تھا وہ اک یعقوب آسی
پھر اُس نے گورنمنٹ اصغر مال کالج میں
داخلہ لے لیا۔ رات کو ڈیوٹی کرتا (وہ بھی مشین کے سر پر کھڑا ہو کر) اور دن کو
پڑھنے جاتا۔ اپنی نیند وہ شاید بس میں آتے جاتے پوری کرتا ہو گا، یا پھر چھٹی کے
دن؟ یہ دو سوا دو سال اس نے کس طور جسم و جان کو سولی پر چڑھا کر گزارے، اس کا
اندازہ خود لگا لیجئے۔ فائنل امتحان کے بعد اس نے سکھ کا سانس لیا۔ نتیجہ میری
توقع سے بڑھ کر اور خود اس کی توقعات سے ذرا کم تھا بہر حال وہ کامیاب ہوا۔ کچھ ہی
عرصے بعد وہ پنجاب کے ایک بڑے نجی سسٹم آف کالجز کے راول پنڈی کیمپس میں اردو کا
استاد مقرر ہو گیا۔ اس دوران اس کی شادی ہو چکی تھی۔ خاتون اس کے قریبی عزیزوں میں
تھیں اور ایک اچھی ملازمت پر راول پنڈی میں تعینات تھیں، سو اسے بھی راول پنڈی منتقل
ہونا پڑا۔ بہ این ہمہ اس نے اپنے جملہ روابط معمول کے مطابق قائم رکھے۔ کالج کے
پرنسپل نے اختر کے مزاج کو بھانپتے ہوئے اسے شعبہ امتحانات کا انچارج بنا دیا۔بعد
ازاں ادارے نے ایک اور کالج کھولا تو اختر اس کا پرنسپل مقرر ہوا۔ اس شریف آدمی کا
لا ابالی پن دیکھئے، مجھے کوئی تین ماہ بعد فون پر بتایا کہ : یار انہوں نے مجھے
پرنسپل بنا دیا ہے۔ میں نے برجستہ کہا: ویری سَیڈ یار۔ پاگل ہیں، ایک اچھے بھلے
شاعر کو باندھ کے رکھ دیا۔ ۔۔ اور ہم اس بات پر تا دیر ہنستے رہے۔
ایک دل گداز واقعہ بھی سُن لیجئے۔ اختر اور
اس کی بیگم کہیں جا رہے تھے مال روڈ پر کوئی کار والا ان سے ٹکرا گیا۔ اختر کو
اچھی خاصی چوٹیں آ گئیں، ہسپتال میں داخل ہوئے تین دن بعد چھٹی ملی تو چہرے کے
پٹھے ایک طرف سے کھنچ چکے تھے، اور کھچاؤ نمایاں نظر آتا تھا۔ مجھے پتہ چلا، میں
نے فون کیا۔ پتہ چلا ہسپتال سے گھر آ چکے ہیں۔ ہماری بھابی کی پریشانی ان کے لہجے
سے عیاں تھیں۔ انہوں نے ایک تو چہرے کے پَٹھوں کا بتایا اور یہ کہ :’’کسی سے بات
ہی نہیں کرتے اور مجھے تو دیکھتے ہی پھٹ پڑتے ہیں کہ میرے سامنے سے ہٹ جاؤ وغیرہ
وغیرہ، ویسے ٹھیک ہیں، اللہ کا شکر ہے کوئی بڑی چوٹ نہیں آئی، یہ جو چپ سادھے
بیٹھے ہیں، وہ مجھے کھا رہی ہے۔‘‘ میں بھاگم بھگ اختر کے گھر پہنچا۔ وہ مجھ سے یوں
ملا جیسے میں کوئی اجنبی ہوں اور یوں ہی حال پوچھنے آ گیا ہوں۔ بھابی نے پہلے نہ
بتایا ہوتا تو شاید میں دس منٹ بعد نکل چکا ہوتا۔ اختر کا چھوٹا بھائی بھی گھر پر
تھا۔ میں نے اس سے پوچھا یار اس گھر میں کوئی ایسی جگہ جہاں کوئی ہماری (میری اور
اختر کی) بات چیت میں مخل نہ ہو۔ کہنے لگا: چھت پہ چلے جائیے، سایہ بھی ہے، ہوا
بھی کھلی ہے۔ اختر سے کہا تو وہ بادلِ ناخواستہ چھت پہ پہنچ ہی گیا۔ بولا: میرا
منہ ٹیڑھا ہو گیا ہے۔
کہا: نہیں صرف پٹھے کھنچ گئے ہیں کچھ دنوں میں ٹھیک ہو جائیں
گے۔ ب
ولا: مجھے بہلاتے ہو؟
کہا: مجھے کیا پڑی ہے تمھیں بہلانے کی، مگر سچ یہی ہے
کہ یہ کھچاؤ عارضی ہے۔ ب
ے دلی سے بولا: ہاں عارضی ہے۔
کہا: جانتے ہو عارضی کیا ہے؟
جو عارض سے متعلق ہو۔
وہ ذرا سا مسکرا دیا۔ اپنا طریقہ کام کر رہا تھا۔
اسی نوع کی کچھ بے سرو پا اور کچھ لفظی
بازی گری کی، کچھ دوستوں کی، کچھ ادب کی، کچھ یوں ہی ادھر ادھر کی باتیں چلتی
رہیں، وہ بھی حصہ لینے لگا۔ جب چھوٹا چائے لے کر چھت پر پہنچا تو اختر قہقہے لگا
کر ہنس رہا تھا۔ چھوٹے کی حیرت دیدنی تھی۔ میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا میں نے
کہا نیچے چلتے ہیں، مجھے جانا بھی ہے۔ ہم نیچے اترے، بھابی کچن میں تھیں، مجھے
وہیں بلوا لیا، مسرت اور اشتیاق ملے لہجے میں کہنے لگیں: ’’کمال ہے! یہ آپ نے ان
کو کِیا کیا ہے؟ مجھے تو یقین نہیں آ رہا‘‘ میں نے کہا بے فکر ہو جائیے، وہ خول
ٹوٹ گیا ہے، اب ان شاء اللہ ان کی صحت یابی کی رفتار دیکھئے گا‘‘۔ اپنا وہ نسخہ
کامیاب رہا، بھابی بھی خوش، بھائی بھی خوش اور ہم بھی۔ کچھ دنوں میں وہ کھچاؤ
نمایاں طور پر کم ہو گیا اور پھر ہولے ہولے بالکل ختم ہو گیا۔
نسخہ بہت آسان تھا۔ مریض سے ہمدردی کا
اظہار ضرور کیجئے مگر ایسے نہیں کہ اس کو اپنی بیماری اصل سے بڑی لگنے لگے! ایسا
کیجئے کہ بیماری، تکلیف مریض کی ذہنی ترجیحات میں کہیں دوسرے تیسرے چوتھے نمبر پر
جا پڑے اور اگر اس نے اپنے گرد کوئی خول بنا لیا ہے یا جال بن لیا ہے تو وہ ایک دو
جگہ سے ٹوٹ جائے، باقی کو مریض خود توڑ لے گا۔ کرم، صحت، عنایات اللہ کی طرف سے
ہوتی ہیں۔
یہیں یونیورسٹی کے ایک ساتھی ہیں: اے ڈی
خان۔ یہ ان کا نِک نیم ہے، وہ بھی معدودے چند دوستوں کے درمیان۔ موصوف سے اپنی گپ
شپ خاصی فری سٹائل ہے، جیسے اپنے ’’مرزا جٹ‘‘ صاحب سے ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کی بات
ہے، ایک دن میں دفتر گیا، وہاں کسی نے بات کی کہ اے ڈی خان کی پیشاب کی نالی کی
سرجری ہوئی ہے اور وہ آج ہی ہسپتال سے گھر پہنچے ہیں۔ ان کا گھر میرے گھر کے راستے
میں پڑتا تھا۔ ان سے ملا، دیکھا پیلے ہو رہے ہیں اور جسمانی تکلیف سے زیادہ ذہنی
اذیت میں دکھائی دے رہے ہیں۔ کیا حال ہیں کے جواب میں مردہ سا ’’ٹھیک ہوں‘‘ وغیرہ۔
ان کا بیٹا ان کے پاس تھا، میں نے اس سے پینے کا پانی مانگ لیا کہ دو منٹ کو ٹل
جائے یہی بہت ہے۔ وہ کمرے سے نکلا تو میں نے ایک ایسا جملہ چھوڑا کہ اے ڈی خان کی
ہنسی چھوٹ گئی۔ تازہ سرجری تھی، درد کی کیفیت موصوف کے چہرے سے عیاں تھی۔ ادھر
ادھر کی دو چار باتیں کیں، پانی پیا اور گھر چلا آیا۔ (وہ جملہ یہاں کہنے کا نہیں
ہے، ذکر اس لئے ضروری تھا کہ اے ڈی خان کے محبوس ہوتے ذہن کو اس جملے نے کھلی ہوا
میں پھینک دیا تھا)۔
بعد میں اے ڈی خان نے بتایا: ’’جب تم
چلے آئے تو میری پھر ہنسی چھوٹ گئی اور میں درد کی شدت سے کراہنے لگا۔ گھر والی
بھاگی آئی کہ ہوا کیا ہے، ہنس بھی رہے ہو، ہائے ہائے بھی کر رہے ہو۔ اس کو تو میں
نے ایسے تیسے ٹال دیا، مگر یہ ضرور ہوا کہ وہ مجھ پر جو مُردنی
چھائی ہوئی تھی، اس جملے نے توڑ دی اور میں گویا پرسکون سا ہو گیا‘‘۔
13 جون 2014ء
۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں