نہ، نا، نہیں، ناں، کہ
........
کچھ بات معانی کی
سب سے پہلی بات یہ نوٹ کی جائے کہ لفظ ’’ناں‘‘ اردو کا نہیں ہے۔ پنجابی میں اس کے دو معنے ہیں: نہ (نافیہ)، نام، مثلاً: انج ناں کر یار، اپنا ناں دَس دے (یوں نہ کرو یار، اپنا نام بتا دو)۔ تاہم نافیہ کے لئے میری ذاتی ترجیح ’’نہ‘‘ ہے، ’’ناں‘‘ نہیں۔
نہ ( نَ ہ): اردو میں یہ حرف نافیہ ہے یعنی معانی میں نفی پیدا کرتا ہے، مثلاً: نہ کوئی آیا نہ گیا؛ نہ حساب نہ کتاب؛ میں نے نہ تو اسلم کو برا کہا نہ تمہیں؛ نہ کرو یار؛ وہ نہ بھی آیا تو کیا ہے؛ وغیرہ۔
نہیں (نَ ہی ں): اس میں ’’ن‘‘ کے ساتھ فعل ناقص (ہے، تھا، گا، وغیرہ) کا تاثر بھی شامل ہوتا ہے، مثلاً: وہ بہرا نہیں ہے؛ آپ نہیں جانتے؛ کوئی نہیں مانے گا؛ وہاں تو کوئی بھی نہیں گیا؛ وغیرہ۔ پہلا جملہ (وہ بہرا نہیں ہے): اس میں لفظ ’’ہے‘‘ کو نہ لکھنا راجح ہے۔
لفظ نہیں لفظ ہاں کا معنوی متضاد ہے۔ مثلاً: نورالدین کے بارے میں کچھ پتہ چلا؟ اس سوال کے جواب میں ایک لفظ ’’ہاں‘‘ کافی ہے (یعنی پتہ چل گیا ہے)؛ اور ایک لفظ ’’نہیں‘‘ کافی ہے (یعنی پتہ نہیں چلا)۔ یہاں ’’نہ‘‘ کا مقام نہیں ہے۔
نا (ن ا): اس کی بہت معروف صورت ہے معانی کو تقویت دینا (تاکید کا عنصر)، مثلاً: اٹھو نا یار، چلیں (اٹھنے کے عمل پر زور دیا جا رہا ہے نہ کہ اس کی نفی کی جا رہی ہے)؛ وہی ہوا نا جو میں نے کہا تھا (ہونا کے معانی میں تقویت پیدا ہوتی ہے)؛ ایسا نہیں ہے نا بھائی (یہ جملہ نفی کا ہے، بوجہ: نہیں؛ اور اس کے نفی ہونے کو تقویت دے رہا ہے: نا)۔
یہاں ایک نکتہ خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ حرف نون پر کوئی حرفِ علت (الف، واو، یاے) واقع ہو تو وہاں پیدا ہونے والی غنہ جیسی کیفیت خود اِس نون کی وجہ سے ہوتی ہے،وہاں نون غنہ ہو، یا نہ ہو ( نون غنہ کا وجود یا عدم وجود املاء کے قواعد اور لفظ کی اصولی ساخت کے مطابق ہو گا)۔
نا (بطور سابقہ): جب یہ کسی صفت سے پہلے واقع ہو تو اس کی نفی کرتا ہے، مثلاً: لائق، نالائق؛ دانا، نادان؛ آشفتہ، ناشفتہ؛ معقول، نامعقول؛ دیدہ، نادیدہ؛ سمجھ دار، نا سمجھ؛ شناسا، نا شناس؛ وغیرہ۔ عربی لفظ غیر یہ معانی بھی دیتا ہے، مثلاً: مقبول، غیر مقبول؛ معروف، غیر معروف؛ حاضر، غیر حاضر؛ وغیرہ۔ مقامی زبانوں (پنجابی ہندی وغیرہ) سے ایک سابقہ ’’اَن‘‘ بھی یہی معانی دیتا ہے، مثلاً: اَن پڑھ؛ اَن اَنت؛ اَن دیکھا؛ اَن کہی؛ اَن سنی؛ وغیرہ۔
سابقے ’’لا‘‘ اور ’’بے‘‘: ان میں بھی نفی کے معانی پائے جاتے ہیں تاہم ان کا رُخ خاصا مختلف ہوتا ہے اور بسا اوقات یہ محض نفی کی بجائے نئے معانی بھی پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً: لا متناہی، لا یعنی، لا شریک، لا فانی، لا علم، لامکاں، لا شخصی، لاشعور؛ بے علم، بے باک، بے تاب، بے کار، بے بس، بے سرا، بے ڈھنگا، بے لباس، بے وقار؛ وغیرہ۔ لاعلم اور بے علم کے معانی میں فرق ہے؛ لایعنی اور بے معنی کے معانی میں فرق ہے؛ و علیٰ ہٰذا القیاس۔
نوٹ: زبان کا ایک عمومی قاعدہ یاد رکھیں کہ ایک ہی املاء کے حامل الفاظ معانی میں مختلف بھی ہو سکتے ہیں، اور مختلف الفاظ ایک ہی معنیٰ بھی دے سکتے ہیں (اس کا انحصار آپ کے اپنے ذخیرہء الفاظ پر ہے)۔یعنی: املاء کو معانی میں اور معانی کو املاء میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔
............
عروض میں ’’نہ‘‘ اور ’’کہ‘‘ کی بندش
اشرافیہ (کلاسیک) میں ان دونوں لفظوں کو یک حرفی باندھنے کی روایت ہے۔ اساتذہ نے بھی جہاں ’’نہ‘‘ دوحرفی باندھنا لازم جانا وہاں لفظ ’’نَے‘‘ لائے ہیں، حالانکہ ’’نا‘‘ ان کے علم میں تھا۔ اگر ’’نا‘‘ (دوحرفی) لانا درست مانتے تو ’’نَے‘‘ کی ضرورت نہ ہوتی۔ ’’کہ‘‘ (بیانیہ) کے معاملے میں البتہ کچھ لچک ملتی ہے کہ کہیں اس کو دوحرفی باندھنے کی گنجائش دے دی جائے۔ تاہم یہ بھی ایک انداز کی رعایت یا نرمی ہو گی، نہ کہ قاعدہ۔
........................................
۔۔۔۔ محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
جمعرات 17؍ اگست 2017ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں