جمعرات، 20 اگست، 2015

لکھنا ۔۔۔ کیا، کیوں، کیسے


لکھنا ۔۔۔ کیا، کیوں، کیسے


۔(1)۔
اپنا کوئی تجربہ، کوئی آپ بیتی، کوئی مشاہدہ، کوئی خیال، کوئی تصور، کوئی نظریہ، کوئی خدشہ، کوئی امید، کوئی خواہش، کوئی آرزو، کوئی محرومی؛ کیا لکھنا ہے مجھے؟ اور اس میں کون سی ایسی خوبی ہے یا اس میں کون سی ایسی اہم بات ہے جو دوسروں تک پہنچنی چاہئے، یعنی اس کو لکھنا اور دوسروں تک پہنچانا کیوں ضروری ہے یا کیوں اہم ہے؟ یہ ہے بنیادی سوال۔ اگر مجھے ایک بات، ایک واقعہ سوچنا ہے اور اس کو اپنے تک رکھنا ہے تو لکھنے کا عمل ضروری نہیں ٹھہرتا کہ میں نے سوچ لیا، محسوس کر لیا، اس سے کوئی خیال، کوئی نکتہ اخذ کر لیا، بس ٹھیک ہے۔  اپنی یاد داشت، روزنامچہ، ڈائری میں اپنے لئے لکھنا ہے، تو بھی وہی بات ہے۔ اگر اس لئے لکھنا ہے کہ میرا لکھا کسی دوسرے شخص کو پہنچے یا ایک گروہ، ایک جماعت، ایک امت، ایک قوم کو پہنچے تو پھر مجھے کچھ اس طرح لکھنا ہو گا کہ کہ وہ شخص، وہ گروہ، وہ جماعت، وہ امت، وہ قوم میرے لکھے کو پا سکے، سمجھ سکے اور میرا مقصد اس تک پوری معنویت کے ساتھ پہنچ سکے۔

بنیادی نکتہ طے ہو گیا کہ مجھے کچھ کہنا ہے اور اس طرح کہنا ہے کہ میرا شخصی یا غیر شخصی مخاطب میرے کہے کو پا سکے۔ اس کو رسمی زبان میں اظہار اور ابلاغ کہہ لیجئے۔ اظہار اور ابلاغ باہم لازم و ملزوم ہیں، کسی ایک کو نظر انداز کر دیں، دوسرا باقی نہیں رہتا اور رہتا بھی ہے تو نامکمل، ٹوٹا پھوٹا اور قریب قریب بے معنی سا۔فریقین کا تعین بھی یہاں ہو گیا: ایک ہے کہنے والا یا لکھنے والا، وہ شاعر ہے، نثر نگار ہے، مصنف ہے، تاریخ دان ہے، سائنس دان ہے، عالمِ دین ہے، سیاست دان ہے، ڈاکٹر ہے، فلسفی ہے یا جو کچھ بھی وہ ہے۔ دوسرا فریق اس کا قاری ہے یا سامع ہے۔ ان دونوں کے درمیان سانجھ، اظہار کی ضرورت، موقع، صورتِ حال ہے جو لکھنے کا موجب ہے۔ آسان ترین زبان میں کون کس سے مخاطب ہے اور کہہ کیا رہا ہے، اور کیا اس کا کہا پہنچ بھی رہا ہے؟ 

۔(2)۔
میرے کہے، لکھے کا نفسِ مضمون کیا ہے، اسے میں کس زبان میں بہتر طور پر بیان کر سکتا ہوں، نفسِ مضمون خود مجھ پر واضح ہے یا نہیں، اور مجھے اس کے قابلِ بیان ہونے پر کتنا اعتماد ہے (یا میرے نزدیک اس میں سچائی کتنی ہے)،  میرے قاری یا سامع کا اس سچائی سے کیا تعلق ہے، یا اسے کتنی دل چسپی ہے؛ یہ دوسرا مرحلہ ہے۔ اگر میرے قاری کو میرے کہے سے کوئی دل چسپی ہی نہیں یا اس کا تعلق نہیں بن رہا تو مجھے یا تو کوئی اور نفسِ مضمون منتخب کرنا ہو گا، یا اپنے قاری کو تلاش کرنا ہو گا، یا پھر خاموشی اختیار کرنی ہو گی۔  چلئے صاحب! مجھے قاری بھی مل گیا، اس کی دل چسپی، تعلق، فائدے کی کوئی نہ کوئی سطح بھی معلوم ہو گئی؛ گویا مجھے کہنے لکھنے کا جواز مل گیا۔ اب مجھے لکھنا ہے، تو اس کا پیرایۂ اظہار کیا ہو۔

ایک بہت اہم اور بہت اچھی بات، ایک عالم گیر حقیقت، ایک قیمتی مشورہ، ایک جذبۂ صادق ؛ اس کو بیان کرنے میں اگر میرے الفاظ، میرا لہجہ، میرا انداز پورے طور پر ساتھ نہیں دے پا رہا تو میں نے وہی قیمتی بات کہنے کی کوشش میں ضائع کر دی۔ یا میں کہہ تو گیا مگر میرا لہجہ ایسا تھا کہ قاری اس پر چیں بہ جبیں ہوا تو بھی میری بات کا آدھا تو کام سے گیا۔ ضرورت اس امر کی نکلی کہ میرا پیرایۂ اظہار میرے قاری کو بھگا نہ دے بلکہ اس کو مائل کرے، اس کی توجہ کھینچے (ابلاغ کا عمل تب شروع ہو گا)۔ اس کو اسلوب کا نام دے لیجئے: نفسِ مضمون کی مناسبت سے لفظیات کا انتخاب، جملوں کی ساخت کا فطری انداز، اس میں مزاج کی آمیزش اور اپنے قاری کے فوری متوقع ردِ عمل کا اِدراک اور اس کا اپنے لفظوں میں رچاؤ ، زبان کے ورثے سے مطابقت، میری یعنی لکھنے والے کی لفظیاتی ترجیحات؛ وغیرہ مل کر اسلوب کی تشکیل کرتے ہیں۔ اسلوب وہ خوبی ہے کہ مثال کے طور پر، میرا سہانا خواب ہی سہی، آپ ایک غزل، نظم، مضمون، قطعہ، افسانہ کہانی پڑھتے ہیں؛ آپ کو یاد نہیں یا معلوم نہیں کہ یہ تحریر ہے کس کی۔ آپ کو گمان گزرتا ہے کہ "یار، یہ انداز تو محمد یعقوب آسی کا ہے، واللہ اعلم"۔ یہ گمان درست ثابت نہ بھی ہو تو بھی یہ میرے خواب کی تعبیر تو ٹھہری کہ ایک تحریر پڑھ کر قاری کے ذہن میں میرا نام ابھرا۔ یہی گمان چھ آٹھ دس اہلِ نقد کو گزرے تو پھر مجھے صاحبِ اسلوب قرار دیا بھی جا سکتا ہے۔ 

۔(3)۔
ایک موٹی سی بات ہے تو یہ ہے کہ تحریر میں جوں جوں جمالیات شامل ہوتی گئی تو وہ ادب بنتی چلی گئی۔ جمالیات ہے کیا؟ اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرض کیجئے  ایک دروازہ ہے یا ایک کھڑکی ہے یا ایک دروازہ اور ایک کھڑکی ہے۔دونوں بالکل سادہ اور چوکور ہیں (کہ تعمیر کے عمل میں چوکور دروازے کھڑکیاں ہی آسان ترین ہیں)۔ دروازے کے باہر والے پٹ میں جالی لگی ہے (کہ اندر والا پٹ کھلا بھی ہو تو مکھی مچھر کمرے میں داخل نہ ہو پائیں)؛ جالی کے باہر کی طرف گرِل لگی ہے (کہ جالی کمزور ہوتی ہے اور کسی اضافی قوت، ضرب وغیرہ سے ٹوٹ سکتی ہے ، گرِل اس کی حفاظت کے لئے ہے)۔ کچھ ایسا ہی حساب کھڑکی کا بھی ہے۔ اندر باہر والے پٹ سب پر روغن کیا ہوا ہے (کہ لکڑی لوہا، جس چیز کے بھی وہ بنے ہوئے ہیں، موسمی اثرات سے محفوظ رہیں)۔ روغن کا رنگ کیا ہو؟ اور اندر باہر دونوں طرف ایک سا ہو یا الگ الگ؟ دروازہ کھڑکی دونوں کا رنگ مماثل ہو یا الگ الگ؟ اور سادہ یک رنگے ہوں یا ان پر حاشیے، نقطے، ڈیزائن وغیرہ بنا ہو؟ یہ جمالیات ہے۔ کھڑکی چوکور کی بجائے گول ہو، بیضوی ہو تو یہ بھی جمالیات کا اظہار ہے۔ کیا چیز کس رنگ شکل کے ساتھ اچھی یا زیادہ اچھی لگتی ہے، کون سی بات کس انداز میں اچھی لگتی ہے، کسی شے کو کسی بات کو کیسے بناتے سنوارتے ہیں، اور اس کو زیادہ قابلِ توجہ بناتےہیں، بات کس طرح کی جائے کہ اسے یاد رکھنا آسان ہو جائے یہ سارے سوال جمالیات سے تعلق رکھتے ہیں۔

نثر کی نسبت شاعری میں جمالیاتی عنصر نمایاں تر ہوتا ہے (مطلب یہ نہیں کہ نثر جمالیات سے عاری ہوتی ہے)۔ شاعری میں آہنگ، لے، سُر، موسیقیت (جو نام بھی دے لیں) شامل ہوتی ہے، ردیف اور قوافی ہوتے ہیں، نظم کی کوئی نہ کوئی ہئیت منتخب کی جاتی ہے (بیت، قطعہ، مثنوی ، رباعی، مخمس، مسدس، دوہا، گیت، کافی وغیرہ)، اس کے مطابق اوزان و بحور کا نظام ہے، جو سب کچھ نثر میں نہیں ہوتا۔ زبان اور اس کے سارے متعلقات: تشبیہ و استعارہ کا نظام، صنائع و بدائع، علامات و مراعات، تلمیحات، اختراعات، وغیرہ نثر اور نظم دونوں میں یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔ نثر نگار شاعر کی نسبت کم ہیئتی پابندیاں قبول کرتا ہے، سو قدرے سہولت میں رہتا ہے۔ اسلوب کے ضمن میں عرض کر چکا ہوں لفظیات کا انحصار مضمون اور موضوع کے علاوہ لکھاری کی اپنی پسند اور ترجیحات پر بھی ہوتا ہے۔

۔(4)۔
میں اگر خود کو ادیب سمجھتا ہوں یا دوست مجھے ادیب گردانتے ہیں تو مجھ پر عائد ہونے والی سب سے پہلی ذمہ داری ہے زبان کا درست استعمال اور املاء کا پورا پورا تحفظ۔ یہاں کوئی بہانہ ہونا نہیں چاہئے، اگر ہے تو پھر مجھے بھی سوچنا ہو گا اور میرے دوستوں کو بھی کہ میں ادیب ہوں بھی یا نہیں۔ غلطی ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں مگر اسی غلطی کا بار بار دہرایا جانا نہ صرف بڑی بلکہ بری بات ہے۔ ایسا البتہ ممکن ہے کہ ایک لفظ، املاء، محاورہ، کہاوت، ترکیب کے غلط یا درست ہونے میں میرے اور آپ کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہو، اس پر بحث بھی ہو سکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ میں کہوں یوں درست ہے ووں غلط ہے، آپ کہیں ووں درست ہے یوں غلط ہے اور وہ دونوں درست ثابت ہو جائیں،  یا دونوں غلط ثابت ہو جائیں، اور کوئی تیسری چیز نکلے جو درست ہو۔احباب سے مشاورت اور ایک دوجے سے پوچھ لینا یقیناً مستحسن عمل ہے مگر کافی و شافی نہیں،  تحقیق کر لینا اولیٰ! مطالعہ از بس ضروری ہے۔ اگر میں مطالعے سے گریزاں ہوں تو مجھے لکھنے لکھانے سے بھی گریز کرنا ہو گا۔ ایک اور عمل ہے یا رویہ کہہ لیجئے جدت برائے جدت؛ یہ کوئی چیز نہیں ہے۔ ایک فن پارہ جو میں تخلیق کرتا ہوں، وہ ظاہر ہے الفاظ کا مرکب ہے، جملوں یا مصرعوں کی ساخت کا حاصل ہے، اس میں قواعد بھی استعمال ہوئے ہیں اور ذخیرۂ الفاظ بھی۔ میں بفرضِ محال ایک لفظ یا ترکیب کو نئے معانی دیتا ہوں یا کوئی نیا لفظ یا ترکیب وضع کرتا ہوں یا کوئی نیا استعارہ لاتا ہوں، یا نئی علامت بناتا ہوں، تو مجھ پر لازم ہے کہ اس کا سیاق و سباق میرے موضوعے کی دلالت کرے یا توضیح کر دے (کہ میں ایک افسانے یا غزل کے اندر توضیحات کا دروازہ نہیں کھول سکتا)۔ ایسا موضوعہ مروجہ نظام میں غیرموزوں یا اجنبی بھی نہیں لگنا چاہئے ورنہ اس کی تفہیم اور ابلاغ کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ املاء کے قواعد، ضرب الامثال اور محاوروں، اصول و ضوابط، علمِ بیان، علمِ قافیہ، علمِ عروض وغیرہ پر مشتمل بہت کتابیں دستیاب ہیں تاہم ان کے ساتھ بھی وہی مسئلہ ہےجو ہر کتاب کے ساتھ ہوتا ہے (اسے پڑھنا پڑتا ہے)۔

۔(5)۔
ایک اور بات جسے میں بہت اہم سمجھتا ہوں: اپنے ساتھ کبھی جھوٹ نہ بولئے، یہ کبھی نہیں چلتا۔ ایسی صورت پیش بھی آ سکتی ہے کہ مثال کے طور پر مجھے اپنے بیٹے کو یونیورسٹی میں برپا ہونے والے ایک مباحثے کی تیاری کروانی ہے۔ اس کا موضوع ہے: "جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"؛ بیٹے کا نام حزبِ مخالف میں ہے۔ اور میرے اپنے نظریات دیے گئے مصرعے کے مضمون کے حق میں ہیں۔ اب میں اپنے خلاف آپ تو بحث نہیں کر سکتا کہ میرے اندر کا آدمی مجھے بولنے ہی نہیں دے گا۔ ایک اور مثال لیتے ہیں کہ چلئے میں ہی سہی، میں گل و بلبل اور لب و عارض کے اور فراق و وصال کے گرد گھومنے والی شاعری میں کوئی خاص کشش محسوس نہیں کرتا۔ تو ظاہر ہے میں فانی بدایونی جیسی شاعری کیسے کروں گا! ادھر اپنی توانائیاں ضائع کرنے کی بجائے مجھے ان موضوعات کو منتخب کرنا چاہئے جدھر میرا فکری اور جذباتی میلان ہے۔ باقی فنکاریاں اپنی جگہ، جب آپ ایک خاص موضوع میں دل چسپی ہی نہیں رکھتے تو آپ اس میں اپنا رنگ بھی نہیں جما سکتے۔ کہیں ایک آدھ شعر، قطعہ وغیرہ کہہ لینے میں کوئی ہرج بھی نہیں ہے۔ اسی نکتے کو یوں بھی پھیلایا جا سکتا ہے کہ ایک بات ایک واقعہ ایک صورتِ حال جو مجھ پر گزرتی ہے اور ایک بات ایک واقعہ ایک صورتِ حال جس کا میں شاہد ہوں یا جو میرے علم میں ہے ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ بیان کرنے کی صلاحیت، زبان پر قدرت، قوت، متخیلہ وغیرہ کی مدد سے میں مشاہدے کو سرگزشت کا روپ دے سکتا ہوں تو ٹھیک ہے، طبع آزمائی کر لینا بھی درست۔ نہیں تو پھر مفروضوں پر شاعری نہیں ہوتی، کلامِ منظوم کی بات اور ہے۔ ایک فارمولا خود پر ایک کیفیت طاری کرنے کا بھی بیان کیا جاتا ہے، آپ اس سے کام لے سکتے ہیں تو ضرور لیجئے، لیکن خدا را اس کے لئے کسی بری لت کا شکار نہ ہوئیے گا۔ شعر کہنا فرضِ عین بھی نہیں کہ اس کے لئے آپ اپنی اور اپنے لواحقین کی زندگی کو تلخ کر لیں۔  تلخیوں اور تفکرات کی پہلے کون سی کمی ہے، ان کو شعر میں لائیے۔

فی الحال یہی کچھ ہے، بات آگے چلتی ہے تو بات کریں گے، ان شاء اللہ۔

محمد یعقوب آسیؔ  ۔۔ جمعرات 20 اگست 2015ء



    

14 تبصرے:

  1. اچھا اور پرمغز مضمون ہے۔ شعراء اور ادباء کو کم از کم ان بنیادی باتوں کا علم ہونا ضروری ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت زبردست تحریر ۔۔۔ آجکل میں ایسی ہی کسی تحریر کی تلاش میں تھاکہ آپ کا یہ مضمون پڑھنے کو مل گیا اور میں نے اپنے لئیے اسے بہت مفید پایا ۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. نہایت گرانقدر تحریر محترم.. جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بہت نوازش جناب نعمان بخاری صاحب۔
      ایسے مضامین اکثر تشنہ رہا کرتے ہیں۔ ان کی تکمیل میں خوش ذوق قارئین کے سوالات اہم کردار ادا کرتے ہیں، آپ کے سوالات لکھاری کو نئی باتیں بھی سجھاتے ہیں اور ان مقامات کی بھی نشان دہی کرتے ہیں جہاں کچھ بیان ہونا رہ گیا ہو یا ویسا بیان ہو نہ پایا ہو کہ قاری کی تشفی کر سکے۔
      نہ صرف یہ بلکہ کچھ نکات یقیناً ایسے ہوتے ہیں جہاں ایک باذوق قاری مضمون نگار کی اصلاح کر سکتا ہے۔ اس مضمون کو بھی ایڈٹ کیا جا سکتا ہے اور ایک اور مضمون کی راہ بھی کھل سکتی ہے۔ اپنا حصہ ضرور ڈالئے گا۔

      حذف کریں
  4. بہت عمدہ محترم. غور و فکر کے دریچے وا کرتا ہوا مضمون. نئے لکھاریوں کے لیے بڑا اہم موضوع ہے. جزاک اللہ
    میرے دادا مرحوم نظر لکھنوی کے بقول:
    اے نظرؔ کچھ چاہئے مقصد سے بھی وابستگی
    خامہ فرسائی کی خاطر خامہ فرسائی نہ کر​

    جواب دیںحذف کریں
  5. توجہ کے لئے ممنون ہوں۔ مگر شاید آج کے سہل پسند مگر جوشیلے لکھاریوں کا مطمعِ نظر خامہ فرسائی کی خاطر خامہ فرسائی ہی رہ گیا ہے۔ بہر کیف۔ اپنی سی کوشش کی ہے کہ بات کو جس قدر سادگی سے ممکن ہو بیان کر دوں۔ بارِ دگر شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. زبردست!

    موضوع ہے: "جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"؛ بیتے کا نام حزبِ مخالف میں ہے۔

    کہیں ایک آدھ شعر، قطعہ وغیرہ کہہ لینے میں کوئی ہرج بھی نہیں ہے۔

    سر، مندرجہ بالا فقروں میں ''بیٹے'' اور ''حرج'' کے الفاظ میں ٹائپو ہے، درست کر دیں۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. توجہ کے لئے شکریہ۔ آپ کی اجازت سے وضاحت کر دوں۔
      ۔1۔ اس کا موضوع ہے: "جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"؛ بیتے کا نام حزبِ مخالف میں ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹے کا بٹیے بن گیا! درست کر دیا "بیٹے" کو ۔۔ ہاہاہا۔
      ۔2۔ حَرَج اور ہَرج ۔۔ دونوں درست ہیں، قریب المعانی بھی ہیں۔ ذرا سا فرق ہے: چھوٹا نقصصان اور بڑا نقصان۔

      حذف کریں
  7. عمدہ تحریر۔۔
    بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔۔۔
    سلامت رہیے

    جواب دیںحذف کریں
  8. بہترین اندازِ بیاں ہے آپکا۔

    جواب دیںحذف کریں