شاعری
کے لالے اور بغلیں
فقیر کے کچھ مہربانوں کو یہ خوش فہمی لاحق ہے کہ وہ ”بہت بڑے شاعر“
ہیں۔ کچھ ان کے فقیر و یسیر چاپ لوس حواریوں نے ان میں ہوا بھر رکھی ہے۔ اس پر طرہ
یہ کہ ایسے خوش فہم ”بڑے“ شاعروں کو کھٹکا لگا رہتا ہے کہ ان کے شعر چوری کئے جا
رہے ہیں۔ اس کو کیا کہئے کہ ان سادہ مزاجوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون ان کے
پاؤں پڑ رہا ہے اور کون ان کے توہمات پر زہرخند ہے۔
فقیر نے استاد چُٹکی سے اپنی اس فکر کا ذکر کر دیا۔ کہنے لگے:
”تمہیں کیا! انہیں اپنے واہموں سے نمٹنے دو۔ اگر ان کے ارشادات اتنے ہی قیمتی
ہیں تو انہیں ٹھپ کر رکھیں، فیس بک کے چور بازار میں پیش ہی کیوں کر رہے ہیں“۔
فقیر کی یہ حالت کہ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم۔ استاد نے چٹکی بجاتے میں خاکسار کے
چہرے سے صورتِ حال کو بھانپ لیا اور بڑے سکون سے بولے: ”بدرے میاں، تمہیں کیا پتہ؟
تم کون سے شاعر ہو؟ ایک شاعر جو شدید دردِ زِہ سے گزر کر بہ صد ہزار مشکل گنتی کے
چند شعر موزوں کر بھی لے تو ان کی سطح عامیانہ کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی“۔
عرض کیا: ”حضور، یہ عامیانہ سطح کیا ہوتی ہے؟“ بولے: ”اپنی نو مشقی
کے زمانے کی شاعری سمجھ لو جس سے تم آج تک نہیں نکل سکے۔ ایک عام سا پیشِ پا
افتادہ خیال جو کسی کو بھی سوجھ سکتا ہے، وہ چاہے اسے اپنے انداز میں بیان کر دے
تو شاعری کے ان ”لالوں“ کو اپنے شعر کے لالے پڑ جاتے ہیں “۔ اس فقیر کے پاس کہنے
کو کچھ بچا ہی نہیں تھا، بغلیں جھانکنا شاید اسی کو کہتے ہیں۔
۔۔۔۔
بدرِ احمر کے قلم سے: سوموار ۳۰۔ مارچ ۲۰۲۰ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں