استاد بسمل بزمی کو اخبار سے اتنی ہی دل چسپی ہے کہ شہ سرخیوں پر
اچٹتی سی نظر ڈال لی، ہفتہ وار اشاعتوں میں جھانک لیا، ادبی صفحہ ہوا تو اس پر دو
چار منٹ کے لئے اٹک گئے، خالی خولی ورق گردانی کر کے اخبار ایک طرف ڈال دیا۔ کبھی
موڈ ہوا تو کالم دیکھ لئے، وہ بھی عنوانات اور کالم نگاروں کے ناموں کی حد تک۔ شین
بصرہ نامی کالم نگار البتہ انہیں اچھا لگتا تھا۔ اکثر کہا کرتے کہ: شین بصرہ سچ
لکھتا ہے، اور لگی لپٹی رکھے بغیر بہت تلخ باتیں کر جاتا ہے۔ اس کی زبان بہت شستہ
ہے، الفاظ کو برتنا جانتا ہے۔ اور اس کی خاص بات لوگوں کی نفسیات کا مطالعہ ہے۔ وہ
بریکنگ نیوز سے کہیں زیادہ اہمیت روز مرہ زندگی کے بظاہر چھوٹے چھوٹے مظاہر کو
دیتا ہے؛ اور مزید بہت کچھ۔
اُس دن بھی استاد بڑی دیر تک شین بصرہ کے کالم میں کھوئے رہے۔ عنوان
تھا: ’’کالے ہاتھ‘‘، کہانی بوٹ پالش والے ایک لڑکے کی تھی جو چوتھی پانچویں جماعت
میں رہا ہو گا۔ کالم نگار کو وہ لڑکا چھٹی کے وقت کبھی کسی بس سٹاپ پر، کسی کار
پارک کے کونے پر، کسی مارکیٹ کے راستے پر بیٹھا دکھائی دیتا۔ اسکول بیگ ایک طرف
ڈالے، وہ کبھی کسی کے جوتے ہاتھ پر چڑھا کر پالش کر رہا ہوتا، اور کبھی کسی پاؤں
میں پہنے ہوئے جوتوں پر برش مار رہا ہوتا۔ شین بصرہ نے اس لڑکے کے تلخ حالات اور
مجبوریوں کا نقشہ بھی کھینچا تھا؛ تعلیم جاری رکھنے کے عزم کو بھی سراہا تھا اور
یہ بھی لکھا تھا کہ وہ لڑکا کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتا جس سے اس کی اپنی
خودداری کو ٹھیس پہنچے یا اس کی کمائی کسی بھی انداز میں ناجائز قرار پائے۔ چوری
کرنا، دکانوں سے چیزیں غائب کرنا، بھیک مانگنا؛ وغیرہ اس بچے کے نزدیک جرم سے
زیادہ شرم سے ڈوب مرنے والی بات تھی ۔ نچلے طبقے کے ان محنت کش بچوں کے ساتھ لوگوں
کے تحقیر آمیز رویے کا ذکر بھی کیا تھا۔ ایک مشورہ سفید پوش طبقے کو یہ بھی دیا
تھا کہ کبھی کبھی ہی سہی وہ بغیر ضرورت کے بھی جوتے پالش کروا لیا کریں۔ کالم پڑھ
چکنے کے بعد انہوں نے سر اٹھایا تو اُن کے چہرے پر ویرانی سی چھائی ہوئی تھی۔
تھوڑی دیر تک چپ چاپ بیٹھے رہے، پھر چلے گئے۔
اگلے دن سرِراہ ملاقات ہو گئی، استاد پریشان سے دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نے خیریت
پوچھی تو بیزار سے لہجے میں بولے: ’’چھوڑو یار! سب بکواس ہے، جھوٹ بکتے ہیں یہ
لوگ! پیسہ کمانے کے لئے کہانیاں گھڑا کرتے ہیں‘‘۔ ’’یا وحشت! کیا ہوا اُستاد؟ کسی
سے الجھ پڑے کیا‘‘؟
’’ہاں، کچھ ایسا ہی سمجھو، اُلجھا نہیں اور نہ الجھنے پر خود سے
شرمندہ ہو رہا ہوں‘‘۔ ہمارے پلے کچھ نہیں پڑ رہا تھا۔ وہ ہمیں پکڑ کر تقریباً
گھسیٹتے ہوئے ایک قریبی چائے خانے میں داخل ہو گئے۔
ہم بیٹھ چکے تو استاد نے بات شروع کر دی۔ لب لباب یہ تھا کہ پچھلی
مارکیٹ کے کونے پر بیٹھے لڑکے سے ایک شخص نے جوتے پالش کرائے اور اسے دس کا نوٹ
تھما دیا۔ وہ لڑکا کہنے لگا: صاحب جی دس روپے سے زیادہ کی تو میری پالش خرچ ہوئی
ہے، اس پر میری محنت کے بیس روپے بھی تو دیں۔ وہ شخص الٹا اُس لڑکے پر برس پڑا: تو
نے میری کیا گاڑی پالش کی ہے جو تیس روپے مانگ رہے ہو؟ شرم نہیں آتی۔ یہ کہا اور
لڑکے کو ایک جھانبڑ دے مارا۔ ایک خوانچے والا بیچ میں آ گیا، اُس نے ’صاحب جی‘ کو
خوب سنائیں۔ ایک دکان والا نکل آیا:یہ لوگ ایسے ہی ہیں جی، آپ چھوڑئیے سر، یہ ہے
وہ ہے۔ خوانچے والے نے ’صاحب جی‘ کو کلائی سے پکڑ لیا: ’’نکال تیس روپے سیٹھ مکھی
چوس! نہیں تو تیرا بازو گیا مونڈھے سے۔ اور یہ تیری گھڑی جو میرے ہاتھ کے نیچے ہے،
دس بارہ ہزار کی تو ہو گی! یہ بھی گئی جان لے‘‘۔ مرتا کیا نہ کرتا!’صاحب جی‘ نے
جیب میں ہاتھ ڈالا، سو کا نوٹ ہاتھ لگا، وہ خوانچے والے کو دیا اور بڑے رعب سے
بولے: اب مجھے چھوڑ دے، کمینے!۔ اس نے چھوڑتے میں ایسا دھکا دیا کہ صاحب لوگ پیچھے
سے آتی گدھا گاڑی کے سامنے گر گئے۔
ادھر ایک بندہ دوڑتا ہوا آیا:’’ اوئے ہوئے ہوئے! یہ بصرہ صاحب کو کیا
ہوا؟‘‘ استاد بسمل بزمی نے یہ نام سنا تو چونکے: ’’بصرہ صاحب؟ یہ شین بصرہ ہیں؟
وہی جو کالم لکھتے ہیں؟‘‘ .... آنے والے نے اثبات میں سَر ہلا دیا۔
*******
بدرِ احمر ’’مِری آنکھیں مجھے دے دو‘‘
ہفتہ ... ۲۳؍ دسمبر ۲۰۱۷ء
باتوں ہی باتوں میں کیسے کیسے المناک نکات سامنے لے آتے ہیں آپ۔۔۔ سچ ہے استاد آخر استاد ہوتا ہے۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںآداب عرض ہے۔
حذف کریںاللہ اللہ
جواب دیںحذف کریں