حضرت متَشاعر غزلانوی طوفان آبادی
مصنوعی قہقہوں سے شروع
ہو کر حقیقی آنسوؤں پر ختم ہونے والی ایک طبع زاد ، طوفانی کہانی
گیدڑ سے تشبیہ تو خیرہم
نہیں دیں گے، ہم البتہ حضرت غزلانوی کو میر تقی میر کا وہی شعر سنانے ہی لگے تھے؛
ہم کو شاعر نہ کہو... ان کے زور دار مکے نے چائے کی پیالی کے اندر ایسا طوفان برپا
کیا کہ میز پر رکھی ہر شے ’’سیلِ چائے‘‘ میں بھیگ گئی۔ وہ تو غریب خانے میں داخل
ہوتے ہی حضرت نے اعلان فرما دیا تھا کہ: میاں بدرِ احمر! ہمیں زور کی چیاس لگی ہے۔
یہ وہی چائے تھی جو طوفان آبادی کے لائے ہوئے سونامی میں کام آ گئی تھی۔ کہنے لگے:
’’تم نے شعر کا حلیہ بگاڑ دیا ہے‘‘۔ عرض کیا: ’’حضرت! سب دیوانوں میں یونہی لکھا
ہے ..‘‘۔ ہم نے ہمت کر کے شعر پورا سنا ہی دیا۔ ان کا ’’سونامی آور‘‘ مکا بارے پھر
فضا میں بلند ہوا تو ہم نے اس کو کلائی سے پکڑ لیا۔ ’’حضرت! چائے کی پیالی تک تو
خیر قابلِ برداشت تھا، ایک شاعرِ کم مایہ اپنے گھر کی اکلوتی میز آپ کے طوفانِ کرم
پر نہیں چھوڑ سکتا‘‘۔ موصوف کی خفت قابلِ دید تھی جس کو مٹانے کے انہوں نے ایک زور
دار قہقہہ شروع کر دیا کہ اس پر قہقہہ لگایا کے الفاظ ناکافی بلکہ ناقص ثابت ہوتے
ہیں۔اس عمل کو ہم قہقہہ کہنے پر اس لئے بھی مجبور ہیں کہ لغت میں تاحال کوئی ایسا
لفظ داخل نہیں ہو پایا جو خرِ سپید کے کسی سپوت اور اسپِ سیاہ کے کسی خالہ زادے کے نغمۂ
بے مہابا کو کوئی حسین و جمیل نام دے سکے، کہ اس کی تو ابتدا ہوا کرتی ہے، بس! اور
آخر ہوتے ہوتے افسانہ ہی ختم ہو جایا کرتا ہے۔ پانچ سات دقیقوں کی تابڑ توڑ کوشش
رنگ لے ہی آئی۔ یہ الگ بات کہ اس شہیقے کا اختتامی حصہ کسی کارخانے کے سائرن کا سا
تھا جس پر مزدوروں کو چھٹی ہو جاتی ہے یا روزہ کھل جاتا ہے۔ قہقہے کا آخری مرحلہ
کمیٹی کے نلکے کے اعلانِ بے بضاعتی جیسا تھا۔
ان کی ہنسی تھمی تو
آنکھوں میں جیسے کوئی ویرانی سی تیر گئی اور ہمیں لگا کہ ان کے چہرے پر ایک
پرچھائیں سی آ کر گزر گئی ہو۔ پھر ایک طویل اور گھمبیر خاموشی کے بعد حضرت متَشاعر
غزلانوی طوفان آبادی کسی مرکھنے سانڈ کی صورت ڈکراتے غزلاتے گویا ہوئے: ’’میاں
صاحب زادے! میر تقی میر کا اصل شعر تم جیسے دیوانوں کے ہتھے چڑھا تو ایسا ہو گیا۔
اصل شعر سنو! ہم کو شاعر مت کہو میر صاحب کہ ہم نے؛ درد و غم اتنے جمع کئے کہ
دیوانے ٹھہرے‘‘ بعد ازاں انہوں نے شعر کی اس ہیئت کذائی کی جتنی بھی توضیحات بیان
فرمائیں وہ خاصی معقول بلندی سے گزر گئیں اور ہمارا سر سلامت رہ گیا۔
حضرت غزلانوی موصوف کے
بے شمار روپ تھے جنہیں بہروپ تو کسی صورت نہیں گردانا جا سکتا کہ وہ ان کا ہر روپ
اصل اور خالص ہوتا۔ اماں بابا نے نام کوئی رکھا ہو، تخلص انہوں نے کوئی
اختیار کیا ہو، ’’صنفِ ستم‘‘ کوئی سی منتخب کی ہو یا ’’ہر صنف رولا‘‘ رہے ہوں،
اپنے کارناموں کی بدولت مریخ کی دوری سے پہچان لئے جاتے۔ کہیں کبھی اگر پہچان نہ
ہو پاتی تو یہ قصور ہمارا نہیں تھا بلکہ کاربن ڈائی آکسائڈگیس کے ان بادلوں کا تھا
جو ہمارے بالوں جیسے سپیدرُو ہوتے ہیں۔ بلکہ بقول حضرت غزلانوی مزید بقول میرزا خیر
اندیش ککڑالوی ان میں بجلی بھی ویسی ہی چمکا کرتی تھی۔ میرزا ککڑالوی کے نام میں
اگرچہ لڑائی جھگڑے کا بھرپور تاثر پایا جاتا ہے تاہم موصوف خاصے صلح جو واقع ہوئے
تھے، وہ الگ بات کہ میرزا موصوف صلح کا عنصر ہمیشہ دوسروں میں تلاش کیا کرتے۔
میرزا کے بارے میں ہماری تمام تر معلومات کا منبع و منتہٰی حضرت کی ذاتِ سیماب
صفات تک محدود تھا، جس کے مطابق ان دونوں میں چھنتی بھی گاڑھی تھی اور ٹھنتی بھی
گاڑھی تھی۔ ہمیں متعدد بار شک بھی گزرا کہ میرزا ککڑالوی شاید انہی کا دوسرا روپ
ہے؟ بارے ہم نے عرض بھی کیا کہ: ’’ حضرت ، آپ میرزا کا ’’ذکرِ ناخیر‘‘ اکثر فرماتے
ہیں، کبھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہو سکتا ہے؟‘‘۔ بہت ’’چین و جاپان بہ جبیں‘‘
ہوئے، اتنے کہ ان دونوں ملکوں کی صد سالہ جنگ کے سارے مناظر ان کے فرقِ سر سے
بسہولت پڑھے جا سکتے تھے۔ ہمیں تقریباً یقین ہو گیا کہ حضرت غزلانوی اور میرزا
ککڑالوی دو الگ الگ شخصیات ہیں۔ اور دونوں کی آپس میں گاڑھی چھننے کی وجہ بھی کچھ
کچھ کھلنے لگی، کہ اس میں ’’باہمی خوفزدگی‘‘ زیادہ کارفرما ہے اور ہم جنسوں
کی پرواز کم۔
ہم جیسے غریب غربے تو
ایک حضرت غزلانوی طوفان آبادی سے بنائے رکھتے تو بھی بہت ہوتا، میرزا کو کہاں سوار
کرتے! حضرت غزلانوی کی شاید عمر بھر سوائے میرزا کے نہ کسی سے بنی اور نہ
ٹھنی۔ تیسری گلی میں ایک کمرے کا مکان کرائے پر لے رکھا تھا جس میں الزام کی حد تک
برآمدہ اور صحن بھی پائے جاتے تھے۔ یکہ و تنہا رہتے تھے، سو گھر پر ہوتے تو باہر
کا دروازہ چوپٹ کھلا ہوتا جس سے کمرے کی ویرانی بھی دیکھی جا سکتی تھی۔ بہ این ہمہ
حضرت کا طنطنہ تھا کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، میرزا ککڑالوی کو بھی نہیں۔
ہمیں گوالے میاں سے خبر ملی کہ حضرت غزلانوی کی طبیعت ناساز ہے، خبر سے زیادہ وہ
شکایت تھی۔ حضرت ان سے دودھ لیا کرتے تھے، اور حسبِ عادت پیسے دینا بھول جاتے تھے۔
گوالے میاں بھی کسی نہ کسی طور نکلوا ہی لیتے۔ پھر یوں ہوا کہ حضرت غزلانوی نے
دودھ لینا موقوف کر دیا اور ساتھ ہی حساب بھی (ادا کئے بغیر) بند کرنے کا فرمان جاری کر
دیا۔ گوالے میاں کو ہماری ذات میں سفارش دکھائی دی ہو گی، ہم نے سوچا چلئے حضرت سے
ملتے ہیں، ان کی عیادت بھی ہو جائے گی اور اگر وہ جلال کی کیفیت میں نہ ہوئے تو گوالے
میاں کی عرضی بھی پیش کر دیں گے۔
باہر والا دروازہ حسبِ
توقع کھلا تھا اورکمرے میں کھڑے طوفان آبادی ایک طرف منہ کئے کسی سے مخاطب تھے۔ ہم
بلاتکلف صحن میں داخل ہو گئے۔ حضرت کے چہرے پر بیک وقت کئی طوفانوں اور زلزلوں کی
کیفیات کا اجتماع دکھائی دے رہا تھا۔گوالے میاں گلی میں کھڑے تھے کہ ہم انہیں جوں
ہی اشارہ کریں وہ ’’کیا حکم ہے مرے آقا‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے حاضر ہو جائیں۔ حضرت
غزلانوی کی آواز کبھی تو بڑبڑاہٹ میں بدل جاتی اور کبھی اتنی بلند کہ گلی میں جاتے
ہوئے بھی سنائی دے جائے۔ وہ کہہ رہے تھے ’’میرزا! میں آج تمہیں نہیں چھوڑوں گا،
مار دوں گا یا تم مجھے مار ڈالو، تم نے مجھے ذلیل و رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑی، بہت ہو چکی! میں ..یا تو تم مجھے مار دو، یا میں تمہیں مار دوں گا.. ..‘‘
انہوں نے ہاتھ یوں آگے بڑھائے جیسے (ہماری دانست کے مطابق) میرزا ککڑالوی کا گلا دبانے
چلے ہوں۔
ہمیں نہیں معلوم کہ ہم
نے کیسے اتنی بڑی چھلانگ لگا لی اور حضرت کی دونوں کلائیوں کو کیسے گرفت میں لے
لیا۔ حضرت غزلانوی کے ہونٹ کپکپا رہے تھے، ہاتھوں پر گویا رعشہ طاری تھا اور
آنکھیں بالشت بھر کے ایک چھوٹے سے آئینے پر جمی تھیں۔ ہمارے ہاتھوں کی گرفت نے
انہیں گویا ٹرانس کی کیفیت سے باہر دھکیل دیا ؛ انہوں نے ہماری طرف دیکھا اور ہاتھ
ڈھیلے چھوڑ دئے، سر جھکنے سے پہلے دو موٹے موٹے اشک ان کی آنکھوں سے ڈھلکے اور
کلائیوں پر ٹھیک اس جگہ ٹپ سے گرے جہاں ہماری انگلیوں کی گرفت تھی۔ان کے ہونٹ ہلے
اور ایک برفیلی سرگوشی ہمارے دماغ کو سُن کرنے لگی: ’’میرزا مسکین بیگ کو جب دنیا
والوں نے رد کر دیا تو اس نے طوفان آبادی کا روپ دھار لیا اور دنیا کے طعنوں کا
بدلہ لینے کو میرزا خیراندیش کا ہیولا پال لیا۔ اور تم نے .. تم نے آج ان دونوں کو
مار ڈالا۔ تم دوہرے قاتل ہو!‘‘۔ وہ جہاں کھڑے تھے وہیں ڈھے گئے۔ ’’ہم دو کے نہیں،
تین کے قاتل ہیں میرزا!‘‘ ہم نے پورے اعتماد سے جواب دیا۔ ’’میرزا مسکین بیگ بھی
مر گیا ہے آج! آج سے تم میرزا خوش بخت بیگ ہو، خوش بخت بیگ مالی جو نرم و نازک
پھول اگاتا ہے، پالتا ہے اور لوگوں کے باغیچوں میں مسکراہٹیں کھلاتا ہے‘‘ ۔
گوالے میاں نے یہ منظر
دیکھا تو خود بخود کھنچے آئے۔ میرزا پھر پھٹ پڑے: ’’اس کے پیسے کون دے گا؟ میرے
پاس تو ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں؟‘‘ ہم نے گوالے میاں کی طرف دیکھا، اور کہا: ’’وہ؟
وہ تو ادا ہو بھی چکے! ہیں نا، گوالے میاں؟‘‘ گوالے میاں نے مسکرا کر اثبات میں سر
ہلا دیا، اور میرزا خوش بخت بیگ ہمارے گلے لگ کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگے۔
محمد یعقوب آسی ۔۔۔ 27 جون 2014ء
گیدڑ سے تشبیہ تو خیرہم
نہیں دیں گے، ہم البتہ حضرت غزلانوی کو میر تقی میر کا وہی شعر سنانے ہی لگے تھے؛
ہم کو شاعر نہ کہو... ان کے زور دار مکے نے چائے کی پیالی کے اندر ایسا طوفان برپا
کیا کہ میز پر رکھی ہر شے ’’سیلِ چائے‘‘ میں بھیگ گئی۔ وہ تو غریب خانے میں داخل
ہوتے ہی حضرت نے اعلان فرما دیا تھا کہ: میاں بدرِ احمر! ہمیں زور کی چیاس لگی ہے۔
یہ وہی چائے تھی جو طوفان آبادی کے لائے ہوئے سونامی میں کام آ گئی تھی۔ کہنے لگے:
’’تم نے شعر کا حلیہ بگاڑ دیا ہے‘‘۔ عرض کیا: ’’حضرت! سب دیوانوں میں یونہی لکھا
ہے ..‘‘۔ ہم نے ہمت کر کے شعر پورا سنا ہی دیا۔ ان کا ’’سونامی آور‘‘ مکا بارے پھر
فضا میں بلند ہوا تو ہم نے اس کو کلائی سے پکڑ لیا۔ ’’حضرت! چائے کی پیالی تک تو
خیر قابلِ برداشت تھا، ایک شاعرِ کم مایہ اپنے گھر کی اکلوتی میز آپ کے طوفانِ کرم
پر نہیں چھوڑ سکتا‘‘۔ موصوف کی خفت قابلِ دید تھی جس کو مٹانے کے انہوں نے ایک زور
دار قہقہہ شروع کر دیا کہ اس پر قہقہہ لگایا کے الفاظ ناکافی بلکہ ناقص ثابت ہوتے
ہیں۔اس عمل کو ہم قہقہہ کہنے پر اس لئے بھی مجبور ہیں کہ لغت میں تاحال کوئی ایسا
لفظ داخل نہیں ہو پایا جو خرِ سپید کے کسی سپوت اور اسپِ سیاہ کے کسی خالہ زادے کے نغمۂ
بے مہابا کو کوئی حسین و جمیل نام دے سکے، کہ اس کی تو ابتدا ہوا کرتی ہے، بس! اور
آخر ہوتے ہوتے افسانہ ہی ختم ہو جایا کرتا ہے۔ پانچ سات دقیقوں کی تابڑ توڑ کوشش
رنگ لے ہی آئی۔ یہ الگ بات کہ اس شہیقے کا اختتامی حصہ کسی کارخانے کے سائرن کا سا
تھا جس پر مزدوروں کو چھٹی ہو جاتی ہے یا روزہ کھل جاتا ہے۔ قہقہے کا آخری مرحلہ
کمیٹی کے نلکے کے اعلانِ بے بضاعتی جیسا تھا۔
ان کی ہنسی تھمی تو
آنکھوں میں جیسے کوئی ویرانی سی تیر گئی اور ہمیں لگا کہ ان کے چہرے پر ایک
پرچھائیں سی آ کر گزر گئی ہو۔ پھر ایک طویل اور گھمبیر خاموشی کے بعد حضرت متَشاعر
غزلانوی طوفان آبادی کسی مرکھنے سانڈ کی صورت ڈکراتے غزلاتے گویا ہوئے: ’’میاں
صاحب زادے! میر تقی میر کا اصل شعر تم جیسے دیوانوں کے ہتھے چڑھا تو ایسا ہو گیا۔
اصل شعر سنو! ہم کو شاعر مت کہو میر صاحب کہ ہم نے؛ درد و غم اتنے جمع کئے کہ
دیوانے ٹھہرے‘‘ بعد ازاں انہوں نے شعر کی اس ہیئت کذائی کی جتنی بھی توضیحات بیان
فرمائیں وہ خاصی معقول بلندی سے گزر گئیں اور ہمارا سر سلامت رہ گیا۔
حضرت غزلانوی موصوف کے
بے شمار روپ تھے جنہیں بہروپ تو کسی صورت نہیں گردانا جا سکتا کہ وہ ان کا ہر روپ
اصل اور خالص ہوتا۔ اماں بابا نے نام کوئی رکھا ہو، تخلص انہوں نے کوئی
اختیار کیا ہو، ’’صنفِ ستم‘‘ کوئی سی منتخب کی ہو یا ’’ہر صنف رولا‘‘ رہے ہوں،
اپنے کارناموں کی بدولت مریخ کی دوری سے پہچان لئے جاتے۔ کہیں کبھی اگر پہچان نہ
ہو پاتی تو یہ قصور ہمارا نہیں تھا بلکہ کاربن ڈائی آکسائڈگیس کے ان بادلوں کا تھا
جو ہمارے بالوں جیسے سپیدرُو ہوتے ہیں۔ بلکہ بقول حضرت غزلانوی مزید بقول میرزا خیر
اندیش ککڑالوی ان میں بجلی بھی ویسی ہی چمکا کرتی تھی۔ میرزا ککڑالوی کے نام میں
اگرچہ لڑائی جھگڑے کا بھرپور تاثر پایا جاتا ہے تاہم موصوف خاصے صلح جو واقع ہوئے
تھے، وہ الگ بات کہ میرزا موصوف صلح کا عنصر ہمیشہ دوسروں میں تلاش کیا کرتے۔
میرزا کے بارے میں ہماری تمام تر معلومات کا منبع و منتہٰی حضرت کی ذاتِ سیماب
صفات تک محدود تھا، جس کے مطابق ان دونوں میں چھنتی بھی گاڑھی تھی اور ٹھنتی بھی
گاڑھی تھی۔ ہمیں متعدد بار شک بھی گزرا کہ میرزا ککڑالوی شاید انہی کا دوسرا روپ
ہے؟ بارے ہم نے عرض بھی کیا کہ: ’’ حضرت ، آپ میرزا کا ’’ذکرِ ناخیر‘‘ اکثر فرماتے
ہیں، کبھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہو سکتا ہے؟‘‘۔ بہت ’’چین و جاپان بہ جبیں‘‘
ہوئے، اتنے کہ ان دونوں ملکوں کی صد سالہ جنگ کے سارے مناظر ان کے فرقِ سر سے
بسہولت پڑھے جا سکتے تھے۔ ہمیں تقریباً یقین ہو گیا کہ حضرت غزلانوی اور میرزا
ککڑالوی دو الگ الگ شخصیات ہیں۔ اور دونوں کی آپس میں گاڑھی چھننے کی وجہ بھی کچھ
کچھ کھلنے لگی، کہ اس میں ’’باہمی خوفزدگی‘‘ زیادہ کارفرما ہے اور ہم جنسوں
کی پرواز کم۔
ہم جیسے غریب غربے تو
ایک حضرت غزلانوی طوفان آبادی سے بنائے رکھتے تو بھی بہت ہوتا، میرزا کو کہاں سوار
کرتے! حضرت غزلانوی کی شاید عمر بھر سوائے میرزا کے نہ کسی سے بنی اور نہ
ٹھنی۔ تیسری گلی میں ایک کمرے کا مکان کرائے پر لے رکھا تھا جس میں الزام کی حد تک
برآمدہ اور صحن بھی پائے جاتے تھے۔ یکہ و تنہا رہتے تھے، سو گھر پر ہوتے تو باہر
کا دروازہ چوپٹ کھلا ہوتا جس سے کمرے کی ویرانی بھی دیکھی جا سکتی تھی۔ بہ این ہمہ
حضرت کا طنطنہ تھا کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، میرزا ککڑالوی کو بھی نہیں۔
ہمیں گوالے میاں سے خبر ملی کہ حضرت غزلانوی کی طبیعت ناساز ہے، خبر سے زیادہ وہ
شکایت تھی۔ حضرت ان سے دودھ لیا کرتے تھے، اور حسبِ عادت پیسے دینا بھول جاتے تھے۔
گوالے میاں بھی کسی نہ کسی طور نکلوا ہی لیتے۔ پھر یوں ہوا کہ حضرت غزلانوی نے
دودھ لینا موقوف کر دیا اور ساتھ ہی حساب بھی (ادا کئے بغیر) بند کرنے کا فرمان جاری کر
دیا۔ گوالے میاں کو ہماری ذات میں سفارش دکھائی دی ہو گی، ہم نے سوچا چلئے حضرت سے
ملتے ہیں، ان کی عیادت بھی ہو جائے گی اور اگر وہ جلال کی کیفیت میں نہ ہوئے تو گوالے
میاں کی عرضی بھی پیش کر دیں گے۔
باہر والا دروازہ حسبِ
توقع کھلا تھا اورکمرے میں کھڑے طوفان آبادی ایک طرف منہ کئے کسی سے مخاطب تھے۔ ہم
بلاتکلف صحن میں داخل ہو گئے۔ حضرت کے چہرے پر بیک وقت کئی طوفانوں اور زلزلوں کی
کیفیات کا اجتماع دکھائی دے رہا تھا۔گوالے میاں گلی میں کھڑے تھے کہ ہم انہیں جوں
ہی اشارہ کریں وہ ’’کیا حکم ہے مرے آقا‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے حاضر ہو جائیں۔ حضرت
غزلانوی کی آواز کبھی تو بڑبڑاہٹ میں بدل جاتی اور کبھی اتنی بلند کہ گلی میں جاتے
ہوئے بھی سنائی دے جائے۔ وہ کہہ رہے تھے ’’میرزا! میں آج تمہیں نہیں چھوڑوں گا،
مار دوں گا یا تم مجھے مار ڈالو، تم نے مجھے ذلیل و رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑی، بہت ہو چکی! میں ..یا تو تم مجھے مار دو، یا میں تمہیں مار دوں گا.. ..‘‘
انہوں نے ہاتھ یوں آگے بڑھائے جیسے (ہماری دانست کے مطابق) میرزا ککڑالوی کا گلا دبانے
چلے ہوں۔
ہمیں نہیں معلوم کہ ہم
نے کیسے اتنی بڑی چھلانگ لگا لی اور حضرت کی دونوں کلائیوں کو کیسے گرفت میں لے
لیا۔ حضرت غزلانوی کے ہونٹ کپکپا رہے تھے، ہاتھوں پر گویا رعشہ طاری تھا اور
آنکھیں بالشت بھر کے ایک چھوٹے سے آئینے پر جمی تھیں۔ ہمارے ہاتھوں کی گرفت نے
انہیں گویا ٹرانس کی کیفیت سے باہر دھکیل دیا ؛ انہوں نے ہماری طرف دیکھا اور ہاتھ
ڈھیلے چھوڑ دئے، سر جھکنے سے پہلے دو موٹے موٹے اشک ان کی آنکھوں سے ڈھلکے اور
کلائیوں پر ٹھیک اس جگہ ٹپ سے گرے جہاں ہماری انگلیوں کی گرفت تھی۔ان کے ہونٹ ہلے
اور ایک برفیلی سرگوشی ہمارے دماغ کو سُن کرنے لگی: ’’میرزا مسکین بیگ کو جب دنیا
والوں نے رد کر دیا تو اس نے طوفان آبادی کا روپ دھار لیا اور دنیا کے طعنوں کا
بدلہ لینے کو میرزا خیراندیش کا ہیولا پال لیا۔ اور تم نے .. تم نے آج ان دونوں کو
مار ڈالا۔ تم دوہرے قاتل ہو!‘‘۔ وہ جہاں کھڑے تھے وہیں ڈھے گئے۔ ’’ہم دو کے نہیں،
تین کے قاتل ہیں میرزا!‘‘ ہم نے پورے اعتماد سے جواب دیا۔ ’’میرزا مسکین بیگ بھی
مر گیا ہے آج! آج سے تم میرزا خوش بخت بیگ ہو، خوش بخت بیگ مالی جو نرم و نازک
پھول اگاتا ہے، پالتا ہے اور لوگوں کے باغیچوں میں مسکراہٹیں کھلاتا ہے‘‘ ۔
گوالے میاں نے یہ منظر
دیکھا تو خود بخود کھنچے آئے۔ میرزا پھر پھٹ پڑے: ’’اس کے پیسے کون دے گا؟ میرے
پاس تو ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں؟‘‘ ہم نے گوالے میاں کی طرف دیکھا، اور کہا: ’’وہ؟
وہ تو ادا ہو بھی چکے! ہیں نا، گوالے میاں؟‘‘ گوالے میاں نے مسکرا کر اثبات میں سر
ہلا دیا، اور میرزا خوش بخت بیگ ہمارے گلے لگ کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگے۔
پے در پے تخلیق کی جانے والی تراکیب گو مزاح کی غرض سے بنائی گئی ہیں لیکن ان کا اژدھام تحیریر میں بھاری پن پیدا کر رہا ہے ۔۔ لطافت کی جو فضا پیدا کرنے کی کوشش کی گئی وہ ان مسلسل " حملوں " سے متاثر ہوئی ہے ۔۔
جواب دیںحذف کریں۔۔۔۔۔
الگ بات کہ اس شہیقے کا اختتامی حصہ کسی کارخانے کے سائرن کا سا تھا جس پر مزدوروں کو چھٹی ہو جاتی ہے یا روزہ کھل جاتا ہے۔ قہقہے کا آخری مرحلہ کمیٹی کے نلکے کے اعلانِ بے بضاعتی جیسا تھا۔
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہاں لگتا ہے چوک ہو گئی ۔۔ ایک ہی جملے میں قہقہے کا اختتام دو مختلف طرح کا تاثر دے بھی رہا ہے تو اسے مناسب انداز سے تحریر نہیں کیا جا سکا ۔۔ تحریر کے اختتام پر مناسب توجہ دے کر اسے مزید موثر بنایا جا سکتا ہے
توجہ کے لئے ممنون ہوں۔ جناب منیر انور صاحب۔ ۔۔ اسی طور راہنمائی کرتے رہئے، کسی قابل ہو ہی جاؤں گا۔
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ تحریر سر آپ کی نثرنگاری کا یہ انداز لاجواب ہے
جواب دیںحذف کریںآپ دوستوں سے ہی سیکھا ہے، جناب زبیر مرزا۔ آداب
جواب دیںحذف کریںعمدہ کردار تخلیق کیا گیا۔
جواب دیںحذف کریںمنظر نگاری خوب ہے۔
منیر انور صاحب کے بیان کے مطابق اس تحریر کو کسی مرغن کھانے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔
مرغن کھانے کی تشبیہ عین حسبِ حال ہے۔ عربی والا ہو یا فارسی والا؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
حذف کریںآداب بجا لاتا ہوں۔