اتوار، 28 جون، 2015

تھا وہ اک یعقوب آسی ۔(9)۔



تھا وہ اک یعقوب آسی



ایک دن عین دوپہر کے وقت، دفتر سے چھٹی کے فوراً بعد سوچا کہ سودا سلف لے آؤں پھر کچھ دیر آرام کروں گا۔ مشرقی گیٹ پر ایک ’’بزرگ جوان‘‘ سے ملاقات ہو گئی۔ چہرے بشرے سے کوئی ساٹھ کے پیٹے میں لگتے تھے؛ خشخشی داڑھی اور بھاری مونچھیں، چوڑا اور پر رعب چہرہ، سر پر ایک بڑا سا سفید رنگ کا پگڑ، سفید کرتا اور تہ بند، پاؤں میں گول سروں والا کھسہ، کندھے پر دو ڈھائی فٹ کی سوٹی (ڈنڈا) جس کے سرے پر ایک چھوٹی سی گٹھڑی تھی۔ مجھے روکا اور اپنے مخصوص لہجے میں پوچھا: یہیں رہتے ہو؟ کہا: ہاں، بولے: میں کرم الٰہی نوں ملنا اے۔ میں سوچنے لگا کہ یہ کون صاحب ہیں، کرم الٰہی۔ بزرگ بولے: وڈا ماشٹر لگا ہوئیا اے؛ میں سمجھ گیا کہ ڈاکٹر کرم الٰہی درانی، وائس چانسلر کا پوچھ رہے ہیں۔ بہت کم لوگوں کو ان کے پورے نام کا علم تھا۔ 

میں نے ان کو راستہ سمجھاتے ہوئے بتایا کہ یہاں ان کو کرم الٰہی کے نام سے کوئی نہیں جانتا۔ اور یہ بھی کہ وہاں ان کے باہر والے دروازے پر ایک کیبن بنا ہوا ہے جس میں ایک وردی والا بندہ بیٹھا ہو گا، اس سے کہیں کہ وڈے صاحب سے ملنا ہے۔ انہوں نے ’’ہلا!‘‘ کہا اور ہم اپنی اپنی راہ پر ہو لئے۔ اگلے دن وہ واپس جا رہے تھے کہ مجھ سے اتفاقاً ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور مصافحہ کر کے رخصت ہو گئے۔

 ڈاکٹر درانی صاحب بہت تھوڑا عرصہ (تقریباً ڈیڑھ سال) تک یہاں رہے، ان کے بعد انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے ایک سول انجینئر ڈاکٹر محمد شریف بھٹی صاحب یہاں وائس چانسلر بن کر آئے۔ ڈاکٹر بھٹی صاحب کا تعلق اوکاڑا سے ہے۔ ان کی جو بات مجھے سب سے اچھی لگی وہ پنجابی بولنے میں سہولت محسوس کرتے اور جہاں تک ممکن ہوتا، دفتر ہو، گھر ہو، میٹنگ میں ہوں؛ پنجابی میں بات کرتے (پروٹوکول وغیرہ کی بات دوسری ہے)۔

 ڈاکٹر بھٹی صاحب نے پہلی تبدیلی یہ کی کہ رجسٹرار کی ذمہ داری یہاں کے ایک پروفیسر مختار حسین ساحر صاحب کو تفویض کر دی۔ ساحر صاحب کی شخصیت میں کچھ ساحرانہ چیز ضرور تھی، جس کا مجھے تجربہ تب ہوا جب وہ میرے باس بن کر آن بیٹھے۔ ان کا تعلق کھیوڑا سے ہے۔  وہ اردو بول رہے ہوں، انگریزی بول رہے ہوں یا پنجابی؛ ان کا لہجہ کھیوڑے کی خوش گوارنمکینی لئے ہوئے ہوتا ہے۔ سگریٹ ان کا ٹریڈ مارک کہا جاتا ہے؛ خود کہتے ہیں: میں چالیس سے پچاس سگریٹ روزانہ پیتا ہوں۔ ایک بار کسی کے کہنے پر کہ آپ جب اتنے سگریٹ پیتے ہیں تو ایک ایک ڈبی کر کے منگوانے کی بجائے پورا ڈنڈا (دس ڈبیاں اکٹھی) منگوا لیا کریں؛ وہ لے آئے۔ اگلے دن کہنے لگے: نہیں یار، ایہ نہیں ٹھیک میں راتیں تِن ڈبیاں (ساٹھ سگریٹ) پی گیا۔ سونے اور کھانے پینے کے اوقات کے علاوہ وہ ہوتے ہیں اور سگریٹ ہوتا ہے۔ لیکچر تھیٹر کا ایک گھنٹہ یا کوئی میٹنگ وغیرہ جس میں وی آئی پی شریک ہوں ان پر صرف اس ایک لحاظ سے بھاری گزرا کرتا ہے۔ سادہ مزاج اتنے ہیں کہ ان کے پاس سگریٹ ختم ہو گئے ہوتے تو اپنے چپراسی سے مانگ لیتے۔ اور جب منگواتے تو ایک ڈبی اسے ویسے ہی دے دیتے۔
  
دیگر بہت سے نئے شعبوں میں ایک اے اینڈ آر برانچ تھی (اکیڈمک اینڈ ریگولیشنز)۔ جس کی منظوری ہو چکی تھی مگر کام شروع نہیں ہوا تھا۔ ساحر صاحب نے یہ شعبہ مجھ پر ڈال دیا اور انتظامی امور میں بھی میری ذمہ داریاں اول اول تو برقرار رہیں پھر کم ہوتی چلی گئیں۔ میری برانچ کی بنیادی ذمہ داری تھی: یونیورسٹی کے قواعد اور قوانین کا مطالعہ اور ان میں ترامیم وغیرہ کی سفارش کرنا، تعلیمی معاملات میں باہمی رابطہ، یونیورسٹی کے مختلف اداروں مثلاً سیلیکشن بورڈ، اکیڈمک کونسل، سنڈیکیٹ کے اجلاسوں کی تیاری، انعقاد اور ان کے فیصلوں پر عمل درآمد، سرکاری اداروں محکمہ تعلیم پنجاب، وزارت تعلیم وفاق اور دیگر یونیورسٹیوں اور اداروں کے درمیان روابط اور تعاون، پنجاب اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے ملنے والے سوالوں کے جوابات، یونیسکو اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں سے معاملات؛ وغیرہ۔ خاص مشکل کام تھا، تاہم کرنا تھا! سو، چل سو چل۔ ہوتے ہوتے سب کچھ ہوتا چلا گیا تو یونیورسٹی کے پراسپیکٹس اور دیگر مطبوعات کا کام بھی مجھے سونپ دیا گیا۔

اس میں دو چیزیں نمایاں طور پر واقع ہوئیں۔ اول تو یہ کہ میرے پاس فراغت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ دن کے علاوہ شام کو بلکہ رات گئے تک کسی بھی وقت وی سی صاحب کی طرف سے ’’آسی صاحب حاضر ہوں!‘‘ کا بلاوا آ سکتا تھا۔ دوم یہ کہ اتنی ساری ذمہ داریوں نے جہاں اعلٰی انتظامیہ میں میرا اعتماد بنایا وہیں میرے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی اور بڑھتی چلی گئی۔ ڈاکٹر بھٹی صاحب کا ایک بہت ہی خاص فلسفہ تھا جس کا اعلان بھی وہ وقتاً فوقتاً کیا کرتے کہ ’’جو کام جلدی کرنا ہو، وہ کسی ایسے شخص پر ڈال دو جس کے پاس پہلے ہی بہت کام ہے‘‘ اور اس پر خود ہی ہنسا بھی کرتے۔ میں نے ایک دن کہہ دیا: سر، اوہ تے کم نوں مگروں لاہن دی کرے گا، جیہو جیہا اوہ ہووے۔ بولے: نہیں، اوہنوں کم دی عادت ہوئی ہوندی اے، اوہ وگاڑے گا نہیں پئی پھر میرے تے ای آنا اے! اوہ ٹھیک کم کرے گا تے اپنے دوجے کماں پاروں چھیتی کر کے جان چھڈائے گا۔ میں نہ رہ سکا، کہا: سر، تے اوہ رانجھے؟ اوہ ویہلے ٹیٹنے مارن نوں؟ بولے نہیں ویہلے کیوں! اونہاں نوں کوئی ایہو جیہا کم دیو جیہڑا اوہناں دی سرکاری حیثیت توں تھلے دا ہووے۔ ویکھو ٹھیک ہوندے نیں کہ نہیں! جھاڑ جھمب دی لوڑ کیہ اے!

ڈاکٹر بھٹی صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے ماتحتوں کی عزتِ نفس کا بہت پاس کیا کرتے تھے۔ پروفیسر عبدالوہاب خان کی طرح تو نہیں البتہ خاصے متحمل مزاج تھے۔ میں نے ان کو غصے کی حالت میں بہت کم دیکھا۔ کسی کی ’’مرمت‘‘ مقصود ہوتی تو طنز اور مزاح کا انداز اختیار کرتے، حتی الامکان کسی کے خلاف تحریری کارروائی کی نوبت نہ آنے دیتے۔ کہا کرتے تھے کہ آپ کی فائل میں لکھا ہوا ایک ایک جملہ آپ کے ریٹائر ہو جانے کے بعد بھی آپ کے ساتھ رہتا ہے، کوشش کریں کہ آپ کی فائل صاف رہے۔ انہیں معلوم تھا کہ کس دفتر یا تعلیمی شعبے میں کس شخص کے ذمے کیا کام لگایا گیا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ کون شخص کتنا اہل ہے، اور اس کے رجحانات کیا ہیں۔ خصوصی ذمہ داریوں کی تقسیم میں وہ اسی بات کو بنیاد بناتے تھے۔ انتظامیہ کے چار بڑے شعبوں: امورِ ملازمت، امتحانات، مالیات اور امورِ طلبا میں سیکنڈ لائن افسروں پر کڑی نظر رکھتے۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے: ’’آسی صاحب، کدی کوئی خبر شبرای دے دیا کرو‘‘۔ عرض کیا: ’’تہانوں پتہ اے سر، نہ میرا ایہ مزاج اے تے نہ میرے کول ٹائم اے، اُنج وی تہاڈے کول ہور تھوڑے لوکی نہیں خبراں دین والے؟‘‘۔ ہنس کر خاموش ہو رہے۔

اپنے محسنوں میں ایک ملک صاحب اور ایک کھوکھر صاحب بھی تھے، مجھ سے پہلے سرکاری طور پر بزرگ قرار پائے۔ بارے یہ تینوں وی سی آفس میں طلب کئے گئے تھے، جب میری بھیجی ہوئی ایک فائل پیش کی گئی تھی، اس میں کچھ غلطی تھی۔ ڈاکٹر بھٹی صاحب نے اپنی عادت کے مطابق کہا: ’’اوہ، غلطی ہو گئی! بلاؤ آسی صاحب نوں!‘‘ میرے محسن بھلا اس موقع کو کیسے جانے دیتے، فوراً تبصرہ فرمایا: ’’کم کردا ای کوئی نہیں دھیان نال، مگروں لاہن تے ہوئے نیں وڈے ذمہ دار‘‘۔ میں حاضر ہوا تو وی سی صاحب نے کہا: ’’آسی صاحب، غلطی کر گئے او۔‘‘ ’’ہو سکدی اے سر، میں پھر دیکھ لیندا آں‘‘۔ اس پر اُن کا جملہ ریکارڈ رکھنے کے قابل ہے۔ کہنے لگے: ’’ہاں، یار! اک بندہ کم کردا اے، اوہ غلطی وی کرے گا۔ تے جنہے کم ای نہیں کرنا، اس نے غلطی وی کیہ کرنی اے!! ہیں جی، ملک صاحب؟ کھوکھر صاحب تسیں کیہ کہندے او؟ ۔۔۔ تسیں جاؤ جی آسی صاحب، میں فائل پڑھ کے بھجوا دیاں گا‘‘۔ بعد میں پتہ چلا کہ ٹائپنگ کی ایک دو غلطیاں تھیں، اور کچھ بھی نہیں تھا۔ اہم اور کریٹیکل معاملات میں وہ فائل بھیجنے والے افسران کو پہلے طلب کر لیتے اور کیس پڑھنے کے ساتھ ساتھ کئی کئی سوال کیا کرتے، مطمئن ہوتے تو دستخط کرتے نہیں تو فائل واپس کر دیتے۔

ستمبر کے دن تھے۔ دن کو قدرے تپش ہوتی اور رات کو ٹھنڈک ہو جاتی۔ کوئی ساڑھے نو بجے کا عمل ہو گا، میں نیم خوابیدگی کے عالم میں بستر میں دبکا ہوا تھا، گھر والی بچوں شاید کچن میں برتن دھو رہی تھی، فون کی گھنٹی میں نے بھی ہلکی سی سنی ضرور! اور ۔۔۔ گھر والی نے مجھے جگایا کہ: کوئی شریف صاحب ہیں، بات کرنا چاہ رہے ہیں، کہہ رہے ہیں ’’میں شریف بول رہا ہوں‘‘۔ میں اٹھا، فون سنا، ڈاکٹر محمد شریف بھٹی وائس چانسلر صاحب لائن پر تھے: ’’ستے پئے سو؟ جاگ گئے او تے پھر آ جاؤ ذرا‘‘۔ ان کی رہائش بھی قریب ہی (سامنے والے گھر کے پچھواڑے) تھی ۔ میں سکیورٹی گارڈ سے علیک سلیک کر رہا تھا کہ اندر سے آواز آئی: ’’آ جاؤ!!‘‘ 
بھٹی صاحب بازوؤں والی بنیان اور دھوتی پہنے ہوئے، ہاتھ میں کالے رنگ کا ایک بڑا سا مگ تھامے، گھر کے لان میں ٹہل رہے تھے۔ کہنے لگے: ’’کافی پی رہیا آں، پیو گے؟ ہور بنواواں؟‘‘ 
کہا:’’نہیں جی رہن دیو، انج وی میں کافی دا عادی نہیں آں‘‘۔ لان میں لوہے کی آرام کرسیاں بچھی تھیں۔
 ’’ٹھہرو میں بیٹھک کھلوانا آں‘‘۔
 ’’جے کوئی لمی گل اے تے کھلوا لئو نہیں تے ایتھے ای ٹھیک اے‘‘ ۔
’’چلو ٹھیک اے‘‘ وہیں کرسیوں پر بیٹھ گئے، سنڈیکیٹ کی آنے والی میٹنگ کے انتظامات اور ایجنڈے کے حوالے سے گفتگو ہوئی جو بہت طویل تو نہیں تھی، مگر خاصا وقت لے گئی۔

ایک اور شام، مغرب کی نماز کے بعد مسجد سے لوٹے تو میرے دروازے کی گھنٹی بجا دی۔ میں باہر نکلا، کہنے لگے: آؤ ذرا! میں ان کے ساتھ ہو لیا، اور وہیں گلی میں ٹہلتے ہوئے کچھ پیشہ ورانہ امور پر باتیں ہوتی رہیں۔ باتوں باتوں میں ہم ان کے گھر کے دروازے تک چلے گئے۔ باہر کھڑے تھے کہ دو نوجوان لڑکے پاس سے گزرے، انہوں نے سلام کہا، ہم نے جواب دیا، لڑکے چلے گئے تو پوچھنے لگے: ’’کون نیں ایہ؟ کیہ کردے نیں؟‘‘ میں نے بتایا کہ یہ ہمارے سٹاف ممبروں کے برخوردار ہیں اور انہوں نے ایف ایس سی کا امتحان دیا ہوا ہے۔ بولے: ’’ایہ شلوار قمیض والا مینوں کچھ بدتمیز لگا اے، دوجا ٹھیک اے! ایہ کیہدا پتر اے شلوار قمیض والا؟‘‘ میں نے اس کے والد صاحب کا نام بتایا۔ ہنستے ہوئے کہنے لگے:’’پھر ٹھیک اے‘‘۔ ان کا مشاہدہ بہت درست تھا، وہ لڑکا واقعی بدتمیز واقع ہوا تھا۔

بہت بعد کی بات ہے میں دوبارہ شعبہ امتحانات میں جا چکا تھا (بہ حیثیت ڈپٹی کنٹرولر)۔ ہمارے ایک اور ساتھی کا بیٹا انجینئرنگ کا طالب علم تھا، ایک دن کسی کام سے میرے دفتر میں آیا ’’چاچا جی السلام علیکم‘‘ کام کی بات کی چلا گیا۔ کوئی سال بھر بعد اتفاق سے سرِ راہ مل گیا تو ’’سر، السلام علیکم‘‘ میں نے سوچا کچھ تبدیلی آ گئی ہے۔ کچھ مہینوں بعد پھر ملا تو: ’’آسی صاحب، السلام علیکم‘‘۔ میں نے سوچا اب کے کوئی اس کی ٹھکائی کرے گا، اور ایسا ہی ہوا۔ کچھ ہی دنوں میں طلبا کا آپس میں جھگڑا ہوا اور کچھ لڑکوں نے اس کی دھنائی کر دی۔ کچھ دن ہسپتال میں بھی رہا، پھر ایک دن میرے دفتر میں آیا تو: ’’چاچا جی السلام علیکم‘‘۔ نوجوانوں کے رویوں میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اپنا رنگ تو دکھاتی ہیں نا!

اس سے آگے؟ سرنوشت کا سلسلہ موقوف
خبر لو ساکنانِ رہگزر کی
کہیں گردِ سفر باقی نہیں ہے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں