’’صوفیہ کو جانتے ہو؟‘‘ لالہ مصری خان کے سوال ایسے ہی ہوتے ہیں؛ بظاہر
بہت سادہ، لیکن بہت گہرے۔ اس سوال کی گہرائی کو بھی ایک دم پا لینا اپنے بس میں
نہیں تھا۔ مگر کچھ جواب تو دینا تھا!
’’صوفیہ کون؟ خان لالہ!‘‘
’’ارے وہی! جس کو ابھی پچھلے دن شہریت دی گئی ہے‘‘۔
’’کون وہی؟ کہاں کی شہریت؟‘‘
’’چلو ہٹو، بنو نہیں! میں اس شیشے کے سر والی کی بات کر رہا ہوں‘‘۔
’’یہ آپ کون سی زبان بول رہے ہیں‘‘۔ ہمارے اس سوال کا جواب تو ملا
نہیں، استاد چُٹکی البتہ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ایسی ہنسی کو لالہ مصری خان ہمیشہ
توہین سے تعبیر کیا کرتے ہیں اور یک دم سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ مگر لالہ کا چہرہ سپاٹ
تھا۔ یا حیرت! ہم نے احمقانہ انداز میں استاد کو گھورا۔ تو انہوں نے ایک اور سوال
داغ دیا جو لالہ مصری خان کی صوفیہ سے بھی بڑھ کر تھا۔ بولے: ’’کرپٹو کرنسی جانتے
ہو؟‘‘ ہماری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر خود ہی کہنے لگے: ’’ایک فرضی کرنسی ہے، جس
میں بے پناہ قوتِ خرید ہے‘‘۔
’’کرنسی فرضی ہے اور اس میں قوتِ خرید بھی ہے، اور وہ بھی بے پناہ؟ اور
اس کا اُس شیشے کے سر والی سے کیا تعلق ہے؟ مگر پہلا سوال کہ وہ ہے کون؟ اور اس کو
شیشے کے سر والی کیوں کہتے ہیں؟‘‘ ہم نے بے تابی میں ایک سوال میں چھکا مار دیا۔
’’چلو یہ بتاؤ کہ جاپان میں جو بڑا سونامی آیا ، جس نے جاپان کی معیشت
کو تہ و بالا کر دیا، وہ کیوں آیا تھا؟ کون لایا تھا؟‘‘
’’خیریت تو ہے استاد؟‘‘ ہم نے غیریقینی ہنسی ہنستے ہوئے پوچھا: ’’سونامی
قدرتی طور پر اٹھتے ہیں، کوئی کیسے لا سکتا ہے؟‘‘
’’کیا تمہارے علم میں ہے کہ جاپان ایک نئی کرنسی متعارف کرانے والا تھا؟ وہ سونامی اس کرنسی کو ڈبونے کے لئے آیا تھا‘‘۔
’’یہ استاد چُٹکی کیا کہہ رہے ہیں، خان لالہ؟ اور ان کی توپوں کا رُخ
ہماری طرف کیوں ہے؟‘‘ ہم نے احتجاج کے انداز میں سوال کیا، جواب میں خان لالہ کچھ
ایسے مسکرائے کہ اگر اُن کا احترام حائل نہ ہوتا تو ہم اسے مکارانہ تبسم قرار دینے
میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کرتے۔ انہوں نے الٹا ہم سے پوچھ لیا: ’’تاش کھیلتے ہو؟
ترپ کا پتہ کسے کہتے ہیں؟‘‘ ہم سے نہ رہا گیا، ہم نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کر کے
زور سے کہا: ’’احتجاج! احتجاج! صاحبو یہ ہم سے کیا پہیلیاں بوجھوا رہے ہو!‘‘۔
’’چھوڑو! یہ بتاؤ کہ ترپ کے پتے کو انگریزی میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ اس پر
ہمارا چونک جانا یقینی تھا، ہم چونکے! اور وہ بھی تو ایسے کہ صوفیہ کا تو پتہ
نہیں، صوفہ جس پر ہم بیٹھے تھے وہ بھی اچھل پڑا۔ ایک جھماکے کے ساتھ بہت کچھ عیاں
ہو گیا۔ تاہم کچھ سوال ایسے ضرور تھے جن کے جواب ہمیں درکار تھے۔ ہم سمجھ نہیں پا
رہے تھے کہ سوال کس سے کریں اور کس ترتیب سے کریں۔ ہمارے ذہن پر کئی نام ہارپ بیم
بن کر گرنے لگے، ان میں آخری دو نام ہیں: ڈونالڈ ٹرمپ اور یروشلم۔
دیکھئے! ہم بالکل نہیں
مسکرا رہے اس لئے وہ مکارانہ تبسم والی بات ہمارے بارے مت سوچئے گا۔
مِری آنکھیں مجھ دے دو
بدرِ احمر .... ۱۳؍ دسمبر ۲۰۱۷ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں