اللہ کریم کا ارشاد ہے
۔ "انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحٰفظون"۔
بے شک یہ ذکر (قرآن)
خود ہم نے بہ تدریج نازل کیا ہے ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برمنگھم یونیورسٹی سے
دریافت ہونے والا قرآن شریف کا نسخہ 22 جولائی 2015ء خبروں میں نمایاں ہے۔ ان
لوگوں کی تحقیق کے مطابق یہ نسخہ 1370 برس پرانا ہے۔ یعنی اندازاً 645 عیسوی کا۔
کیلنڈروں کے موازنے اور
تاریخ کے اوراق سے اس فقیر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ نسخہ سال 24ھ یا 25ھ (645ء)
کا ہے یعنی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور کا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ سیدنا
عثمان رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت 23 تا 35 ہجری (بمطابق 644 تا 656 عیسوی) ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصاویر میں دکھایا گیا
حصہ (اس تحریر کے آخر میں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
طاق صفحہ
شروع صفحہ میں سورہ
مریم کا آخری حصہ ہے۔
أَن دَعَوْا
لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا [19:91]
۔۔۔۔ سے لے کر ۔۔۔۔۔
وَكَمْ أَهْلَكْنَا
قَبْلَهُم مِّن قَرْنٍ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُم مِّنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ
رِكْزًا [19:98]
اس کے بعد لہرئیے دار
لکیریں اور بسم اللہ شریف ہے۔ پھر سورۃ طٰہٰ کی پہلی 12 آیات ہیں۔ شروع سورۃ سے
یہاں تک ۔۔۔۔
إِنِّي أَنَا رَبُّكَ
فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى [20:12]
سامنے کا (جفت) صفحہ
سورۃ الکہف کا ہے۔
آیت نمبر 23 کا آخری
حصہ نہیں پڑھا جا رہا۔ وہ جگہ بھُر گئی ہے
إِلَّا أَن يَشَاء
اللَّهُ وَاذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَى أَن يَهْدِيَنِ رَبِّي
لِأَقْرَبَ مِنْ هَذَا رَشَدًا [18:24]
۔۔۔۔ سے لے کر ۔۔۔۔۔
أُوْلَئِكَ لَهُمْ
جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ
أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ
مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ
مُرْتَفَقًا [18:31]
تاہم آیت نمبر 31 پوری
نہیں پڑھی جا رہی۔ متعدد جگہ بھی بھُر گئی ہے۔
اس فقیر نے قرآن شریف
متعلقہ صفحات (آج کی لکھائی میں) منسلک کر دئیے ہیں۔
۔۔۔۔ و ما توفیقی الا
باللہ۔
For the convenience of
my Non-Urdu Friends:
THE EVERLASTING HOLY MESSAGE OF ALLAH
The scripture
of the Holy Quran discovered at Birmingham University is in leading news since
22nd July 2015. They say it is 1370 years old scripture (pertains to 645AD
approximately), claimed to the oldest one discovered so far.
After
consulting the history and comparing the calendars, I conclude that this
scripture pertains to year 24AH or 25AH (645AD) viz. the Caliphate of Hazrat
Usman bin Affan RAA (that was 23AH to 35AH – 644AD to 656AD). Keeping in view
the modern imprint of the Holy Quran and the said scripture face to face, one
can easily observe that:
(a) ODD page
of the frame in front of eye contains the following Quranic Text:
Surah Maryam
–Verse 91 to Verse 98 (end of the Chapter)
Surah Ta-Ha –
Verse 01 (start) to Verse 12
The waved
lines indicate the start of the new Chapter.
(b) EVEN page
– fronting (a) - is from Surah Kahf (The Cave) Verse 24 to Verse 31
A part of
Verse 23 and also a part of Verse 31 are illegible (damaged sheet) yet they can
be safely pointed out.
The text of
the Verses referred to in the preceding notes is added in Urdu description. The
Pictures are also added for clearer reading and instant referencing.
Pray thanks to
Almighty ALLAH.
پس نوشت ۔ 25 جولائی 2015ء
: (فیس بک سے)
جناب فلک شیر، جناب سید متین احمد
۔۔۔
نقل از: سید فضل الرحمٰن محمود (بہ
حوالہ : مولانا سلمان ندیم)
برمنھگم یونی ورسٹی کے قرآنی مخطوط
پر چند تحفظات :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے ایک حالیہ اعلامیے میں برطانیہ کی برمنگهم یونیورسٹی کی جانب سے انکی لائبریری میں سو سال سے موجود ایک مخطوطے کے متعلق یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ قرآن کریم کا قدیم ترین نسخہ ہوسکتا ہے لیکن اس نسخے کی جو تصویر اور ویڈیو منسلک ہے اس سے یہ خبر کلی طور سے مطابقت نہیں رکهتی جسکی مکمل تحقیق تو ماہرین فن ہی پیش کر سکتے ہیں تاہم فی الوقت چند طالبعلمانہ نکات پیش خدمت ہیں .
1- اس نسخے میں نقطے موجود ہیں جبکہ میری ناقص معلومات کے مطابق عہد عثمانی کے آخر تک قرآنی رسم الخط میں نقطے نہیں تهے ،نقطوں کی ابتداء میری ناقص معلومات کے مطابق بظاہر حضرت معاویہ رضى الله عنه کے دور میں ذیاد بن ابیہ حاکم بصرہ کے حکم سے ابوالاسود الدؤلى نے کی یا عبدالملک بن مروان کے دور میں انکے شاگرد نصر بن عاصم اللیثی اور یحیی بن یعمر العدوانی نے کی لهذا یہ نسخہ بظاہر عهد نبوی سے بعد کا ہے جب رسم الخط قدرے ترقی کر چکا تها -
2- اس نسخے میں دو سورتوں کے درمیان نیز آیات کے درمیان فاصلہ بیان کرنے کیلئے سہ نقطی اور چهار نقطی علامات موجود ہیں جبکہ ابتدائی دور میں یہ طریقہ متداول نہیں تها ، نیز سرخ روشنائی کا استعمال برتا گیا ہے جوکہ قدیم طرز میں نہیں تها بلکہ دوسری صدی کے اواخر اور تیسری صدی کی ابتدا میں رائج ہوا
3- انکی ریڈیو کاربن ٹیسٹ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ نسخہ عیسوی تقویم کے سن 568 سے سن 645 کے درمیان کا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ایک قول کے مطابق 568 اور راجح قول کے مطابق 571 ہے اور نبوت چالیس سال کی عمر میں ملی ہے تو وحی کی ابتدا 608 اور 611 کے درمیان ہوگی اور تئیس سال تک وحی نازل ہوتی رہی اس اعتبار سے مکمل نسخہ 631 اور 634 کے درمیان ہی وجود میں آسکتا ہے اس سے پہلے نہیں، جبکہ دیگر علامات سے اس کا کم از کم دوسری صدی کے اواخر کا ہونا ثابت ہوتا ہے
4- یہ رسم الخط توپ قاپی میں محفوظ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نسخے سے ذیادہ ترقی یافتہ بهی ہے لهذا توپ قاپی میں محفوظ نسخہ قدیم تر ہے اور موجودہ رائج قرآن کے مطابق بهی اور حال ہی میں وہ نسخہ اب من وعن چهپ چکا ہے اور موجودہ رسم الخط کا صفحہ اس کے بالمقابل اس کے ساته چهاپا گیا ہے ،
ا 5- ریڈیو کاربن ٹیسٹ سے اگر اس کی کهال کا زمانہ عهد نبوی فرض کر بهی لیا جائے تب بهی اس سے نسخے کا عهد نبوی میں تحریر کیا جانا ثابت نہیں ہوتا بلکہ ممکن ہے کہ قدیم کهال پر بعد کے زمانے میں تحریر کی گئی ہو جیسا کہ یہ طریقہ نادر نہیں ہے ،
6- قرآن کا واحد اور قدیم ترین نسخہ وہی ہے جو اہل علم کے سینوں میں روز اول سے تا قیامت عزیز وحکیم ذات کی تائید سے محفوظ ہے اور رہے گا .
7- اسلامی اصول تحقیق کی رو سے کوئی تحریر اس وقت تک معتبر قرار نہیں پاتی جب تک اس کے کاتب کا تعین نہ ہو اور وقت تحریر سے وقت دریافت تک ہر دور میں اس کی حفاظت کی یقینی تفصیل اس پر مذکور نہ ہو -
8- قرآن کا ثبوت تواتر کی یقینی اور قوی ترین قسم تواتر طبقہ سے ہے جو اپنی ابتدا سے تا قیامت نسل در نسل سینہ بسینہ منتقل ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا لہذا ہر نئی تحریر اور مخطوطہ اپنے معتبر ہونے میں اس قرآن کی مطابقت کی محتاج ہے لیکن قرآن اپنے معتبر ہونے میں کسی مخطوطے کے مطابق ہونے کا محتاج نہیں .
ان امور کو مد نظر رکهتے ہوئے محض ان ماہرین کی تحقیق پر سر تسلیم خم کرنے کے بجائے درایت کے اصولوں کی کسوٹی پر بهی پرکهنا مطلوب ہے.
(از قلم : مولانا سلمان ندیم )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے ایک حالیہ اعلامیے میں برطانیہ کی برمنگهم یونیورسٹی کی جانب سے انکی لائبریری میں سو سال سے موجود ایک مخطوطے کے متعلق یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ قرآن کریم کا قدیم ترین نسخہ ہوسکتا ہے لیکن اس نسخے کی جو تصویر اور ویڈیو منسلک ہے اس سے یہ خبر کلی طور سے مطابقت نہیں رکهتی جسکی مکمل تحقیق تو ماہرین فن ہی پیش کر سکتے ہیں تاہم فی الوقت چند طالبعلمانہ نکات پیش خدمت ہیں .
1- اس نسخے میں نقطے موجود ہیں جبکہ میری ناقص معلومات کے مطابق عہد عثمانی کے آخر تک قرآنی رسم الخط میں نقطے نہیں تهے ،نقطوں کی ابتداء میری ناقص معلومات کے مطابق بظاہر حضرت معاویہ رضى الله عنه کے دور میں ذیاد بن ابیہ حاکم بصرہ کے حکم سے ابوالاسود الدؤلى نے کی یا عبدالملک بن مروان کے دور میں انکے شاگرد نصر بن عاصم اللیثی اور یحیی بن یعمر العدوانی نے کی لهذا یہ نسخہ بظاہر عهد نبوی سے بعد کا ہے جب رسم الخط قدرے ترقی کر چکا تها -
2- اس نسخے میں دو سورتوں کے درمیان نیز آیات کے درمیان فاصلہ بیان کرنے کیلئے سہ نقطی اور چهار نقطی علامات موجود ہیں جبکہ ابتدائی دور میں یہ طریقہ متداول نہیں تها ، نیز سرخ روشنائی کا استعمال برتا گیا ہے جوکہ قدیم طرز میں نہیں تها بلکہ دوسری صدی کے اواخر اور تیسری صدی کی ابتدا میں رائج ہوا
3- انکی ریڈیو کاربن ٹیسٹ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ نسخہ عیسوی تقویم کے سن 568 سے سن 645 کے درمیان کا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ایک قول کے مطابق 568 اور راجح قول کے مطابق 571 ہے اور نبوت چالیس سال کی عمر میں ملی ہے تو وحی کی ابتدا 608 اور 611 کے درمیان ہوگی اور تئیس سال تک وحی نازل ہوتی رہی اس اعتبار سے مکمل نسخہ 631 اور 634 کے درمیان ہی وجود میں آسکتا ہے اس سے پہلے نہیں، جبکہ دیگر علامات سے اس کا کم از کم دوسری صدی کے اواخر کا ہونا ثابت ہوتا ہے
4- یہ رسم الخط توپ قاپی میں محفوظ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نسخے سے ذیادہ ترقی یافتہ بهی ہے لهذا توپ قاپی میں محفوظ نسخہ قدیم تر ہے اور موجودہ رائج قرآن کے مطابق بهی اور حال ہی میں وہ نسخہ اب من وعن چهپ چکا ہے اور موجودہ رسم الخط کا صفحہ اس کے بالمقابل اس کے ساته چهاپا گیا ہے ،
ا 5- ریڈیو کاربن ٹیسٹ سے اگر اس کی کهال کا زمانہ عهد نبوی فرض کر بهی لیا جائے تب بهی اس سے نسخے کا عهد نبوی میں تحریر کیا جانا ثابت نہیں ہوتا بلکہ ممکن ہے کہ قدیم کهال پر بعد کے زمانے میں تحریر کی گئی ہو جیسا کہ یہ طریقہ نادر نہیں ہے ،
6- قرآن کا واحد اور قدیم ترین نسخہ وہی ہے جو اہل علم کے سینوں میں روز اول سے تا قیامت عزیز وحکیم ذات کی تائید سے محفوظ ہے اور رہے گا .
7- اسلامی اصول تحقیق کی رو سے کوئی تحریر اس وقت تک معتبر قرار نہیں پاتی جب تک اس کے کاتب کا تعین نہ ہو اور وقت تحریر سے وقت دریافت تک ہر دور میں اس کی حفاظت کی یقینی تفصیل اس پر مذکور نہ ہو -
8- قرآن کا ثبوت تواتر کی یقینی اور قوی ترین قسم تواتر طبقہ سے ہے جو اپنی ابتدا سے تا قیامت نسل در نسل سینہ بسینہ منتقل ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا لہذا ہر نئی تحریر اور مخطوطہ اپنے معتبر ہونے میں اس قرآن کی مطابقت کی محتاج ہے لیکن قرآن اپنے معتبر ہونے میں کسی مخطوطے کے مطابق ہونے کا محتاج نہیں .
ان امور کو مد نظر رکهتے ہوئے محض ان ماہرین کی تحقیق پر سر تسلیم خم کرنے کے بجائے درایت کے اصولوں کی کسوٹی پر بهی پرکهنا مطلوب ہے.
(از قلم : مولانا سلمان ندیم )
۔۔۔۔۔
اس فقیر کی گزارشات ۔۔۔۔۔۔۔۔ 24 جولائی 2015ء ۔
۔0۔ السلام علیکم جناب چیمہ
صاحب۔
آج تقریباً سحری کے وقت کچھ گزارشات
میں نے آپ کے ان باکس میں کی تھیں۔ مناسب ہو گا کہ ان کو یہاں نقل کر دیں۔ سینہ بہ
سینہ والی بات میں صرف وہاں نہیں کئی اور مقامات پر بھی کی ہے۔
۔1۔ یہ بات طے ہے کہ ہمیں جب ہم
نے اپنے اسلام کی گواہی دے دی تو ہمیں کسی مادی شہادتوں کی ضرورت نہیں۔ اللہ کریم
ہمارے ایمان کو سلامتی عطا فرمائے۔ ایسی مادی شہادتوں کا ایک پہلو البتہ یہ ہے کہ
معترضین کے بہت سارے اعتراضات از خود مر جاتے ہیں۔
۔2۔ جیسا
مولانا صاحب نے رسوم الخط کے تجزیوں کے بعد فرمایا۔ اگر وہ درست فرما رہے ہیں تو
پھر ریڈیو کاربن ٹیسٹ کی غلطی ہے، جو کچھ ایسی بعید از قیاس بھی نہیں۔ اس کو درست
کیا جا سکتا ہے۔
-3- پیرا 3 میں مولانا سے سنین
کے حساب میں ایک فروگزاشت ہو گئی۔ قمری سال اوسطاً 355 دن کا ہوتا ہے اور شمسی سال
اوسطاً 365 دن کا؛ مزید ہر 1 صدی شمسی (لیپ کے 25 سال) پر 25 دن قمری کیلنڈر کے
اور گزر جاتے ہیں۔
۔4۔ اپریل 571ء سنِ ہجری کے اجرا
سے تقریبا 52 قمری سال پہلے واقع ہوتی ہے، اور اپریل 611، سن ہجری سے 11 قمری سال
پہلے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش (معروف) اگر 11 اپریل 571ء ہے تو آپ
کی عمر مبارک شمسی کیلنڈر کے مطابق آپ کی عمر مبارک اپریل 610ء میں چالیس سال ہوتی
ہے کہ تب عرب میں تو قمری کیلنڈر رائج تھا۔ حسابات میں ایک سال کا فرق تو یہاں تک
واقع ہو گیا۔ 2015 تک چلے آئیے۔ اور دیکھ لیجئے۔
۔5۔ میرا مدعا یہ ہرگز نہیں کہ
آپ اس نسخے کی انہیں تاریخوں پر ایمان لائیں جو گوروں نے بتائی ہیں۔ یہ نسخہ سیدنا
عثمان غنی کے دور کا نہ سہی، اموی دور کا سہی۔ اس میں غیر مسلموں کے لئے ایک ایسی
مادی گواہی مل جاتی ہے جسے وہ خود بھی نظر انداز نہیں کر سکتے (ہٹ دھرمی اور بات
ہے)۔ کہ قرآن شریف جیسا تب پڑھا اور لکھا جاتا تھا، ویسا ہی حرف بہ حرف اب بھی
پڑھا جاتا ہے۔ رسم الخط وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتا چلا گیا، تو اس کو
"فرق" قرار دینا جہالت ہے۔
۔6۔ بارِ دگر گزارش ہے کہ قرآن
شریف کے اللہ کی کتاب ہونے پر میرا ایمان اور آپ کا ایمان اس حالیہ مادی گواہی سے
مشروط نہیں تھا، نہ ہے۔ ایک مفید بات اگر سامنے آ گئی ہے تو اس کو رد کر دینا بھی
تو ضروری نہیں۔
۔7۔ ایک اور رپورٹ میں ایک جملہ
یہ بھی تھا:۔
" اس ٹیسٹ سے اس نسخے کے قدیم
ہونے کا اندازے کے مطابق یہ 568 اور 645 کے درمیان کا نسخہ ہے۔ برمنگھم یونیورسٹی
کے عیسائیت اور اسلام کے پروفیسر ڈیوڈ تھامس کا کہنا ہے کہ اس تاریخ سے یہ کہا جا
سکتا ہے کہ اسلام کے چند سال بعد کا نسخہ ہے۔ "
اس میں 568 تو خارچ از بحث ہے۔ کہ شمسی کیلنڈر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 571ء کی ہے۔ 645 وہی آتا ہے 24ھ سیدنا عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت۔
اس میں 568 تو خارچ از بحث ہے۔ کہ شمسی کیلنڈر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 571ء کی ہے۔ 645 وہی آتا ہے 24ھ سیدنا عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت۔
۔8۔ ایک اور خبر دیکھئے ۔۔۔۔
"ماہرین کا کہنا ہے کہ برمنگھم یورنیورسٹی میں قدیم قرآنی نسخے کی دریافت کی وجہ سے قرآن کے الہامی کتاب ہونے پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے بی بی سی کے پروگرام سیربین میں مہ پارہ صفدر نے برمنگھم کی مرکزی مسجد کے امام سید محمد طلحہ بخاری اور اسی مسجد کے منتظم محمد علی کے علاوہ اسلامک سڈیز کے محققین، کیمبریج یورنیورسٹی سےفارخ التحصیل علی خان محمودآباد، اور لاہور یورنیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسسز کے استاد ڈاکٹر علی عثمان قاسمی سے گفتگو کی۔"
میرا سوال یہ ہے کہ کون سی نئی بحث کا آغاز ہو سکتا ہے؟ اور میں نے تو ایک جگہ اس کے جواب میں لکھ دیا ہے:
ظاہر ہے، وہ مل کر سوچیں گے یا لوگوں کو سجھائیں گے کہ ۔۔
۔۔ "یارو! اتنی بڑی گواہی مل گئی ہے، کہ قرآن شریف آج بھی عین مین وہی ہے، کوئی نئی تشکیک ابھارو یار! نہیں تو یہ گواہی تو ہمیں (یہود و نصارٰی کو) لے بیٹھے گی" ۔۔
۔9۔ فاعبروا یا اولی الابصار
"ماہرین کا کہنا ہے کہ برمنگھم یورنیورسٹی میں قدیم قرآنی نسخے کی دریافت کی وجہ سے قرآن کے الہامی کتاب ہونے پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے بی بی سی کے پروگرام سیربین میں مہ پارہ صفدر نے برمنگھم کی مرکزی مسجد کے امام سید محمد طلحہ بخاری اور اسی مسجد کے منتظم محمد علی کے علاوہ اسلامک سڈیز کے محققین، کیمبریج یورنیورسٹی سےفارخ التحصیل علی خان محمودآباد، اور لاہور یورنیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسسز کے استاد ڈاکٹر علی عثمان قاسمی سے گفتگو کی۔"
میرا سوال یہ ہے کہ کون سی نئی بحث کا آغاز ہو سکتا ہے؟ اور میں نے تو ایک جگہ اس کے جواب میں لکھ دیا ہے:
ظاہر ہے، وہ مل کر سوچیں گے یا لوگوں کو سجھائیں گے کہ ۔۔
۔۔ "یارو! اتنی بڑی گواہی مل گئی ہے، کہ قرآن شریف آج بھی عین مین وہی ہے، کوئی نئی تشکیک ابھارو یار! نہیں تو یہ گواہی تو ہمیں (یہود و نصارٰی کو) لے بیٹھے گی" ۔۔
۔9۔ فاعبروا یا اولی الابصار
۔۔۔۔ ہمارے علمائے کرام کو اپنا
موجودہ اندازِ فکر و نظر بدلنا ہو گا۔
۔10۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ امتِ
مسلمہ کو خاص طور پر اور غیر مسلموں کو عام طور پر بتایا جائے کہ دیکھو! اللہ کریم
کے کلام کے اصل ہونے کی مادی گواہی آج کس دور میں ہو رہی ہے! جب دنیا فساد گاہ بنی
ہوئی ہے، اسلامی فکر پر ہر طرف سے یلغار ہو رہی ہے۔ مادی گواہیوں پر یقین رکھنے
والے بھی جان لیں کہ سچ یہی ہے جو ساڑھے چودہ سو سال سے حرف بحرف دہرایا جا رہا
ہے۔ اب شاید مزید مہلت نہیں ملے گی۔
۔11۔ یہ سارا کچھ ملحمۃ الکبرٰی
کی خبر دے رہا ہے، جس میں اب کوئی دیر نہیں رہ گئی۔
۔12۔ چیمہ صاحب کے ان
باکس میں میرا اظہارِ غم ۔۔
تہ نہیں اس کو اتفاق کہا جائے گا یا
اللہ کی طرف سے اوراق کی ترتیب کچھ ایسی ہونی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو دو ورق اس وقت سامنے
ہیں۔
پہلے صفحے پر سورہ کہف کا کچھ حصہ ہے۔ ہمیں تاکید کی گئی کہ جمعے کے دن سورہ کہف اہتماماً پڑھیں، یہ دجال سے بچاؤ کا سبب بنے گی (معنوی مباحث کسی اور موقع کے لئے رکھتے ہیں)۔
دوسرے صفحے پر سورہ مریم کی آخری آیات ہیں۔ نجاشی کے دربار کا منظر اور وہاں ہونے والا مکالمہ اور سورہ مریم کی تلاوت ایک عیسائی حکمران کا اس سے مکمل متفق ہونے کا اظہار۔
پھر سورہ طٰہٰ کی ابتدائی آیات جن میں اللہ کی قدرتِ کاملہ اور کائنات کی عظیم نشانیوں پر اللہ کے تسلط کا ذکر ہے۔ اور یہ کہ تم اعلانیہ کچھ کہو یا خفیہ وہ سب جانتا ہے۔ آگے ہدایتِ ربانی کا وہ مظہر کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو آگ دیکھ کر آئے تھے کہ میں آگ لے کر آتا ہوں، وہاں کوئی ہو گا تو اس سے راستہ پوچھوں گا۔ وہاں آپ کو نبوت کا منصب جلیلہ عطا ہو جاتا ہے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے؟ عیسائیوں، یہودیوں اور دجال کا ذکر ایک جگہ جمع ہو گیا؟ زمانہ کون سا جا رہا ہے؟ ان تینوں موضوعات کی اس وقت کی اہمیت ماضی سے کئی گنا زیادہ نہیں ہو گئی کیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو سوچ رہا ہوں۔ کوئی ہے؟ جو اس سوچ میں میرا ساتھ دے؟
سورہ کہف کا جو حصہ اس وقت سامنے ہے، آئیے وقتی طور پر صرف اس کو دیکھتے ہیں۔
۔1۔ بھول چوک ہو جائے تو اللہ سے مدد طلب کیجئے۔
۔2۔ غار والے 309 برس تک سوتے رہے۔ اصل علم اللہ کے پاس ہے۔
۔3۔ اللہ کا کہا تبدیل نہیں ہوا کرتا۔ اس کے سوا جانا کہاں ہے
۔4۔ اللہ کی طرف دعوت دینے والوں کا ساتھ دیجئے۔ ظاہری مال و منال کو نہ دیکھئے۔ جس کو اللہ نے غفلت میں ڈال دیا اور جس نے مال و دولت کو سب کچھ جان لیا وہ حد سے نکل گیا۔
۔5۔ اللہ کی طرف سے حق آ چکا، جس کا جی چاہے مان لے جس کا نہ چاہے نہ مانے مگر یار دکھے کہ ان کو آگ گھیر لے گی۔ پینے کو کچھ ملے کا بھی تو اس سے منہ جھلس جائے گا۔
۔6۔ مسلمانوں کے نیک اعمال ضائع نہیں ہوں گے۔ ان کے لئے فلاں فلاں فلاں انعامات ہیں۔ اور کیسی پر راحت زندگی ملنے والی ہے۔
پہلے صفحے پر سورہ کہف کا کچھ حصہ ہے۔ ہمیں تاکید کی گئی کہ جمعے کے دن سورہ کہف اہتماماً پڑھیں، یہ دجال سے بچاؤ کا سبب بنے گی (معنوی مباحث کسی اور موقع کے لئے رکھتے ہیں)۔
دوسرے صفحے پر سورہ مریم کی آخری آیات ہیں۔ نجاشی کے دربار کا منظر اور وہاں ہونے والا مکالمہ اور سورہ مریم کی تلاوت ایک عیسائی حکمران کا اس سے مکمل متفق ہونے کا اظہار۔
پھر سورہ طٰہٰ کی ابتدائی آیات جن میں اللہ کی قدرتِ کاملہ اور کائنات کی عظیم نشانیوں پر اللہ کے تسلط کا ذکر ہے۔ اور یہ کہ تم اعلانیہ کچھ کہو یا خفیہ وہ سب جانتا ہے۔ آگے ہدایتِ ربانی کا وہ مظہر کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو آگ دیکھ کر آئے تھے کہ میں آگ لے کر آتا ہوں، وہاں کوئی ہو گا تو اس سے راستہ پوچھوں گا۔ وہاں آپ کو نبوت کا منصب جلیلہ عطا ہو جاتا ہے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے؟ عیسائیوں، یہودیوں اور دجال کا ذکر ایک جگہ جمع ہو گیا؟ زمانہ کون سا جا رہا ہے؟ ان تینوں موضوعات کی اس وقت کی اہمیت ماضی سے کئی گنا زیادہ نہیں ہو گئی کیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو سوچ رہا ہوں۔ کوئی ہے؟ جو اس سوچ میں میرا ساتھ دے؟
سورہ کہف کا جو حصہ اس وقت سامنے ہے، آئیے وقتی طور پر صرف اس کو دیکھتے ہیں۔
۔1۔ بھول چوک ہو جائے تو اللہ سے مدد طلب کیجئے۔
۔2۔ غار والے 309 برس تک سوتے رہے۔ اصل علم اللہ کے پاس ہے۔
۔3۔ اللہ کا کہا تبدیل نہیں ہوا کرتا۔ اس کے سوا جانا کہاں ہے
۔4۔ اللہ کی طرف دعوت دینے والوں کا ساتھ دیجئے۔ ظاہری مال و منال کو نہ دیکھئے۔ جس کو اللہ نے غفلت میں ڈال دیا اور جس نے مال و دولت کو سب کچھ جان لیا وہ حد سے نکل گیا۔
۔5۔ اللہ کی طرف سے حق آ چکا، جس کا جی چاہے مان لے جس کا نہ چاہے نہ مانے مگر یار دکھے کہ ان کو آگ گھیر لے گی۔ پینے کو کچھ ملے کا بھی تو اس سے منہ جھلس جائے گا۔
۔6۔ مسلمانوں کے نیک اعمال ضائع نہیں ہوں گے۔ ان کے لئے فلاں فلاں فلاں انعامات ہیں۔ اور کیسی پر راحت زندگی ملنے والی ہے۔
محمد یعقوب آسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمسی سال اور قمری سال کے حساب میں بسا اوقات پڑھے لکھے دوست بھی الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک مختصر سا تقابل چارٹ کی صورت میں منسلک کر رہا ہوں۔ امید ہے مفید ہو گا۔
شمسی سال اور قمری سال کے حساب میں بسا اوقات پڑھے لکھے دوست بھی الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک مختصر سا تقابل چارٹ کی صورت میں منسلک کر رہا ہوں۔ امید ہے مفید ہو گا۔
بہت ہی خوب۔ زبردست۔ جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ میں نے تصویر دیکھی تھی لیکن سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا۔ لیکن آپ کی تحریر پڑھنے کے بعد غور کیا تو واقعی سمجھ میں آگیا۔
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ ۔ دعا کیجئے اللہ کریم اس چھوٹی سی محنت کا ثمر انسانوں کے جمِ غفیر کو نصیب کرے۔
جواب دیںحذف کریںماشااللہ بہت عمدہ کوشش ہے۔ اللہ تعالی جزائے خیر عطا فرمائے
جواب دیںحذف کریںآداب جناب ڈاکٹر صاحب۔ میرا حوصلہ بڑھاتے رہا کیجئے۔
جواب دیںحذف کریںسبحان اللہ :) اس خبر کو مجھ نا چیز تک پہنچانے کا شکریہ :)
جواب دیںحذف کریںسبحان اللہ
جواب دیںحذف کریںکیا عمدہ تحقیق ہے حضور!
جزاک اللہ
کہاں کی تحقیق، صاحبانِ گرامی۔ کچھ تو سامنے کی باتیں تھیں ادھر ادھر سے لے کر یک جا کر دیں۔ اور اصل تو اللہ کے کلام کی اپنی برکات ہیں کہ توجہ دینے والوں پر یہ خود ہی سہل ہو جاتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںدعاؤں کا طالب رہا کرتا ہوں۔
فیس بک پر ایک صاحبِ علم دوست نے کچھ تحفظات کا ذکر کیا تھا، وہاں بھی اپنی فہم کے مطابق کچھ عرض کیا تھا، وہ پس نوشت کے طور پر شامل کر دیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںو ما توفیقی الا باللہ۔
ماشاءاللہ بہت عمدہ محترم آسی صاحب معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اللہ جزاے خیر عطا فرماے (آمین)
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ بہت عمدہ محترم آسی صاحب معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اللہ جزاے خیر عطا فرماے (آمین)
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ ایضاً۔ مزید تفہیم کے لئے ایک چارٹ اور شامل کر رہا ہوں۔ ان شاء اللہ۔
حذف کریں