بدھ، 24 جون، 2015

۔۔ نرا شاعر ۔۔ (بدرِ احمر کے قلم سے)۔


نرا شاعر!



’’چھوڑ یار، بدرے! تو بھی نرا شاعر ہے‘‘۔ لالہ مصری خان نے خاصے بیزار لہجے میں کہا۔ ہم نے اُن کے چہرے کی طرف دیکھا؛ بیزاری ان کے بشرے پر بھی ہویدا تھی۔ لالہ نہیں چاہتے تھے کہ میں اپنی یہ کتاب بھی انٹرنیٹ پر ویسے ہی چھوڑ دوں، جیسے پہلے بہت سی چھوڑ دی تھیں۔ وہ کہہ رہے تھے:  ’’سُنو! واہ واہ سے کبھی پیٹ بھرا ہے؟ دو چار لوگ یہاں سے نیچے‘‘ انہوں نے ہاتھ اپنے حلقوم کے برابر لہرایا، ’’اور دو چار سو لوگ یہاں سے اوپر تمہاری شاعری کو نثر کو سراہ دیتے ہیں تو تم پھول کر کُپا ہو جاتے ہو! مجھے بتاؤ ابھی حال ہی میں تم نے کتنی رقم خرچ کی ہے؟‘‘
ہم جواب نہیں دینا چاہ رہے تھے، مگر وہ لالہ مصری خان ہی کیا اپنے کہے سے ٹل جائیں۔ خود ہی بول پڑے: ’’ مارکیٹ کا اندازہ کچھ کچھ مجھے بھی ہے، کم بھی ہوا تو دیڑھ لاکھ تو اٹھ گیا ہو گا! اور ہاں مبارک ہو! سنا ہے کسی نے ایک کتاب خریدی بھی ہے، کراچی سے تھا کوئی، ہے نا! اور وہ جو تم نے ڈاک پر خرچ کیا ہے! چار پانچ ہزار وہ اُڑا دیا! واہ بدرِ احمر واہ! ’کیا بلا کے شاعر ہو تم‘، اتنا سن کر دو دن کی روٹی کا خرچ بچ گیا کیا؟‘‘
لالہ کا لہجہ بلند ہوتا جا رہا تھا، ہم نے کچھ کہنا چاہا مگر انہوں نے سننی ہی گوارا نہیں کی، ان سنی تو تب کرتے، اگر سنتے! مگر ہم نے ان کی بات کاٹ ہی دی! ’’ آپ مجھے جانتے ہیں لالہ، مجھ سے یہ کراڑپن نہیں ہوتا۔ مروت بھی تو کوئی چیز .. .. ..‘‘
 ’’تو ٹھیک ہے! آج شام کا کھانا مروت کے ہاں سے کھا لینا، اور اسے کہنا تمہارا بجلی کا بل بھی دے دے، اور گیس کا بھی! کیا خیال ہے! یہ جو ڈھیر پڑا ہے اوپر، یہ تمہارے کس کام آئے گا؟ الیکشن تم نہیں لڑ سکتے، بلکہ لڑنا تو کیا، تم نے تو گالی دینا بھی نہیں سیکھا، شریف الدین صاحب! وہ جس نے کہا تھا وہ تمہاری پہلی کتاب کا خرچہ اٹھانے کو تیار تھا، اس سے بات ہوئی؟‘‘
 ’’ہاں ہوئی، وہ کہہ رہے ہیں: ’اللہ کوئی سبب بنادے، خرچہ بہت زیادہ ہے‘ مگر یہ آپ کو کس نے بتایا؟‘‘
’’میری اس سے بات ہوئی ہے! اس نے تم سے کہا تھا، نا؟‘‘
 ’’کیا؟‘‘ ہم نے بے دلی سے پوچھا۔
’’یہی! کہ کتاب مجھے بھیج دیں میں اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کر لوں گا؛ اور تم نے کہا ابھی کچھ کام باقی ہے، بعد میں اس نے کہی وہ بات! ’اللہ سبب بنا دے‘ والی۔ بدرے، بدرے تم سے تو وہ جھڈو زیادہ عقل مند تھا!‘‘
لالہ جوشِ خطابت میں ایک بڑا راز فاش کر گئے تھے۔ وہ کہنا چاہ رہے تھے، کہ میاں جسے مفت میں مل جائے وہ ڈیڑھ لاکھ بھلا کیوں خرچ کرے گا! ہمیں محسوس ہوا کہ ہم جھڈو نہیں بھی ہیں تو بن جائیں گے۔ ہمارے چہرے پر یقیناًکچھ نہ کچھ لکھا گیا ہو گا؛ انہوں نے غور جو سے دیکھا تو اپنے لہجے کو اور تند کر لیا۔ کوئی اور موقع ہوتا تو ہم اس تندی کو ’نوا را تلخ تر می زن‘ سے ملا لیتے۔
’’ڈال دو اس کو بھی انٹرنیٹ پر اور خوش ہو جاؤ کہ گوگل پر تمہارے نام کی بیس انٹریاں آ رہی ہے۔ انٹریاں بھری رہنی چاہئیں، انتڑیوں کا کیا ہے! نہیں بھریں گی تو سوکھ جائیں گی۔ اللہ اللہ خیر سلا!‘‘
ہم ’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘ کی تصویر بنے خان لالہ کا منہ تک رہے تھے۔ کسی بھی لمحے ان کے ہونٹوں سے کف بہنے لگتا، بلکہ کف کالر سارا کچھ کہ وہ ہمارے لتے ہی نہیں کپڑے لتے لینے کو تلے بیٹھے تھے۔ ہم نے ہار مان لی اور کہا: ’’چلئے جو ہو چکا اس پر مٹی ڈالئے، اب کیا کرنا ہے؟‘‘
’’ہمم! یہ ہوئی نا بات!‘‘ یہ کہتے ہوئے لالہ کی مسکراہٹ واپس آتی محسوس ہوئی۔ مارکیٹنگ کرو! سب سے پہلے اپنی کتابیں انٹرنیٹ سے ہٹا دو، نہیں ہٹا سکتے تو اُن کے لنک بند کر دو! چھوڑو، یاری دوستی کے نام پر کتابیں مانگنے والوں کو بھی اور ان کو بھی جو دو چار لفظ خوشامد کے لکھ کر تم سے کتاب بٹور لیتے ہیں! کراڑپن کرنا پڑے گا! نہیں کر سکتے تو بیٹوں کی ساری کمائی اِدھر لگا دو، اوربہووں سے کہہ دو اپنے اپنے میکے چلی جائیں!‘‘
ہم سے اتنی تپش برداشت نہ ہو سکی۔ ’’بس کرو، لالہ! بہت ہو چکی! ‘‘ ہمیں اپنی ہی آواز کی تلخی اچھی نہیں لگی۔ ہم نے بمشکل اس حدت کو دبایا اور اپنے تئیں دھیمے لہجے میں کہا: ’’مگر لالہ، اگر سب خوشامدی اور مطلبی ہوں بھی تو کیا میں اپنی شرافت سے دست بردار ہو جاؤں؟‘‘
’’نہیں! بالکل نہیں! بجلی کے بل مروت کے ذمے اور گیس کے شرافت کے ذمے! بہو سے کہنا آج ’واہ وا، کیا کہنے‘ پکا لے۔ تمہارا تو ڈھیلا پھول جائے گا، پھول سے بچے بھوک سے بلکتے رہیں، تمہیں کیا!‘‘
لالہ مصری خان نے تو اور بھی بہت کچھ کہا تھا۔ سب کچھ تو بتایا بھی نہیں جا سکتا نا! یہ البتہ دیکھنے کی بات ہے کہ ہمارے بہی خواہ لالہ مصری خان کے کہے کو سچ ثابت کرتے ہیں یا .... ۔ ہم کیا کہیں صاحبو! ہم تو ٹھہرے ’نرے شاعر‘، مگر جھڈو نہیں ہیں! یہ تو ہم نے خان لالہ کو بتایا ہی نہیں کہ ایک عارفِ کامل ہماری تحریروں کے زور پر استاذالعرائض کا خطاب بھی پا چکے ہیں! آپ بھی نہ بتائیے گا، ورنہ ! نرے شاعر اور جھڈو میں کچھ فرق اگر ہے تو لالہ مصری خان اس کو بھی مٹا دینے پر قادر ہیں۔
بدرِ احمر
سوموار 20 اپریل 2015ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں