتر کو مطلع کیا جائے۔ چلئے کچھ حرکت تو ہوئی! میں نے کہا :صاحب! یہاں تو ٹیسٹ لینے والا بھی کوئی نہیں، کام آپ میرا دیکھ چکے ہیں، انہیں رسمی ٹیسٹ سے استثناء کے بارے میں لکھئے۔ لکھا گیا اور پھر ایک طویل انتظار کے بعد دو چٹھیاں وصول ہوئیں۔ ایک میں پوسٹ کی منظوری تھی، دوسرا میرے تقرری کا حکم نامہ  تھا، اس نوٹ کے ساتھ کہ کلرک سے سٹینو کے لئے کوئی پروموشن لائن نہیں ہے۔ یوں میں ایک سال کلرکی کر کے باضابطہ طور پر سٹینوٹائپسٹ بن گیا۔ یہ مئی 1975 کی بات ہے۔

اللہ تعالیٰ نے رزق کا جو وعدہ فرمایا ہے اس کی عملی صورت مجھ پر وارد ہو گئی تھی۔ اس بات پر بھی اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کہ میں مکمل مایوسی سے کبھی دو چار نہیں ہوا۔ بے روزگاری میں دنوں میں بھی ہاتھ پاؤں توڑ کے نہیں بیٹھا تھا۔ روئی کے ایک کارخانے میں مزدوری کی، ایک وکیل کے ساتھ منشی رہا، ٹول ٹیکس پر اٹھارہ دن، ایک ٹھیکیدار کے ساتھ ایک ڈیڑھ ہفتہ کام کیا؛ اوکاڑہ کی گلیوں میں اخبار بیچے،لُنڈے کی ہوزری بیچی اور پتہ نہیں کیا کچھ۔ اور جب عطا کا  وقت آیا  تو خصوصی طور پر میرے لئے ایک خالص سرکاری ادارے میں پوسٹ نئی آ گئی۔   اور اس پر دوسال بھی نہیں ہوئے تھے کہ  میں یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ ٹیکسلا میں (پے سکیل نمبر 10 میں) جونیئر سٹینوگرافر بھرتی ہو گیا (اپریل 1977ء)۔ بندہ اس ذات باری تعالیٰ کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہے۔ ان الانسان لربہ لکنود۔ و انہ علیٰ ذٰلک لشہید۔ و انہ لحب الخیر لشدید (سورۃ العادیات)۔جیسے جیسے میرے گھر کی رونق بڑھتی گئی اللہ کریم نو واردانِ عالمِ فانی کی قسمت کے سکیل مجھے عنایت کرتا رہا۔ ورنہ ہاتھ تو میرے وہی دو تھے۔

تحریر: یکم جولائی ۲۰۱۵ ء

3 تبصرے:

  1. مینوں لگدا اے ـــــــــــــــــــــــ تسی ظفر اقبال نوں ملے او :)

    جواب دیںحذف کریں
  2. وہ، جنہوں نے دروازے سے ہی چلتا کیا !!! :)

    جواب دیںحذف کریں
  3. نہیں چیمہ صاحب۔ ان دنوں ظفر اقبال اوکاڑا میں ہوتے تھے۔ ان کا گھر بھی اوکاڑا میں تھا، اور دفتر بھی۔ اور میرے ہم زلف ان (ظفر اقبال) کے منشی ہوا کرتے تھے۔

    جواب دیںحذف کریں