بدھ، 15 جولائی، 2015

قبائے گل

قبائے گل
منیر انور کے اولین شعری مجموعے ’’روپ کا کندن‘‘ کا سادہ سا مطالعہ

منیر انور بلاشبہ ایک اچھا شاعر ہے اور اس سے بھی اچھی بات، کہ وہ ایک اچھا آدمی بھی ہے۔ اس کی ذات میں بھی اور شاعری میں بھی ایک دل آویز شگفتگی اور سلیقہ مندی پائی جاتی ہے۔ وہ محسوسات بھی بہت تیز رکھتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ ان کا اظہار کس طور کرنا ہے۔ اور میرے لئے مسئلہ یہ بن گیا ہے کہ میں کسی حد تک منیر انور کو ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں۔ ’’کسی حد تک‘‘ اس لئے کہا کہ پورے طور پر تو میں خود کو بھی نہیں جانتا، منیر انور کے بارے میں یہ دعوٰی کیسے کر سکتا ہوں! اور ’’مسئلہ‘‘ اس لئے کہ جب ہم ایک شاعر کو جان لیں تو اس کی شاعری پر بات کرنی مشکل ہو جاتی ہے۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر ہم شاعر کے کہے کو اس کی شخصیت میں تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس سے شناسائی نہ ہوتی تو میں بہت سہولت سے یہ تو کہہ سکتا تھا کہ: جیسا میں نے اس کو اس کی شاعری میں پایا۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ جتنی بھی شناسائی ہے، جیسی بھی ہے اس کو دل و دماغ سے کھرچا بھی نہیں جا سکتا۔ چلئے، ملی جلی بات کرتے ہیں، کچھ شاعری کی کچھ منیر انور کی اور کچھ اپنی بھی! یہی باتیں کرنے کی غرض سے میں منیر انور کے شعری مجموعے ’’روپ کا کندن‘‘ سے اشعار نقل کر رہا تھا کہ اس شعر نے مجھے گویا جکڑ لیا:
بڑا بلیغ اشارہ تھا اس کی باتوں میں
ہمارا ذکر تھا اور راہ کے غبار کی بات

یہاں منیر انور کتنی سہولت سے ہلکے پھلکے انداز میں کتنے بڑے دکھ کا اظہار کر گیا ہے! یہ دکھ صرف منیر انور کا دکھ نہیں ہے، محسوسات رکھنے والا ہر شخص کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں ایسی کیفیت سے ضرور گزرتا ہے۔ اس اکیلے شعر میں کیفیات، حقائق، معاشرتی اور شخص رویے اور کتنے ہی موضوعات سموئے ہوئے ہیں۔ اس ایک شعر پر ایک مبسوط مضمون لکھا جا سکتا ہے مگر یہاں میرے لئے ایسا کرنا دشوار ہے کہ مجھے روپ کے کندن میں جھلکتی تپش کو بھی بھگتنا ہے، اور منیر انور کی کچھ سوچتی ہوئی مسکراہٹ کو بھی۔

بڑا عجیب آدمی ہے یہ شخص بھی! کچھ نہ کچھ کہنے پر اکساتا رہتا ہے؛ فون پر بات ہو تب، آن لائن ہو تب، اور نہ ہو تب بھی۔ ایسے شخص کے ساتھ گپ شپ تو بہت کی جا سکتی ہے، مگر بات لکھنے پہ آ جائے تو سوچنا بھی بہت پڑتا ہے۔ وہ ہے بھی بہت حساس اور اتنا مجبور ہے کہ اپنے احساسات کا ذرا سا بھی پردہ نہیں رکھ سکتا۔ اس کا چہرہ، اس کی آنکھیں بلکہ اس کی آواز بھی سب کچھ احساس بن جاتا ہے۔ ایسی کیفیت کا تو مشاہدہ ہی دل کے تاروں کو جھنجھنا دیتا ہے اور میرے جیسا شخص سوچتا رہ جاتا ہے کہ کچھ کہوں؟ نہ کہوں؟ کیا کہوں؟ کیا کروں؟ اتنے سارے سوال اور اس پر یہ کہنا کہ:
دیکھ کتنا ترا خیال کیا
تجھ سے کوئی نہیں سوال کیا
مجھ پہ الزام کم نوائی ہے
کوئی سنتا تو بولتا یارو

اس کی باتیں کوئی سنے بھی کیا، اتنی نفاست سے سچ بول جاتا ہے کہ یار لوگ اتنی نفاست سے جھوٹ نہیں بولتے۔ وہ اپنے مخاطب کو حسابِ سود و زیاں کے سیلِ بے اماں میں دھکیل کر خود بھی سوچ میں ڈوب جاتا ہے۔
میں بھی اب سوچتا ہوں سود و زیاں
وہ بھی محوِ حساب لگتا ہے

پھر، پتہ نہیں منیر انور کیا کچھ سوچنے لگتا ہے! اپنے جیسے لوگوں کے بارے میں، اور اپنے جیسوں پر سوار لوگوں کے بارے میں، اپنے معاشرے کی بے سمتی کے بارے میں، اجتماعی حالت اور حالات کے بارے میں؛ سوچنے والوں کو کمی کس بات کی ہے! بات بہت دور چلی جاتی ہے، اسے یوں لگتا ہے کہ ہماری مٹی کو کچھ ہو گیا ہے۔
یہ کیسی بے مروت سرزمیں ہے
یہاں سب کے رویے اجنبی ہیں
یہاں انساں ہیں کم منصب زیادہ
کوئی مخدوم کوئی خان زادہ
کوئی رفیق، نہ منزل نہ کوئی رختِ سفر
یہ کس خمار میں کس سمت کو چلے ہو تم

ساتھ ساتھ بہلاوے بھی تو بہت ہیں، اور حالات کی یا اپنی فکری بے سروسامانی کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ہم ایک ہی سوراخ سے بیسیوں بار ڈسے جا چکے ہیں پھر بھی ایڑی وہیں رکھی ہے۔ آگہی نام کی سپنی کے زہر میں بھی کیا نشہ ہے کہ جس کو یہ ایک بار ڈس لے وہ عذاب بھی سہتا ہے اور اسی سپنی سے بار بار ڈسوانا بھی چاہتا ہے۔ منیر انور کی اذیت کے نشے میں سرشار کچھ سسکاریاں نقل کر رہا ہوں۔
کہاں پہ کس نے ہمیں کس قدر تباہ کیا
سوال کتنے ہیں لیکن جواب کوئی نہیں
محبت، امن، احساں، بھائی چارا
انہی لفظوں سے پھر بہلا رہے ہیں

خود ساختہ خیر خواہوں کا وعدے پر وعدہ، جسے پورا کرنے کا ارادہ کسی کا بھی نہیں ہوتا، انسان بے زاری اور بے یقینی میں مبتلا ہے اور شام و سحر کے نسل در نسل پروان چڑھتے اندیشے انسانیت کو اندر ہی اندر کھائے جا رہے ہیں۔ منیر انور کے کچھ شعر نقل کرتا چلوں جن میں اس کا دکھ کسی سحرِ بے درماں کی طرح سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
یہی انسان کو کھائے چلا جاتا ہے اندر سے
یہی اندیشۂ شام و سحر آہستہ آہستہ
میرے لوگوں کو نئے خواب دکھائے اس نے
میرے صحراؤں کو بے فیض گھٹائیں دے کر

ایسے میں کوئی کیا امیدیں پالے گا، بھلا؟ کہ مسئلہ صرف خیرخواہوں کا نہیں، مسئلہ ہماری طرزِ فکر کا بھی ہے۔ برگ و بار کی آرزو کے مارے ہوئے یہ بھول رہے ہیں کہ پھل محض آرزوؤں سے نہیں ملتا، کچھ کر گزرنے سے ملتا ہے۔
یہاں شجر کا شجر داؤ پر ہے نادانو!
تمہارے لب پہ وہی شاخ و برگ و بار کی بات

میں نے کہا ہے نا، منیر انور بہت جذباتی آدمی ہے۔ ایسے شخص کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک دم جیسے مایوس ہو گیا اور سب سے اچھی بات بھی یہی جذباتیت ہوتی ہے کہ امید کا ایک تنک منک سا جگنو اس کی فکر میں کئی سورج اگا دیتا ہے۔ میں بھلا کیا کہوں گا، منیر انور کے یہ شعر خود پڑھ لیجئے۔
جگنوؤں کی ضیا چھن گئی دوستو
تتلیوں کا زمانہ ہوا ہو چکا
ایک سادہ سی مسکراہٹ نے
زندگی بخش دی نہال کیا
تیرے لہجے سے حوصلہ پا کر
گنگنانے لگی حیات مری

منیر انور خود تو الجھتا ہی ہے اپنے قاری کو بھی الجھا دیتا ہے۔ اس سے ملنے جلنے والا کوئی بھی شخص اس کو جیسے جیسے جانتا جاتا ہے، مشکل میں پڑتا جاتا ہے، کہ اس کی سادگی تک رسائی کیوں کر ہو گی! کمال کا آدمی ہے!
ہم نے ہر حال میں گزاری ہے
ہم نے ہر حال میں کمال کیا
کتنے برسوں کا سفر خاک ہوا
اس نے جب پوچھا کہ کیسے آئے

تاہم وہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے کہ جس کا بقول انور مسعود کوئی حسابی تجزیہ کیا جا سکے کہ اس میں اتنے فی صد محبت ہے، اتنے فی صد غصہ ہے، اتنے فی صد نازک خیالی ہے۔ منیر انور پر ہی کیا موقوف، ہم کسی بھی انسان کو اس انداز میں نہیں پرکھ سکتے۔ اثرات جیسے بھی ہوں، حاصل کوئی بھی ہو، جذبات ہوتے بہت لطیف ہیں اور اس رعایت سے جذبات نگاری بہت نازک کام ٹھہرتا ہے۔ بات ملنے کی ہو، شرمانے لجانے کی ہو، مل کر بچھڑنے کی ہو، لہجے کی ہو، بھول جانے اور یاد رکھنے کی ہو، تاثرات کی ہو، نگاہوں کی ہو؛ ہر بات کے ہزار پہلو ہوتے ہیں۔ منیر انور ان ہزار پہلو کیفیات کا اظہار بھی ویسے ہی کرتا ہے کہ اس کے شعر میں ہزار نہ سہی بہت سارے پہلو اس حد تک ضرور کھل جاتے ہیں کہ اس کا قاری ان کو محسوس بھی کرتا ہے اور لطف اندوز بھی ہوتا ہے۔
اس کا انکار ٹھیک تھا لیکن
اس کا لہجہ سنا تھا؟ کیسا تھا؟
عجب اک اضطراری کیفیت ہے
اسے بھی بھول جانا چاہتے ہیں
ہوا ہے اس پہ چاہت کا اثر آہستہ آہستہ
شفق اتری تو ہے رخسار پر آہستہ آہستہ
میں نے پھر بات ہی بدل ڈالی
اس کی آنکھوں میں اک سوال تو تھا

یہاں انسان بہت عجیب و غریب صورتِ حال سے دوچار ہوتا ہے۔ تعلقِ خاطر اور اس کی اہمیت بجا، محبوبیاں اور محجوبیاں اپنی ہی ایک اہمیت رکھتی ہیں، تاہم ان کے ساتھ ساتھ ایک انانیت بھی ہوتی ہے۔ اس کے بھی ہزار روپ ہیں، کہیں وہ خود داری ہے تو کہیں خود پرستی، کہیں خود شناسی ہے تو کہیں خود فریبی۔ ذات کے شعور کے سارے کرشمے انسان کے اندر ہمہ وقت متحرک رہتے ہیں، اور جوں ہی اظہار کا ایک معتبر ذریعہ میسر ہو، یہ شعور سب پر آشکار ہونے لگتا ہے۔ منیر انور کی خود شناسی کے اظہار میں اس کا مخاطب کہیں محبوب ہے تو کہیں اقتدار، کہیں اس کے ہم جنس ہیں تو کہیں اس کے افرادِ خانہ، جن میں اس کی راحتِ جاں بھی شامل ہے اور جیتے جاگتے پھول اور کھلونے بھی۔ جہاں وہ کسی اور کو اس مکالمے میں شریک نہیں پاتا وہاں اس کی خود شناسی ایک ایسی خود کلامی کا روپ دھار لیتی ہے کہ ایک عالم ہم کلام محسوس ہوتا ہے۔ میں یہاں اپنے قاری کو بھی اس مکالمے میں شریک کرنا چاہوں گا۔
ترے در پر صدا دیتے دُبارہ
ہم اس انداز کے سائل نہیں تھے
گئے تھے ہم بھی فقط رسم ہی نبھانے کو
اور اس کا طرزِ عمل بھی منافقانہ تھا
بس وہی لہجہ، تحکم، خود نمائی، خود سری
کچھ نیا ہرگز نہیں تھا آپ کے پیغام میں
تم تو بس یوں ہی پریشاں ہو گئے ہو دوستو
عمر گزری ہے ہماری قریۂ دُشنام میں
یہ کم نظر نہیں سمجھیں گے داستانِ الم
کسی پہ حالِ دلِ زار آشکار نہ کر
چند لوگوں کی خوش خیالی سے
قبر تھی اک جو آستانہ بنی
راہ میں ہے جو سمندر حائل
یہ مری ذات بھی ہو سکتی ہے

یار لوگوں نے بہت دیر تک یہ بحث چھیڑے رکھی کہ شاعری میں مقصدیت کا کتنا حصہ ہونا چاہئے۔ ہر ایک اپنی اپنی راگنی گایا کرتا اور اس میں مست رہتا۔ بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو ملیں، پر یہ ضرور ہوا کہ اپنا ایک خیال یا پیش نظریہ سا بن گیا۔ میں شعر کہتا ہوں، منیر انور شعر کہتا ہے تو کیا ایسے ہی کہہ دیتا ہے بس؟ بات حلق سے اترنے والی نہیں ہے۔ یہ جو ہولناک پہنائیوں کی حامل کائنات ہے، اس میں ہزاروں لاکھوں دنیائیں ہیں، یہ سب کچھ ’’بس یوں ہی‘‘ تو ہو نہیں سکتا۔ میں بات کرتا ہوں تو مجھے کچھ نہ کچھ کہنا ہوتا ہے! مقصد ہی تو ہوتا ہے کہ ایک بات، ایک خیال، ایک احساس، ایک نظریہ، ایک سوچ، ایک کیفیت کسی نہ کسی کو بتانی ہے، اب اس کو کوئی جتنا نکھار سنوار لے۔ اس کی بنیاد میں جتنی سچائی زیادہ ہو گی اتنی تاثیر بھی زیادہ ہو گی اور جتنی سادگی زیادہ ہو گی اتنی سہولت بھی زیادہ ہو گی۔ کوئی جھوٹ بولے بھی تو اپنے آپ سے کیا جھوٹ بولے گا؟ اور بولے گا بھی تو کب تک؟ منیر انور نے عقل مندی کی کہ جھوٹ کے اس چکر میں پڑا ہی نہیں۔ بات پھر پھرا کر وہیں پہنچ جاتی ہے جو میں پہلے عرض کر چکا۔ ان شعروں میں بھی دیکھ لیجئے، وہی ایک سادہ سا، بلکہ سیدھا سادہ، راست گو منیر انور بولتا سنائی دیتا ہے جو لچھے دار باتیں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر کرتا نہیں۔ اسے تو اپنے مقصد سے غرض ہے اور اس بات سے کہ قاری اس کو کتنی سہولت سے پا لیتا ہے۔
ذرا سا اپنے گریباں میں جھانکئے انور
گلہ درست نہیں آسمان والے سے
جل رہا ہے مرے ہمسائے کا گھر اور میں بس
اپنی دیوار کو شعلوں سے بچانا چاہوں
چور کے ہاتھ کاٹنے سے قبل
غور کر لیجئے عوامل پر
کہا اس نے کہ منزل اور کتنی دور ہے انور
کہا میں نے ہمیں اِس دھند کے اُس پار جانا ہے
دائرے سے نکال دے کوئی
ہم کو رستے پہ ڈال دے کوئی
جو میں نہ ہوتا سرِ دار دوسرا ہوتا
کسی کو خلقِ خدا کی زباں تو ہونا تھا
آدمی مانے نہ مانے ورنہ پہلے روز سے
اس میں انور اک عیارِ خیر و شر رکھا گیا
جو بات آج سرِ بزم کہنے والا ہوں
وہ جان جائے تو شاید کبھی نہ کہنے دے
ابھی ابہام غالب ہے مگر کھل جائے گا انورؔ
کمالِ خوبئ دستِ ہنر آہستہ آہستہ

یہاں بھی منیر انور سیدھی سچی بات کر گیا کہ ابھی بہت کچھ ایسا ہے جو کھلے گا، تاہم وقت لے گا۔ کوئی بڑا بول بولے بغیر وہ بڑی بات کہہ گیا ہے۔ بات سے بات نکلتی ہے، کبھی نکالا بھی کرتے ہیں؛ فن جو ٹھہرا! بات سے بات نکالنے کے اس عمل کو تخلیقیت کہہ لیجئے یا مضمون آفرینی، قریب قریب ایک ہی بات ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کبھی عار نہیں رہا کہ مضمون بندی یا مضمون نگاری اور چیز ہے ،مضمون آفرینی اور چیز ہے۔ اس نکتے پر تفصیلی گفتگو کسی اور موقع پر اٹھائے رکھتے ہیں، یہاں منیر انور کے ہاں مضمون آفرینی کے کچھ نمونے دیکھ لئے جائیں۔
میں اس کے ہاتھ سے نکلا ہوا زمانہ تھا
وہ میری کھوج میں نکلا بکھر گیا آخر
حوصلے سے سہارنا غم کو
درد کو بے وقار مت کرنا
بچھڑ کے مجھ سے اسے ماننا پڑا یہ بھی
وہ معتبر تھا اگر تھا مرے حوالے سے
جل بجھا ہے چمن کا ہر بوٹا
راکھ باقی ہے سو، ہوا لے جائے
پھول کب کا بکھر چکا انورؔ
پتیاں بھی کوئی اٹھا لے جائے
وہ بہت زود رنج ہے لیکن
لب پہ آئی ہنسی کا کیا کیجے

منیر انور نے بڑی سادگی سے اپنی خاموشی اور کم گوئی کی بات بھی کر دی اور اس کا جواز بھی لے آیا، مگر وہ کم گو ہے نہیں! یہ الگ بات کہ وہ معدودے چند الفاظ میں طویل واردات کو بیان کر جائے اور یہی الگ بات کسی شاعر کی الگ شناخت بھی بن سکتی ہے۔ چھوٹی بحر میں بڑی بات کہہ جانا مضمون آفرینی اور انشا پردازی کا ایسا برتاؤ ہے جو ہر کس و ناکس کے حصے میں نہیں آتا۔ منیر انور ایک انشائیہ نگار کے انداز میں ایک بات میں کئی باتیں چھیڑ کر چل دیتا ہے اور قاری کا ذہن پلٹ پلٹ کر اس کے لفظوں کی طرف آتا ہے۔ میرے ساتھ تو یہی ہوا ہے، دیگر قارئین کے بارے میں کیا عرض کروں شعر پیش کر دیتا ہوں۔
شام ڈھلے مل بیٹھیں گے
تیری یادیں، ہم، تارے
ہمیں کچھ حوصلہ سا ہو گیا ہے
ہوئی ہے صاف جب ان کی جبیں کچھ
ہزار بحرِ حوادث کو مات دی لیکن
کسی کی آنکھ کا آنسو ڈبو گیا ہم کو
میرے بچے اداس رہتے ہیں
کام سے وقت ہی نہیں ملتا
یہ فقط اشک تو نہیں انور
خواب آنکھوں میں جھلملاتے ہیں
اتنے وہ مختار نہیں
جتنے ہم ہیں بے چارے
موسموں کی تبدیلی
رنگ تو دکھاتی ہے

شعری فنیات کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں، اور اس موضوع پر تفصیلی مباحث کا یہ موقع بھی نہیں۔ قارئین کو منیر انور کی کتاب ’’روپ کا کندن‘‘ میں شامل مندرجہ ذیل غزلوں کا خصوصی مطالعہ کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔
مناظر شہر قصبے اجنبی ہیں
تخاطب لفظ لہجے اجنبی ہیں
ہاں، موسمِ بہار بھی باقی نہیں رہا
ہاں، تیرا انتظار بھی باقی نہیں رہا
اب مری راہ سے ہٹا سپنے
اب کسی اور کو دکھا سپنے
تھوڑی سی مٹی کی اور دو بوند پانی کی کتاب
ہو اگر بس میں تو لکھیں زندگانی کی کتاب
یوں نہیں ہے کہ یہیں کوئی نہیں
سوچنے والا کہیں کوئی نہیں
ربط باہم بحال کر انور
تو ہی کوئی سوال کر انور
ملا تو دے کے جدائی چلا گیا آخر
ہمارے حصے میں تنہا سفر رہا آخر
خول سے اپنے نکل آئیں جناب
اس جہاں پر غور فرمائیں جناب
تیرے بام و در پتھر
پھینک بے خطر پتھر

منیر انور نے پنجابی میں بھی غزل اور نظم کہی ہے۔ اگرچہ کم کہی ہے مگر جتنی کہی ہے عمدہ کہی ہے، اور اس زیرِ نظر کتاب میں شامل کر دیا ہے۔ اس کا مطالعہ ہم بعد میں کسی وقت کریں گے۔ ابھی ان کی اردو نظموں کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔ ’’دائمی روشنی‘‘، ’’کرب کا موسم‘‘، ’’تذبذب‘‘، ’’کم مائیگی‘‘، ’’حادثہ‘‘، ’’کہا تو تھا‘‘، ’’مشورہ‘‘، ’’گم گشتہ‘‘، اور ’’ فہمائش‘‘؛ کل نو نظمیں ہیں سب میں مشترک خوبی اختصار ہے۔ عنوانات کا تسلسل، اس سے قطع نظر کہ یہ اتفاقی ہے یا ارادی، قابلِ توجہ ہے۔ ’’تذبذب‘‘ انتظار کے دنوں کا صلہ ہے۔ ’’کم مائیگی‘‘ کچھ نہ کہہ سکنے پر دکھ کا اظہار ہے؛ ’’حادثہ‘‘ تین سطروں میں کل چودہ الفاظ (درد کی کسی رو میں ... اس نے کہہ دیا آخر ... کاش ہم نہیں ملتے)، جو حساس قاری کے ایک ایک طبق پر دمک اٹھتے ہیں۔ ’’کہا تو تھا‘‘ نارسائی کا ایسا دکھ ہے جس میں اپنی ذات سے زیادہ کسی دوسرے کا احساس اجاگر ہے۔ ’’مشورہ‘‘ دائمی فراق کے اولین لمحات پر ایک ایسے کرب کا اظہار ہے، جسے محسوس ہی کیا جا سکتا ہے، حیطۂ الفاظ میں نہیں لایا جا سکتا۔ ’’دائمی روشنی‘‘ چھ ابیات پر مشتمل مثنوی مادرِ وطن کے حوالے سے ندامت اور عزمِ نو پر مشتمل عمدہ اظہاریہ ہے۔ ’’کرب کا موسم‘‘ دورِ حاضر کے سدا بہار المیوں پر ایک مختصر اور پرتاثیر معرّٰی نظم ہے۔ ’’ فہمائش‘‘ دوہری معنوی سطح کی حامل نظمِ معرّٰی ہے جس میں ماں کی جدائی کا درد بہت نمایاں ہے۔

منیر انور کی اردو اور پنجابی نظموں اور غزلوں کی بہت خاص بات ان کی سادہ لفظیات ہے۔ اور وہ ہے کہ انہی سادہ سادہ لفظوں سے بڑے بڑے مفاہیم و مطالب پیدا کر جاتا ہے۔ اس کے سادہ سے اسلوب میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے جو مجھے خواجہ حیدر علی آتشؔ کا یہ شعر یاد دلا گیا۔
تکلف سے بری ہے حسنِ ذاتی
قبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہے


۔۔۔۔۔۔ محمد یعقوب آسیؔ ۔۔ سوموار: ۷؍ جولائی ۲۰۱۴ء ۔


3 تبصرے:

  1. Its a very marvelous piece of writing especially verses you have chosen .All are awesome and happy to read such an essay . Well I am happy u r good essayist . How you have highlighted pros cons of Munir ahmed`s poetry and person .Its a very good job ...really amazing

    جواب دیںحذف کریں