اردو محفل فورم سے بات چیت۔ دسمبر ۲۰۱۲،جنوری ۲۰۱۳
اردو محفل (۱) آپ کا بنیادی حوالہ شعر ہے ،آپ فرمائیے کہ آپ سالیبِ شعری کے علاوہ
ادب کی دیگر اصناف سے بھی رغبت رکھتے ہیں ؟
شعر
بھی اپنا حوالہ بن سکے تو بڑی بات ہے۔
میں نے
کبھی اختصاص سے کام نہیں لیا۔ اردو میں بھی لکھا، پنجابی میں بھی، اردو سے پنجابی
اور فارسی سے پنجابی میں ترجمے بھی کئے۔ غزل بھی کہی نظم بھی، اور رباعی کو بھی
چھیڑا۔ ’’لفظ کھو جائیں گے‘‘ احباب کی نظروں سے گزر چکی۔ ’’مجھے اک نظم کہنی تھی‘‘
ان شاء اللہ جلدی پیش کر دوں گا۔ اردو نثر میں: چند ایک شخصیات سے بات چیت اور ان
کی شاعری پر اور شخصیت پر اظہار بھی ہے۔ کتابوں کی تقریظیں ہیں کہ تقریظ پر کوئی
ناراض نہیں ہوتا۔ افسانہ اور کہانی لکھنے کی بھی کوشش کی۔ تفصیلات کا یہ موقع
نہیں۔ پنجابی میں غزل بھی کہی نظم بھی اگرچہ بہت کم کم۔ جو کچھ نظم ہو سکا
’’گوہلاں‘‘ کے عنوان سے یہاں پیش کر چکا ہوں۔ وہاں بھی کہانی، افسانہ، مضمون اور
راہوارِ قلم جدھر لے گیا۔
یہ
ضرور ہے کہ احباب نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی ہے، نہیں تو شاید یہ سب کچھ بہت
مشکل ہو جاتا۔
اردو محفل : (۲) آپ شعر کیوں لکھتے ہیں ؟ ادب کی دیگر اصاف
بھی تو ہیں ان کی طرف میلان و رغبت کیوں نہیں ہوئی ؟ اگر ہوئی ہے زیادہ مطمئن کس اظہار میں ہیں شعر
یا نثر ؟
یہ بات
تو ہو گئی، کہ میں نے اپنے قلم پر کبھی کوئی پابندی نہیں لگائی۔ جو کچھ اپنے اندر
سے اٹھا ہے، اس کو بس اپنی استعداد کی حد تک بنا سنوار کے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
سوال کا پہلا حصہ مجھ پر لاگو نہیں ہوتا۔
چاشنی
شعر اور نثر دونوں کی اپنی اپنی ہے۔ البتہ بعض حوالوں سے شعر کو اولیت حاصل ہے۔
نثر میں آپ پر شعر جتنی پابندیاں نہیں ہوتیں، وہاں دیگر عناصر ہوتے ہیں۔ شعر میں
سب سے پہلا معاملہ تو بحر، قافیہ، ردیف، صنفی تشکل (رباعی، خماسی، مسدس، مخمس،
ترکیب بند، ترجیع بند؛ وغیرہ) کے تقاضوں کا ہے، اسلوب اور مضامین کا معاملہ اپنی
جگہ! ایک شخص اگر ان سارے مراحل سے بخیر و خوبی گزر جاتا ہے تو اس کی مسرت بالکل
بجا ہے۔ شعر کی ایک خاص بات اس کی یاد رہ جانے کی خوبی ہے۔ کسی کا شعر (نقل کرنے
والے کو بھی شاعر کا پتہ نہیں تھا) مجھ تک پہنچا۔ ایک بار پڑھا تو جیسے ازبر ہو
گیا۔ آپ بھی پڑھئے:
اس لئے بھی تری تصویر جلا دی میں نے
اور کچھ تھا ہی نہیں دل کو جلانے کے لئے
اس پر
مستزاد یہ کہ ایک شعر یاد آتا ہے تو پھر کسی نہ کسی تعلق سے شعر پر شعر یاد آنے
لگتے ہیں۔ نثر میں ایسا نہیں ہوتا۔ بہت نمایاں جملے
یاد رہ جائیں تو رہ جائیں، پیراگراف کے پیراگراف تو خود لکھنے والے کو بھی یاد
نہیں رہتے، الاماشاءاللہ۔
غزل کو
میں اردو شاعری کا عطر کہا کرتا ہوں، جتنی نزاکتیں یہاں کارفرما ہوتی ہیں شاید ہی
کسی اور صنفِ سخن میں ہوں۔ غزل کی ریزہ خیالی کی بدولت اس کا ہر شعر اپنی جگہ ایک مکمل مضمون کا حامل
ہوتا ہے، سو کسی بھی موقع پر دو سطروں کے مختصر حوالے کا کام کر جاتا ہے۔ کفایت
لفظی بہت اہم چیز ہے۔ خیر الکلام ما قل و دل (بات کی عمدگی یہ ہے کہ وہ مختصر ہو
اور مدلل ہو)۔ غزل کا شعر جس قدر مختصر اور جامع ہو گا اسی قدر وقیع ہو گا۔ ایک
اور اہم عنصر جو ادب کو ادب بناتا ہے وہ جمالیات ہے۔ جمالیات کی تفصیل میں جانے کا
یہ موقع نہیں ہے۔
اردو محفل : (۳) شاعری کو روح کا خلجان کہاں جاتا ہے ۔۔
ناآسودگی کا نوحہ کہا جاتا ہے۔۔ ؟؟ کیا آپ کے نزدیک یہ بات درست ہے ؟ اور کیوں ؟
کہنے
کو بہت کچھ کہا گیا، یہ روح کا خلجان ہے یا نغمہ ہے، نا آسودگی کا نوحہ ہے یا
آسودگی کا سامان ہے، پیمبری کا حصہ ہے یا پریشان خیالی کا مظہر ہے؛ و علٰی
ہٰذاالقیاس۔ یہ خواص تو نثر میں بھی ہو سکتے ہیں۔ اور پھر یہ جتنے عناصر بیان کئے
گئے ہیں اُن سب کو شعر کہنے والے کی شخصیت اور معاشرے میں اس کے مقام کے ساتھ ملا
کر دیکھا جائے تو کھلتا ہے کہ ہم کسی بھی شعر سے اس کے شاعر کو کلیتاً خارج نہیں
کر سکتے۔ غالب، میر، مومن، فیض، اقبال، جوش اپنے کلام میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔
میرے نزدیک شاعری اظہارِ ذات کا ایک مؤثر وسیلہ ہے۔ ذات کی تشکیل میں داخل، خارج
سب کچھ کا اثر ہوتا ہے۔ جسے فارسی میں کہتے ہیں: ’’از ماست کہ بر ماست‘‘۔ یہ ضرور ہے کہ کسی بھی معاشرت کا اعلٰی
ترین مظہر اس کی زبان ہوتی ہے، پھر زبان میں ادب کو بلند تر درجہ حاصل ہے، ادب میں
شاعری کو اولٰی مانا گیا ہے، اور اردو شاعری کا عطر غزل ہے۔
اردو محفل : (۴) ہمارے گردو پیش میں ایک سوال بازگشت کرتا
نظر آتا ہے کہ ”شاعری کیا ہے“ ۔۔ آپ کیا کہتے ہیں ا س بارے میں کہ اس سوال
سے”شاعری“ کی کوئی جہت دریافت ہوسکتی ہے یا محض وقت گزاری ہے؟
اس کا
آدھا جواب تو اوپر ہو چکا۔ مختصر ترین الفاظ میں شاعری اظہارِ ذات کا ایک انداز
ہے۔ اور بھی بہت سے انداز ہوا کرتے ہیں، وہ ایک الگ بحث ہے۔ شاعری، اگر کوئی حقیقی
شاعری کرے، تو اس کی اتنی ہی جہتیں ہوں گی جتنی صاحبِ کلام کی شخصیت کی ہوں گی۔
شاعری کی دنیا میں مشاہیر کو مشاہیر کیوں کہا جاتا ہے؟ اس لئے کہ ان کی شاعری
جہتوں کا تعین کرتی ہے، لوگوں کے متفق یا غیر متفق ہونے سے قطع نظر مشاہیر کے ہاں
کوئی نہ کوئی ایسا عنصر ضرور ہوتا ہے وہ فکری ہو، فنی ہو، فلسفیانہ ہو، سوقیانہ
ہو، اصلاحی ہو، تخریبی ہو، جیسا بھی ہو، ہوتا ضرور ہے۔ رہی
وقت گزاری والی بات تو جناب! اگر وقت گزاری ہی کرنی ہے تو پھر اس قدر سخت ذریعہ ہی
کیوں؟ اس کے باوجود کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اس کو وقت گزاری کا طریقہ ہی سمجھتے ہیں۔
وہ جتنے بھی باصلاحیت رہے ہوں، اور پی آر یا ایسے کسی طریقے سے منظرِ عام پر بھی
ہوں، وقت ان کو گزار دیتا ہے یعنی وہ بہت جلد فراموش کر دیے جاتے ہیں۔ پروفیسر
انور مسعود نے ایک بہت خوب صورت بات کی: ’’اللہ فرماتا ہے ہم نے اس کائنات کو عبث
پیدا نہیں کیا۔ سو، سنتِ الٰہی یہی ہے کہ بندہ کوئی بے مقصد کام نہ کرے‘‘۔
حسنِ نیت نہ میسر ہو تو انور صاحب
ہے خطر ناک بہت ذہنِ رسا کا ہونا
اردو محفل : (۵) کیا اس سوال کا اسالیبِ ادب میں کوئی مقام
ہے ؟ اگر ہے تو اس سے کیا فائدہ ممکن ہوسکا ہے اب تک ؟؟
وہ جو
اوپر سوال گزرا ہے؟ وقت گزاری والا؟ اس کا تعلق تو شاعری کی اصلیت اور مقصدیت سے
ہے، اسلوب نہیں۔ اسلوب کے بارے میں سوال آگے آتا ہے۔
اردو محفل : (۶) سنجیدہ ادبی حلقوں میں یہ نعرہ بڑے زور و
شور سے بلند کیا جاتا ہے کہ ادب روبہ زوال ہے کیا یہ بات درست ہے ؟ بادی النظرمیں
عام مشاہدہ یہ ہے کہ لکھنے والوں کی تعداد خاصی ہے ، کتابیں رسائل جرائد بھرے پڑے
رہتے ہیں تخلیقات سے اور طباعتی ادارے خوب پھل پھول رہے ہیں۔۔۔
ادب رو
بہ زوال نہیں ہے صاحب! اَقدار رو بہ زوال ہیں! اور ادب پر اگر کوئی زوال ہے تو وہ
قدر کی حیثیت سے ہے، اس پر تفصیلی بات کریں گے۔ معیارات
بدل گئے، پیمانے بدل گئے، محبت اور مؤدت کی جگہ آسائشوں کی دوڑ نے لے لی، تعلقات
کی حیثیت ثانوی ہو گئی۔ بڑے شہروں میں انسان سے انسان کی دوری نے کچھ زیادہ رنگ
دکھایا۔ ہم سہولیات کی دوڑ میں شامل ہوئے تو وہی سہولیات ضرورت بن گئیں اور تعیشات
کو سہولیات کہا جانے لگا، پھر یہ بھی رفتہ رفتہ ضرورت بن گئیں۔ حقوق و فرائض کا
تصور بدل گیا، ذمہ داری کے معانی تبدیل ہو گئے۔ آزادی ’’مادر پدر آزادی‘‘ میں ڈھل
گئی، فلاح و بہبود اپنے گھر تک محدود ہو گئی، ہمسایہ اجنبی بن گیا۔ کھرے اور کھوٹے
کی پہچان باقی نہ رہی۔ تعلیم جیسا مقدس کام کاروبار بن گیا، کردار سازی کا تصور
درس گاہوں سے رخصت ہو گیا۔ اور بات یہاں تک پہنچی کہ حکام جن کو رعایا کے خدام کہا
جاتا تھا، رعایا کے خدا بن بیٹھے۔
اس شہر کا کیا جانیے کیا ہو کے رہے گا
ہر شخص بضد ہے کہ خدا ہو کے رہے گا
اور یہ
سب کچھ صرف ہمارے ہاں نہیں ہوا، پورا گلوب اس توڑ پھوڑ کا شکار ہو رہا ہے۔ ادیب
بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہے، وہ بھی اس توڑ پھوڑ میں شامل رہا (کہیں شکار کی
حیثیت سے اور کہیں شکاری کی حیثیت سے) اور اپنے اس منصب سے دور ہو گیا جو اِس کو
فکری راہنما کا درجہ دیتا تھا۔
ادب کی
اصناف میں انحطاط رونما ہوا جسے آخرکار سند تسلیم کر لیا گیا، تنقید اور تنقید
نگاری میں پہلے یہ ہوتا تھا کہ نقاد تخلیق کار کی شین قاف بھی درست کرتا اور اس کی
راہنمائی بھی کرتا۔ بہ ایں ہمہ اس عمل کو شاعر کی ’’آزادیء اظہار‘‘ پر پابندی
سمجھا جانے لگا تو تنقید سمٹ کر ہاں، نہیں تک رہ گئی۔ نقاد پر ایک الزام سہل پسندی
کا بھی دیا جاتا ہے کہ جی وہ فلاں اس نے دس بارہ دساوری حوالے دیے اور سب کو چپ
کرا دیا۔ مقصد سب کو چپ کرانا قطعاً نہیں تھا۔ نقالی کا جو بخار پورے معاشرے پر
وبا بن کر چھا رہا ہے، اُس نے دانشِ مشرق کو دانشِ افرنگ کا دست نگر بنا دیا۔ ستم
ظریفی دیکھئے کہ ’’غزل کیا ہے‘‘ کے مباحث میں فرانسیسی اور برطانوی نقادوں کو
حوالے کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ بھائی اُن لوگوں کا غزل سے دور کا واسطہ نہیں،
اُن سے کیا پوچھتے ہو، اپنی بات کرو کہ یہ تو ہے ہی خالصتاً آپ کی چیز۔ سیاست اور
معیشت کے بعد نثر اور نظم کی دساوری تعریفات نے ادب میں بھی ایک تیسری دنیا کی داغ
بیل ڈال دی۔ ان کے میٹرز اپنے ہیں، سٹریس اینڈ سٹرین اپنے ہیں، آپ کے اپنے ہیں، وہ
اپنی زبان کی اصناف میں جو بھی کریں آپ پر ان کی پیروی کہاں لازم تھی! نئے
دور میں کچھ نئے نعرے لگے: ’’ادب مذہب سے بالاتر ہے‘‘، ’’ادیب معاشرے کا عکاس ہوتا
ہے‘‘؛ وغیرہ وغیرہ۔ تاہم یہ ہمار اس وقت کا موضوع نہیں ہے۔
کتابیں
لکھی جاتی ہیں! بہت، اور پہلے سے کہیں زیادہ اور کاروبار کا ایک سلسلہ جو اس سے
مربوط ہے وہ بھی چل رہا ہے۔ بہت سے لوگ دوسروں کے غم و آلام کی کمائی کھا رہے ہیں۔
ادب کا پبلشر نئے نام سے بدکتا ہے، اسے معیار سے کیا لینا دینا۔ اسے ’’خصوصی
ڈائجسٹ‘‘ اور ’’عمومی ڈائجسٹ‘‘ چھپوا کر ایک مہینے میں جتنی کمائی ہوتی ہے، اساتذہ
کے دیوان بیچ کر وہ اتنی کمائی سال بھر میں نہیں کر سکتا۔ ایک زمانہ تھا جب بقول
شخصے فقیر گلی میں اور مغینہ کوٹھے پر اساتذہ کی غزلیں گایا کرتے تھے، آج قومی
تقریبات میں دساوری پاپ اور سپرپاپ چلتا ہے، گھروں کا تو پوچھنا ہی کیا!۔
ہم نے
تو دس بارہ سال پہلے سنا تھا کہ وطنِ عزیز میں اوسطاً دو شعری مجموعے روزانہ شائع
ہو رہے ہیں۔ مگر ان کی قیمت؟ سچی بات ہے اپنی رسائی میں تو نہیں کہ ہر مہینے بارہ
ہزار روپے ذوقِ مطالعہ پر خرچ کر سکیں۔ ایک ’’عمومی ڈائجسٹ‘‘ میں مطبوعہ مواد کم و
بیش بیس نثری مجموعوں کے برابر ہوتا ہے، غزلیات کی کہئے تو پچاس! اور اس کی قیمت
صرف پچاس روپے! اور سو غزلوں پر مشتمل کتاب دو سو روپے میں۔ ادھر ادب کو عام قاری
کی رسائی سے باہر کر دیا، ادھر ادیب کی جیب سے کتاب چھاپ کر اسے اس کی اصل رقم سے
بھی یا تو محروم کر دیا گیا یا پھر وہ کئی کئی چکر لگا کر خود تھک ہار کر بیٹھ
رہا۔ وہ مرحلہ جس میں ناشر ادیب کے پیچھے پیچھے پھرے، آتا اس وقت ہے جب ادیب اپنے
بڑھاپے کو طویل کرنے کی کوشش میں لگا ہوتا ہے۔ طباعتی اور اشاعتی ادارے پھل پھول
رہے ہیں، بالکل بجا۔ ادیب اور قاری دونوں کی تو سانس پھول رہی ہوتی ہے۔
اس کے
باوجود اچھا ادب بھی تخلیق ہو رہا ہے، اور بازا میں دستیاب بھی ہے جس کا سہرا صرف
چند ایک سرپھروں کے سر جاتا ہے۔
اردو محفل : (۷) نئے لکھنے والے اس بات سے شاکی رہتے ہیں ہے
کہ ان کے ”سینئرز“ ان کی نہ رہنمائی کرتے ہیں اور نہ انہیں قبول کرتے ہیں ۔۔کیا یہ
شکوہ جائز ہے ؟ اور یہ فضا کیسے تحلیل ہوسکتی ہے ۔
نہیں
صاحب! ایسی کوئی بات نہیں۔ دیکھئے، تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اور وہ جو
معاشرتی انحطاط کی بات ہوئی تھی وہ یہاں بھی کارفرما ہے۔ شاعری اور وقت گزاری کا
سوال بھی اس سے منسلک ہے۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ میں نے جو کچھ (ادب میں) سیکھا ہے
اپنے متقدمین (سینئرز) سے سیکھا ہے۔ ان کی محفلوں میں بیٹھا ہوں، ان کے مباحث سنے
ہیں، اپنے سوالات پیش کئے ہیں اور مجھے ہمیشہ شافی جواب بھی ملا ہے، الا ما شاء
اللہ۔ آپ احباب میرا طریقہ تو دیکھ چکے کہ میں کسی فن پارے پر بات کرتا ہوں تو وہ
کچھ جسے میں (اپنی استعداد کے مطابق) درست سمجھتا ہوں کھلے کھلے سب کو بتا دیتا
ہوں۔ چلئے یہ تو میری بات ہو گئی، کوئی کہہ دے کہ جی ہم نے عموماً یہی دیکھا ہے کہ
بابے نئے لکھنے والوں کو سکھاتے نہیں۔ ادبی
تنظیموں کا کردار آپ کے سامنے ہے، (گروہ بندی کی بات آگے آتی ہے) اس کے با وجود ہر
ادبی تنظیم ایک ادبی تربیت گاہ ہوتی ہے۔ وہاں کسے کیسی تربیت ملتی ہے، یہ ہمارا
موضوع نہیں، تربیت ملتی ضرور ہے!
ایک
بات مجھے جونیئرز کے حوالے سے بھی کہنی ہے۔ میں نے متعدد نو قلم کاروں میں ’’فرار‘‘
کا رویہ بھی دیکھا۔ انہیں ایک بات بتائی جاتی ہے تو جواب ملتا ہے۔ اسے چھوڑیں جی،
آپ بتائیں یہ شعر گزارہ کرے گا؟ میں ذاتی طور پر چند ایسے نوجوان لکھاریوں کو بھی
جانتا ہوں جو ایک غلطی کرتے ہیں، لسانی یا فنی یا عروضی یا مضمون کے حوالے سے،
انہیں بتایا جاتا ہے تو وہ یا تو تسلیم نہیں کرتے یا یہ کہ ’’آپ کی بات اور ہے جی،
ہم نئے لکھنے والے ہیں، ہمیں تو رعایت حاصل ہے‘‘۔ ایسے میں سینئر کے پاس خاموشی کے
سوا کیا بچتا ہے؟ ایک مثال سنئے (لکھاری کا نام نہیں بتاؤں گا)۔ انہوں نے ایک نظم
کہی اور حلقہ میں تنقید کے لئے پیش کر دی۔ کم و بیش ہر ناقد نے نظم کو کمزور
گردانا اور اس میں کچھ اغلاط کی نشان دہی کی۔ نظم پر گفتگو ختم ہوئی تو وہ صاحب
چپکے سے اٹھے اور محفل سے چلے گئے۔ بعد ازاں اُن کے گھر پر کچھ دوست جمع ہوئے تو
موصوف نے اعلان کر دیا کہ وہ حلقے میں نہیں آئیں گے، بقول ان کے ’’یہاں کسی کو ادب
کا پتہ ہی نہیں‘‘۔ اس رویے کو کیا نام دیجئے گا۔ وہ نوجوان قلم کار بھی ہیں جو بہت
تیزی سے سیکھتے ہیں اور ان کی تحریروں میں بہت تیزی سے نکھار آتا ہے۔ کچھ بزرگ
شعراء رہے بھی ہوں گے جو سکھانے بتانے سے کتراتے ہوں، تاہم میرا مشاہدہ اور تجربہ اس
کو صاد نہیں کرتا۔
اردو محفل : (۸) ادب میں حلقہ بندیوں کے باوصف گروہ بندیوں
کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں کیا اس سے ادب کو کوئی فائدہ یا نقصان پہنچ سکتا ہے ؟
’’حلقہ
بندیوں کے باوصف گروہ بندیوں میں‘‘ ۔۔؟؟ اگر
یہاں حلقہ بندی سے مراد ادبی تنظیموں اور حلقوں کا قیام ہے تو ایک بات کی وضاحت کر
دوں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ایک جگہ پر ایک حلقہ کے ہوتے ہوئے دوسرا صرف اس لئے
قائم ہو کہ ’’کچھ لوگ‘‘ وہاں خوش نہیں ہیں۔ نئے حلقے بنا کرتے ہیں، اور اس کی کئی
ایک وجوہات ہوتی ہیں۔ مثلاً آنے جانے کے مسائل، ملازمت اور دیگر مسائل جو موجود
حلقہ کے اوقاتِ کار سے لگا نہ کھاتے ہوں، کسی ایک آبادی میں رہنے والے قلم کاروں
کی تعداد کہ یار ہم اتنے لوگ یہاں رہتے ہیں کیوں نہ ہفتہ وار یا پندرہ دن میں یا
مہینے بعد مل بیٹھا جائے؟ کچھ لوگ مل بیٹھیں گے تو کچھ نہ کچھ کام بھی ہو گا۔ میں
اس کے حق میں ہوں بشرطے کہ ایسی حلقہ بندی کے پیچھے ایک مثبت سوچ کار فرما ہو۔ اور
دو چار چھ اجلاسوں میں شرکت کر لی جائے تو اس سوچ کا اندازہ بھی ہو جاتا ہے۔ گروہ
بندیوں کا رجحان بڑے شہروں میں زیادہ ہے، کیوں؟ یہ تو بڑے شہروں کے رہنے والے بتا
سکتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو 1985 سے اب تک کبھی رسمی انتخابات
کی نوبت بھی نہیں آئی، دوستوں کو پکڑ دھکڑ کر مجلسِ
عاملہ میں شامل کیا جاتا ہے۔
بڑی
عجیب بات ہے کہ گروہ بندیاں ادب کو فائدہ بھی پہنچاتی ہیں اور نقصان بھی۔ کہیں صحت
مند مقابلے کی فضا پیدا ہوتی ہے تو گروہی حوالے سے ہی سہی کچھ لوگ بہتر تخلیقی
کاوشوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ تنقید کے میدان میں گروہی بنیاد پر بھی کسی کو رد
کرنا یا کسی کی حوصلہ شکنی کرنا مقصود ہو یا کسی کو ہوا دینا تو کوئی نہ کوئی لولا
لنگڑا جواز تو بنانا ہی پڑے گا۔ اس سے تنقید میں نئے اندازِ فکر کو راہ ملتی ہے۔
گروہ بندی کی فضا میں ذمہ داری کا احساس رکھنے والے اہلِ قلم اور دانش ور بہت سوچ
سمجھ کر بات کرتے ہیں اور سیکھنے والوں کے لئے بہت کچھ مہیا کر جاتے ہیں۔ نقصانات
کو بھی دیکھتے چلئے۔ کچھ لوگ حوصلہ شکن رویے کا شکار ہو کر پہلے ادبی اداروں سے
اور پھر اپنے ادبی ارادوں ہی سے دست بردار ہو جاتے ہیں۔ تنقید اور تنقیص کے معانی
ایک ہو جاتے ہیں، جیسے سیاست میں تنقید کا معنی ہی تنقیص ہے۔ کسی شخص کی صلاحیتوں
کو تباہ کرنا مقصود ہو تو اس کی ہر غلط بات پر واہ، کیا خوب! داد کے ڈونگرے برستے
ہیں۔ یوں اس شخص کے ساتھ جو نشانے پر آیا ہوا ہے بہت سے دوسرے بھی بھٹک سکتے ہیں۔ آپ کے خدشات بے جا نہیں ہیں۔
اردو محفل : (۹) آپ کیا کہتے ہیں کہ کسی شاعر کے ہاں اسلوب
کیسے ترتیب پاسکتا ہے ؟
اسلوب،
اسلوب کے عناصر، اسلوب کیسے بنتا ہے ۔یہ بہت بڑا موضوع ہے۔ میں خود کو اس قابل
نہیں پاتا، مجھے اپنی کم مائیگی کا اعتراف ہے۔
اردو محفل : (۱۰) ہم عصر شعراءاور نوواردانِ شعر
میں معیارِ شعر کا فرق ؟ یہ فرق کیسے ختم ہوسکتا ہے ؟ اچھے شعر کا معیار کیا ہے ؟
نو
واردان بھی تو ہم عصروں میں آتے ہیں۔ آپ کا سوال واضح نہیں ہے۔ اگر اسے یوں سمجھا
جائے کہ منجھے ہوئے شعراء اور نوواردانِ شعر میں معیار کا کیا فرق ہے، تو بھی بات
کرنا خاصا مشکل ہے۔ ہمیں اس سوال کو مختلف اجزاء میں تقسیم کرنا ہو گا۔
الف۔ نووارد کون ہے، اور
پرانا کون ہے؟
ب۔ کیا ان کے کلام میں معیار
کا فرق ہے بھی یا نہیں؟
ج۔ کیا یہ فرق ختم ہو سکتا
ہے؟ اور
کیسے؟
د۔ اچھے شعر کا معیار کیا ہے؟
الف۔ نووارد کون ہے، اور پرانا کون ہے؟
نیا
اور پرانا کا امتیاز زمانی ترتیب سے؟ کس نے پہلے شعر کہنا شروع کیا یا کون پہلے
معروف ہوا، یا کس کی کتاب پہلے آ گئی؟ یہ تینوں پیمانے اپنی اپنی جگہ اہم، تسلیم!
مگر بہت سے لوگ دو تین سالوں میں معروف ہو
جاتے ہیں اور بہت سوں کو عمروں میں کوئی نہیں جانتا۔ سیکھنے کی استعداد اور لگن ہر
ایک کی اپنی اپنی ہے، اور حالات بھی اپنے اپنے! کوئی جل جل کر راکھ بن جاتا ہے اور
کوئی پہلے تاؤ میں تاب دینے لگتا ہے۔ کتابوں کی بات پہلے ہو چکی، میرے پاس پیسے
نہیں تھے یا نہیں ہیں تو میں انٹرنیٹ ایڈیشنز پر خوش ہوں۔ اُس کے پاس پیسے ہیں وہ
ایک سال میں چھ کتابیں لا سکتا ہے۔ آپ کا اپنا معیار ایسا کڑا ہے کہ دوستوں کی
شدید خواہش کو آپ یہ کہہ کے ٹال دیتے ہیں: ’’نہیں یار، ابھی میری شاعری اس قابل
نہیں ہوئی، ہو جائے گی تو دیکھیں گے‘‘۔ ایک بزرگ شاعر 1952 سے باقاعدہ شاعری کر
بھی رہے ہیں، ان کو ایک زمانہ تسلیم کرتا ہے مگر ان کا اولین مجموعہ 2010 میں شائع
ہوتا ہے۔ تب تک ان کے شاگرد انہی کے سجھائے ہوئے مضامین میں کہے گئے شعروں کی
بدولت جانے جاتے ہیں۔ حاصل کیا ٹھہرا؟ جو
جتنا جلدی معروف معیارات کا پاس رکھتے ہوئے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھار لیتا ہے
وہ پرانا ہے چاہے اسے شعر میں وارد ہوئے تین چار پانچ سال ہی ہوئے ہوں۔۔ اور ۔۔ جو
اپنی مشقِ سخن کی مبینہ خامیوں کو خوبیاں کہنے پر بضد ہے وہ نیا ہے اور نیا رہے
گا، چاہے آدھی صدی تک مصرعے سیدھے کرتا رہے۔ اصل فرق ہے ہی معیار کا! سو یہ سوال
بھی بھگت کیا کہ: کیا ان کے کلام میں معیار کا فرق ہے بھی یا
نہیں؟
ج۔ کیا یہ فرق ختم ہو سکتا ہے؟ اور کیسے؟
فرق
ختم نہیں ہو سکتا! جن اہلِ فن اور اساتذہ کو ہم لوگ سند مانتے ہیں، فرق اُن میں
بھی ہے۔ یہاں ہمیں ایک چیز فرض کرنی پڑے گی: ایک شاعر بیس پچیس سال سے شعر کہہ رہا
ہے اور اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی حد تک اس ’’کارِ کوہ کنی‘‘
سے مخلص بھی ہے۔ ایک نوجوان شاعر ہے وہ کہہ لیجئے دو سال سے شعر کہہ رہا ہے اور
اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی حد تک اس ’’کارِ کوہ کنی‘‘ سے وہ
بھی مخلص ہے۔ فرق تو یہاں بھی ہو گا، ہاں یہ نوجوان جب ان تجربات سے یا ان سے ملتے
جلتے تجربات سے گزرے گا تو ہو سکتا ہے بابا جی سے آگے نکل جائے!
’’کیسے‘‘کی
ذیل میں سب سے پہلے تو خدا داد صلاحیت ہے، جسے ودیعت ہو گئی۔ پھر خلوص لگن اور
تہیہ ہے، پھر محنت ہے اور علم کی پیاس اور مطالعہ و مکالمہ ہے، پھر وسیع المشربی
ہے۔ یہ سفر شروع ہوتا ہے بے سروسامانی سے اور مسافر اپنا زادِ راہ اسی سفر سے حاصل
کرتا ہے۔ اور اگر اس کی طلب صادق ہے اور او خود فریبی کا شکار نہیں ہے تو منزلوں
پر منزلیں مارتا چلا جاتا ہے۔ بقول متشاعر ۔۔۔
چلو آؤ چلتے ہیں بے ساز و ساماں
قلم کا سفر خود ہی زادِ سفر ہے
اب وہ
مرحلہ آتا ہے کہ ع: ’’بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی‘‘۔ یعنی:
د۔ اچھے شعر کا معیار کیا ہے؟
’’جاؤ
میاں! کسی گھسیارے سے جا کے سیکھو، میں تو قلعے کی زبان بولتا ہوں‘‘۔ مرزا غالب نے
تو یہ بات عوام اور خواص کی روزمرہ کے حوالے سے کہی تھی، تاہم یہاں اس سوال کا
جزوی جواب بھی ملتا ہے کہ ’’اچھے شعر کا معیار کیا ہے؟‘‘۔ پہلے بات ہو چکی کہ ادب
میں شائشتگی اور شستگی ہونی چاہئے، جمالیات کی بات بھی ہو چکی۔ نثر اور شعر کا
تھوڑا سا تقابل بھی ہو چکا۔ پروفیسر انور مسعود سے بھی سنا (1990ء) کہ: شعر وہ ہے
جو آپ کو چھیڑ دے اور ذہن اس کے پیچھے یوں لپکے جیسے بچہ تتلی کے پیچھے دوڑتا ہے۔
شعر کا
تعلق اصلاً محسوسات اور ان کے ابلاغ سے ہے۔ محسوسات کو ہم فزکس کیمسٹری کی طرح لگے
بندھے پیمانوں سے نہیں ناپ سکتے۔ ابلاغ میں شاعر اور قاری دونوں کا اپنا اپنا حصہ
ہے۔ ایک شاعر کے ایک ہزار قاری ہوں تو لازمی نہیں کہ تمام قارئین کو شعر کا یکساں
ابلاغ ہوا ہے۔ زبان کون سی شستہ ہے کون سی نہیں، اس پر بھی اتفاقِ رائے محال ہے۔
جمالیاتی اقدار بھی متفرق اور کہیں کہیں انفرادی ہو سکتی ہیں۔ ہم یہ تو کہہ سکتے
ہیں کہ شعر جتنا ’’بہترین‘‘ ہو سکے ہونا چاہئے، تاہم اس ’’بہترین‘‘ کو گراف پر
لکیرنا بھی ممکن نہیں۔ تو پھر؟ کہاں جائیے گا؟!! ہم جس پیمانے کی بھی بات کریں وہ
شاعر اور قاری دونوں کی مشترکہ معاشرتی کی اقدار کی مناسبت سے ہو گا۔ بہ این ہمہ،
ہم شعر کے معیار کا تعین کرنے والے عناصر کی بات تو کر ہی سکتے ہیں۔ تاہم ان میں
کسی عنصر کو دوسروں پر قطعی ترجیح نہیں دے سکتے۔
اظہار کا ٹُول یعنی لفظیات اور زبان:۔ اس میں شائستگی
بہت لازم ہے، ہمیں شعر میں کوئی تلخ بات بھی کرنی ہو تو لازم ہے وہ تلخی الفاظ کے
حسنِ ترتیب، حسنِ انتخاب اور حسنِ ادا کو متاثر نہ کرے۔ بقول انور مسعود: ’’تلخ
بات تو کوئی بھی برداشت نہیں کرتا یار! شوگر کوٹڈ پلز ہونے چاہئیں، یہ نہیں کہ سِر
وِچ ڈانگ کڈھ مارو۔‘‘ عشقِ مجازی کو لے لیجئے، محبوب کو کٹھور، ظالم، بے رحم، قاتل
اور پتہ نہیں کیا کچھ کہا جاتا ہے۔ سیدھے سبھاؤ بات کی جائے تو یہ صاف گالیاں بنتی
ہیں۔ شاعر بات کرتا ہے اور یہی کچھ ایسے انداز میں کہہ جاتا ہے کہ خود محبوب بھی
سنے تو اسے اچھا لگے۔ یہ وصف ’’سلیقہ‘‘ کہلائے گا۔
ملائمت اور سلاست:۔ یہ میرا سب سے بڑا مسئلہ ہے، میں اس
کو بہت اہمیت دیتا ہوں خاص طور پر غزل کے لئے۔ نہ صرف یہ کہ لہجہ ملائم ہو اور
الفاظ اپنے دقیق یا بوجھل معانی کے ہوتے ہوئے بوجھل محسوس نہ ہوں۔ اب یہ تو نہیں
ہو سکتا کہ شعر میں ساری سلیس اردو لکھی جائے، پھر شاعر کی اپنی ایک علمی اور فکری
سطح ہے اور اُسے ایک باریک بات اپنے قاری تک پہنچانی ہے یا کسی دقیق فلسفیاتی
حوالے سے بات کرنی ہے تو اس میں شوکتِ لفظی تو آئے گی۔ ملائمت کا دائرہ صرف الفاظ
کے چناؤ تک محدود نہیں ہونا چاہئے، بلکہ صوتیت (ادائیگی) میں بھی ہو۔ قریب المخارج
یا ہم مخرج حروف صوتیت میں ٹکرانے نہ پائیں اور قاری کو شعر کی صوتیت میں کوئی دقت
یا رکاوٹ پیش نہ آئے۔
زبان کے معروف قواعد کی پابندی:۔ یہ معاملہ فی
زمانہ بہت نازک ہوتا جا رہا ہے۔ زبان کے
قواعد معروف ہیں۔ ترکیب سازی کیسے ہو سکتی ہے، کیسے نہیں ہو سکتی۔ کسی نئی بحث میں
پڑنے سے کہیں بہتر ہے کہ مروجہ قواعد کی توقیر کی جائے۔ وحدت و جمع، تذکیر و
تانیث، فاعل فعل اور مفعول کی مطابقت، ہجے تلفظ اور املاء۔ محاورہ اور ضرب المثل؛
شعر میں ان سب کا دھیان رکھنا ہوتا ہے۔ ہم آٹھ آٹھ آنسو رو سکتے ہیں، چار چار چھ
چھ دس دس نہیں۔ چھینکا بلی کے بھاگوں ہی ٹوٹے گا اور چھینکا ہی ٹوٹے گا، دودھ کا
جگ نہیں۔ مینہ چھاجوں برستا ہے، بارش چھاجوں نہیں برستی، اور چھاج چھاج ہی رہتا ہے
کڑاہا نہیں بن سکتا۔ ہاں انہیں محاوروں اور ضرب الامثال کو معنویت دینا آپ کی فنی
پختگی اور اعلیٰ اپچ کی دلیل ہو گا۔
شعر کی زمین اور عروضی معاملات:۔ ردیف اختیاری ہے،
لیکن جب آپ نے ایک ردیف اپنا لی تو پھر اس کو نبھانا لازم ہے۔ قوافی میں بہت سے
مباحث چل رہے ہیں، ان سے خبر دار رہئے اور اپنے تئیں کسی بھی ’’ارادی غلطی‘‘ سے
گریز کیجئے۔ آپ کی یہ احتیاط آپ کو دوسروں کے لئے مثال بھی بنا سکتی ہے۔ اوزان کی
غلطیوں سے بچنا بہت ضروری ہے، میں ذاتی طور پر نامانوس زمینوں (بحر، قافیہ، ردیف)
سے کنی کتراتا ہوں، اگر آپ اس سے نبرد آزما ہونے کی اہلیت اور ہمت رکھتے ہیں تو
ضرور ہوجئے۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ مانوس بحروں میں کی گئی شاعری قاری کو زیادہ
لبھاتی ہے۔ اور اساتذہ کے ہاں عام طور پر وہی انتیس تیس مانوس بحریں ملتی ہیں۔
موضوعِ سخن:۔ ہماری روز مرہ زندگی ایک نہیں ہزاروں
موضوعات لئے ہوئے ہوتی ہے۔ کچھ موضوعات من حیث الانسان ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں:
زندگی، جد و جہد، خدشات، امیدیں، آرزوئیں، محبت، نفرت، دشمنی وغیرہ، کچھ موضوعات
ہر معاشرے کے خاص اپنے اپنے ہوتے ہیں، ان کو ملکی، سیاسی، سماجی، مذہبی، نظریاتی
حوالوں کے موضوعات کہا جاتا ہے۔ کچھ واقعات اور حوادث موضوع بن جاتے ہیں، ان میں
کچھ قلیل وقتی ہوتے ہیں، کچھ طویل، کچھ مستقل، کچھ ذاتی، کچھ ذاتی موضوعات کا
پھیلاؤ و علیٰ ہٰذا القیاس۔ ان میں سے کوئی بھی موضوع شاعری میں آ سکتا ہے (کبھی
ایک، کبھی ایک سے زیادہ، کبھی ایک پہلو سے، کبھی زیادہ جہتوں سے)۔ کسی عارضی اور وقتی موضوع پر شعر کہا جائے
تو ظاہر ہے اس شعر کے بھی عارضی اور وقتی ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ کسی مستقل
اور جامع تر موضوع پر شعر کہا جائے تو اس کا حوالہ جاتی دائرہ بھی اسی قدر مستقل
اور جامع ہو گا، یوں بات آفاقیت تک پہنچتی ہے۔ شعر میں آفاقیت کا عنصر جتنا بلند
ہو گا، شعر بھی اتنا بلند ہو گا (دیگر عناصر کی نفی مقصود نہیں ہے، ان کی اہمیت
ساتھ ساتھ چلتی ہے)۔
شاعرانہ حربے:۔ جی ہاں، مجھے یہ لفظ بہت موزوں لگتا ہے۔ اب
تک ہم نے شعر کے معیار پر جتنی بات کی ہے اس میں تخلیقی عنصر کا کماحقہٗ ذکر نہیں
ہوا۔ جیسا ہم نے پہلے کہا شعر کہنے کی صلاحیت ایک ودیعت ہوا کرتی ہے۔ شاعر کا کام
کسی بات، واقعے، صورتِ حال کو محض بیان کر دینا نہیں بلکہ اس کو شعر میں ڈھالنا ہے
یعنی اپنے قاری کو چھیڑنا! اس عمل میں ایک تو انشاء پردازی ہے، شعر میں یا تو کوئی
سوال ہو گا، یا سوال جیسا جواب ہو گا، یا کسی جذبہ، کیفیت وغیرہ میں قاری کو شریک
کرنا مقصود ہو گا یہ کیفیت نگاری ہوئی۔ پھر فکر و فلسفہ بھی ہے، پیام بھی ہے! بات
سے بات نکالنا بھی ہے، اس کو آپ مضمون آفرینی کہہ لیجئے۔ کسی نہ کسی طور ایک نقشہ
ایسا بنانا ہے کہ قاری کی نظر میں کھب جائے، اس کو منظر آفرینی کا نام دے لیجئے۔
اس کے ساتھ ساتھ لفظوں کا چناؤ شاعر کے مزاج میں ہوتا ہے، اس کا کوئی فارمولا نہیں
بنایا جا سکتا۔
غزل کی
بات کریں تو اُس کی بحر الفاظ کا حیطہ طے کرتی ہے، قافیہ مضامین اور موضوعات
سجھاتا ہے اور ردیف پوری غزل کو ایک ماحول دیتی ہے۔ مذکورہ بالا معاملات بدستور
موجود! آپ خود اندازہ لگا لیجئے کہ یہ چومکھی بھی نہیں ہزار مکھی لڑائی ہے جو شاعر
اپنے آپ سے بھی لڑتا ہے اور اپنے قاری سے بھی۔ شاید اسی لئے یہ جملہ مشہور و مقبول
ہوا کہ: ’’شاعری خونِ جگر مانگتی ہے‘‘۔
شاعر کی لفظی اور فنی ترجیحات:۔ بہت فطری سی بات
ہے کہ لکھاری کو کچھ خاص الفاظ اور تراکیب اچھے لگتے ہیں اور وہ بار بار اُن سے
کام لیتا ہے۔ اس سے یہ قطعاً باور نہ کیا جائے کہ وہ اپنی اس محبوب لفظیات و
تراکیب کا اسیر ہوتا ہے یا اس سے باہر نہیں جا سکتا۔ لفظیات اور تراکیب کا دوسرا
سرا شعر کے موضوع سے جڑا ہوتا ہے، بحر اُن لفظیات پر کچھ پابندیاں لگاتی ہے اور ان
سب عوامل کے تعامل میں ایک وہ کیفیت بنانی ہوتی ہے جسے چلئے ’’توازن‘‘ کا نام دے
لیجئے۔ لفظی ترجیحات کے پیچھے ایک اور عامل ہوتا
ہے، شاعر کا اپنا طرزِ فکر اور طرزِ احساس۔ یہ اس کی شخصیت کا حصہ ہوتا ہے۔
قلمکاروں سے میں ہمیشہ یہ سفارش کیا کرتا ہوں کہ وہ خود پر جبر نہ کریں اور اپنی
شخصیت کو چھپانے پر محنت ضائع نہ کریں۔ آپ اپنی فکر کا حلقہ توڑ کر کچھ لکھ بھی
لیں تو اُس پر خود آپ کا مطمئن ہونا بھی مشکل امر ہے۔ اسے جو بھی نام دے لیجئے،
چلئے ’’فنی صداقت‘‘ کہے لیتے ہیں۔ آپ فن میں کتنے صادق ہیں، اور لفظی اور فنی
ترجیحات میں کس حد تک توازن قائم کر سکتے ہیں؛ یہ بھی آپ کے شعری معیار کا ایک
پیمانہ ہے۔
ابلاغ:۔ شاعر اور قاری دونوں کا اصل مسئلہ ہے۔ میں
شعر اس لئے کہتا ہوں کہ میری فکر یا میرا احساس میرے قاری تک اپنی پوری جمالیاتی
تب و تاب کے ساتھ پہنچے۔ یہاں کچھ میرا کام ہے اور کچھ میرے قاری کا۔ مجھے اپنی
بات کو بہت زیادہ الجھائے بغیر قاری تک پہنچانا ہے اور قاری کا منصب یہ ہے کہ وہ
میری بات کا ادراک کرے۔ اس کے لئے بنیادی بات ہے کہ میں اس زبان میں بات کروں جو
ادب کے ایک قاری کے لئے اجنبی نہ ہو۔ زبانِ غیر کی بات ہو تو وہاں مترجم چاہئے اور
اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ہاں زبان کی چاشنی ترجمے میں کھو جایا کرتی ہے، تاہم یہ
ایک الگ بحث ہے۔ قاری میں اور مجھ
میں جتنی (فنی فکری مذہبی لسانی سماجی نفسیاتی سیاسی تخلیقی) سانجھ ہو گی، ابلاغ
کی سطح اتنی ہی بلند ہو گی۔ اس میں ابہام کا نہ ہونا بہترین بات ہے۔ اصولی طور پر
ابہام ابلاغ کی ضد ہے، تاہم بسا اوقات یہ واقع ہو جاتا ہے۔ کہیں میں پورے طور پر
بات کر نہیں پایا، کہیں میرے لفظوں میں کچھ ایہام جیسی بات ہو گئی، قاری کی اور
میری سانجھ کسی بات پر صفر ہے یا تقریباً صفر ہے، وغیرہ وغیرہ۔ فکری اور نظریاتی
ٹکراؤ اور چیز ہے تضاد اور چیز ہے۔
ابہام
اور ایہام کو ہم معنی سمجھ لینا تخلیق میں ابہام پیدا کرتا ہے۔ ایہام کو بطور صنعت
استعمال کرنا کم از کم میرے بس میں نہیں، میرے ہم قلم جانیں اور ان کی صلاحیتیں
جانیں۔
یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
اردو محفل : (۱۱) مملکت ِ ادب میں چلن عام ہے کہ
لکھنے والے بالخصوص نئی نسل اپنے کام کو ” ادب کی خدمت“ کے منصب پر فائز دیکھتی ہے
۔ کیا ایسا دعویٰ قبل از وقت نہیں ؟
اردو محفل : (۱۲) ادب کی
حقیقی معنوں میں خدمت کیا ہے ؟
یہ
دونوں سوال در اصل ایک ہیں۔ دوسرے سوال کا جواب بنیاد فراہم کرتا ہے۔ دیکھئے! بیس،
پچاس، سو، دو سو غزلیں کہہ لینا یا نظموں کی کتاب چھپوا لینا، بلاشبہ ایک کام ہے،
آپ کا شمار اہلِ قلم میں ہوتا ہے، آپ کو اعتماد ملتا ہے، ادب کے خزینے میں کچھ
عمدہ شاعری کا اضافہ ہوتا ہے۔ اسی بات کو نثر پر منطبق کر لیجئے۔ اس کام کو کام
تسلیم نہ کرنا قلم کار کے ساتھ زیادتی ہے۔
حقیقی
معنوں میں ادب کی خدمت یہ ہے کہ میں اور آپ کوئی ایسی طرح ڈال جائیں کہ بعد والوں
کو اسے قبول کرنے میں شرمندگی نہ ہو۔ ایسے ادبی مسائل پر بحث کریں جو ہنوز کسی
حتمیت تک نہیں پہنچے۔ اس میں نظم، نثر، تحقیق، تنقید، تنقیح کی تقسیم نہ کیجئے یہ
ایک ہمہ جہتی مسئلہ ہے۔ زبان پر کام کیجئے، عروض پر کام کیجئے، یا جو بھی آپ کا من
پسند شعبہ ہے اس میں کام کیجئے اور اس طرح کیجئے کہ جو مسائل آپ کو دقیق لگ رہے
ہیں اُن کو آنے والوں کے لئے آسان بنانے کی طرف پیش رفت کا سامان کر سکیں یا ایسی
پیش رفت کے لئے راہ ہموار کر جائیں۔ یہاں
ایک بات بہت اہم ہے۔ آپ کو اپنی ذات سے بالاتر ہو کر کام کرنا ہے پڑے گا، اور خود
اپنے ہی کئے ہوئے کام کے نتیجے میں اگر آپ کا اپنا کوئی نظریہ بھی غلط ثابت ہوتا
ہے تو اس کو غلط ماننا پڑے گا۔
اردو محفل : (۱۳) نظم کی بات الگ مگراسالیب ِ غزل
میں”لسانیاتی تداخل“ کے نام پرعلاقائی بولیوں، زبانوں بالعموم و بالخصوص انگریزی
زبان کے الفاظ زبردستی ٹھونسے جارہے ہیں، کیا غزل اس کی متحمل ہوسکتی ہے؟
اردو محفل : (۱۴) لسانیاتی
تشکیل اور اس کے عوامل کے جواز کے طور پر تہذیب و ثقافت سے یکسر متضاد نظریات کے
حامل بدیسی ادیبوں کے حوالے پیش کیے جاتے ہیں ۔۔ کیا زبانِ اردو اوراصنافِ ادب
مزید کسی لسانیاتی تمسخر کی متحمل ہوسکتی ہیں ؟؟
یہ
دونوں سوال بھی ’’مسلسل‘‘ ہیں۔ میں اپنی علاقائی زبانوں کے الفاظ قبول کرنے میں
کچھ قباحت نہیں سمجھتا۔ لیکن ایک شرط پر! بات چونکہ غزل کے حوالے سے ہوئی اور میں
نے خود اس کو اردو ادب کا عطر قرار دیا، تو عطر میں ملاوٹ؟ صرف اور صرف ایک صورت
میں قابلِ قبول ہے کہ اس کی مہک میں چاشنی آئے۔ آپ سندھی بلوچی پشتو پنجابی کشمیری
سے کوئی بھی لفظ لیجئے اگر استعمال کر سکتے ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ غزل کی
ملائمت قائم رہے، لفظ کھردرا محسوس نہ ہو اور معانی کی سطح پر بھی اپنا جواز رکھتا
ہو، تو درست۔ نہیں تو معذرت!
یہ بات
ہمیں کھلے دل سے تسلیم کرنی ہو گی کہ نہ صرف اردو بلکہ دنیا کی تمام زبانیں کئی
کئی زبانوں کے ایسے اختلاط سے وجود میں آئی ہیں جسے آپ آٹا گوندھنے سے تشبیہ دے
سکیں۔ آٹے میں آپ نمک مرچ، آلو، گوبھی کچھ بھی ڈال لیجئے پہلے اس کو باریک کرنا
ہوتا ہے اور پھر اس کو گیلا کر کے کوٹ پیٹ اور لپیٹ کے عمل سے گزارنا ہوتا ہے کہ
سب کچھ ایک دوسرے میں گھل مل جائے۔ ذائقہ ہر چیز کا اپنا اپنا رہے گا مگر اس کو
الگ نہیں کیا جا سکے گا۔ اور یہ عمل نسلوں بلکہ صدیوں میں ہوا کرتا ہے، جمعہ جمعہ
آٹھ دن یہاں مؤثر نہیں ہوتے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اردو میں اصلاً انیس سے
زیادہ بڑی زبانوں کی لفظیات اور محاورے ہیں جن میں سے اکثر کا ہمیں یہی پتہ ہے کہ
یہ اردو کا ہے اور بس۔ مقامی زبانوں کو آنے دیجئے لیکن ذرا سلیقے کے ساتھ۔
رہی
بات بدیسی زبانوں کی، پہلے ایک وضاحت کہ یہاں بدیسی سے سیاسی تقسیم مراد نہ لی
جائے۔ بارڈر لائنیں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں، وہ ہمارا موضوع نہیں۔ ہر وہ زبان
بدیسی ہے جو کسی دُور کی تہذیب سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں بھی کچھ الفاظ البتہ ایسے
ہو سکتے ہیں جو اردو میں یوں سما جائیں کہ اجنبیت کا احساس نہ ہو۔ پروفیسر انور
مسعود کی ایک اور بات یہاں بیان کرنے کے قابل ہے۔ انہوں نے کہا: ’’پنجابی میری
مادری زبان ہے، اردو میری قومی زبان ہے، فارسی میری تہذیبی زبان ہے اور عربی میری
دینی زبان ہے۔ مجھے ہر زبان اپنی اپنی سطح پر عزیز ہے‘‘۔
ہاں مجھے اردو ہے پنجابی سے بھی بڑھ کر عزیز
شکر ہے انور مری سوچیں علاقائی نہیں
انگریزی
فرانسیسی جرمن جاپانی میں تو غزل ہوتی ہی نہیں! غزل پر میرے لئے مولوی عبدالحق اور ڈاکٹر جمیل جالبی کی رائے کہیں زیادہ معتبر ہے اس قول کے مقابلے میں جو لارڈ بائرن،
موپساں وغیرہ کے حوالے سے بیان کیا جائے۔ انگریزی میں کہانی ہے، مختصر کہانی ہے؛
ان کے جو بھی خواص ہیں وہ اپنی جگہ درست، مگر انگریزی میں افسانہ نہیں ہے۔ کوئی دو
چار دس مختصر کہانیاں افسانے جیسی ہوں تو بھی یہ کہنا زیادتی ہے کہ افسانہ انگریزی
کی مختصر کہانی سے پیدا ہوا۔ ہائیکو جاپان والوں کا ادبی سرمایہ ہے، بجا اور یہ
بھی بجا کہ ان کے ہاں یہ صنف موضوع کے اعتبار سے ہے، ہیئت کے اعتبار سے نہیں۔ جیسے
ہمارے ہاں نظم میں حمد و نعت ہے، بہاریہ ہے، واسوخت ہے، غزل ہے، قصیدہ ہے۔ ستم
ظریفی دیکھئے کہ ہمارے دانشور اس کی ہیئت پر مصروفِ بحث ہیں اور اردو میں اس کے
اوزان کا تعین نزاع بنا ہوا ہے۔ صاحبو! جاپانی زبان کے تو میٹرز ہی ہم سے نہیں
ملتے۔ انگریزی کے میٹرز بھی اردو سے مختلف ہیں، تو پھر میں اپنی توانائیاں وہاں
صرف کیوں کروں؟ اگر مجھے میڑز پر ہی کام کرنا ہے تو مجھے اپنے موجودہ عروضی نظام
پر بات کرنی چاہئے۔ بجائے اس کے کہ چینی زبان کی سر اور لے کا اردو متبادل کیا ہے۔
رہی
بات لفظیات کی! اس کے پیچھے ایک طویل دور ہے جس میں ہم پر انگریز بھی مسلط رہا۔ اس
کے اثرات ہنوز زائل نہ ہوئے تھے کہ گلوبل ولیج کی تھیوری آ گئی۔ یہ دانشِ افرنگ کے
اثرات ہیں۔ ایک نظم دیکھی، لسانی حوالے سے بات کرتا ہوں۔ اس نظم میں بہت شاندار
تراکیب بڑی چابک دستی سے استعمال ہوئی تھیں، مگر نظم کا عنوان انگریزی میں تھا۔
میں ایسا نہیں سمجھتا کہ شاعر کے پاس عنوان کے لئے لفظ نہیں رہے ہوں گے۔ یہ اندازِ فکر دراصل ذہنی غلامی کا نمائندہ ہے۔
نظریات اس سے اگلا مرحلہ ہے۔ ایک بات یاد
رہے کہ نظریات کا اثر زبان پر سب سے زیادہ ہوا کرتا ہے، کوئی اس کو مانے یا نہ
مانے۔ تاہم اگر یہاں نظریات پر بحث چلتی ہے تو ہمارا موضوع رہ جائے گا۔ سو، اس کو
موقوف کرتے ہیں۔
اردو محفل : (۱۵) پاکستان کے تناظر میں بات کی
جائے پورے ملک بالخصوص دبستانِ لاہور سے پنجاب بھر میں رمزیات سے قطعِ نظر اسالیبِ
غزل میں مذہبی علامتوں تشبیہات کا دخول نظر آتا ہے ۔۔ کیا ایسا کرنا درست ہے ؟
دیکھا جائے تو غزل میں حمد و نعت، سلام، مناقب کے اشعار کا رجحان تیزی سے ترتیب پا
رہا ہے کیا ایسا کرنے سے خود غزل اور دیگر اصناف کی حیثیت مجروح نہیں ہوتی ؟
میں نے
عرض کیا نا، کہ نظریات کا اثر زبان پر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ سو، ایک مسلمان معاشرے
میں اسلام اور اسلامی معاشرت سے مطابقت رکھنے والی لفظیات تو آئیں گی۔ تشبیہ
استعارہ تاریخ اور روایات کی ہیرو شخصیات، اُن سے نہ میں بھاگ سکتا ہوں نہ آپ۔ میں
اس کو دخول کا نام نہیں دیتا۔ اپنی زبان کے پنپنے اور تشکیل پانے کے ادوار دیکھ
لیجئے، بات بالکل صاف ہو جاتی ہے۔
غزل کو
کچھ نہیں ہوتا صاحب! غزل میں بہت لچک ہے اور اس کی ریزہ خیالی والی خوبی اس کی بقا
کی علامت ہے۔ غزل میں سیاست، معیشت، روٹی، بھوک، جنس، ہوس، آزادی، سلاسل، حقِ
اظہار سب کچھ کی باتیں ہو سکتی ہیں تو پھر حمد و نعت اور سلام کے اشعار پر بھی
کوئی قدغن نہیں لگ سکتی۔ یہ جو شعری اصناف کی بات ہے، اس کو ہم دو پہلوؤں سے
دیکھتے ہیں۔ ایک ہیئت کا پہلو ہے: بیت، شعر، قطعہ، رباعی، غزل، مسدس، مخمس، سباعی،
خماسی، مثنوی، وغیرہ۔ ان میں کوئی بھی موضوع اور مضمون ہو سکتا ہے۔ دوسرا پہلو
موضوعات کے حوالے سے ہے: حمد، نعت، مرثیہ، منقبت، شہر آشوب، قصیدہ، ہجو، داستان،
وغیرہ تو یہ کسی بھی صنفِ شعر میں ہو سکتے ہیں۔ ہاں، غزل کو ایک خاص اہمیت یوں
حاصل ہے کہ یہ ایک ہیئت بھی ہے اور اس میں یہ دو مصرعوں میں ایک مضمون لانے کی
پابندی بھی ہے۔ آپ خاطر جمع رکھئے کسی صنف کی کوئی حیثیت مجروح نہیں ہو رہی۔
اردو محفل : (۱۶) محدود مشاہدے کے مطابق اسی کی دہائی کی نسل اور
نسل ِ نوکے ہاں عام طور پر اسے تصوف کی شاعری پر محمول کیا اور جتایا جاتا ہے
اسالیبِ شعری میں تصوف اور عرفیت کا غلغلہ چہ معنی دارد ؟
اردو محفل : (۱۷) کیا
مجازکی راہ سے گزرے بغیریہ نعرہ درست ہے؟ کیا محض تراکیب وضع کرنے اور مضمون
باندھنے سے تصوف در آتا ہے ؟ اور کیا ایسا ہونا لاشعوری طور پر زمیں سےرشتہ توڑنے
کا اشاریہ نہیں ؟
اس
معاملے میں میرا علم بہت محدود ہے، مجھے خاموش رہنے کی اجازت دیجئے۔
اردو محفل : (۱۸) تقسیمِ ہند کے بعداردو ادب میں
مختلف تحاریک کا ورود ہوا،اس سے کلاسیکیت کے نام بوسیدگی کو ادب گرداننے جیسے
نظریات کو خاصی حد تک کم کیا گیا۔ مگر بعد ازاں اخلاق، سماج ،ثقافت اور روایت سے
باغی میلانات نرسل کی طرح اگنے لگے اور بے سروپا تخلیقات انبار لگ گئے ۔۔کیا آپ
سمجھتے ہیں کہ موجود دور میں ادب کومزیدکسی تحریک کی ضرورت ہے ۔۔ ؟؟
شعر کے
معیار کے ضمن میں میری گزارشات آپ تک پہنچ گئیں۔ شکریہ
اردو محفل : (۱۹) نئے لکھنے والوں کے لیے فرمائیے
کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور کن باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے ؟؟
محسنات
اور منکرات کا سب کو پتہ ہے، محسنات کی طرف آئیے اور منکرات سے بچئے، زندگی میں
بھی، فکر میں بھی، فن میں بھی، اظہار میں بھی۔ ایک بات جو پہلے بھی ہو چکی اسی کا
دوسرا پہلو ہے کہ فضولیات اور لغویات سے پرہیز کیجئے اور اگر آپ نے شعر کہنے کی
ٹھان لی ہے تو مطالعہ بھی کیجئے۔ ادبی محفلوں میں جایا کیجئے، وہاں تحریک بھی ملتی
ہے اور تربیت بھی۔ اصلاح کا پہلا قدم اپنی غلطی کا ادراک اور اس کو غلطی تسلیم کر
لینے کی جرات ہے۔ اغلاط سے بچئے اور ان پر اَڑیے نہیں، ایسا کریں گے تو نقصان آپ
کو تو ہو سکتا ہے، کسی دوسرے کو نہیں۔
یاد
رکھئے کہ جدت روایت سے پھوٹتی ہے اور روایت سے منسلک رہ کر اپنی حیثیت بناتی ہے
گویا جدت روایت کے تنے سے پھوٹنے والی ایک شاخ ہے۔ اس کو پھلنے پھولنے کے لئے درخت
سے جڑے رہنا ہو گا، درخت سے الگ ہو کر وہ لکڑی یا ایندھن یا کچھ اور تو کہلا سکتی
ہے شاخ نہیں کہلا سکتی اور نہ زندہ رہ سکتی ہے۔ ادب میں اپنے سینئرز کی بات مانئے
یا نہ مانئے اُن سے ترش روئی نہ برتیے گا۔
اپنے
آپ سے کبھی جھوٹ نہ بولئے اور شعر میں کوئی ایسی بات کبھی نہ کیجئے جس کو آپ
سمجھتے ہیں کہ وہ غلط ہے۔ ایک بات میں ہر ایک سے کہا کرتا ہوں کہ ہم برے بھلے جیسے
بھی ہیں اولاً مسلمان ہیں، پھر پاکستانی اور پھر کچھ بھی! اپنی ان دونوں بنیادوں
کا پاس رکھئے۔ اور مسلمان اور پاکستانی کہلانے میں کسی احساسِ کمتری کا شکار نہ
ہوئیے۔
اللہ
میرا، آپ کا سب کا حامی و ناصر ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد یعقوب آسی: جمعۃ المبارک ۴ جنوری ۲۰۱۳ ع
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں