یادوں
کے جھروکوں سے
۔"چھوڑ یار آسیؔ تو نکما آدمی ہے۔
اگر اپنی کتاب (فاعلات) پر دیباچہ لکھوایا ہوتا تو وہ بھی آج اس مجموعے میں شامل
ہوتا!" رؤف امیرؔ نے معمول کے مطابق ایک اور بڑھک چھوڑ دی۔ دیباچوں کی کتاب
کا نام ہے: "رؤف امیر کے دیباچے"، مجھ سے کہنے لگا: یہ کتاب ٹائپ کر دو۔
پوچھا پبلشر کون ہے، کہا فلاں ہے۔ میں نے کہا: بھائی اس سے کہو مزدوری دے دے، کام
تمہاری تسلی کا ہو جائے گا۔ بات ہوئی، کتاب ٹائپ ہو گئی، مزدوری بھی مل گئی (جو
بہرحال ایک معجزہ تھا)۔ رؤف امیر مجھ سے ڈسکٹ لینے آیا تھا۔ اسے پتہ نہیں کیا
سوجھی کہ مجھے احساسِ محرومی میں مبتلا کرنے کو یہ بڑھک چھوڑ دی۔ مجھے رؤف امیرؔ
سے ایسی حرکت کی توقع بہرحال نہیں تھی۔
میں نے تنک کر کہا: "میں پڑھ چکا
ہوں تمہارے کارنامے! تم نے کتابیں نہیں فوٹو دیکھ کر لکھے ہیں سارے"۔ وہ ایک
دم دھاڑا: "کیا بک رہے ہو"۔ کہا: "ٹھیک بک رہا ہوں اور مجھے تمہاری
منافقت پر غصے کی بجائے ہنسی آ رہی ہے۔ بہت بھولے ہو تم، یعنی بے وقوف، اور سمجھتے
دوسروں کو ہو"۔ وہ بھنائے ہوئے انداز میں بولا: "تمہارا مطلب کیا ہے؟
کہنا کیا چاہتے ہو؟"۔ "چاہتا نہیں ہوں، کہہ چکا ہوں، تم سمجھ نہیں سکے
تو پھر میں نے ٹھیک کہا کہ تم بہت بھولے ہو، سچ مچ"۔ "میں واقعی نہیں
سمجھا"۔ اس نے خاصی بیزاری سے کہا۔
"میں جانتا ہوں، تم اس لئے نہیں
سمجھے کہ تمہیں کچھ اگر یاد ہے تو بھی بھول چکنے کی ایکٹنگ کر رہے ہو۔ میں نے
مسودہ تمہیں دیا تھا، تمہارے گندھارا کالج میں۔ اور وہ تین چار مہینے تک وہاں پڑا
رہا۔ تم مجھے متواتر ٹالتے رہے، پھر ایک دن میں مسودہ اٹھا کر لے آیا"۔
"مجھے بالکل نہیں پتہ، میں تمہیں
کیسے ٹال سکتا تھا؟"۔
"بنو نہیں، یار! میں ثبوت دکھا
سکتا ہوں"۔
"ثبوت؟" وہ حیرت زدہ ہو کر
بولا۔
"ہاں، ثبوت! کہ تم نے میرے مسودے
کو خاصی توجہ سے پڑھا تھا۔ اس پر مختلف
مقامات پر کچی پنسل سے تمہارے ہاتھ کے لکھے ہوئے نوٹس! یہ شاید 1988 یا 1989 کی
بات ہے۔ اب یہ نہ کہنا کہ تم میری لکھائی نہیں پہچانتے۔ کچھ سمجھے؟"
"پتہ نہیں کیابک رہے ہو"۔
"میں یہ بک رہا ہوں کہ ع: غزل کے روپ میں تہذیب گا رہی ہے نسیمؔ ۔ یہ پورا شعر میں نے تمہارے نوٹس سے نقل کر کے
کتاب میں شامل کیا تھا، اور کچھ ایسی ترمیمات بھی کی تھیں جو تم نے حواشی کے طور
پر لکھی تھیں۔ اور بھی کچھ یاد دلاؤں؟"
"مثلاً، کیا"
"میری کتاب تمہارے اس دیباچے کے
بغیر 1993 میں شائع ہو گئی جسے لکھنے کا تمہارا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اب یہ بھی
کہہ دو کہ تمہیں کتاب نہیں ملی!"
"میں نے تمہیں کب کہا تھا کہ تم
عروض کا پنگا لو؟"
"تمہارے کہے کو میں کب مانتا
بھلا! یہ تو اختر شاد کی طرف سے تحریک تھی"۔
"چلو جس کی بھی تحریک تھی؛ کتاب
ملی تھی مجھے۔ آگے بکو"۔
"کتاب کی تقریبِ رونمائی 1998
میں ہوئی ہے نا مزے کی بات۔ اور تم نے اس تقریب میں میری اسی کتاب پر ایک بھرپور
مضمون پڑھا تھا"۔
"میں نے کوئی مضمون نہیں پڑھا،
غلط کہہ رہے ہو"۔
"رؤف امیر! تم اندر سے مان چکے
ہو، اب اوپری انکار کو چھوڑو۔ تم تقریب میں موجود تھے؟ تو بغیر مضمون کے نہیں ہو
سکتے۔ میرا تمہارا تعلق پندرہ سال سے زیادہ کا ہے، پندرہ سال کا تو تب تھا، جب
تقریب ہوئی تھی"۔
"مضمون تمہارے پاس ہے؟"
"میرے طلب کرنے کے باوجود تم نے
مضمون مجھے دینے سے انکار کر دیا تھا کہ یہ رف لکھا ہوا ہے میں فیئر کر کے دے دوں
گا۔ میں نے کہا بھی کہ میں فیئر کر لیتا ہوں، تمہیں دکھا دوں گا۔ یاد ہے تم نے کیا
رعب جھاڑنے کی کوشش کی تھی؟ تم نے کہا تھا فیئر کرنے میں کچھ جمع تفریق بھی ہو
جائے تو اچھا ہے نا۔ اور میں نے تمہاری بکواس پر یقین کر لیا"۔
" میں کہہ رہا ہوں کہ میں نے
مضمون پڑھا ہی نہیں، پتہ نہیں کس جمع تفریق کی بات کر رہے ہو"۔
"سنو یار رؤف امیرؔ! حلقے کا رجسٹر،
اس پر لکھے شرکاء کے نام اور مضامین کی موٹی موٹی باتیں؛ معمول کے مطابق اگلے اجلاس میں تقریب کی روداد پیش کی گئی اور
اس کی توثیق ہوئی۔ اس بُدھ کو بھی تم اجلاس میں موجود تھے۔ نکالوں رجسٹر؟"۔
"اچھا یار! اب یہ بک بک بند کرو
اور تیز سی چائے پلاؤ۔ مجھے جانا ہے"۔ رؤف امیر کے اس جملے پر مجھے ہنسی آ
گئی، جس میں وہ بھی ایک بے ہنگم قہقہہ لگا کر شامل ہو چکا تھا۔ چائے کے ساتھ
دوسروں کی غیبت کا پیریڈ بھی چلا۔ میں دروازے تک چھوڑنے گیا۔ اس نے ڈسکٹ ہاتھ میں
پکڑی ہوئی تھی۔ اسے تھپتھپاتے ہوئے بولا: "اس میں غلطیاں تو خیر کہیں کوئی
ہوں گی، ہے نا؟"۔ "پریشان نہ ہوں، اس کا رف پرنٹ نکال کر پڑھ لینا اور
غلطیاں مارک کر دینا، میں ٹھیک کر دوں گا"۔
اس نے رخصت ہوتے وقت وہی پرانے اسٹائل
کا ایسا وحشیانہ معانقہ کیا کہ۔۔۔ آپ سمجھ گئے نا؟ کہ میں نے جو الفاظ بمشکل روکے،
وہ ادا ہوتے تو کیسے ہوتے!۔
فقط:
محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان 6 ۔
اکتوبر 2017ء ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں