افسانہ
کڑوی پیاز
(۱)گھنٹے بھر کے انتظار کے بعد آواز سنائی دی: ’’ابو جی، کھانا لگا دیا ہے‘‘۔ تب تک شکور میاں کی بھوک خوب چمک اٹھی تھی۔ کھانے کی میز پر پہنچے تو دیکھا ہفت اقسام کے کھانے لگے ہیں۔ یہ چپاتیاں ہیں وہ چاول ہیں، سفید چنے ڈال کر پلاؤ بنا ہے، ساتھ پتلے شوربے والے ثابت مسور ہیں، اس پلیٹ میں بکرے کا گوشت ہے، ادھر دہی ہے، ایک بڑی سی پلیٹ میں سلاد ہے ۔ باریک کتری ہو پیاز الگ رکھی ہے، ملا جلا اچار بھی ہے اور تلسی پودینے کی چٹنی بھی۔ ایک چھوٹی سی ڈونگی میں کھیر جیسی کوئی میٹھی چیز ہے۔ مہک ایسی اشتہا انگیز کہ بغیر بھوک کے بھی جی کھانے کو مچل اٹھے۔ ’ارے! اتنا کچھ مجھ اکیلے کو کھانا ہے کیا؟ مجھ اکیلے کو...‘ ان کا ذہن اس ایک خیال پر اٹک گیا۔ ’مجھ اکیلے کو...‘ ان کا دل بھر آیا، بھوک کا احساس کہیں دب چکا تھا۔ انہیں یوں لگا کہ وہ کسی شے کا ایک لقمہ بھی نہیں لے سکیں گے۔ تو ... وہ شور؟ ’’اے لڑکیو! کوئی ہے؟ بھئی ہمیں بھوک لگی ہے!‘‘ اور وہ بے تابی؟ اور گھنٹہ بھر کا انتظار؟ وہ سب کیا ہوا؟ ان کا جی چاہا کہ اٹھ جائیں مگر یہ سوچ کر بیٹھ گئے کہ بہو کیا کہے گی! میں نے اتنی محنت سے کھانا تیار کیا اور ابو جی نے دیکھا تک نہیں؟ ’اس کا دل رکھنے کو کچھ کھا لیتے ہیں‘ یہ سوچا اور سلاد سے جی بہلانے لگے کہ شاید کھانے کو جی آ جائے۔ کئی منٹوں بعد ایک چپاتی نکالی اور اس پر آم کا اچار رکھ لیا۔ اسے دیکھتے رہے، تھوڑی سی پیاز منہ میں ڈالی اور چپاتی کا لقمہ لیا۔ ’اس کا ذائقہ ...!‘ شکور میاں کے ذہن و دل کے نہاں خانوں میں ایک جھماکا سا ہوا اوروہ ذائقہ ان کے پورے وجود میں پھیل گیا۔
(۲)
’’ماں، ماں! مجھے سخت بھوک لگی ہے!‘‘ چوتھی پانچویں جماعت کا لڑکا گھر میں داخل ہوتے ہی شور مچانے لگا۔ مرغی اور چوزوں کو دانہ ڈالتی ہوئی بڑھیا نے بیٹے کی بلائیں لیں، ماتھے کو چوما اور چہکتی ہوئی آواز میں گویا ہوئی: ’’آ گیا میرا بچہ! منہ ہاتھ دھو لے بیٹا، کپڑے بدل لے میں روٹی نکالتی ہوں، پکی رکھی ہے، پر، تو آج دیر سے کیوں آیا؟‘‘
’’میں خود ہی نکال لیتا ہوں، ماں‘‘ یہ کہا اور سیدھا اُس پھٹے کو لپکا جہاں روٹی، سالن رکھا ہوتا ۔ ماں اس کی جلدی پر مسکرا دی اور مرغی کا کھُڈا صاف کرنے لگی۔
’’ماں، ماں!‘‘ وہ زور سے چیخا، ’’روٹی تو ہے پر ساتھ کچھ نہیں‘‘۔
’’سالن تو نہیں ہے بیٹا، اچار نکال لے اور لسی لے لے، صبر شکر کے ساتھ، میرے ہاتھ گندے ہیں، خود ہی نکال لے‘‘۔ اچار کے برتن کے پاس پیاز پڑے تھے، اس نے ایک اٹھا لیا۔ سوکھی روٹی، آم کا اچار، پیاز اور لسی؛ اللہ کا نام لے کر سب کچھ چٹ کر گیا۔ ایک بھرپور ڈکار لی اور ’’ماں، میں مسجد جا رہا ہوں، سبق کا وقت ہو گیا ہے‘‘ وہ باہر نکلتے ہوئے بولا۔ ’’بہت تاولا ہو رہا ہے تو، منہ ہاتھ دھوئے بناں روٹی کھا لی، کپڑے تو بدل لے! میلے ہو جائیں گے‘‘ ماں آوازیں دیتی رہ گئی۔ ’’مسجد میں وضو کر لوں گا‘‘ یہ کہا اور... یہ جا وہ جا۔
(۳)
’’برتن لے جاؤ بیٹا!‘‘ شکور میاں نے بہو سے کہا۔ تھوڑا بہت جو بھی انہوں نے کھایا، خاصی بے دلی سے کھایا تھا۔ بہو نے دیکھا کہ اُن کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا ہے تو پوچھا: ’’ابوجی، کیا ہوا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے آپ کی؟‘‘
’’ہاں ہاں، ٹھیک ہے بالکل‘‘ وہ گھبرائے ہوئے لہجے میں بولے جیسے چوری پکڑی گئی ہو۔
’’اور آپ نے کھایا بھی بہت کم ہے!‘‘
’’ارے نہیں، اچھا خاصا تو کھا لیا‘‘
’’اور یہ آپ کی آنکھوں میں نمی؟‘‘
’’ہاں، وہ شاید پیاز کچھ زیادہ کڑوی ہے‘‘
*******
محمد یعقوب آسیؔ ... ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۴ء
تھوڑی سی پیاز منہ میں ڈالی اور چپاتی کا لقمہ لیا۔’ اس کا ذائقہ ...!‘ شکور میاں کے ذہن و دل کے نہاں خانوں میں ایک جھماکا سا ہوا اوروہ ذائقہ ان کے پورے وجود میں پھیل گیا۔
جواب دیںحذف کریںگہرائی ، گیرائی ۔۔۔ دونوں ہی موجود ہیں ۔۔ایک اچھے افسانے کی علامت
حال ، ماضی ۔۔۔ اور حال
بہت اچھی تکنیک استعمال کی ہے
توجہ کے لئے ممنون ہوں صعدیہ۔ بہت شکریہ۔
جواب دیںحذف کریں