جناب
مشتاق عاجزؔ کے اردو گیتوں پر مشتمل "زندگی گیت ہے" کا مختصر مطالعہ
اپنا حال اُس گنجی والا ہے جس کے پاس نچوڑنے کو بھی کچھ نہیں۔ گیت کیا ہے، اور اس کو کیسا ہونا چاہئے؛ مجھے اس کا کوئی خاص اندازہ نہیں تھا۔ ’’زندگی گیت ہے‘‘ کے مطالعے سے شہ پا کر لڑکپن کی یادیں پتہ نہیں کن کونوں کھدروں سے نکل کر ذہن کے پردے پر نقشے سے بنانے لگیں۔ زیادہ تر نقوش تو بہت دھندلے ہیں، تاہم کہیں کہیں کوئی صاف اور واضح نقش بھی دکھائی دے جاتا ہے۔ اور مجھے گمان ہونے لگتا ہے کہ میں گیت کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتا ضرور ہوں کہ گیت ہوتا کیا ہے۔
اس تفہیم میں بھی مشتاق عاجزؔ کا حصہ زیادہ ہے۔ ان کے لکھے ہوئے
گیتوں کو پڑھ کر، اور ان کے رنگ روپ، چال ڈھال، بول چال کے سارے نقشوں کو اپنی حد
تک ترتیب دے کر گیت کے خدوخال کشید کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کو اس پورٹریٹ میں شریک
کرنا یوں بھی ضروری ہے کہ آپ عملی طور پر گیت کے تینوں بڑے شعبوں سے منسلک ہیں۔
اور مجھ سے کہیں زیادہ جانتے ہیں کہ گیت کا رُوپ ماٹی میں گھلی رُوپا سے نکھرتا
ہے۔ میرا مطالعہ تو خیر کیا ہوتا، لڑکپن میں سنے لوک گیتوں اور طبع زاد گیتوں تک
محدود رہا ہوں جو کبھی ریڈیو پر بجا کرتے تھے، یا کبھی گاؤں آ جانے والے گویوں سے
سنے تھے۔ مثال کے طور پر:۔
* اماں مورے بابا کو بھیجو ری کہ ساون آیا
* شیام توری بنسی پکارے رادھا رام
* جھوٹ بولے کوا کاٹے، کالے کوے سے ڈریو
* آوو گے جب تم ساجنا، انگنا پھول کھلیں گے
* رینا بیتی جائے، سجنوا نہ آئے، ہائے رے منوا ہائے
* کہاں سے آیا رے بدرا، سجنی کی جُلفاں سے
* مہندی ہے رچنے والی
* لگن لاگی تو سے سجن، لاگی رے لاگی
* اگنیا سَونیا کی، برہن کے چت کو جلاوے
* مری پیاری بہنا، بنے گی دلہنیا
* راجا کی آئے گی بارات رے
* کاگا سب تن کھائیو، چن چن کھائیو ماس
* چھاپ تلک سب چھین لی رے مو سے نیناں ملائی کے
* بگیا میں آئی رے بہار، منوا کو سوگ لگا
* برسو ری، برسو ری، میگھا ری میگھا، برسو ری
......وغیرہ
اسے کیا نام دیجئے گا؟ ہلدی کی گنڈھی پر طبابت تو ہونے سے رہی، نیم
حکیم والی بات ہے کہ وہ کسی اور کے لئے خطرہء جان ہو نہ ہو، اپنے لئے ضرور ہے۔ بہ
این ہمہ، گیت کے لئے جو بنیادی اوصاف سمجھ میں آ سکے، عرض کئے دیتا ہوں۔
۔۱۔ گیت سن کر یا پڑھ کر
طبیعت کو کھُلنا اور کھِلنا چاہئے اور رواں ہونا چاہئے؛ چاہے ہونٹوں پر، چاہے
آنکھوں سے؛ کہ گیت کا ناطہ سینے اور دل سے ہے۔ مزا جب ہے کہ دل کنپٹیوں میں دھڑکے،
اشک سانسوں کو بھٹکا دیں اور لہو بجلی بن کر ہر رگِ جاں میں سنسنی دوڑا دے۔ گیت
پڑھنے سے کہیں زیادہ گانے کی چیز ہے؛ اس کی لے، سر، تان، تال، چال، چھند، ماتروں
کو ہر گیت کے انفرادی منظرنامے اور مزاج سے موافق اور اُس پر محیط ہونا چاہئے۔
۔۲۔ گیت کو اپنی دھرتی سے
ایسے جڑا ہوا ہونا چاہئے کہ اس میں مٹی کی مہک بلکہ ذائقہ محسوس ہو سکے۔ گیت کی
زبان میں مکھن کی سی ملائمت ہونی چاہئے؛ ثقالت نہیں۔ زبان عام لوگوں کی ہو، پر،
عامیانہ نہ ہو۔گیت کا موضوع کچھ بھی ہو، اس میں اسلوب رومانی ہو۔ بات دل سے نکل کر
سیدھی دل میں اترے۔گیت کے سنگھار میں ادب کی چاشنی غازے کی حیثیت رکھتی ہے۔
۔۳۔ گیت میں جذباتیت کا
ہونا بہت لازم ہے۔ بلکہ یوں کہئے کہ گیت نام ہی جذبے کی ترسیل کا ہے، وہ نہ ہو تو
گیت گیت نہیں رہتا، چاہے کتنی بڑی نظم بن جائے۔ گیت میں ادق فلسفے کی گنجائش نہیں۔
بات جتنی سامنے کی ہو اور سادگی سے بیان ہو، چاشنی بھی اسی قدر ہو گی۔ گیت میں
اعلیٰ افکار کا ہونا اس کی قدر و قیمت کو بڑھاتا ضرور ہے؛ تاہم اس کی تاثیر مترتب
افکار سے کہیں زیادہ بے ترتیب دھڑکنوں اور سنسناتی سانسوں سے وابستہ ہے۔
۔۴۔ گیت کے مضامین کہیں سے
ڈھونڈھ کر نہیں لانے پڑتے۔ بلکہ روزمرہ سے لے کر خاص خاص اور بڑے مواقع تک ہر جگہ
ہم پر گزرتے ہیں۔ مثلاً: سگائی، بیاہ شادی، ڈولی، بارات، رخصتی، عید شب برات، ہولی
دیوالی کی رسمیں، بنسی، بین، ڈھولک؛ تاہم گیت اِن گنی چنی چیزوں تک محدود نہیں ہے۔
اس میں بہادری، بزدلی، پہلوانی، شہ زوری، مردانگی، وجاہت اور سورمائی؛ نسوانیت،
ناز و ادا، لوازماتِ حسن، جھانجھن، چوڑی، موسموں کی رعایت، سرسوں، ساون، جاڑے،
گرمی، بادل، چندا، سورج، دھرتی، گرج چمک، پروا، جھکڑ،کے ساتھ ساتھ وراگ روگ، بجوگ،
سنجوگ کی کیفیات اور ان کی منظر نگاری، مکالمہ، خود کلامی غرضے کہ سماج اور تہذیب
سے جڑی ہر چیز (بڑی لمبی بلکہ کبھی مکمل نہ ہونے والی فہرست) شامل ہے۔ گیت کو
معاشرتی روایات و اَقدار، اور ان سے جڑے محسوسات کی گہرائی اور گیرائی کا امین
ہونا چاہئے۔
۔۵۔ عروض کے قواعد گیت پر
لاگو نہیں ہوتے، چاہے اردو کا ہو چاہے پنجابی کا۔چلئے اپنی سہولت کے لئے ایک گیت
کی پوری عروضی ہیئت کو آہنگ کا نام دئے لیتے ہیں۔ طبع زاد اور لوک ورثہ دونوں طرح
کے گیتوں کے آہنگ میں بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے، اتنا زیادہ کہ عروض کے قواعد
اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کسی بھی گیت کا آہنگ انفرادی بھی ہو سکتا ہے، نیا بھی
اور پہلے سے موجود کسی گیت کے آہنگ پر بھی؛ تاہم جو بھی ہوگیت کو اپنی جگہ پر ایک
اکائی اوراس کے ہر حصے (بند) کو آپس میں ہم آہنگ ہونا چاہئے۔
مزید کچھ اس لئے بھی نہیں کہہ سکوں گا کہ گائیکی اور موسیقی سننے اور
لطف اٹھانے سے آگے کا مجھ میں دم نہیں ہے۔ مشتاق عاجزؔ کے ہاں اتنی توانائی ضرور
پائی جاتی ہے کہ وہ گیت کے منقولہ بالا تقاضوں کو نہ صرف یہ کہ بخوبی پورا کرتا
ہے، بلکہ ان کو اپنے دام ہم رنگِ زمین اسلوب میں ڈھال لیتا ہے۔ تاثیر اتنی ہے کہ
قاری تو قاری، خود مشتاق عاجزؔ اس کے سحر میں آ جاتا ہے۔
مجھے یہاں ’’سمپورن‘‘ کی بو، باس اور چاشنی تازہ محسوس ہو رہی
ہے۔دوہے لکھنے کا عمل اور دورانیہ جتنا بھی طویل یا مختصر رہا ہو، فاضل شاعر ایک
عرصے تک خود اپنے رومانی اور محسوساتی تجربے اور تہذیبی رومان کے مطالعے میں مصروف
رہا ہے۔ زیرِ نظر گیت مجھے اس طویل اور جان گسل مطالعے کا حاصل محسوس ہوتے ہیں۔
فاضل شاعر نے اپنے متعدد گیتوں کے اندر دوہے شامل کئے ہیں۔ اپنے ہی لکھے سے تحریک
پانا اور اپنے تجربے کو ایک مختلف اظہار دینا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ میرے نزدیک
ہما شما کے بس کی بات نہیں، اس عمل کے لئے کوئی مشتاق عاجزؔ ہی درکار ہے، جسے اپنے
لکھے کی سچائی، گہرائی اور گیرائی پر مکمل اعتماد ہو۔ ہوا غالباً یہ ہے کہ دوہے
لکھنے کے طویل اور مسلسل عمل میں فاضل شاعرنے جہاں کہیں یہ محسوس کیا کہ ایک صورتِ
حال کو دوہے کی دو سطروں میں لانا اظہار میں رکاوٹ بن سکتا ہے، یا یہاں گیت کا ایک
متبادل آہنگ موزوں تر ہے؛ اس نے وہ آہنگ اختیار کر لیا۔ اس کے دو فائدے ہوئے: اول:
اظہار میں رکاوٹ نے شاعر کی ذات میں گھٹن پیدا نہیں کی، بلکہ ایک خوبصورت اظہار سے
نواز دیا۔ ع: رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور (غالب)۔دوم: گیت کا چکنے چکنے
پات والا ہونہار بروا زمین کو چیر کر اُس کے چہرے کا غازہ بن گیا۔ ع: پھول کی پتی
سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر (بھرتری ہری)۔ بہ الفاظِ دیگر: گیت کی اس سدا بہار
کھیتی کی جڑوں سے کونپلوں تک دوہے کی سبز کھاد لہو بن کر رواں ہے۔
فقط .... محمد یعقوب آسیؔ
(ٹیکسلا) پاکستان
جمعرات .... ۲۶؍ اکتوبر ۲۰۱۷ء
مشمولہ: کتاب ”زندگی گیت ہے“ مئی 2018ء (صفحہ 13 تا 17)۔
عمدہ، پُر مغز، جامع اور مفصل تبصرہ۔
جواب دیںحذف کریںکتاب پر تبصرے کے ساتھ ساتھ گیت کے متعلق اہم معلومات فراہم کرنے پر قابل احترام آسی صاحب کے لیے خصوصی تشکر
آداب ۔۔۔
حذف کریںیہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںواہ
جواب دیںحذف کریںہم آپ سے بھی کافی بعد کی جنریشن کے ہیں اس طرح ہمارا تعلق گیت سے اتنا گہرا اور مضبوط نہیں جتنا آپ کا رہا. بہر کیف گیت کی خصوصیات یا لوازمات جو جو آپ نے بیان کیے , غیر شعوری طور پر ہم بھی اسی خیال کے تحت اور انہیں لوازمات و احساسات کی تشنگی مٹانے کے لیے ہی گیت سنتے رہے ہیں. ایک پرمغز اور گیت کو سمجھنے کے حوالے سے کافی اہم مضمون. کتاب یقیناً اچھی ہوگی کیونکہ خالق خود بھی گاؤں کی مٹی کی خوشبو کا شاعر ہے. جس کی مہک اور سباس ان کی باقی کتب میں بھی موجود ہے.
بہت عمدہ جناب یعقوب عاصی صاحب۔ مشتاق عاجز کے ایک دو گیت مشتے از خروارے نمونے کے طور پر درج کر دیتے تو اور بھی اچھا ہوتا۔ کتاب تو نہ جانے کب ہاتھ آئے۔
جواب دیںحذف کریں