اتوار، 5 جولائی، 2015

آخری جزیزہ ۔۔ افسانہ ۔


افسانہ
آخری جزیرہ

ہاں بھیا! میں اب یہاں نہیں رکوں گا، اسے میرا فیصلہ کہہ لیں یا مجبوری، بہر حال .... یہ جو زندگی ہے نا، بھیا! سمندر کی طرح ہے جس کے دھاروں پر ہم سب بہہ رہے ہیں، ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اور بھیا، اس سمندر میں جزیرے بھی ہیں جن پر محبت، پیار، خلوص، نفرت ، منافقت کی اور پتہ نہیں کون کون سی ہوائیں چلتی ہیں۔ اور دھارے ہمیں ان جزیروں پر لا پھینکتے ہیں ... مجھے بھی تو ایک ایسے ہی دھارے نے یہاں لا پھینکا ہے۔ میں خود بھی یہی چاہتا تھا شاید۔ اس لئے کہ... مجھے امید تھی! یہاں محبت اور خلوص کی بارشیں ہوں گی، مگر ...خیر! میں ابھی مایوس نہیں ہوا ۔ میں کسی اور جزیرے کی طرف سفر کروں گا، میں ڈھونڈوں گا کوئی اور جزیرہ! یہاں نہیں رکوں گا۔ یہاں بھی بیگانگی کے چھینٹے پڑتے ہیں اور گیلی زمین پر میرے پاؤں پھسل رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی بے رحم موج مجھے گھسیٹ کر لے جائے، میں خود ہی سمندر میں کود پڑوں گا۔

آپ کو پتہ ہے بھیا، جب بابا مرے تھے تو اماں کتنا روئی تھیں! بابا تو ایک برِاعظم تھے بھیا ، سبھی بابا برِ اعظم ہوتے ہیں۔ اس برِاعظم پر اماں نے گھنی چھاؤں کر رکھی تھی اور اسی چھاؤں میں پل کر ہم سب جوان ہوئے۔ اماں نے مجھ سے کہا تھا ’’نہ رو، میرے چاند! نہ رو۔ مَردوں پر آزمائشیں آیا کرتی ہیں۔ تُو روئے گا تو مجھے کون چپ کرائے گا؟ اور پگلے، تیرا بھائی بھی تو ہے، وہ تجھے باپ کا سایہ فراہم کرے گا۔ وہ میرا بیٹا ہے، میں اسے جانتی ہوں، میرے چندا! میرا بیٹا تجھے باپ کی یاد نہیں آنے دے گا‘‘۔ مگر، میں اماں کو کیا کہتا! وہ تو خود رو رہی تھیں۔ لیکن بھیا! ہچکیوں کے درمیان جو باتیں اماں نے کہی تھیں وہ کیا ہوئیں؟ کیا اماں وہ باتیں بھی ساتھ لے گئیں؟
جب اماں مریں تو میں شہر میں تھا۔ مجھے ٹیلیفون پر اطلاع ملی تھی کہ ایک اور جزیرہ سمندر میں بہہ گیا ! میرے پاؤں تلے زمین نہیں تھی، سمندر کی بپھری ہوئی موجیں تھیں۔ اماں نے آپ سے کچھ تو کہا ہو گا، کم از کم میرے بارے میں ضرور کہا ہو گا! آپ ہی کہا کرتے تھے ’’اماں! یہ تمہیں بہت پیارا ہے، کیا میں تمہارا بیٹا نہیں ؟‘‘ اماں نے میرا ذکر موت کے منہ میںآ کر بھی کیا ہو گا۔ آپ کو نصیحت کی ہو گی کہ اپنے چھوٹے بھائی کا خیال رکھنا! کیوں بھیا، انہوں نے اسی طرح کہا تھا، نا؟

اماں کے مرنے سے تین دن پہلے کی بات ہے، میں شہر سے مچھلی لایا تھا۔ بانو مچھلی پکانے لگی تو میں نے کہا ’میں خود پکاؤں گا‘۔ اماں نے مجھے کیا کچھ نہیں سکھا دیا تھا! پتہ نہیں بھیا، کیا بات تھی اس مچھلی میں! میں نے بھی چکھا تھا اُسے، اتنی مزے دار چیز میں نے آج تک نہیں کھائی۔ اماں کو کوئی شے حلق سے نیچے نہیں اترتی تھی مگر وہ ساری مچھلی کھا گئیں، بھیا! مجھے جو سرور اس وقت ملا، وہ حاصلِ زندگی ہے، میرے لئے۔تو بھیا! سمندر کی ان سرکش موجوں کے بیچوں بیچ میں نے ایک جزیرہ دیکھا تھا، گھنی چھاؤں والا جزیرہ۔ میں موجوں سے لڑتا ہوا اس جزیرے کی طرف بڑھا چلا آیا۔ مجھے یاد ہے، ایک دفعہ آپ نے مجھے گالی دی تھی۔ میں برداشت نہ کر سکا اور گالی پلٹ دی۔ میں نے بہت برا کیا تھا، بھیا! میں آج بھی شرمندہ ہوں۔ میں نے بہت برا کیا تھا، میری آنکھیں شرم سے جھک گئی تھیں مگر گالی میرے منہ سے نکل چکی تھی۔ پھر۔۔۔ ایک، دو، تین، چار، پانچ ۔۔۔ میرے دونوں گالوں پر تھپڑوں کی بارش شروع ہو گئی۔ وہ ہاتھ آپ کے تھے، محنت اور مشقت کے عادی، پختہ ہاتھ۔ مجھے معلوم تھا آپ ماریں گے، اس لئے تکلیف کے باوجود مجھے رونا نہیں آیا مگر میں اماں کی بات سن کر رو دیا تھا ’’اے ہے، پھول سے بچے کو مار مار کر ہلکان کر دیا! جا، باہر دفع ہو جا بے رحم کہیں کے! شرم نہیں آتی چھوٹے بھائی کو مارتا ہے؟ کل اسے سنبھالنا پڑ گیا تو جانے کیا کرے گا!‘‘میں اپنے کئے پر نادم ہو کر روتا رہا۔ اماں سمجھ رہی تھیں بچہ تکلیف کی وجہ سے روتا ہے۔ مجھے آپ کی محبت اور خلوص پر اس وقت بھی کوئی شک نہیں تھا۔

پھر آپ باہر چلے گئے اور جب وطن واپس لوٹے تو میری شادی ہو چکی تھی۔ میں آپ کا انتظار کرنا چاہتا تھا مگر آپ ہی نے تو لکھا تھا کہ شادی فوراً کر لو۔ مجھے آپ کے حکم کی تعمیل کرنا پڑی، با دلِ ناخواستہ! آپ کی آمد کی اطلاع کچھ دن پہلے ملی، بانو میکے گئی ہوئی تھی میں اسے لینے گیا تھا ۔ آپ پروگرام سے پہلے آ گئے پھرڈھکے چھپے لفظوں میں اس بات کا گلا بھی کیا، حالانکہ میں بانو سمیت آپ کا استقبال کرنا چاہ رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ تب سے آپ نے مجھے جھڑکنا چھوڑ دیا اور نظر انداز کرنے لگے، پتہ نہیں کیوں! کتنے سال ہو گئے ہیں اس بات کو، مگر بھیا! یہ باتیں میں آپ سے کر رہا ہوں یا اپنے آپ سے؟ آپ سے یہ سب کچھ میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا احترام آڑے آتا ہے۔

میں آج صبح یہاں آیا تھا کہ چلو بھائی نظر انداز کر بھی دے تو بھابی سے ملوں گا، بچوں سے مل کر ’’اوٹنا لگوٹنا‘‘ اور’’ لُکن میٹی‘‘ کھیلوں گا۔مگر یہاں تو سب کچھ بدل گیا ہے۔ اسی لئے میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ یہاں نہیں رکوں گا۔ اس جزیرے پر بھی سیلن آ گئی ہے اور میرا دم گھٹتا ہے۔ بھیا! میں تو آپ کا بھائی ہوں، وہی چھوٹا بھائی۔ بھابی سے مجھے توقع تھی کہ میرے سر پر ہاتھ پھیریں گی ’وِیر کیا حال ہے تیرا، وِیر تو اتنی دیر بعد آیا ہے ..‘ مگر ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنے لہجے میں مٹھاس ڈالنے کی کوشش تو کی، لیکن چہرہ ساتھ نہ دے سکا۔ بچے، البتہ، مجھے اچھے لگے۔ بہتی ناکیں، گنے کی سفیدی سے لتھڑے گال، مٹی میں اٹے پاؤں مگر دل شیشے سے بڑھ کر شفاف، اور آئینے سے زیادہ سچے۔ بھیا! بچے سچے ہوتے ہیں! شاید اسی لئے میں اب تک یہاں ہوں۔

آپ کو یاد ہو گا، جب بڑی آپا نے بیٹی کی ڈولی اٹھوائی تھی، میں نے بھی دبے لفظوں میں آپ سے کچھ کہا تھا۔ بھلا آپ بھول سکتے ہیں وہ بات؟میں نے کہا تھا کہ آخر میری اپنی ایک شخصیت ہے۔ مجھے برادری میں اپنی شناخت خود کروانے دیں اور مجھ پر اپنی مرضی مسلط نہ کریں۔ آپ برا مان گئے تھے اور پھر مجھ سے نہیں بڑی آپا سے کہا تھا ’وہ مجھ سے چھوٹا ہے، میں اس کا کہنا ماننے کا پابند نہیں ہوں، بڑا میں ہوں، وہ نہیں‘۔ آپ بڑے ہیں بھیا، اس سے انکار نہیں مگر آپ نے بھی تو بڑا ہونے کا حق ادا نہیں کیا۔ جانتا ہوں کہ یہ بات آپ کو پسند نہیں آئے گی۔ اتنا ضرور ہوا کہ رعب اور پڑے پن کی جگہ اجنبیت آ گئی۔ میں چولھے کے پاس بیٹھ کر بھابی سے چھین کر روٹی کھانا چاہتا ہوں، بچوں کی چٹکیاں لینا چاہتا ہوں مگر آپ نے میرے لئے یہاں بیٹھک میں گاؤ تکیہ لگا دیا ہے۔ میرے سامنے پندرہ برتنوں میں سات قسم کا کھانا آیا ہے، مگر میں جو کھانا چاہتا ہوں وہ اس میں نہیں ہے۔ یہ قورمہ، یہ کسٹرڈ ہزار لذیذ ہو، اس میں اپنائیت کا رس نہیں ، تکلف کی مرچیں بھری ہوئی ہیں۔ یہ برف والا پانی میرے گلے میں پھانس بن رہا ہے۔ مجھے لسی چاہئے،گھر کی وہی ’’کھٹّی‘‘ لسّی جو آپ نے واپس کرا دی ہے۔مکئی کی ’’چھلیاں‘‘ خود چولھے پر بھون کر کھانے کو جی للچاتا ہے۔ لیکن آپ کا پر تکلف رویّہ مجھے اظہار کی اجازت نہیں دیتا۔

’’اوئے نِکُّو! جا، چاچا کے لئے ہٹی سے سگرٹ لے آ‘‘ آپ نے ابھی بچے کو بھیج دیا ہے۔ بھیا! حقہ کدھر ہے؟ میں خود اس کی چلم بھروں گا، مجھے بتائیے یہ سب کچھ کہاں رکھا ہے۔ میں نے بچے کو اندر بھیجا کہ اپنی امی کو یہاں بلا لائے تو اس خدا کی بندی نے وہیں بیٹھے آواز دی’ ’کیا ہے! یہاں آ جاؤ۔‘‘ احمق کہیں کی! میں آپ کی مرضی کے بغیر اس بے تکلف ماحول میں کیسے جا سکتا ہوں۔ میں نے ننھی بھتیجی کو گود میں لے لیا تو آپ نے بچی کو جھڑک دیا! ’’چل! چاچا کے کپڑے گندے نہ کر!‘‘ یہ آپ نے کیا کر دیا بھیا! یہ رویہ کیوں اپنا لیا آپ نے؟ میں نے پھر بانو کو آواز دی تو اسے میری بات سننے کے لئے آنا پڑا۔
’’چلو، تیار ہو جاؤ۔ بچوں کو بھی تیار کرو، واپس چلتے ہیں‘‘ وہ ہکا بکا رہ گئی
’’ایں؟ آپ کو یکا یک یہ کیا ہوا؟ ابھی تو آئے ہیں، اور...‘‘
’’بس! میں نے کہا نا! تیار ہو جاؤ، چلو!‘‘
’’پھر بھی! کوئی بات ہو، تو!‘‘
’’میں یہاں نہیں .... ‘‘ اور عین وقت پر میری زبان رک گئی۔ اچھا ہوا لفظ مر گئے ورنہ وہ سمجھتی کہ میں اپنے بھیا سے متنفر ہو گیا ہوں۔ مجھے تو اس لفظ سے بھی خوف آتا ہے، بھیا! مجھے بیگانگی سے وحشت ہوتی ہے۔ اجنبیوں کا سا سلوک مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ 

اور اب .. وہ دوسرے دروازے سے باہر جا رہی ہے، میری بچی آ رہی ہے ’آئیے ابو، چلیں‘ مگر اس کا چہرہ کیوں سُتا ہوا ہے؟ کوئی سوچ اس کے ذہن میں بھی آئی ہو گی، میری طرح۔ ... لائیے بھیا، اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیے مصافحہ کے لئے، ہاں! صرف مصافحہ کے لئے! اور میں اپنی آنکھیں آپ سے چھپا لوں گا، منہ پھیر کر، تا کہ آپ ان میں اترے سمندر کو نہ دیکھ سکیں۔ میں اس سمندر میں کسی جزیرے کی تلاش میں نظریں دوڑاتا ہوں۔ ایک بھیگا سا عکس ابھرتا ہے۔ ایک اور جزیرہ! کچھ بچے اس جزیرے پر کھیل میں مگن ہیں۔ میں جنگل بن کر اس جزیرے پر چھا جاتا ہوں اور میری نظریں تناور درختوں کی جڑوں کی طرح اس کی مٹی میں کھب جاتی ہیں۔ وہ سرزمین مجھ سے مخاطب ہوتی ہے ’’یہ، یہ آپ کس طرح دیکھ رہے ہیں، مجھے؟‘‘ میں چونک پڑتا ہوں۔ یہ تو بانو کی آواز ہے۔ میں بات بنانے کے لئے کہتا ہوں: ’’لگتا ہے آج پہلی بار دیکھا ہے تجھے‘‘ چھ بچوں کی ماں کسی نئی نویلی دلہن کی طرح شرما جاتی ہے: ’’بڑے وہ ہیں آپ‘‘ اور میں بے اختیار مسکرا دیتا ہوں۔ ابھی ایک جزیرہ باقی ہے!

محمد یعقوب آسی ۔۔۔ ۹؍ مارچ ۱۹۸۶ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں