سوالات جناب اعجاز عبید کے؛
جوابی گزارشات محمد یعقوب آسیؔ کی
جوابی گزارشات محمد یعقوب آسیؔ کی
سوال ۔1۔
غزل، اردو غزل۔۔ ہندی غزل۔۔۔
یہ کیا گھپلا ہے؟ پہلے ہی ہندی اور اردو کو ایک ہی زبان سمجھنے والوں کی کمی نہیں،
اور اس کا اپنا جھگڑا ہے کہ یہ دو زبانیں مانی جائیں یا واحد زبان، جو الگ الگ
رسوم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ اس کے بعد غزل بھی۔ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ غزل تو
بس غزل ہے، وہ اردو میں ہو، یا فارسی میں، ہندی میں ہو یا گجراتی میں۔ یہ اپنی
ساخت کے حساب سے تو درست مانا جا سکتا ہے۔ ان مضامین کی نسبت سے بھی جو کسی بھی
زبان کی غزل میں عمومی طور پر موجود ہوتے ہیں۔ لیکن تحریر کے اعتبار سے!
ایک سے زیادہ زبانیں بھی ایک رسم الخط رکھ سکتی ہیں، بلکہ رکھتی
ہیں۔حروف تہجی کی تعداد اور اصوات کا فرق اگر کہیں ہے تو اس کو ہم الگ
رسم الخط نہیں کہہ سکتے۔ عرف عام میں فارسی رسم الخط جسے ہندوستان میں کبھی شاہ
مکھی کہا جاتا تھا (آج کا مجھے نہیں پتہ)، اس میں لکھی جانے والی زبانوں میں عربی،
فارسی، اردو، بلوچی، سندھی، پشتو، کشمیری، ہزارگی وغیرہ بہت نمایاں ہیں، جب کہ
شاکھا، شینا، کھوار اور کئی چھوٹی زبانیں بھی ہیں۔ کمال پاشا سے پہلے ترکی بھی اسی
خط میں لکھی جاتی تھی۔ اصل سوال یہ ہے کہ جب خط الگ ہو جائے، تب ہمیں طوعاًَ کرہاً
ماننا پڑے گا کہ زبان الگ ہو گئی ہے۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ ہندی (دیوناگری)
خط میں ایسی متعدد آوازیں ادا نہیں ہو پاتیں جو فارسی خط میں ہیں۔ ایسا ہی دوسری
طرف بھی ہے۔ جہاں فارسی خط والوں نے کچھ مخصوص ہندی یا ہندوستانی آوازوں کے لئے دو
چشمی ھ کے خلط سے بھ، پھ، تھ، ٹھ وغیرہ حروف وضع کر لئے، وہیں دیوناگری
والوں نے ز، غ، ف وغیرہ کی آوازوں کے لئے بندی کے اضافے سے کام لے لیا۔ بہ این ہمہ
یہ طریقہ شافی ثابت نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ث، س، ص تینوں کے لئے دیوناگری میں
ایک حرف ہے، اور ذ، ز، ض، ظ چاروں کے لئے ایک حرف، ک ق دونوں کے لئے ایک۔
جبکہ عربی، فارسی، اردو، پنجابی وغیرہ میں ان قریب الصوت حروف کی معنوی حیثیت بہر
حال مختلف ہے۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ کوئی زبان محض آوازوں اور حروف تہجی کا
مجموعہ نہیں ہوا کرتی، اس کے پیچھے ایک اپنا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ اور پس منظر
ہوا کرتا ہے۔ ہم نذیر اور نظیر کو یا قصر اور کسر کو یا کلب اور قلب کو ہم معنی
قرار نہیں دے سکتے۔ ایسے الفاظ کو دیوناگری میں میسر پوری صحت کے ساتھ لکھا جائے
تو بھی معنوی التباس تو ہوتا ہے۔ بعینہٖ آڑا، ایڑی وغیرہ کے حقیقی تقاضے الف زبر،
زیر پیش سے پورے نہیں کئے جا سکتے۔ یہاں پہنچ کر ہمیں ماننا پڑے گا کہ خط بدلنے سے
زبان بدل جاتی ہے، جب کہ زبان بدلنے سے خط بدل جائے یہ ضروری نہیں۔ ہاں، نظامِ
اصوات میں گڑبڑ ضرور واقع ہو گی۔
اس کی ایک مثال اور لیجئے: انٹرنیٹ پر انگریزی (رومن) حروفِ تہجی
کا گویا راج ہے اور بسا اوقات کبھی کسی کمپیوٹر کے محددات اور کبھی دیگر وجوہ کی
بنا پر ہم لوگو اردو پنجابی وغیرہ رومن میں لکھ دیتے ہیں۔ تاریخی طور پر دیکھیں تو
جب انگریز یہاں وارد ہوا تو اُس نے اپنی سہولت کے لئے جملہ مقامی زبانوں کو رومن
(ان کی اپنی الف بے) میں لکھوایا اور لکھا۔ غ اور گھ ایک دوسرے سے الجھ گئے، خ اور
کھ الجھ گئے، تھ اور ٹھ، دھ اور ڈھ کا مشاکلہ پیدا ہوا؛ وغیرہ۔ صحتِ اصوات کے ساتھ
ساتھ صحتِ معانی کا مسئلہ بہر صورت اپنی جگہ موجود رہا۔عادی ہو جانا یا اپنی زبان
سے مانوس ہونے کی وجہ سے درست الفاظ تک پہنچ جانا ایک مختلف بات ہے۔ جیسے فرانسیسی
اور جرمن والے ہیں؛ وہی رومن اے بی سی مگر آوازوں کا نظام اپنا اپنا، تو زبانیں
بھی الگ الگ۔ یہاں تو رسم الخط بھی الگ ہے۔
اب آتے ہیں غزل کی طرف، غزل ایک ایسی مقبول صنف شعر ٹھہری جو فارسی
سے اردو میں آئی تو ساتھ ہی پنجابی، اور ہندی میں بھی چلی آئی۔ تاہم اس کی حیثیت
وہی بنتی ہے کہ جس زبان میں غزل کہی گئی وہ اُسی زبان کے حوالے سے جانی جاتی رہی
ہے۔ ہم فارسی غزل کو اردو غزل یا اردو غزل کو پنجابی غزل قرار نہیں دے سکتے۔ ماہیا
اصلاً پنجابی لوک شاعری کی ایک صورت ہے۔ یہ اردو میں مقبول ہوا تو اردو ماہیا
کہلایا۔ بلکہ بشیر حسین ناظم نے تو فارسی میں بھی ماہئے کہے۔ ان سب میں ایک مشترک
بات ہے غزل کی ہیئت من حیث المجموع متعینہ تسلیم کی جاتی ہے، جسے عرفِ عام میں
زمین کہتے ہیں؛ یعنی وزن، قافیہ اور ردیف۔ اس کے باوجود ہندی غزل ہندی غزل ہے،
اردو غزل اردو غزل ہے، فارسی غزل فارسی غزل ہے، پنجابی غزل پنجابی غزل ہے و علیٰ
ھٰذا القیاس۔ گجراتی، کیرالوی، مرہٹی وغیرہ کے بارے میں وہی لوگ بہتر جانتے ہیں
اور وہی بہتر بیان کر سکتے ہیں۔
غزل میں ہیئت کے ساتھ دوسرا بڑا عنصر مضامین کا ہے۔ غزل میں قدرتی
طور پر ریزہ خیالی پائی جاتی ہے جو معنوی سطح پر اس کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ بھی
ہے کہ شاعر کسی بھی رسمی موضوعاتی بندش کا پابند نہیں ہوتا۔ جیسا پہلے عرض کر چکا
زبان محض الفاظ و اصوات سے آگے تہذیبی ورثے کا حاصل ہوتی ہے، اور موضوعات و مضامین
میں دو تہذیبوں کا اشتراک یا اختلاف بھی غزل میں اظہار پاتا ہے۔ اس لئے ہم غزل کو
اس کی تہذیبی جڑت کے حوالے سے بھی دیکھیں گے اور خطی اور صوتی حوالوں سے بھی، اور
موضوعاتی وسعت کے حوالے سے بھی۔ نتیجہ وہی نکلتا ہے: ہندی غزل ہندی غزل ہے، اردو غزل اردو غزل ہے، فارسی غزل فارسی غزل
ہے، پنجابی غزل پنجابی غزل ہے و علیٰ ھٰذا القیاس۔
سوال ۔2۔
ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ غزلیں
صرف کاغذ پر چھپتی ہی نہیں، مشاعروں اور کوی سمیلنوں میں سنائی بھی جاتی ہیں۔اور
گلو کاروں کے ذریعے گائی بھی جاتی ہیں۔ ادھر حالیہ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ خاص
کر شمالی ہند میں مشاعروں اور کی۔ سمیلنوں کے مشترکہ پروگرام ہونے لگے ہیں۔ ان میں
سنائی جانے والی غزلوں کو اردو کی غزلیں کہا جائے یا ہندی کی؟
اس کا آدھا جواب تو آ چکا۔ باقی آدھا جواب یہ ہے کہ شاعر کو اعلان
کرنا ہوگا کہ وہ اردو غزل سنانے جا رہا ہے یا ہندی یا پنجابی یا گجراتی
وغیرہ۔
سوال ۔3۔
یہی نہیں، آج کل اپنے کو اردو شاعر کہنے کا دعویٰ کرنے والے شعراء
حضرات میں بھی ایسے شعراء شامل ہیں، جن کو اردو کی لکھاوٹ نہیں آتی، اور وہ
نستعلیق اردو رسم الخط کی جگہ دیو ناگری میں غزل لکھ کر لاتے ہیں۔ مشاعروں کے
مشہور شاعر منور رانا، بشیر بدر، راحت اندوری ہی نہیں، بہت سے شعراء دیوناگری میں
اپنے مجموعے چھپوانے لگے ہیں۔ اس کی وجہ یہی نہیں ہے کہ دیو ناگری میں چھپائی
زیادہ آسان اور سستی پڑتی ہے، بلکہ اس لئے بھی کہ لوگوں کا خیال ہے، اور یہ حقیقت
سے دور بھی نہیں، کہ اردو رسم الخط سے واقف ہونے والے کم ہوتے جا رہے ہیں، اس لئے
زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچ کے لئے دیوناگری میں اپنا مجموعہ چھپوانا ضروری
سمجھا جاتا ہے۔
غزل کا اصل حق تو یہ ہے کہ اگر وہ اردو غزل ہے تو اسے اردو خط میں
لکھا جائے، ہندی ہے تو دیوناگری میں یا جو بھی خط اس کا ہے اس میں لکھا جائے۔ کہیں
اگر کوئی مجبوری ہے یا ’’لازمی ترجیحات‘‘ کار فرما ہیں جیسے لکھائی چھپائی کا خرچ
وغیرہ، وہاں شاعر پر کم از کم یہ ذمہ داری ضرور عائد ہوتی ہے کہ وہ بتائے کہ
مثلاً: یہ اردو غزل ہے جسے بوجوہ دیوناگری میں لکھنا پڑا۔ زبان کے حوالے سے
میرے نزدیک یہ بہر حال لازم ہے کہ اردو غزل کے دعویدار شاعر کو اردو خط میں لکھنا
پڑھنا ضرور آنا چاہئے۔ ورنہ وہی بات ہو گی جس کا ذکر آپ نے کیا کہ حرکات و سکنات
کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ ہندی غزل میں اگر لفظ صبر کو ’’صَ بر‘‘ پڑھا جائے
تو اس کی درستی ہندی اصوات کے مطابق پرکھی جائے گی، اردو غزل میں ایسے پڑھنا غلط
سمجھا جائے گا کہ یہاں تو ’’صَب ر‘‘ ہے۔ یعنی شاعر کی طرف سے ایک رسمی اعلان بہت
ضروری ہے کہ یہ اردو غزل ہے یا ہندی غزل ہے۔
سوال ۔4۔
لیجئے، یہ ایک اور گھپلا شروع ہو گیا۔ دیوناگری غزل۔ کیا منور رانا اور
پروین شاکر کے دیو ناگری رسم الخط میں چھپے ہوئے مجموعوں پر ایسا کچھ تحریر کیا
جاتا ہے کہ یہ خالص اردو شاعری ہے، اور ان غزلوں کو ہندی غزل سمجھنے والوں کے خلاف
قانونی چارہ جوئی کی جائے گی!!
ان حالات کو آپ بہتر جانتے ہیں کہ ہندوستان میں عوامی، ادبی،
اور سرکاری سطح پر اردو (فارسی) رسم الخط کو کتنی اہمیت دی جا رہی ہے اور قانونی
چارہ جوئی وغیرہ کے معاملات کس نہج پر ہیں۔
سوال ۔5۔
اس کا ایک پہلو اور بھی ہے، اردو زبان کو آج کل محض اسلام سے جوڑا جا
رہا ہے، اور اگر کوئی غیر مسلم (اسے ہندو پڑھئے) کوئی غزل چاہے اردو مشاعرے میں
سنائے تو کیا اسے ہندی غزل سمجھ جائے؟ گویا کہ غزلیں بھی ہندو مسلمان ہونے لگیں؟
اور اس طرح کیا جیتندر پرمار، پریم کمار اشک اور اوم پربھاکر کو محض ’ہندو‘ یا
’ہندی‘ شاعر کہا جائے اور ان کی غزلوں کو ’ہندی غزل‘۔خدا کا شکر ہے کہ ادب کے
میدان میں اس قسم کے تعصب کو اب تک جگہ نہیں مل سکی ہے، ورنہ واقعی یہ بھی ممکن
تھا!!
اردو زبان کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کی بات صرف آج کی نہیں ہے،
تحریکِ آزادی کی تاریخ دیکھ لیجئے، ہندی اردو تنازع بہت مشہور واقعہ ہے۔ اردو کو
تب بھی اسلام کے ساتھ جوڑا جاتا تھا۔ اور یہ کوئی اچنبھے کی بات ہے بھی نہیں۔ عربی
اور فارسی اور ہندی: اردو کی لفظیات کے یہ تین بڑے سرچشمے ہیں اور ترکیب سازی
وغیرہ کے ضوابط بھی دیکھ لیجئے، رسم الخط بھی اردو نے عربی سے لیا یا فارسی سے،
ایک ہی بات ہے۔ اسلام کے ساتھ یہ تعلق اردو کے لئے شرمناک بات تو نہیں ہونی چاہئے۔
اگر یہ کہنا درست ہے کہ دیوناگری دیوتاؤں کے منہ سے نکلے ہوئے شبد ہیں تو پھر یہ
بھی درست ہے کہ اردو کو برصغیر میں مسلمان لے کر آئے ہیں۔ ہندو اور مسلم
ثقافتوں کا فرق زبانوں میں بھی دکھائی دے رہا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔
ہاں، یہ کہنا البتہ غلط ہو گا کہ کوئی غیر مسلم اردو نہ پڑھے نہ لکھے یا کوئی مسلم
ہندی نہ پڑھے نہ لکھے۔ اُس کو آپ تعصب کا نام دیتے ہیں تو دے لیجئے۔ اردو کی تاریخ
میں کتنے ہی ہندو شعراء اور نثر نگار گزرے ہیں جن کی علمی اور ادبی خدمات کو اردو
کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ کئیوں کے تو تخلص بھی فارسی یا عربی میں تھے۔ ہری چند
اختر، رتن ناتھ سرشار، رگھو رائے فراق، دیا شنکر نسیم کو نظر انداز کرنا ایسا آسان
بھی نہیں۔ کوئی ہندو، کوئی سکھ اردو میں غزل کہتا ہے تو کہے کہ میں نے اردو
میں کہی ہے، کوئی مسلم ہندی میں غزل کہتا ہے تو کہے کہ میں نے ہندی میں کہی ہے۔ اس
میں قباحت بھی کیا ہے؟ لیکن ہندی کو اردو یا اردو کو ہندی قرار دینا درست
نہیں ہو گا۔
سوال ۔6۔
چلئے، تو یہ بات بھی طے نہیں ہوئی کہ جو غزل دیو ناگری میں لکھی جائے،
اسے ہندی غزل ہی مانا جائے۔ تو ہندی غزل کیا ہے؟ میرے خیال میں صرف اسے ہندی غزل
مانا جائے جس کو تخلیق کار سناتے وقت خود باقاعدہ اعلان کرے کہ وہ ہندی غزل سنانے
جا رہا ہے، یا جب وہ ایسے رسالے میں شائع ہو جسے ہندی ادب کا رسالہ سمجھا جاتا
ہو۔اور مکمل طور پر اردو والوں کے لئے گمنام ہوں اور اردو کے رسائل میں کبھی نہیں
چھپتے ہوں۔ دشینت کمار اور شمشیر سے اردو والے بھلا کہاں واقف ہوں گے!!
اعلان والی گزارش میں پہلے بھی کر چکا، اعلان ضروری ہے۔ یہ پابندی
نہ لگائیے کہ ایسا اردو ’’غزل گو‘‘ ہندی والوں کے لئے گم نام ہو یا ہندی ’’غزل
کار‘‘ اردو والوں کے ہاں مجہول ہو۔ اگر ایک مسلمان انگریزی میں ادب تخلیق کر سکتا
ہے، فرانسیسی میں لکھ سکتا ہے تو ہندی میں کیوں نہیں، اور یہی بات ہندو، سکھ،
پارسی ادیب کے لئے بھی کہ اردو اس کے لئے شجرِ ممنوعہ کیوں ٹھہرے؟۔ رسائل والے
جانیں ان کی پالیسیاں جانیں، اس پیش منظر سے بھی آپ بہتر طور پر واقف ہیں۔
سوال ۔7۔
ایک اور دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی ہے۔ ہندی والے اپنے غزل کے شاعروں
کو ’غزل گو‘ نہیں کہتے، ’غزل کار‘ کہتے ہیں۔ اس لئے جو شاعر اپنے کو ’غزل کار‘
کہے، اسے ہندی غزل کا شاعر مانا جائے۔اس کے علاوہ ہندی میں بہت سے الفاظ کا تلفظ
وہی ہے جو غلط العوام ہے، مثلاً شَ ہ َر، جب کہ اردو میں درست ’ہا ‘ ساکن مانا
جاتا ہے، بر وزن درد، جب کہ ہندی میں یہ اکثر بر وزن ’مَرَض‘ مانا جاتا ہے۔ اور
خود اس لفظ کو ’مرگ‘ کے وزن پر ’را‘ ساکن کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ تو جن
غزلوں میں اس قسم کی اغلاط نظر آئیں، انہیں ہی کیا ہم ہندی غزل کہیں گے؟ بلکہ بہت
سے ہندہ کوی اس صنف کو بھی ’غزل‘ بولتے اور لکھتے ہیں۔
یہ وہی بات آ گئی کہ جہاں رسم الخط بدلے گا وہاں اصوات کا نظام بھی
بدلے گا۔ مجھے دیوناگری یا گرمکھی لکھنی پڑھنی نہیں آتی تاہم میرا انداز ہ ہے کہ
اس میں مثلاً آپ لفظ ’’سڑک‘‘ لکھتے ہیں تو تین حروف لکھتے ہیں س، ڑ، ک اور ان میں
یہ شاید طے شدہ ہے کہ پہلے دونوں پر فارسی اردو کے مطابق زبر سمجھی جائے گی؟ اور
اگر مثلاً ’’بچپن‘‘ لکھتے ہیں تو ب اور چ کا جوڑا بن جائے گا پھر پ اور ن کا، وہ
زبر کے ساتھ؟۔ اگر زیر یا پیش کا مقام ہو گا تو وہ باضابطہ طور پر ہجوں میں لکھا
جائے گا؟ کیا میں نے درست کہا؟۔ اگر یہ درست ہے تو فارسی عربی کے الفاظ تو
سرے سے بدل ہی گئے اس پر غین اور گاف کا التباس، یا ز کو ج سے بدل دینا؛ پھر غزل
سے گجل بھی بن سکتی ہے۔ آپ کے مقالے ہی کو سامنے رکھیں تو آپ شاعر کو کوی لکھ گئے
ہیں۔ میں اس کو غلطی نہیں تہذیب کا اثر گردانتا ہوں، اور یہ بالکل فطری امر
ہے۔ سو، جناب اردو کو اردو اور ہندی کو ہندی رکھئے، جبراً ملانے سے زبانیں نہیں
ملا کرتیں تہذیبیں ٹکرا جایا کرتی ہیں۔
سوال ۔8۔
لیکن اب ’سمت‘ کے اس خصوصی
شمارے کے بعد، جب یہی ہندی غزلیں، اردو رسم الخط میں شائع ہو رہی ہیں، اور
’سمت‘ محض اردو زبان کا جریدہ ہے، جو اردو کے فروغ کے لئے کار فرما ہے، کیا اب
’سمت‘ میں شائع ہونے کے بعد ان کو اردو غزل کے روپ میں تسلیم کیا جائے گا؟ جی
نہیں، یہاں کیونکہ ہندی غزل کے طور پر ہی ان غزلوں کو شائع کیا جا رہا ہے، اس لئے
ان کو ہندی غزل ہی کہا جائے گا۔ ہ دوسری بات ہے کہ راقم الحروف نے ہی بہت سی ہندی
غزلوں کو بغیر یہ وضاحت کئے برقی کتب کے طور پر شائع کر دیا ہے کہ یہ ہندی غزل ہے۔
لیکن ساتھ ہی کئی شعراء ایسے بھی ہیں جو محض اردو کے لئے جانے مانے جاتے ہیں، لیکن
ان کی شاعری اردو کی جگہ انٹر نیٹ میں محض ہندی/ دیو ناگری میں دستیاب ہو سکی اور
جن کو گوگل یا پنجاب یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے ذریعے ہندی سے اردو میں رسم الخط کی
تبدیلی کی گئی ہے، اور تدوین کر کے برقی کتب کے طور پر راقم نے شائع کیا ہے۔ جیسے
سردار جعفری، شہر یار، مخدوم محی الدین وغیرہ۔
’’سمت‘‘ اس کے نام پر مجھے یاد آیا۔ کبھی اس کو سِمت بھی لکھا جاتا
تھا؟ اور پھر سَمَت ؟ اور پھر سَمت؟ کیا واقعی ایسا ہے یا مجھے اشتباہ ہو رہا ہے؟
میں نے پہلے بھی کسی مقام پر عرض کیا تھا کہ اس کی درست صوتیت سَم ت ہے۔ اگر آپ یا
آپ کے ساتھی کسی اور طرح ادا کرتے ہیں تو یہ بھی تہذیبی اثر رہا ہو گا۔ اپنے شمارے
کے لئے پالیسی آپ کو بنانی ہے، میں نے اپنی استطاعت کے مطابق پوری ایمان داری سے
سب کچھ عرض کر دیا ہے۔
شذرہ:
یہ گفتگو جون 2014ء میں ہوئی اور جناب اعجاز عبید نے یکم جولائی 2014ء کو اپنے آن لائن پرچے "سمت" کی سائٹ پر شائع کیا۔
فقیر کی ان گزارشات پر تبصرے درجِ ذیل ربط پر ملاحظہ کئے جا سکتے
ہیں۔
سہ ماہی سمت : مدیر جناب اعجاز عبید۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں