ہفتہ، 13 جنوری، 2018

ہنڈیا




ہنڈیا


آدھی رات کا عمل ہو گا، بُڑھیا نے ہنڈیا چولھے پر رکھی تھی، اور اس میں ڈوئی ہلا رہی تھی۔ وہ کنکھیوں سے بچوں کو دیکھ رہی تھی جو ہنوز جاگ رہے تھے۔ اس نے میٹھے لہجے میں بچوں سے کہا: ’’بس تھوڑی دیر اور، تم لوگ تھوڑی دیر سو جاؤ، میں ہنڈیا بنا رہی ہوں؛ مگر خالی پیٹ نیند کیا آئے گی۔ ایک نے کہا: ’’اماں، روٹی دو‘‘؛ بس پھر کیا تھا، سب بلکنے لگے: اماں بھوک لگی ہے، اماں روٹی دو، اماں نیند نہیں آ رہی۔ بچوں کے اس شور سے بڑھیا کا سر تو نہیں البتہ دل ضرور لگتا تھا کہ ابھی پھٹ جائے گا۔ اس نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائی اور ... دو موٹے موٹے آنسو دعا بن کر اس کے گالوں پر پھسل گئے۔ اس نے چادر کے پلو سے چہرہ پونچھا اور منہ زور سے بھینچ لیا کہ کوئی آواز نہ نکلے، کیا پتہ کیا نکل جائے!

دفعتاً دستک ہوئی۔ ’’کون ہے؟‘‘ اس نے بلند مگر کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔ پھر خود کلامی کے سے انداز میں بولی: ’’یہ بے وقت کون آ گیا؟ یا اللہ، کوئی سائل نہ ہو، مجھے شرمندہ نہ کرنا، میرے مالک‘‘۔
دروازہ کھٹکھٹانے والے نے بلند آواز سے پوچھا: ’’خیریت تو ہے؟ یہ بچے اس وقت کیوں رو رہے ہیں؟‘‘
اماں نے دروازہ کھولا اور آنے والے سے کہا: ’’بھوکے ہیں، بہلا رہی ہوں، ابھی کچھ دیر میں سو جائیں گے، تم پریشان نہ ہو، جاؤ آرام کرو‘‘۔
’’انہیں کھانے کو کچھ دو، خاتون! یہ ہنڈیا میں کیا ہے؟‘‘
’’کچھ ہوتا تو دے چکی ہوتی، اور یہ سو گئے ہوتے۔‘‘
’’تو کیا کسی کو خبر نہیں؟ کہ تمہارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے!‘‘
’’میرے اللہ کو خبر ہے، وہ میرے لئے اور ان بچوں کے لئے جو بھی کرے گا، اچھا ہی کرے گا، تم جاؤ۔‘‘
’’تو کیا خلیفہ کو بھی خبر نہیں؟‘‘
’’مجھ سے کیا پوچھتے ہو، اس سے جا کر پوچھو اُسے خبر ہے کہ نہیں۔‘‘
آنے والا انہی قدموں پر لوٹ گیا، اوروہ پھر ہنڈیا میں ڈوئی ہلانے لگی۔ بچے پہلے بلکتے رہے، پھر نڈھال ہو گئے تو نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ اماں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ بچے سو گئے ہیں۔ وہ قبلہ رو ہو کر سر بہ سجدہ ہو گئی۔

کچھ ہی دیر میں پھر ٹھَک ٹھَک ٹھَک۔ اس سے پہلے کہ اماں پوچھتی کون ہے؛ ایک بے تاب سوال اس کے کانوں میں پڑا: ’’اماں بچے سو گئے کیا؟‘‘
’’ہاں سو گئے، اللہ کا شکر ہے، مگر تم پھر آ گئے ہو۔ شور نہ کرو بچے جاگ گئے تو پھر بلکنے لگیں گے۔‘‘
’’میں وہ نہیں ہوں، میں بچوں کے لئے کھانے کو کچھ لایا ہوں، بچوں کو جگانا چاہو تو جگا کر انہیں دو۔ اور میں کچھ اناج بھی لایا ہوں، کچھ زیتون ہے‘‘۔ آنے والے نے اماں کے جواب کا انتظار بھی نہیں کیا اور سارا سامان جو دو تھیلوں میں تھا، گھر کے اندر رکھ دیا۔
’’ٹھہرو! تمہیں میرے گھر کی خبر کس نے دی؟ اور تم کون ہو؟ تمہیں کس نے کہا؟‘‘
’’میں امیرالمومنین کا خادم ہوں، مجھے امیرالمومنین نے حکم دیا کہ یہ چیزیں ابھی تمہیں پہنچاؤں۔‘‘
’’امیرالمومنین کو کس نے خبر دی؟‘‘
’’وہ امیرالمومنین (عمر بن خطاب) ہی تو تھے، جو مجھ سے پہلے آئے تھے۔‘‘
’’وہ ... وہ ... خود ....‘‘ بڑھیا کے الفاظ منہ میں اٹک گئے۔
’’ہاں! وہ خود آتے، مگر صلوٰۃ الیل کا وقت ہو چلا ہے، اس لئے انہوں نے مجھے بھیجا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ نوجوان جیسے اُڑ کر وہاں سے بھاگ نکلا تھا۔ بڑھیا ہکا بکا رہ گئی، اس کا دل فرطِ تشکر سے ہنڈیا کی طرح ابلنے لگا۔ وہ نہ تو اس نوجوان کا شکریہ ادا کر سکی نہ امیرالمومنین کا؛ مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ اس نے ان کے لئے اللہ سے کیا کیا دعائیں کی ہوں گی۔


بدرِ احمر ....... ہفتہ: ۱۳؍ جنوری ۲۰۱۸ء

3 تبصرے:

  1. بڑے لوگ تھے
    کھانے والے بھی، بھوکے رہنے والے بھی اور کھلانے والے بھی
    زندگی مشکل ہو کر بھی آسان اور مہربان تھی

    جواب دیںحذف کریں