سلسلہ: بدرِ
احمر (مِری آنکھیں مجھے دے دو)۔
۔۔۔۔۔
ایک لالہ مصری خان ہی کیا کم تھے! کہ ہم چاچا بَلھا سے بھی پنچہ آزمائی کر بیٹھے۔ لفظ پنجہ آزمائی ہم یہاں چاچا کی لغت کے مطابق لائے ہیں، ورنہ ہمارے مہربان جانتے ہیں کہ ہم نے اتنی دلیری نہ کبھی دکھائی اور نہ اس کا کوئی امکان ہے۔ کہتے ہیں انسان خطا کا پُتلا ہے، اور یہ پُتلا اگر ہماری طرح دُبلا پَتلا بھی ہو تو؟ تو! یہاں ان کہی بھی ان کہی نہیں رہتی۔
پنجابی
ہماری مادری زبان ہے؛ مان لینے میں ہرج بھی کیا ہے! مگر اس کو کیا کہئے کہ پنجابی
میں اپنا حال اپنے وجود سے بھی پَتلا ہے۔ ہمیں اس کا اندازہ تو تھا، چاچا بَلھا سے
بات ہوئی تو جانا کہ یہ محض اندازہ نہیں، بلکہ ایک چرائتی کرائتی حقیقت ہے۔ پہلے
ہی ٹاکرے میں ہم ان سے پوچھ بیٹھے: "چاچا، بُلھا تو ہم نے سنا ہے بلکہ بابا
بُلھے شاہ مشہور و معروف صوفی شاعر ہو گزرے ہیں؛ یہ بَلھا کیا ہوتا ہے؟" چھوٹتے ہی کسی مرکھنے بھینسے کی طرح ڈکرائے: "پنجابی ہو؟" کہا: "ہاں"
بولے: "نہیں ہو!"۔ لیجئے صاحب، یہ بھی ایک ہی کہی! ایک لفظ کیا پُوچھ
لیا، ہمارا پنجابی ہونا ہی مشکوک ٹھہرا۔ ساری لغت تو کسی کو بھی ازبر نہیں ہوتی،
کوئی نہ کوئی لفظ تو اول اول سامنے آتا ہے، پھر آتا رہے، جاتا رہے۔
لغت
سے یاد آیا، ہمارے ایک دوست کے دوست کے دوست ہیں حضرت ملا لُغاتی دلی والے۔ چچا ٹھیک ہی کہہ گئے: "میاں، اب وہ دلی کہاں!"۔ واقعی، اب وہ دلی کہاں! وہی دلی جہاں کبھی اپنے چچا غالب ہوا کرتے تھے، ان کے باذوق حریف ہوا کرتے تھے؛ اب مُلا لغاتی ہوتے ہیں۔ کیا خوب فرما گئے حضرت مولینا جامی کہ "با زاغ تذرو را
چہ نسبت" (کوے اور منال کا کیا موازنہ!)۔ ہمارے فرشتوں کے علم میں بھی نہیں
تھا کہ چاچا بَلھا سے بھی وہی غلطی سرزد ہوئی تھی جو ہم سے ہوئی۔ چاچا نے ملا لغاتی سے کسی لفظ کے معانی پوچھے تھے اور انہیں جواب ملا تھا: "اتنا ہی شوق
ہے تو کوئی اچھی سی لغات خرید رکھو۔" ملا کا تفصیلی تعارف کسی آئندہ نشست پر
اٹھا رکھتے ہیں، فی الحال اتنا جان لیجئے کہ ان سے طویل ملاکڑے کے بعد چاچا اس
نتیجے پر پہنچے تھے کہ ملا موصوف لغت کے ناقص علم کے زور پر ملا کہلاتے ہیں۔ اس کا
کیا کیجئے کہ اپنے استاد چٹکی نے چٹکی بجاتے میں ملا کی آدھی پھونک نکال دی تھی،
آدھی ہنوز باقی ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ کہتے بھی سنا کہ پیسہ بولتا ہے۔ ملا کے علمی
غبارے اور پیسے کے تال میل پر اس سے زیادہ کچھ کہنا نقصِ امن کا باعث ہو سکتا ہے۔
نقصِ
امن کو خطرہ ہو، نہ ہو؛ ہم ضرور نقصِ انا سے دو چار ہوئے تھے جب چاچا نے ہمارے پنجابی ہونے پر سوال اٹھایا تھا۔ ہم نے فوراً ہاتھ اٹھا دئیے کہ نقصِ انا کی قیمت
پر ہی سہی، اپنی مادری زبان کا کوئی بھولا بسرا لفظ تازہ ہو جائے تو کیا ہرج ہے! چاچا کے مفصل بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ: بَلھا (بر وزنِ بُلھا: ب مفتوح، لام مشدد،
ہائے مخلوط) وہ شخص، بیل، بھینسا وغیرہ ہوتا ہے جس کے ماتھے پر کچھ بال نمایاں طور
پر سفید ہوں۔ ان بالوں کے نیچے کھال کا قطعہ بھی سفید ہو تو سونے پر سہاگا۔ عوامی
زبان میں اس سے مراد ایسا شخص ہوتا ہے جو اپنی حماقتوں کی وجہ سے معروف ہو (جیہڑے
ایتھے بَلھے، اوہ لھور وی بَلھے: بات وہی جھڈو والی ہے کہ: بی بی پہلوں ایہ دس
تینوں میرا ناں کس نے دسیا اے)۔ کبھی کبھی جذبہء ترحم کے تحت اس کو اچھے معانی بھی دے
دیتے ہیں (کیوں؟ توں کوئی بَلھا ایں؟ یعنی تم میں کیا خاص بات ہے؟)۔
ہمیں
چاچا بَلھا سے مل بیٹھنے کے متعدد مواقع ملے؛ ان سے گپ شپ کے بعد ہم پر یہ کھلا کہ چاچا بلھا ہر دو پہلو سے نمایاں ہیں۔ یہ کھلنا ہنوز باقی ہے کہ ملا لغاتی سے ملنے کے بعد اِن کا کون سا پہلو زیادہ نمایاں ہوا ہے۔ چاچا سے اس نکتے پر بات کرنا ہمیں ابھی تو محال لگتا ہے، تاہم کون جانے کسی وقت وہ ڈکرانے کے موڈ میں نہ ہوں، اور ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے دوست بھی ان کے بارے میں مزید جان سکیں۔
محمد یعقوب آسیؔ
اتوار:
2 جولائی 2017ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں