*ایک* زبان ذریعہ اظہار
ہے یا وجہ اظہار؟
سوال واضح نہیں ہے، تاہم
میں اس کو ذریعۂ اظہار یا وسیلۂ اظہار سمجھتا ہوں اور یہ عمل انسانوں کے ساتھ خاص
ہے (جنات اور ملائکہ اس وقت زیرِ بحث نہیں)۔ انسان کو یہ جو ’حیوانِ ناطق‘ کہا گیا
ہے اسی لئے کہ اس کے پاس زبان (language)
ہے۔ ایک دوسرا تصور ’معاشرتی حیوان‘ کا ساتھ ملا لیجئے تو یہ کھلتا ہے کہ انسان
دوسرے انسانوں کے بغیر اولاً تو رہ ہی نہیں سکتا، اور اگر کہیں ایسا ہوتا بھی ہے
تو وہاں چونکہ اس کا مخاطب کوئی بھی نہیں سو، اسے کسی لفظی اظہار کی ضرورت ہی نہیں
ہو گی۔ یوں کہہ لیجئے کہ زبان کا وجود انسان کی ذاتی نہیں معاشرتی ضرورت ہے۔
*دو* زبان لکھنے والے
کو بناتی ہے یا لکھنے والا زبان کو؟
اس میں بولنے والا بھی
شامل کر لیں۔ یہ دو طرفہ عمل ہے، اس کی ابتداء انسان کو پیدا کرنے والے نے کی، کہ
اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا (سورۃ الرحمٰن)۔ بولنے کے لئے الفاظ
کا پہلے سے موجود ہونا ایک منطقی ضرورت ہے۔ گویا فاطر نے زبان کا ایک مکمل سیٹ اور
اس کا نطق اور اس کا لکھنا بھی انسان کی فطرت میں رکھ دیا؛ اس نے انسان کو قلم سے
علم سکھایا (سورۃ القلم) ۔ سوال یہ بھی تو ہے کہ آدم و حوا کو ایک زبان سکھائی گئی
تو پھر آج زبانوں کی تعداد ہزاروں لاکھوں میں کیوں ہے؟ زبانوں کی تشکیل کا عمل تو
زمانہ قبل از تاریخ سے جاری ہے لہٰذاکسی نتیجے تک پہنچنے کے لئے ہمیں قوت متخیلہ
سے بھی کام لینا ہو گا۔ ابوالبشر کی اولاد کو بھی اولاً ایک زبان آتی تھی، جوں جوں
وہ تعداد میں زیادہ ہوتے گئے کرہ زمین پر پھیلتے گئے اور نئے نئے مظاہرِ فطرت اور
اشیاہ سے متعارف ہوئے جن کے لئے انہوں نے غیر محسوس طور پر نئے اسماء، افعال اور
دیگر الفاظ وضع کر لئے۔ (ایسے موضوعہ اسماء و افعال کا پہلے سے مانوس اسماء و
افعال سے کوئی نہ کوئی تعلق لازماً رہا ہو گا)۔ یوں ہوتے ہوتے زبانوں کے نئے نئے
سیٹ بنتے گئے، جن میں اشتراک کا تناسب بھی دھیرے دھیرے کم ہوتا چلا گیا۔ یہ عمل
انسانی حیات کے اس عمل سے ملتا جلتا ہے جس کے تحت ایک ہی جوڑے کی اولاد میں نسلی
گروہ (سیاہ فام، سفید فام، سرخ فام، زرد فام) اور خدوخال کا فرق آتا گیا۔ اس عمل کی
دوسری بڑی شہادت مختلف زمانوں میں مختلف معاشروں میں رائج ہونے والے رسوم الخط بھی
ہیں۔ یوں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اولاً ایک ہونے کے باوجود لکھنے اور بولنے
والوں کے طرزِ حیات، معاشرتی اور فطری مظاہر کی بدولت زبان میں تبدیلی آتی ہے۔
تاہم یاد رہے کہ تبدیلی کا یہ عمل اجماع اور تسلسل کا متقاضی ہے اور ان تبدیلیوں
کے نمایاں ہونے کو بسا اوقات صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ ایک چھوٹا کا واقعہ یاد آیا:
دوست ہوٹل میں چائے پر جمع تھے، بات زبان پر چل نکلی، ایک صاحب گویا ہوئے: ’اگر
ابھی سارے لوگ کپ کو ایش ٹرے اور ایش ٹرے کو کپ کہنے لگیں تو ہم سگرٹ کپ میں
جھاڑیں گے اور چائے ایش ٹرے میں پئیں گے‘۔ ایک دوسرے صاحب نے کہا: ’ایسی تبدیلیاں
چائے کے کپ پر واقع نہیں ہوتیں،ہے تو محال مگر یہی کوئی دو سو سال بعد شاید آپ کار
پہن کر سوٹ پر سوار ہو کے کہیں جا سکیں‘۔
*تین* زبان سازی کے
اصول زبان مرتب کرتے ہیں یا زبان کے بنانے والے ؟ اور اگر زبان کے بنانے والے تو
کیا ایسے اصولوں کو دائمی قرار دیا جا سکتا ہے؟
یہاں سب سے پہلا وضاحت
طلب لفظ ’اصول‘ ہے۔ اصول اصول کیسے بنتا ہے، یہ بات تو کوئی ماہرِ عمرانیات بہتر
طور پر بتا سکتا ہے۔ جب ایک عمل، بات، طریقے، منطق کو اصول تسلیم کر لیا جائے تو
پھر اس کی پاسداری اور اتباع لازم قرار پاتی ہے، انحراف کا رویہ بہر حال موجود ہے
اور عین ممکن ہے کہ انحراف اتنا مضبوط اور مربوط ہو کہ وہ بذاتِ خود ایک اصول کی
حیثیت حاصل کر لے۔ اصول کی ایک حیثیت اور بھی ہے ’اصل‘ (بنیاد)؛ یہ زبان میں الفاظ
سازی کے عمل کو مربوط رکھنے کا عمل بھی ہو سکتا ہے۔ زبان بنانے والے؛ یہ لفظ کسی
ایک گروہ یا فرد پر دلالت نہیں کرتا، اور پھر زبان کی تشکیل فطرت کا مظہر ہے جس کے
پیچھے طویل تہذیبی سفر ہوتا ہے، وہی ایش ٹرے اور کپ والی بات ہے۔ دوام کا مفہوم یہاں
طویل مدت ہے؟ یا کسی تہذیب کا عرصۂ حیات؟ اصول کو اصول کی حیثیت ملنے پر جتنا
تہذیبی سفر درکار ہوتا ہے، اس کے پیش نظر اسے دائمی (جب تک وہ تہذیب زندہ ہے) بھی
قرار دیا جا سکتا ہے۔
*چار* قائم شدہ اصولوں
سے ان کے قائم کرنے والوں کی ذات کو جدا کرنا ممکن ہے؟ یا کیا اس کا تعین بھی ہو
سکتا ہے؟
بات وہی ہے کہ اصول کوئی
فرد قائم نہیں کرتا، بلکہ یہ کسی معاشرے اور تہذیب کی دیرپا اور عمومی طور پر
تسلیم شدہ اقدار ہی ہوتی ہیں جن کی پاس داری کی جاتی ہے۔ اگر کوئی ایک فرد، ادارہ
یا گروہ ایسی اقدار کو ایک منضبط تحریری صورت میں منظر عام پر لے آئے یا ان کی
بنیاد پر کوئی سفارشات مرتب کر دے (جن کو قبولیت بھی مل جائے) تو ایسے فرد، ادارے
یا گروہ کو اصول قائم کرنے والا نہیں کہا جا سکتا۔ ادب میں اس کی مثال ضرب المثل،
روزمرہ اور محاورہ بھی ہے۔ یہ چیزیں کیسے پیدا ہوئیں اور ضرب المثل یا محاورہ کی
حیثیت کیسے حاصل کر گئیں، یہ جاننا گویا جوئے شیر لانا ہے۔
*پانچ* زبان کے ارتقاء
کا معاملہ کیا ہے اور زبان کیسے ترقی کرتی ہے؟
زبان کے ارتقاء کی بات
جزوی طور پر اوپر ہو چکی۔ معاشرہ جیسے جیسے نئے حالات سے دو چار ہوتا رہا، اور
فطرت کے نئے مناظر کی بدولت طرزِ زندگی میں تبدیلیاں ہوتی رہیں، ویسے ویسے نئے نئے
افکار جنم لیتے رہے اور ان جملہ عناصر کی نسبت سے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ اور
تبدیلیاں واقع ہوتی رہیں۔ اسی عمل کو زبان کی ترقی کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ ایک
بڑا عنصر مذہب اور سرکار دربار بھی ہے، کہ حاکموں کی زبان عوامی سطح تک اثر انداز
ہوتی ہے۔ بر صغیر میں مسلمانوں کے توسط سے عربی آئی، حملہ آور یہاں پرتگالی، چینی،
ترکی، اور دیگر زبانیں لائے، مغلوں کا دور خاصا طویل ہے، جس میں فارسی آئی۔ انگریز
آئے تو انگریزی کے ساتھ فرانسیسی بھی آئی۔ صوفیاء اور مشائخ اس کے علاوہ ہیں۔ یوں
ان زبانوں کے مقامی زبانوں سے ملاپ نے ایک نئی زبان کو جنم دیا، جسے ہم آج اردو کے
نام سے جانتے ہیں۔ کوئی معاشرہ اور تہذیب جس قدر توانا ہو گی اسی قدر اس کی زبان
توانا ہو گی۔ تجارت اور معیشت کا کردار بھی اہم ہے، اور اس کا اثر آج کے دور میں سب
سے نمایاں ہے۔ انگریزی زبان کے پوری دنیا پر پھیلاؤ کی بنیادی وجہ عالمی سیاست اور
معیشت پر انگریزی بولنے والی اقوام کی وجہ سے ہے، بذاتِ خود زبان کی وجہ سے نہیں۔
یہ بحث خاصی طویل ہے اور فیس بک پر یہ موضوع چند ماہ پہلے تک چلتا رہا ہے، جس میں
اس فقیر نے بھی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لیا۔
*چھ* تلازمے پہلے سے
موجود تھے یا انہیں ایک وجود بخشا گیا اور انہیں وجود بخشنے والے کون تھے؟
تلازمہ جہاں تک میں سمجھا
ہوں کلام کی ضرورت اور اس کی اثر پذیری کا ایک حربہ ہے، اور اس کا انحصار بہت حد
تک لکھنے والے کے مزاج ، مشاہدے اور قابلیت پر ہے۔ موضوعِ گفتگو یا براہ راست
شاعری کا موضوع بدلتا ہے تو تلازمے بھی بدل جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی ایسی چیز نہیں
جسے وجود بخشا جاتا، اس کے عناصر زبان میں موجود ہوتے ہیں، لکھاری ان کو حسب موقع
یک جا کرتا ہے۔
*سات* کیا یہ وجود حتمی
ہے اور اس میں کسی رد و بدل کی گنجائش نہیں؟
رو و بدل اور حتمیت پر
بھی جزوی بات ہو چکی ہے۔ ضرب الامثال، تلمیحات، اشارہ، کنایہ، محاورہ، کہاوت اپنی
اپنی جگہ پر اپنے تلازمے رکھتے ہیں، اور یہ تب تک قائم رہتے ہیں یا رہیں گے جب تک
زبان اپنی ایک نہج پر رواں رہتی ہے، اور لکھنے اور پڑھنے والے یا وسیع تر تناظر
میں بولنے اور سننے والے ان عناصر سے شناسا رہتے ہیں۔ محاورہ جو ایک بار بن جائے
وہ آسانی سے یا یک دم ختم نہیں ہوتا، کسی جملے میں الفاظ کی نشست جو ایک بار قائم
ہو جائے وہ نہج بن جاتی ہے اور ہم اس سے ہٹ کر بات کریں گے تو ہو سکتا ہے ہمارا
مفہوم سامع تک پہنچ ہی نہ پائے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ (اگر ہم اردو کی بات کریں تو)
سارے محاورے، ساری ضرب الامثال، سب تلمیحات، سب کہاوتیں دفعتاً وجود میں نہیں آ
گئیں، وقت کے ساتھ ساتھ نئے محاورے وغیرہ وجود میں آتے رہے ہیں اور کچھ نہ کچھ
متروک بھی ہوئے ہیں۔ روز مرہ اور عمومی الفاظ میں بھی یہی رویہ ہے۔ مثال کے طور پر
آج ہم میں شاذ ہی کوئی ایسا شخص ہو گا، جو سبھو، کسو، سوں، کوں کے الفاظ لکھتا ہو۔
ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان عناصر میں تبادل کا عمل بھی ان کے نفوذ کی طرح
طویل عرصہ میں ہوتا ہے، اور ایسے میں کئی کئی نسلیں گزر جاتی ہیں۔
*آٹھ* خالص زبان کسے
کہتے ہیں اور اس کی تشریح کون کرے گا؟
میرے نزدیک اس سوال نامے
کا یہ سب سے مشکل سوال ہے۔ زبانیں ہمیشہ ایک دوسرے کا اثر قبول کرتی ہیں۔ آج کے
دور میں ذرائع ابلاغ جتنے تیز اور مؤثر ہیں زبانوں کا ایک دوسرے سے اختلاط اسی قدر
تیز اور مؤثر ہے۔ اس اثر پذیری سے صرف وہی زبان محفوظ رہ سکتی ہے جس کے بولنے والے
پوری دنیا سے کٹے ہوئے ہوں۔ ایک عام بیان تو یہ ہے کہ معاشرے کے عام لوگوں کی (
بعض کے نزدیک گھروں میں بولی جانے والی )زبان خالص ہوتی ہے۔ یہ سوال زیر بحث آنا
چاہئے، اور اہل علم کو چاہئے کہ وہ ہم جیسے طالبانِ علم کی راہنمائی کریں۔
*نو* اس کی تشریح کرنے
والا زبان کو اس کے بولنے والوں کی نظر سے دیکھے گا یا پھر قدیم لغت سے اخذ کردہ
معروضات پر اکتفاء کرے گا؟
قدیم لغت کو کلی طور پر
رد نہیں کیا جا سکتا، وقت کے ساتھ ساتھ جو الفاظ (اسم فعل حرف مصدر وغیرہ کی تخصیص
سے قطع نظر) متروک ہو گئے وہ ہو گئے، جو چل رہے ہیں اور جو نئے الفاظ کسی زبان میں
آ گئے ہیں وہ بھی چل رہے ہیں، لہٰذا یہاں لفظ قدیم یا جدید کی چنداں اہمیت نہیں
رہتی۔ اہمیت اس امر کی ہے زبان کے موجودہ اور رواں ذخیرہ الفاظ میں کیا کچھ شامل
ہے۔
*دس* ایسا کرنے سے کیا
زبان ترقی کرے گی یا اپنے سفر کے ابتدائی مراحل کی طرف واپسی کا سفر اختیار کرے
گی؟ ابتدا تک پہنچنے کے بعد کیا ہو گا؟ پیچھے جانا ممکن نہیں اور آگے کہاں جانا
ہے؟
زبان کی ایک خوبی یہ بھی
ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ مختلف مواقع کے مطابق کوئی لکھنے بولنے والااپنے مافی
ضمیر اور تاثرات کو ممکنہ طور پر مختصر الفاظ میں، قطعیت سے ادا کر سکے، یہ بات
ذخیرہ الفاظ اور متبادل یا متماثل الفاظ اور تراکیب کی مرہون ہے۔ نفوذ پذیری کے
حوالے سے بات یہ ہے کہ زبان کی اپنی شناخت اور امتیازی حیثیت مجروح نہ ہو۔ جہاں تک
ابتدائی مراحل کی طرف واپسی کی بات ہے یہ عملاً ممکن نہیں لگتا، جیسا کہ آپ نے کہا
پیچھے جانا ممکن نہیں۔ اس سے بڑا ایک اور عنصر زبانوں کا ایک دوسرے میں ضم ہونا ہے
اور یہ عمل فی زمانہ خاصا تیز ہو چکا ہے۔ جلد یا بدیر ایک ایسی زبان بھی وجود میں
آ سکتی ہے جو پورے کرہ ارض پر لکھی پڑھی بولی اور سمجھی جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ
موجود زبانوں میں کوئی زبان ابھر کر سامنے آئے اور بتدریج کرہ ارض پر محیط ہو
جائے۔ تاہم اس زبان کے پیچھے کسی ایسے معاشرے اور تہذیب کا وجود لازمی ہے جو ہم
عصر تہذیبوں پر حاوی ہو سکے۔ ساتھ ہی ساتھ ایسی زبان میں وہ خواص بھی ہونے چاہئیں
کہ وہ تمام تہذیبوں کی لسانی ضروریات کو پورا کر سکے۔ ساختیات کے اعتبار سے میرے
نزدیک عربی زبان میں یہ خاصیت ہے، مگر یہ زبان بولنے والی اقوام کا موجود بظاہر
کچھ ایسا نہیں کہ وہ دنیا پر اپنے تہذیبی اثرات مرتب کر سکے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا
ہے کیا۔
جوابات از: محمد یعقوب
آسی، ٹیکسلا (پاکستان)
۲۱؍ دسمبر ۲۰۱۰ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں