یادوں
کے جھروکوں سے
رؤف امیر مرحوم میرے سینئر مگر بے
تکلف دوست تھے، اللہ غریقِ رحمت کرے۔ سیمابی مزاج پایا تھا، زبان کے کھُردرے تھے،
مگر دل کے صاف۔ دوستوں کو ناراض کرنے کا فن بھی جانتے تھے اور ناراض ہونے کا بھی۔ اپنی
غلطی کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا بھی ان کے مزاج کی وقتی رَو پر منحصر ہوتا۔ کالج
میں اردو کے استاد تھے۔ زبان و ادب سے ان کی وابستگی کا ایک پہلو دیکھئے۔ سال ختم
ہوتا تو کہا کرتے: اس سال میں نے دو شاعر بنائے ہیں، تین بنائے ہیں؛ وغیرہ۔
حلقے کے اجلاسوں میں اہتمام سے شریک
ہوا کرتے، مگر تاخیر سے آتے۔ تنقیدی نشست میں عام طور پر خاموش بیٹھے رہتے۔ ان سے
کہا جاتا کہ پیش کردہ فن پارے پر بات کریں تو کہتے: میں سن رہا ہوں۔ سارے دوست
گفتگو کر چکتے تو رؤف امیر کے پاس بات کرنے کو خاصا کچھ جمع ہو چکا ہوتا، پھر وہ
بے تکان بولتے۔ فن پارے کی تعریف و تحسین پر مائل ہوتے تو زمین و آسمان کے قلابے
ملا دیتے، تحقیر و تنقیص پر اتر آتے تو فن پارے اور فن کار دونوں کو پاتال میں
پھینک دیتے۔
ایک دن میں نے کہا: "رؤف امیر!
یار تمہاری تعریف اور تنقیص اکثر بے جا ہوتی ہے"۔ ہنس کر کہنے لگے: "یہ
بات تو مجھے طاہر بخاری بھی کہا کرتا ہے"۔ ایک بات ان میں بہت اچھی تھی؛
زبانی گفتگو میں وہ جیسی بھی لاپروائی دکھاتے ہوں، تحریروں میں اپنی ادیبانہ اور
ناقدانہ ذمہ داری کا ہمیشہ پاس کیا کرتے۔ ایک بات وہ بہت سنجیدگی سے کہا کرتے:
"کہنے کو ہم جو چاہے کہتے رہیں، بے تکلف دوستوں میں اور بھی لچک مل جاتی ہے،
یہ سب کچھ بجا۔ مگر یار! تنقید بہت ذمہ دارانہ کام ہے، بہت سنبھل کر لکھنا چاہئے۔
اس میں تنقیص اور تقریظ دونوں سے بچنا ہوتا ہے۔ آپ نے ایک شاعر ادیب کا تنقید میں
کباڑا کر دیا یا اس کو آسمان پر چڑھا دیا، تو آپ کا باشعور قاری آپ کی ایسی کی
تیسی کر کے رکھ دے گا"۔ نہ تو ایسا کھردرا سچ بولنے والا کوئی رہا، نہ سننے
والا۔
۔۔۔
فقط:
محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان 5 ۔
اکتوبر 2017ء ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں