اتوار، 28 جون، 2015

تھا وہ اک یعقوب آسی ۔(8)۔


تھا وہ اک یعقوب آسی

شعبہ امتحانات میں میرے انچارج کیمسٹری کے ایک استاد محمود اختر صاحب ہوا کرتے تھے جن کو افسر انچارج امتحانات کی اضافی ذمہ داری دی گئی تھی۔ یوں کالج کے اس شعبے غریبڑے شعبے میں ریگولر افسر میں ہی تھا، باقی جونیئر سٹاف تھا۔ (محمود اختر صاحب دمِ تحریر کنٹرولر امتحانات کے فرائض انجام دے رہے ہیں، ان کا شخصی ذکر بعد میں آئے گا) ۔
کالج کی حیثیت سے ہم لوگوں کا کام تھا: امتحان لینا، رزلٹ تیار کرنا، کنٹرولر امتحانات (یو ای ٹی لاہور) سے اس کی منظوری حاصل کرنا اور نتائج کا اعلان کرنا۔ یہ دو لفظی کام ’’امتحان لینا‘‘ سٹاف کے لئے ہر چھ ماہ بعد زندگی کا امتحان دینے والی بات تھی۔ اس کا تو خیر کوئی گلہ نہیں کیا جا سکتا، اپنا کام جو ٹھہرا۔ ’’گل پیا ڈھول وجانا پیندا اے‘‘، نالے آپ گل پایا سی کسے نے منتاں تے نہیں سی کیتیاں نا!۔ کنٹرولر صاحب کبھی خود ٹیکسلا چلے آتے، کبھی اپنے عملے سے دو تین سینئر اور تجربہ کار لوگوں کو بھیج دیتے اور کبھی مجھے سارے پلندے اٹھا کر لاہور جانا ہوتا۔

ڈاکٹر علوی صاحب جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا افسر سے زیادہ بزرگ تھے۔ اپنے عملے کے ساتھ بھی’’ بزرگانہ سختی‘‘ سے پیش آتے۔ کبھی کسی چھوٹی سی بات پر گوشمالی کر دیتے اور کبھی اچھی بھلی غلطی کو نظرانداز کر دیتے۔ انضباطی کارروائی کی کبھی نوبت نہ آتی۔ اپنے سٹاف سے بزرگانہ توقعات وابستہ کئے ہوئے تھے، سو بعض مواقع پر وہ ناراض ہونے کی بجائے ’’رُوٹھ جاتے‘‘۔
ایک دن کوئی بارہ بجے کے لگ بھگ مجھے طلب کیا اور کہا: ’’تازہ امتحانات کا ریکارڈ لے کر تیار ہو جاؤ، دو بجے تم میرے ساتھ لاہور جا رہے ہو‘‘۔
متعلقہ ریکارڈ الگ کرنے، ترتیب لگانے اور پَیک کرنے میں دو گھنٹے لگ گئے۔ ریکارڈ کو پارک میں کھڑی ان کی کار کے پاس رکھا ہی تھا کہ ڈاکٹر صاحب آگئے۔ ’’ہاں بھئی! تیار؟‘‘
’’جی، تیار!‘‘
’’چلتے ہیں بسم اللہ‘‘۔ کیمپس سے نکل گئے تو بولے: ’’کھانا کھا آئے ہو؟‘‘۔
کہا: ’’نہیں سر، ٹائم ہی نہیں تھا، راستے میں کہیں کھا لیں گے‘‘۔
 ’’دیکھو! میرے کمرے میں صرف میرا کھانا رکھا ہو گا، وہ ایک آدمی کے لئے کافی ہوتا ہے، اپنا بندوبست تمہیں خود کرنا ہو گا‘‘۔
 ’’جی، میں نے کہا نا راستے میں کہیں کھا لیں گے‘‘۔
ان کی رہائش ایک اور ادارے کے ہاسٹل میں تھی، کمرے میں پہنچے، کھانا میز پر رکھا تھا۔ بولے ’’آؤ شامل ہو جاؤ‘‘۔
 ’’نہیں سر، شکریہ! میں راستے میں کھا لوں گا‘‘۔
 ’’ناراض ہو گئے ہو؟ آؤ شامل ہو جاؤ!‘‘ دو اسم با مسمٰی پھلکیاں تھیں، اور ایک پیالی میں گوشت کا سالن، ذرا سا شوربہ اور دو بوٹیاں۔ ’’یہ لو، ایک روٹی تمہاری، ایک میری، ایک بوٹی تمہاری ایک میری!‘‘۔
 نہ کوئی تکلف نہ تردد، نہ کوئی افسری نہ ماتحتی! ایک بزرگ ایک برخوردار، اور بس! یہ ضرور تھا کہ میں نے ان کے سامنے کبھی سگرٹ نوشی نہیں کی، ڈر نہیں تھا، حیا آتی تھی۔

لاہور تک جی ٹی روڈ پر پانچ چھ گھنٹے کا سفر تھا، ان دنوں ابھی موٹر وے نہیں بنی تھی۔ راستے میں ادھر ادھر کی کچھ سرکاری، کچھ ذاتی ملی جلی گفتگو چلتی رہی۔ گفتگو تو ساری پنجابی میں ہوئی (وہ بھی پنجابی بولنے میں سہولت محسوس کرتے تھے اور میں بھی) تاہم اپنے دوستوں کے لئے اردو میں مرتب کر رہا ہوں۔ اسی گفتگو سے دو حصے ملاحظہ ہوں:
۔۔
’’یہ بتاؤ کہ تمہاری احسان سے کیوں نہیں بنتی؟‘‘
’’میری تو بنتی ہے، ان کی نہیں بنتی‘‘
’’کیوں‘‘
’’یہ آپ انہی سے پوچھ لیجئے گا‘‘
’’تم کچھ نہیں بتاؤ گے؟‘‘
’’نہیں، مناسب نہیں ہے! ان کی اپنی سوچ ہے میری اپنی ہے۔ میں نے کبھی آپ کے پاس ان کی کوئی شکایت کی؟‘‘
’’نہیں کی نا، تبھی تو پوچھ رہا ہوں!‘‘
’’چھوڑئیے سر، کوئی اور بات کیجئے‘‘
۔۔
شاہدرہ کے قریب پہنچے تو میں نے کہا: ’’مجھے بتی چوک میں اتار دیجئے گا‘‘
’’کیوں، کہاں جاؤ گے؟‘‘
’’میں اوکاڑا جاؤں گا‘‘
’’اور تمہارا ریکارڈ؟‘‘
’’گاڑی میں پڑا ہے نا، صبح آپ بھی یونیورسٹی (انجینئرنگ یونیورسٹی، لاہور) آئیں گے، میں بھی پہنچ جاؤں گا۔‘‘
’’یہاں کسی ہوٹل میں رات گزار لو۔‘‘
’’نہیں سر، کمرے کا کرایہ اور بس کا کرایہ تقریباً برابر ہیں۔ وہاں بہن کے ہاں جاؤں گا، اور کوشش کروں گا کہ آٹھ بجے تک یونیورسٹی پہنچ جاؤں‘‘
’’دیکھ لو یار، دیر ہو سکتی ہے۔‘‘
’’ہو نے کو تو ایکسیڈنٹ بھی ہو سکتا ہے، بہرحال میں پہنچ جاؤں گا ان شاء اللہ۔‘‘
’’اگر تمہیں دیر ہو جائے تو نگار شاہ کے دفتر سے اپنا ریکارڈ اٹھا لینا‘‘۔
’’یہ تو اور بھی اچھی بات ہے، سر۔ مجھے وہیں تو کام کرنا ہے، نگار شاہ کو پہلے چیک کرانا ہے‘‘
۔۔۔
  
وقت گزرتا رہا، زندگی کی شیرینیاں اللہ کے فضل و کرم سے بڑھتی چلی گئیں اور تلخیاں خاصی کم ہو گئیں۔ تاہم یہ زندگی کا اہم جزو تو ہیں نا، سو اِن کا ہونا ایک اعتبار سے شیرینیوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، اللہ کریم جس کو شکر کرنے کی جتنی توفیق عطا فرمائے۔ ’’احسان صاحب‘‘ جیسی شخصیات کم و بیش ہر دفتر میں پائی جاتی ہیں، احسان ایک الگ چیز ہے۔

یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ ٹیکسلا در اصل ایک حصہ یا سب کیمپس تھا یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کا، اور کالج کے پرنسپل کا مرتبہ تعلیمی معاملات میں ڈِین آف فیکلٹی کے برابر تھا، جب کہ انتظامی امور میں وہ براہِ راست یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو جواب دِہ تھے۔ اساتذہ کی بھرتی میں وہ ڈین کی حیثیت سے اپنی سفارشات وی سی صاحب کو پیش کرتے جو عام طور پر منظور کر لی جاتیں۔ انتظامی افسروں کی تعیناتی کا سارا دفتری عمل یونیورسٹی کے رجسٹرار صاحب کیا کرتے۔ سیلیکشن بورڈ کی سفارش پر وی سی صاحب یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے ایماء پر تعیناتی کا حکم جاری کر دیتے جو بعد میں عام طور پر منظور کر لیا جاتا۔

کالج کو اسسٹنٹ رجسٹرار (سیکشن آفیسر کے برابر) کی ایک نئی پوسٹ مہیا کی گئی تو کوٹہ کے مطابق کالج کے ملازمین سے درخواستیں طلب کی گئیں۔ ظاہر ہے میں نے بھی درخواست داخل کر دی۔ میرے ایک محسن جو اُس وقت ایڈمن افسر (برابر: آفس سپرنٹنڈنٹ) واحد افسر تھے جو مجھ سے سینئر تھے مگر ان کی رسمی تعلیم مقررہ درجہ کی نہیں تھی۔ ایک طویل چکربازی کا حاصل یہ ہوا کہ موصوف نے پہلے تو مجھے ورغلایا کہ یہاں پروموشن ملنی چاہئے اور از خود ملنی چاہئے وغیرہ، پھر میرے دیگر ساتھی افسران کو میرے خلاف اکسایا اور اس بات پر تیار کیا کہ مجھے انٹرویو کے لئے جانے سے روکا جائے۔ اس ’’خیرسگالی‘‘ وفد کے سربراہ ہم لوگوں کی اپنی ایسو سی ایشن کے صدر تھے، اللہ کریم ان کو غریقِ رحمت کرے۔ وفد سے مذاکرات ناکام ہو گئے تو میں انٹرویو کال کی تعمیل میں اگلے دن سیلیکشن بورڈ کے سامنے حاضر ہو گیا۔

کوئی ایک مہینے کی رسمی کارروائی کے بعد مجھے تقرری کا پروانہ مل گیا۔ اس وقت تک ڈاکٹر علوی صاحب اور ان کے بعد ایک پروفیسر منظور صاحب ریٹائر ہو چکے تھے اور پرنسپل کے عہدے پر ہمارے ہی کالج کے ایک سینئر پروفیسر صاحب متمکن تھے۔ میرے محسنوں نے پرنسپل صاحب کو کسی طور قائل کر لیا کہ اس شخص کی تقرری کالج نے نہیں یونیورسٹی نے کی ہے، سو، یہ جائیں اور رجسٹرار صاحب کو جا کر رپورٹ کریں۔ پرنسپل صاحب نے یہی بات مجھے بطور ہدایت کے فرما دی تاہم زبانی۔ میں نے عرض کیا کہ جناب یہی بات مجھے تحریری طور پر عنائت کر دیں تا کہ میں رجسٹرار صاحب کو پیش کر سکوں یا رجسٹرار صاحب کے نام ایک خط لکھ دیں اور اس کی نقل مجھے فراہم کر دیں۔ ظاہر ہے یہ نہ ہونا تھا نہ ہوا، میری جائننگ البتہ دو تین ہفتے تک کھٹائی میں پڑی رہی۔ ایک دن خود پرنسپل صاحب نے بتایا یہ آج شام کو رجسٹرار صاحب یہاں آ رہے ہیں، اپنی فائل لے آئیے گا، ان سے ہدایت لئے لیتے ہیں۔ رجسٹرار صاحب نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا کہ جناب جائننگ نہ لینے کی کوئی وجہ موجود نہیں تو یہ تاخیر کیوں ہوئی؟ پرنسپل صاحب نے اسی وقت میری تقرری کے خط کے مطابق میری جائننگ قبول کر لی۔

چلئے اپنی نوعیت کا ایک اور تجربہ سہی۔ بعد ازاں جلد ہی کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ اور کالج کا سارا عملہ نوزائیدہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا کا عملہ قرار پایا۔ بعد کو ایک اصطلاح بھی چلی کہ یہ سٹاف یونیورسٹی کو میکے سے ملا ہے۔ تعلیمی اداروں کے انتظامی امور سے تعلق رکھنے والے احباب کے لئے ’’مدر یونیورسٹی‘‘ اور ’’مدر کیمپس‘‘ کی اصطلاحات اجنبی نہیں ہیں۔

یونیورسٹی بنی تو کچھ نئے انتظامی شعبے بھی بنے جو کالج میں ضروری نہیں ہوتے۔ کچھ شعبوں کو ذیلی شعبوں میں تقسیم کیا گیا اور ملازمین کو ایک سے دوسرے شعبوں میں ٹرانسفر کیا گیا، یہ ایک بالکل منطقی امر تھا۔ مجھے شعبہ امتحانات سے اٹھا کر انتظامی امور کے شعبے میں بھیج دیا گیا۔ یوں میں پھر ایک بار مرکزی انتظامی دھارے میں شامل ہو گیا۔ لاہور سے ایک پروفیسر صاحب ڈیپوٹیشن پر یہاں آئے اور ان کو اس نوزائیدہ یونیورسٹی کے اولین رجسٹرار کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی اور یوں وہ میرے امیڈیٹ باس بن گئے۔

یہاں ایک اور خشک سی بات ہو جائے کہ اس کی اہمیت بعد کے معاملات میں بہت ہے۔ ہمارے اولین رجسٹرار صاحب چونکہ باہر سے آئے تھے، اس لئے یہاں کے امور اور ماحول میں وہ پہلے تو خود کو اجنبی محسوس کرتے رہے، پھر کچھ کچھ مانوس ہوئے تو ان کے ذہن میں یہ چیز بیٹھ گئی کہ جو کام رعب داب سے نکل سکتا ہے وہ تحمل مزاجی سے نہیں نکل سکتا۔ ان کی بات اپنی جگہ درست بھی ہو تو یہ ضرور ہوتا ہے کہ رعب داب کے ماحول میں کوئی بھی شخص آگے بڑھ کر کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتا، اس پر ڈالنی پڑتی ہے اور کام کی رفتار جو بھی رہے کام کی کوالٹی ضرور متاثر ہوتی ہے۔ ادھر ہمارے یہاں کم و بیش سارا عملہ کوئی دو دہائیوں سے مل کر کام کر رہا تھا، اس لئے بہت سارے افسران اور سٹاف ایک دوسرے کے مزاج آشنا بھی تھے اور اعتماد کی ایک اچھی فضا بنی ہوئی تھی۔ میری اپنی بات نہیں، عام طور پر رجسٹرار صاحب کے اس رویے پر بد دلی کی فضا پیدا ہونے لگی تو موصوف نے ایک اور نظریہ بنا لیا کہ ’’ٹیکسلا والے سب بے ایمان ہیں‘‘ جو یقیناً ایک غیر مثبت سوچ تھی۔

ایک موقع پر میرا کام شاید ان کی توقع کے مطابق نہیں تھا، خاصے چیں بہ جبیں ہوئے اور کہنے لگے:’’آسی صاحب! آپ کا قصور نہیں ہے، ٹیکسلا والے سب بے ایمان ہیں‘‘۔ میرے دو تین ہم منصب لوگ اور بھی موجود تھے۔ میں نے جبراً ہنستے ہوئے کہا: ’’نہیں سر! باہر سے آ جاتے ہیں‘‘۔

بارے یوں بھی ہوا کہ میں نے ایک فائل پیش کی۔ صاحب نے وہی جملہ کہا: کہ ’’ٹیکسلا والے سب بے ایمان ہیں‘‘ اور فائل پوری قوت سے دفتر کے ایک کونے کی طرف پھینک دی۔ ایک دو لوگ اور بھی موجود تھے۔ کوئی کچھ نہیں بولا اور میں ۔۔ میں فوراً دفتر سے باہر نکل گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے پرانے ساتھی چوہدری مشتاق صاحب نے وہ فائل سمیٹ سماٹ کر صاحب کو پیش کی اور انہوں نے اسی آفس نوٹ کو (جسے پڑھ کر اپنا محبوب تبصرہ ارشاد فرمایا تھا اور فائل اڑا کر پھینکی تھی) منظور فرما دیا۔ کوئی گھنٹے ڈیڑھ بعد ان کا غصہ فرو ہوا تو مجھے طلب کیا اور رسمی طور پر معذرت کی (نہ بھی کرتے تو کیا تھا)۔ میں نے جواب میں اتنا کہا کہ ’’آپ کہنے کو جو مرضی کہہ دیتے، فائل کو یوں پھینکنا میرے اور آپ کے دونوں کے وقار کے منافی تھا‘‘۔ اس کے بعد میں نے ان کے عمومی رویے میں واضح تبدیلی محسوس کی اور پھر ہمارے مابین اعتماد کی بہت عمدہ فضا بن گئی۔ 


سالانہ خفیہ رپورٹیں لکھنے کا موقع آیا تو مجھے کہنے لگے: میرے عملے کی رپورٹیں بھی آپ لکھ دیں۔ واللہ اعلم یہ اعتماد تھا یا کوئی امتحان تھا یا کیا تھا، بہر حال میں نے معذرت کر لی اور کہا کہ قاعدے کے مطابق وہ آپ کا سٹاف (تین لوگ : ایک سٹینو، ایک کلرک، ایک چپراسی) ہے ان کی رپورٹوں پر صرف اور صرف آپ کے دستخط ہو سکتے ہیں۔ کہنے لگے اچھا ٹھیک ہے آپ لکھ دیں میں دستخط کر دوں گا۔ اب میرے پاس فرار کا راستہ نہیں تھا، سو میں نے ان تینوں لوگو کی خفیہ رپورٹیں کچھ پنسل سے لکھ دیں اور رجسٹرار صاحب کے پاس لے گیا۔ کہنے لگے ٹھیک لکھا ہے اس کو پکا کر دیں۔ عرض کیا: پکا آپ کریں گے۔ وہ ہنس پڑے اور کچی پنسل کے لکھے کے اوپر بال پوائنٹ پین سے لکھ کر دستخط کر دئے۔ ایک اور امتحان یا شاید سوال برائے سوال؟ میں اس کی نوعیت کو نہیں سمجھ رہا تھا، بہر حال۔ کہنے لگے : آپ کو کیسے اندازہ تھا کہ میں اسی طرح کی رپورٹ لکھوں گا۔ عرض کیا: مجھے آپ کے لکھنے یا اندازے سے کیا غرض! میں نے تو اس مفروضے کے تحت لکھا ہے کہ یہ تینوں میرے ماتحت ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں