کام تو ظاہر ہے کام ہوتا ہے اور ہمیشہ مشکل
ہوتا ہے۔ بندہ کام کرنے پہ آ جائے تو آسان ہو جاتا ہے نہیں تو بندہ خود بھاگ جاتا
ہے۔ میں نے کام سنبھال لیا، شیخ صاحب جو وہاں مختارِ کل تھے، میرے کام سے مطمئن تھے۔ اس کے باوجود مجھے ایک مناسب اور باعزت کام مل جانے پر جو اطمینان ہوا تھا، اس کی عمر بیس
دن سے زیادہ نہ نکلی۔ شیخ صاحب نے مجھے طلب کیا اور فرمایا: آج کا حساب شام چھ بجے
تک جمع کرا دو، پھر اپنا حساب کر لینا، اور فارغ۔ میں تو ہکا بکا رہ گیا، کہ نہ
کوئی شکایت، نہ وارننگ، نہ کوئی رپورٹ، نہ کچھ؛ یہ ایک دم کیا آن پڑا؟ میں نے ہمت
کی اور پوچھ لیا: شیخ صاحب میرے کام میں کوئی گڑبڑ ہوئی؟ بولے: نہیں، کچھ بھی نہیں
ہوا، بس تم آج شام سے فارغ ہو۔ میں نے پھر کہا: تسلیم کہ میں آج شام سے فارغ مگر
کم از کم مجھے وجہ جاننے کا حق تو دیجئے، میں کوئی دعویٰ رکھتا بھی نہیں ہوں۔ کہنے
لگے: صاف بات سنو گے؟ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ نعیم کو جانتے ہو؟ جی! جانتا
ہوں، سلیم کا چھوٹا بھائی۔ ہاں وہی، اس کی ماں آئی تھی کہ نعیم کو نوکر رکھ لو،
میری ماں نے بھی کہہ دیا کہ لڑکا بے کار پھرتا ہے، تمہارا بھائی ہے رکھ لو۔ اب اس
کو رکھنے کے لئے تمہیں فارغ کرنا پڑے گا۔
میرے لئے یہی کافی تھا، کہ مجھ پر
کوئی الزام تو نہیں لگایا گیا۔ شام کو ٹول کولیکشن کا حساب اور نقد رقم وصول کر کے
شیخ صاحب نے میرا حساب کیا اور سو روپے کا ایک نوٹ مجھے تھماتے ہوئے کہا۔ اٹھانوے
روپے بنتے ہیں۔ میں نے دو روپے کے سکے ان کی میز پر رکھے اور سلام کہہ کر باہر نکل
گیا۔ حجرے کے مالک کو جو ریلوے سٹیشن پر چائے بیچتا تھا، حجرے کی چابی تھمائی
(کرایہ تو میں پیشگی دے چکا تھا)، اپنا بستر اور چارپائی اٹھائی اور اسی ٹال ٹیکس
پوسٹ پر آ کر لاہور جانے والی کسی لوکل بس کا انتظار کرنے لگا۔
کوئی دو گھنٹے بعد میں اکبر علی بیگ صاحب
کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ انہیں اپنی کہانی سنائی اور کہا کہ میرا یہ سامان اپنے
پاس رکھ لیں، میں گھر جاتا ہوں، ان کو پیسے تو پہنچا دوں باقی بعد کی بات ہے۔
کھانے کا وقت تھا، انہوں نے مجھے روک لیا اور کہا جلدی نہ کرو رات یہاں گزار لو،
کل چلے جانا۔ الیاس بیگ کے ساتھ باہر ٹہلنے کو نکلا، ویسے بھی وہاں کے لوگ مجھے
جانتے تو تھے، ملتا ملاتا اپنے سابقہ دفتر تک پہنچا، وہاں میری جگہ ایک نوجوان
لڑکا بیٹھا تھا، اس کا نام ادریس بتایا گیا، وہ اچھے انداز میں ملا۔ اگلے دن
صبح اسی کی وساطت سے میں نے طاہر محمود سے فون پر بات کی، کہنے لگا: ٹھہرو! کہیں
نہ جانا، میں تمہیں ابھی فون کرتا ہوں۔ دس پندرہ منٹ بعد اس کا فون آیا: ایسا کرو
ٹھوکر نیاز بیگ چلے جاؤ۔ وہاں لیاقت ٹھیکے دار کو تلاش کر لینا، اس کا دفتر سڑک پر
ہی ہے۔
مجھے ٹھوکر تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ بھی
نہیں لگا ہو گا۔ لیاقت صاحب کو پی ڈبلیو ڈی کا ایک ٹھیکہ تازہ تازہ ملا تھا، اور
اسے ایسے کسی بندے کی ضرورت تھی جو ریل سے آنے والے سیمنٹ کو سائٹ تک پہنچائے اور
اس کا حساب رکھے۔ کام میرے لئے نیا تھا، مگر یوں کہیئے کہ اب کوئی بھی کام میرے
لئے نیا نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں پھر ریلوے سٹیشن کی طرف رواں تھا مگر منشی جی
کی حیثیت میں۔ لیاقت صاحب سے ساتھ کام کرتے مجھے کوئی دس بارہ دن ہوئے تھے کہ میرے
بڑے ماموں مجھے ڈھونڈتے ڈھانڈتے مجھ تک آن پہنچے۔ ان کے پاس میرے نام ایک سرکاری نوکری
پر تقرری کا خط تھا جس کے مطابق حاضری کی آخری تاریخ دو دن پہلے نکل چکی تھی۔ میری
کیفیت کیا ہوئی ہو گی، یہ بیان کرنے کی بات نہیں ہے۔ بہ این ہمہ میں نے آس کا دامن نہیں چھوڑا۔
لیاقت صاحب سے کہا کہ جاتا ہوں اگر کسی طور نوکری مل گئی تو آپ کو اطلاع دے دوں گا،
ورنہ میرے لئے کوئی موقع ضرور رکھئے گا چاہے خدمت گار کا ہی کیوں نہ ہو۔ شام کے
وقت تک میں پھر اپنی ماں کی دعاؤں کی چھاؤں میں تھا۔
مجھے یاد آیا کہ میں جب جلو موڑ سے ملازمت
چھوڑ کر نکلا تھا تو الیاس بیگ کو اپنی میٹرک کی سند اور ڈومی سائل کی کچھ نقول دے
دی تھیں کہ یار تم شہر میں بیٹھے ہو۔ کوئی نوکری دیکھو تو درخواست جمع کرا دینا،
آگے جو اللہ کو منظور۔ ہو سکتا ہے اس نے درخواست بھیج دی ہو! مگر کوئی انٹرویو کال
نہ انٹرویو؟ تو پھر مجھے نوکری کیوں کر مل گئی؟ چٹھی پر میرا نام ولدیت ڈاک کا
پتہ حرف بہ حرف درست تھا۔ محکمے کا نام تھا ’’نیشنل رجسٹریشن آرگنائزیشن‘‘ میرے
لئے نیا نام تھا، ادھر ادھر لوگوں سے پتہ چلا کہ ایک نیا محکمہ بنا ہے، جو ہر بندے
کا شناختی کارڈ بنائے گا۔
اگلے دن جو اس نوزائیدہ محکمے کے دفتر میں
پہنچا تو ایک ایک انداز میں اس کی نوزائیدگی عیاں تھی۔ برامدے میں کرسیاں بے ترتیب بلکہ ایک دوسری
کے اوپر پڑی ہیں، جیسے ابھی ٹرک سے اتاری گئی ہوں۔ میزیں ایک طرف اکٹھی پڑی ہیں۔
ایک کمرہ ڈھنگ سے آباد دکھائی دیتا ہے، ایک اور کمرے میں کچھ بابو بیٹھے گپیں ہانک
رہے ہیں، کچھ لوگ برامدے میں کرسیاں آڑی ترچھی رکھے نیم پریشان نیم اداس بیٹھے
ہیں۔ کچھ کے لباس اور پگڑیوں صافوں سے لگتا ہے کہ سائلین ہوں گے، ان کے چہروں پر
بھی وہی کیفیت ہے۔ میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوا، اپنی استطاعت تک چہرے پڑھتا ہوا ان
کے بیچ ذرا سا رکتا ہوں اور پھر اس کمرے کی طرف بڑھتا ہوں جسے میں نے ابھی ’’ڈھنگ
سے آباد‘‘ کہا۔ دوسرے کمرے سے ایک بظاہر اچھا بھلا بابو ’’ہے!!!!‘‘ کی آوز دیتا
ہوا میری طرف بڑھتا ہے۔ میں رک جاتا ہوں، وہ خاصے درشت لہجے میں بولتا ہے: ’’اُدھر
کدھر جا رہے ہو؟‘‘ مجھے اس کا یہ انداز بالکل گنواروں کا سا لگتا ہے، میں اسی کے
لہجے میں جواب دیتا ہوں: ’’کیوں؟ کیا ادھر بیبیاں بیٹھی ہیں؟‘‘ وہ میرے غیر متوقع
ردِعمل پر کچھ کھسیانا سا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: ’’نہیں، ادھر صاحب بیٹھے
ہیں۔‘‘ اس کا طنطنہ آدھا گھٹ چکا ہے۔ میں کہتا ہوں: ’’صاحب کی طرف ہی تو جا رہا
ہوں۔‘‘ جواب ملتا ہے: تم نہیں جا سکتے! ’’کیوں نہیں جا سکتا بھئی؟ کیا ادھر جانے
کو ویزا چاہئے؟‘‘ تب تک میں کمرے کے دروازے تک پہنچ چکا ہوں۔ ایک خاصے مہذب دکھائی
دینے والے صاحب سامنے کی کرسی پر بیٹھے ہیں اور میز کے اِس طرف دو اور شخص ہیں۔
مجھے کچھ ایسا لگتا ہے کہ پرانے لوگ ہیں اور کسی دوسرے محکمے سے یہاں کا نظام
ترتیب دینے کو لائے گئے ہیں۔ ’’اندر آ سکتا ہوں؟‘‘ ’’جی، آئیے‘‘۔ میں ان صاحب کو
اپنا لیٹر دکھاتا ہوں۔ وہ پڑھ کر کہتے ہیں: ’’اوہ آپ تو بہت لیٹ ہو گئے! ‘‘۔ میں
کہتا ہوں: ’’یہ تو ہے! اب مجھے کیا کرنا ہو گا، کوئی سینئر اتھارٹی؟ جن سے میں کہہ
سکوں کہ میں لیٹ کیوں ہوا، اور اس کا کوئی حل؟‘‘ ’’کوئی حل نہیں ہے، آپ کا موقع
ضائع ہو گیا‘‘۔
میں باہر آ جاتا ہوں۔ وہی اجڈ میرے سامنے
آن کھڑا ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں مکاری جھانک رہی ہے؛ ’’بڑی جلدی مڑے ہو، کھوٹے
پیسے کی طرح، ہوا کیا ہے، مجھے بتاؤ‘‘ ’’میں لیٹ ہو گیا‘‘ ’’کتنے دن؟‘‘ ’’تین دن‘‘
’’تو کیا ہوا، صاحب کیا کہتے ہیں؟‘‘ ’’انہوں نے تو انکار کر دیا‘‘ ’’اوئے ہوئے
ہوئے ‘‘ اس کی اس اوئے ہوئے میں ہمدردی یا ترحم کی بجائے کاٹ نمایاں ہے۔ اتنے میں
ایک اور صاحب جو کسی قدر بہتر پوزیشن والے دکھائی دیتے ہیں۔ آ کر میرے کندھے پہ ہاتھ
رکھتے ہیں: ’’کیا ہوا جناب؟ آپ کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں!‘‘ ’’میں تین دن لیٹ
ہو گیا ہوں، اور صاحب نے میری جائننگ لینے سے انکار کر دیا ہے‘‘ ’’لگتا ہے پہلے
کہیں ملازمت کرتے رہے ہیں‘‘ ’’آپ نے کیسے اندازہ لگایا؟‘‘ ’’لیٹ ہو گیا، جائننگ
نہیں لی، یہ الفاظ بتا رہے ہیں‘‘ ’’جی، تو اب؟ اس کا کوئی حل ہے‘‘ ’’حل تو ہے مگر
مشکل ہے‘‘۔ ’’ پھر بھی! پتہ تو چلے!‘‘ ’’لمبا چکر ہے جناب، ہم آپ کی جائننگ کرا
دیتے ہیں آج ہی‘‘ وہ معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھتے ہیں۔ ’’کچھ خدمت کرنی پڑے
گی‘‘ ان کی ذات کا اندرون چھلک پڑتا ہے۔ وہ بھی کسی دوسرے محکمہ سے یہاں ابتدائی
انتظامات کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ میں بھولا بن جاتا ہوں ’’مثلاََ کتنی اور کیسے‘‘ ۔
’’زیادہ نہیں، بس یہی کوئی ہزار بارہ سو۔ باقی ہم پہ چھوڑ دیجئے، آپ کی آج جائننگ
پکی!‘‘ آج کے حساب میں وہ ’’بس یہی کوئی اسی نوے ہزار‘‘ بنتے ہوں گے۔ ’’کوئی کرنے
کی بات کیجئے صاحب! اور آپ کا نام؟‘‘ ’’میرا نام منیر ہے، کل تک کچھ کر لیجئے‘‘
میں ان سے جان چھڑانا چاہ رہا ہوں اس لئے قدرے ہٹ کر ایک کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں۔
منیر صاحب وہاں آ دھمکتے ہیں۔ ’’ہزار بارہ سو بڑی رقم ہے مجھے پتہ ہے چلئے چھ سات
سو کر لیتے ہیں‘‘ ظاہر ہے یہ سب کچھ بلند آواز میں تو ہو نہیں سکتا۔ ’’میں ایک بار
صاحب سے مل لوں؟‘‘ ’’ہاں ہاں، کیا ہرج ہے!‘‘ وہ خوش دلی سے کہتے ہیں اور میں پھر
صاحب کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔ وہ کسی قدر بیزاری سے پوچھتے ہیں، ’’جی اب کیا
ہوا؟‘‘ ’’مجھے بتائیے کوئی اعلیٰ افسر مجھے ایکسٹینشن دے سکتا ہے؟ میں ان سے مل
لوں‘‘۔ ’’ضرور ملئے! ہمارے ڈپٹی ڈائریکٹر صاحب لاہور کے اختیار میں ہے‘‘۔ میں
شکریہ ادا کر کے دفتر سے نکلتا ہوں تو وہی منیر صاحب مجھے پھر چھاپ لیتے ہیں:
’’دیکھئے پریشان نہ ہوئیے یہ بہترین حل ہے۔‘‘ میں ان سے کہتا ہوں کہ ذرا گیٹ تک
میرے ساتھ آئیں، وہ سمجھتے ہیں کہ کانٹا لگ گیا، خوشی خوشی میرے ساتھ گیٹ تک آتے
ہیں۔ اس کی آنکھوں سے لالچ، سوال، شوق، اور کمینگی سب کچھ مکمل عیاں ہے۔ میں اُن
سے کہتا ہوں: ’’مسٹر منیر اگر میرے پاس آج ہزار بارہ سو روپے نقد ہوتے تو میں اپنے
گاؤں میں کریانے کی ہٹی کھول کر بیٹھ جاتا، آپ جیسے کسی کو ہڈی نہ ڈالتا۔‘‘ ان پر
غصے سے زیادہ حیرت طاری ہو جاتی ہے۔ اور ان کے اس کیفیت سے نکلنے سے پہلے میں ان
کی طرف ہاتھ ہلاتا ہوا، بس سٹاپ کی طرف چلا جاتا ہوں۔
گھر پر میں بتا کر آیا تھا کہ نوکری ہو گئی
تو میں شام تک گھر پہنچ جاؤں گا، نہ ہوئی تو ساہی وال سے سیدھا لاہور چلا جاؤں گا۔
دیہاڑیاں تو ضائع نہ ہوں، نا۔ دوپہر تک میں ٹھوکر نیاز بیگ پہنچ چکا تھا، لیاقت
صاحب نہیں تھے، وہاں کوئی اور صاحب بیٹھے تھے۔ میں نے ان کو بتا یا کہ میں جلوموڑ
جا رہا ہوں۔ اور اومنی بس پر سوار ہو گیا۔ میری کیفیت اس وقت تک بھی اس بھوکے کی
سی تھی جس کے آگے کھانا رکھ کر اٹھا لیا گیا ہو۔ جلو موڑ میں جہاں مجھ پر آوازے کسنے والے کچھ لوگ تھے وہیں میرے غم گسار بھی موجود تھے ۔ وہ مجھے اپنا دوسرا گھر لگتا تھا۔
ایک اکبر علی بیگ تھے (الیاس کے والد) ، ایک خان صاحب تھے ان کا نام ذہن میں نہیں، ایک ملک فیروز
صاحب تھے، جن کے بارے میں مجھے پتہ تھا کہ وہ اور کچھ بھی نہ کریں میری ڈھارس ضرور
بندھائیں گے۔ ایک غلام رسول ڈاک رنر تھا جس کی منافقانہ روش سے میں بھی بخوبی واقف
تھا، وغیرہ وغیرہ۔ زیادہ لوگ ایسے تھے جو ملیں تو مسکرا کر ملتے ہیں اور بعد میں
بھول بھال جاتے ہیں۔ ایک ’’تنویڑ اختڑ‘‘ تھا جو ’’لوہاڑی دڑواژے کے اندڑ ڑہتا
تھا‘‘۔ شیخ سلیم وہاں سے جا چکا تھا۔
الیاس بیگ فی الواقع شاگردِ رشید ثابت ہوا۔
ایک تو وہ مجھے سر کہہ کر مخاطب کرتا، دوسرے جہاں تک اس سے جو بن پڑتا میرے لئے کر
دیتا۔ اس سے بات ہوئی تو کہنے لگا: پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ وہ ڈپٹی ڈائریکٹر
صاحب، ان کا نام باسط عزیز ہے، اچھے آدمی ہیں، اگر وہ کہیں گئے ہوئے نہیں تو کل
شام کو ان سے مل لیں گے، شادمان میں رہتے ہیں۔ اس نے کسی کو فون کیا، پتہ چلا باسط
صاحب دورے پر گئے ہیں پرسوں لوٹیں گے۔ میں نے لیاقت صاحب کے پاس جانا چاہا تو اس
نے مجھے روک دیا: ’’آپ کو کم از کم ایک دن آرام کی ضرورت ہے، اور ہاں! تسلی رکھئے
آپ کو ایکسٹینشن مل جائے گی، میں پورے اعتماد سے کہہ رہا ہوں۔‘‘
ہم لوگ تقریباََ ّعصر کے وقت باسط عزیز
صاحب سے ملے۔ انہوں نے خاصے سوال کئے۔ درخواست کب دی تھی، انٹرویو کب ہوئے تھے۔
میں نے بتا دیا کہ صاحب مجھے تو انٹرویو کال ملی ہی نہیں، کوئی میرا ہم نام بھگت
گیا ہو گا۔ کہنے لگے نوکری آسان مل گئی نا، گھر بیٹھ رہے کہ دیر بھی ہو گئی تو
باسط عزیز کے پاس چلے جائیں گے سرجی غریب آدمی ہوں یہ ہے وہ ہے، کام کی ضرورت ہو
تو کوئی دیر نہیں کرتا؛ وغیرہ۔ میں فی الواقع غصے میں آ گیا اور کہا: صاحب اللہ نے
آپ کو عزت دی ہے، ایسی ہی عزت غریب کی بھی ہوتی ہے، اور ہر کوئی کسی کے آگے یوں ہی
ہاتھ نہیں پھیلا دیتا۔ آپ ایکسٹینشن بھی دے سکتے ہیں اور انکار بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
ہنس پڑے: او، یار توں تے غصے وچہ آ گیا ایں۔ پھر قلم کھول لیا : اچھا بتاؤ کب تک
ڈیوٹی پر حاضر ہو جاؤ گے۔ احساسِ تشکر سے میرے الفاظ گڑبڑا گئے۔ میں نے بمشکل کہا
کہ میں کل ہی ڈیوٹی پر پہنچ جاؤں گا۔ انہوں نے کہا میں تمہیں آج سمیت چار دن لکھ
دیتا ہوں، جاؤ مزے کرو۔
اگلے دن سویرے آٹھ بجے میں دفتر میں حاضر
تھا، اس دن والے صاحب کرسی پر نہیں تھے کوئی اور صاحب تھے، میں جائننگ لکھ کر لے
گیا تھا۔ انہوں نے دستخط کر کے دونوں کاغذ ساتھ بیٹھے ہوئے ایک بابو کو دے دئے،
اور مجھ سے مخاطب ہوئے: لگتا ہے آپ نے پہلے بھی کسی دفتر میں ملازمت کی ہے اور کچھ
کچھ دفتری طریقے سے بھی آشنا ہیں۔ میں نے مختصراََ بتایا کہ مختلف جگہوں پر کام
کرتا رہا ہوں کچھ کچھ سیکھا بھی ہے۔ انہوں نے مسکراہٹ پر اکتفا کیا اور کہا: ٹھیک
ہے آپ کے ذمے کام لگاتے ہیں، ابھی کچھ دیر نئے آنے والے ساتھیوں سے گپ شپ لگا
لیجئے۔ ہو یہ رہا تھا کہ اس دن سب کی ڈیوٹیاں لگنی
تھیں۔ میزیں کرسیاں الماریاں لگ چکی تھیں، ضروری ریکارڈ، خالی درخواست فارم،
کنٹرول رجسٹر وغیرہ مہیا ہو چکے تھے۔ میں بھی ایک برامدے میں ایک کرسی پر جا
بیٹھا۔ وہی منیر صاحب میرے پاس سے گزر گئے اور وہ اجڈ شخص سرگوشی میں مجھ سے مخاطب
ہوا۔ تم پھر آ گئے ہو؟ یوں تم نوکری نہیں لے سکتے، ہم تمہارے کام آئیں گے۔ میں
منیر صاحب سے بات کر چکا ہوں وہ کہتے ہیں چلو تم غریب آدمی ہو دو سو میں تمہارا
کام کر دیں گے۔ میں نے کہہ لیجئے جوابی حملہ کیا: یار بڑے پتھر دل ہو یار، کبھی
کسی کے کام ویسے بھی آ جایا کرو، ایک آدھ بکرے کو چھری نہ بھی پھرے تو کیا ہے۔ اس
نے نہایت مکروہ قہقہہ لگایا۔ عین اس وقت دو تین صاحبان بڑے صاحب کے دفتر سے نکلے،
اور اپنے پاس موجود فہرستوں کے مطابق نوآمدگان کے نام پکارنے لگے کہ یہ صاحبان میرے ساتھ آئیں۔ ظاہر ہے ایک فہرست میں میرا نام بھی تھا۔ میں اٹھ کر چلا تو وہ
بولا: بہت گھُنے ہو، تمہاری جائننگ ہو چکی؟ میں نے کہا بعد میں بتاؤں گا اس وقت
کال ہے مجھے اپنے انچارج کے ساتھ جانا ہے۔ اس کی حالت دیدنی تھی۔ میں نے کہا: یار
اپنا نام تو بتا دو۔ کہنے لگا: ملک ہدایت اللہ۔ میں نے بے ساختہ کہا: اللہ تمہیں
ہدایت دے۔ اس کے منہ سے بھی بے اختیار نکل گیا: آمین!
آخری تدوین: جون
7, 2014
یوں مجھے پہلی باضابطہ سرکاری ملازمت (لوئر
ڈویژن کلرک : نیشنل پے سکیل نمبر 5، ابتدائی بنیادی تنخواہ 150 روپے ماہوار) ملی۔
اس وقت تک میں ایک بیٹی کا باپ بن چکا تھا۔ بعد کے برسوں میں بھی مالی مسائل تو
خیر پیش آتے رہے۔ مگر وہ مجھ پر یوں بھی قدرے سہل رہے کہ کڑوے کے بعد پھیکا بھی
کھائیں تو میٹھا لگتا ہے۔
۔۔۔۔
میرا تعلق مشہورِ زمانہ ’’ارائیں‘‘ برادری
سے ہے۔ میرے بزرگ 1939-1945 کی جنگ کے زمانے تک سابقہ ضلع لاہور کے ایک دور دراز
گاؤں موضع ’’بُوہ‘‘ میں آباد تھے۔ وہ لوگ زمین دار تھے۔ میرے دادا (شہاب الدین) کے
ایک بھائی فوج میں صوبے دار ہوتے تھے۔ میں ان کا اصل نام کبھی نہ جان سکا۔ وجہ یہ
ہوئی کہ اُن کے کسی کارنامے پر خوش ہو کر سرکار نے ان کو ’’چوغتہ خان‘‘ (اس کے
درست ہجے میرے علم میں نہیں) کا خطاب دے دیا اور ساتھ ہی غالباََ چار مربعے یعنی
سو ایکڑ زمین بھی عطا کی۔ میرے پردادا کی اپنی زمین بوہ میں تھی اور وہ لوگ اپنے
زمانے کے مطابق اچھی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اپنے چھوٹے بھائی (یعنی صوبے دار) صاحب
کی اس خواہش پر کہ چل کر عطیے کی زمین آباد کرتے ہیں، سب کچھ وہیں چھوڑ چھاڑ کر
میرے موجودہ آبائی گاؤں (چک نمبر 1۔ وَن ایل) میں چلے آئے ۔ دو تین سال بعد
پاکستان بنا تو دادا جی اور صوبے دار صاحب اپنی جدی وراثت سے محروم ہو گئے۔ صورتِ
حال کچھ یوں بنی کہ میرے دادا جی اپنے بھائی کے مزارع بن گئے۔ میں نے اپنے بچپن کے
واقعات میں جن رشتے کے چچا کا ذکر کیا ہے وہ انہی صوبے دار صاحب کےاکلوتے فرزندِ
ارجمند تھے۔ ان لوگوں نے اپنے معاملات کس طرح نمٹائے یا نہیں نمٹائے اس کی تفصیلات
اب بے معنی ہو چکی ہیں۔ مختصر یہ کہ میرے دادا جی کی وفات کے وقت میرے ابا اسی
چوہدری محمد عالم کی نو دس ایکڑ زمین بٹائی پر کاشت کر رہے تھے۔
دادا جی کی چار اولادیں تھیں۔ پہلے تین
بیٹے: شیر محمد، فضل دین اور الٰہی بخش (میرے ابا) اور ان سب سے چھوٹی بیٹی جیواں
بی بی ۔ تایا شیر محمد کو میں نے نہیں دیکھا، وہ میری پیدائش سے پہلے اللہ کو پیارے
ہو گئے تھے۔ وہ رینالہ خورد کے اُس پار ایک دوسرے گاؤں میں رہتے تھے، تاہم ان کا
میل جول اپنے بھائیوں سے کم کم ہی رہا۔ان کے غالباََ تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔
سب سے بڑے کا نام محمد ابراہیم تھا، پھر محمد سلیمان اور پھر محمد طفیل۔ محمد
ابراہیم کی وفات بھی میری پیدائش سے پہلے کا واقعہ ہے۔
تایا فضل دین میرے لڑکپن تک زندہ تھے، ایک
بہت زندہ دل شخصیت اور روتوں کو ہنسانے والے۔ رسمی تعلیم کا شاید تب رواج ہی نہیں
تھا۔ تاہم تایا جی کو بزرگوں کے لطائف، قابلِ توجہ باتیں اور نکات بہت سارے تو
ازبر تھے اور کچھ وہ اپنے پاس سے ملا بھی دیا کرتے۔ کبھی موج میں ہوتے تو شیخ سعدی
اور علامہ اقبال کا نام لے کر فارسی شعر سنایا کرتے، جن کی صحتِ لفظی کا ذمہ کوئی
نہیں لے سکتا۔ چائے کے بہت رسیا تھے اور جہاں کسی نے پوچھ لیا کہ تایا چائے بناؤں
ت، فوری جواب دیتے: ایسی بات کا پوچھتے نہیں ہیں کر دیتے ہیں۔ انہوں نے چائے کی صفات
پر ایک ’’شعر‘‘ بنا رکھا تھا، جسے چائے کی ہر پیالی پر دہراتے۔ اور پھر خود ہی اس
کی تشریح بھی کر دیتے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتے کہ یہ یہ لفظ فارسی کا ہے اور اس کا
یہ معنیٰ ہے۔ کہا کرتے چائے میں چھ صفات ہونی چاہئیں:
خوش رنگ بھی ہو، خوش
شِیر بھی ہو، خوش قند بھی ہو
لب ریز بھی ہو، لب
سوز بھی ہو، لب بند بھی ہو
اس شعر کی لفظیات اور تشریح سے قطع نظر اُن
کا اندازِ تشریح بہت دل چسپ ہوا کرتا تھا۔ تایا فضل دین نے دو شادیاں کیں پہلی
بیوی سے دو بیٹے سراج دین اور نواب دین ہوئے، وہ فوت ہو گئیں۔ میری دوسری تائی میرے
لڑکپن تک زندہ تھیں، ان سے تایا کی کی باقی ساری اولاد ہوئی۔ انہی کے دونوں بیٹے
میرے بہنوئی بنے۔ دمِ تحریر بڑے مہر نور دین اور ان کی بیوی میری سب سے بڑی بہن
وفات پا چکے ہیں، چھوٹے محمد شفیع حیات ہیں مگر ا ن کی بیوی میری دوسری بڑی بہن
وفات پا چکی ہیں۔ ان دونوں بھائیوں کی پہلوٹی کی اولاد ایک کا بیٹا اور ایک کی
بیٹی مجھ سے دو سال چھوٹے ہیں۔
مہر الٰہی بخش (میرے ابا جی) میں ساتویں
جماعت میں تھا، جب کا سارا قصہ ’’خواب سے سانجھ تک‘‘ میں بیان ہو چکا۔ ہم کل چھ
بہن بھائی تھے، سب سے بڑی دونوں بہنیں اللہ کو پیاری ہو چکیں تیسری بڑی بہن کی صحت
بھی کئی برسوں سے چلتے پھرتے نظر آنے والی بات ہے۔ ان سے چھوٹے میرے بڑے بھائی
احمد دین ہیں، پھر ایک بہن ہے اور میں سب سے چھوٹا ہوں۔ بھائی کی پانچ بیٹیاں اور
تین بیٹے ہیں سب بیاہے جا چکے سب سے چھوٹی بیٹی کا بھی رشتہ طے ہو چکا ہے۔ مجھ سے
بڑی اور بھائی سے چھوٹی بہن کی صحت بھی ایک مدت سے ٹھیک نہیں رہ رہی۔ جس دن میرے چھوٹے
بھتیجے کی شادی تھی، اس دن میری بہن لاہور کے ایک ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے
شعبے میں پڑی تھیں۔ اللہ تعالیٰ اپنا کرم فرمائے۔
اب رہ گیا یہ فقیر تو جب تک
دھُونی مر نہیں جاتی کہانی چلتی رہے گی، ساتھ ساتھ رہئے گا۔
8 جون 2014ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں