بدھ، 24 جون، 2015

۔۔ کَون جھُڈو! ۔۔ (بدرِ احمر کے قلم سے)۔

کون جھڈو!


ہم نے لالہ مصری خان کو خلافِ معمول خوشگوار موڈ میں پایا تو خاصے حیران ہوئے، تاہم ان سے اس خوشگواری کی وجہ پوچھنے کی ہمت نہ ہو سکی۔ کہنے لگے : ’’کوئی شگفتہ سی بات سناؤ آج، روز والے رونے لے کر نہ بیٹھ جانا!‘‘’’ٹھیک ہے لالہ! پنجابی کی مزاحیہ شاعری سے ایک جھڈو کی کہانی سنئے۔‘‘ لالہ جھٹ سے بولے: ’’کون جھڈو؟ ہم ان کی طنز کو نظر انداز کر کے کہانی کا نثری خلاصہ سنانے لگے۔ 

جھڈّو اس کا اصل نام نہیں تھا، وہ تو گاؤں والے اس کی حماقتوں پر اسے ’’جھُڈو‘‘ کہنے لگے اور پھر اصل نام ہی بھول بھال گئے۔ ایک دن سوچا :یہ بھلا کیا ہوا کہ ہم عقل کی بات کریں تب بھی جھڈو؟ کہیں اور چلتے ہیں، اپنا نام بدل کر آتے ہیں۔ لوگ جھڈو کو بھول بھال جائیں گے، اور ہم اپنے اصل نام سے جانے جائیں گے۔ 
نکل کھڑے ہوئے بس، منزل وغیرہ تو تھی کچھ نہیں، چلتے رہے چلتے رہے، چلتے رہے۔ دن ڈوبنے کو ہوا تو خود کو کسی گاؤں کے باہر پایا، سوچا کسی کے ہاں رات گزارتے ہیں، پھر آگے چلیں گے۔ پہلا جو گھر دکھائی دیا، اس کے بڑے سارے صحن میں رک گئے۔ عام غریب گھروں کا سا گھر تھا، صحن میں مٹی کی ایک ناند، ایک طرف مرغیوں کا کھُڈا، دو جھلنگا چارپائیاں، مٹی کے چولھے میں جلتی لکڑیاں، اوپر ہنڈیا رکھی تھی۔ سامنے ایک بڑا سا کمرہ تھا جس کے اندر تاریکی تھی۔ دوسری طرف ایک چھپر، چھپر میں بھی ناند، جلانے کی لکڑیوں کا ڈھیر، اور ایک فالتو چارپائی۔
جھڈو میاں نے بلند آواز سے پکارا: ’’بی بی، بہنا، بھائی، کوئی ہے؟ مسافر ہوں، رات گزارنی ہے، دن چڑھے چلا جاؤں گا‘‘۔ تاریک کمرے سے ایک اَدھِیڑ عمر کی عورت نمودار ہوئی، جس کے چہرے پر غربت کے نشان تھے اور خشونت نمایاں تھی۔ تاہم جھڈو میاں کو رات گزارنے کی اجازت مل گئی۔ عورت نے کہا: ’’میں باہر جاتی ہوں، گائے کو کھول دوں گی وہ گھر آ جائے گی۔ دھیان کرنا بچھڑے کو فوراً باندھ دینا کہ دودھ ہی نہ پی جائے۔ چولھے پہ ہنڈیا پڑی ہے، ابل نہ جائے اور بچہ سو رہا ہے، گائے سے ڈر بھی سکتا ہے۔‘‘ اور باہر چلی گئی۔
جھڈو میاں نے سوچا ’دیکھیں تو سہی پک کیا رہا ہے‘۔ ہنڈیا کا ڈھکن اٹھایا تو اندر کھولتے پانی میں ہری پیاز کے قتلے اور مسور کی دال کے اکا دکا دانے ان کا منہ چڑا رہے تھے۔ اتنے میں گائے دندناتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی، بچھڑا اس کی ٹانگوں میں گھُسا جاتا تھا۔ جھڈو میاں بچھڑے کو پکڑنے کو لپکے تو گائے ان کو اجنبی جان کر بدک گئی، اس ہڑبونگ میں بچہ رونے چلانے لگا۔ جھڈو میاں کبھی بچے کی طرف بھاگتے ہیں کبھی بچھڑے کی طرف۔ ادھر ہنڈیا جو ابلی تو چولھے میں آگ ہی بجھ گئی،جھڈو میاں چولھے کی طرف لپکے۔
اب کے منظر کچھ یوں تھا کہ: گائے سکون سے ناند پر کھڑی چارہ کھا رہی ہے، بچھڑا مزے سے ماں کا دودھ پی رہا ہے، بچہ بلند آواز میں روئے جا رہا ہے اور جھڈو میاں بیٹھے زمین سے سر لگائے، چولھے میں پھونکیں مار رہے ہیں۔ ایسے میں عورت سر پر چارے کا بڑا سا گٹھا اٹھائے صحن میں داخل ہوئی۔ یہ منظر دیکھا  تو ٹھٹھک کر بولی: ’’ہا، ہائے وے جھُڈّوا! ایہ کیہ بنائی بیٹھا ایں‘‘۔
جھڈو میاں کو گویا بجلی کا جھٹکا لگا ہو، اُٹھ کر کھڑے ہو گئے اور بولے: ’’بھیناں، چھوڑ اِس سب کچھ کو! اور مجھے یہ بتا کہ تجھے میرا نام کس نے بتایا؟‘‘

لالہ مصری خان ہماری طرف بڑی عجیب سی نظروں سے دیکھ رہے تھے، ہماری سوالیہ نگاہوں کے جواب میں بولے: ’’پھر؟ اس نے بتایا نہیں کیا؟‘‘ گویا لالہ ہمیں جھڈو کہہ گئے تھے!! 

.... بدرِ احمر کے قلم سے
 بدھ ۲؍ جولائی ۲۰۱۴ء 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں