ہفتہ، 10 جون، 2017

خاموشی ۔۔۔ ایک مکالمہ



خاموشی


لچھن: پتہ نہیں، عجیب سی بے چینی لگی ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیوں۔
چھکن: کام وغیرہ ٹھیک چل رہا ہے؟ کوئی مسئلہ رہا ہو گا۔
لچھن: کام تو ٹھیک چل رہا ہے، کوئی مسئلہ نہیں۔ کہانا کہ سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔
چھکن: بیوی بچے ٹھیک ہیں؟
لچھن: ہاں، ٹھیک ہیں۔ ابھی گھنٹہ بھر پہلے فون پر بات بھی ہوئی۔
چھکن: تم گاؤں کب گئے تھے؟
لچھن:  کوئی چار مہینے ہو گئے۔
چھکن: کتنا رہے وہاں؟ ایک مہینہ؟
لچھن:  نہیں کچھ زیادہ، ڈیڑھ مہینے کے قریب۔
چھکن: بیوی بچے بھائی بہن سسرالی، سب ٹھیک ہیں؟
لچھن:  ہاں سب ٹھیک ہیں۔
چھکن: تو تم ملے ہو نا، سب سے؟
لچھن:  ہاں تقریباً سب سے ملا ہوں۔ جن سے نہیں ملا ان کی بھی خیر خبر مل گئی تھی، سب نارمل ہے۔
چھکن: اماں کیسی تھیں جب تم واپس آئے؟
لچھن:  ....... (خاموشی) ........
چھکن: کیا ہوا؟ وہ خیریت سے تو ہیں؟ تم پریشان ہو گئے ہو۔
لچھن:  ....... (خاموشی) ........
چھکن:  چپ کیوں ہو گئے ہو؟ میں نے اماں کا پوچھا ہے، کیسی ہیں وہ؟
لچھن:  پتہ نہیں۔
چھکن: ہائیں، پتہ نہیں؟ کیا مطلب؟ تم اماں سے نہیں ملے؟
لچھن:  نہیں۔
چھکن: عجیب آدمی ہو؟ تم ڈیڑھ مہینہ گاؤں میں رہے، سب سے ملے اماں سے نہیں ملے؟
لچھن:  ہاں۔
چھکن: یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ 
لچھن:  ....... (خاموشی) ........
چھکن: ویسے وہ ٹھیک ہیں نا؟
لچھن:  ٹھیک ہی ہوں گی، نہیں تو کوئی مجھے بتا دیتا۔
چھکن: یہ کیا کہہ رہے ہو؟ کوئی کیوں بتا دیتا، تم خود کیوں نہیں ملے ان سے؟
لچھن:  بس! نہیں ملا۔
چھکن: اماں کو پتہ تو ہو گا کہ تم آئے، کتنے ہی دن رہے اور چلے گئے۔
لچھن:  ہاں، انہیں پتہ ہے۔
چھکن: کچھ سوچا تم نے؟ یا کچھ محسوس کیا؟
لچھن:  کیا؟
چھکن: تمہارا بچوں سے ملنے کو جی چاہا، تم گئے سب سے ملے، جی خوش ہوا؟
لچھن:  ہاں۔
چھکن: ایک ماں کا بیٹا ایک عرصے کے  بعد گاؤں میں آیا، مہینہ بھر سے زیادہ رہا اور ماں سے ملے بغیر چلا گیا!
لچھن:  تو؟ تم کہنا کیا چاہ رہے ہو؟
چھکن: اس ماں کے دل پر کیا بیتی ہو گی، کچھ اندازہ ہے تمہیں؟
لچھن:  ....... (خاموشی) ........
چھکن: تم کیا کہو گے؟ اماں تم سے ناراض ہیں شاید؟
لچھن:  ہاں۔
چھکن: تو انہیں راضی کرنا تھا، نا۔
لچھن:  تمہیں کچھ پتہ بھی ہے وہ کیوں ناراض ہیں؟
چھکن: اس کیوں سے کیا ہوتا ہے؟ مجھے تو لگتا ہے تم ناراض ہو۔
لچھن:  یہ تم نے کیسے کہہ دیا؟
چھکن: تم ناراض نہ ہوتے تو اماں سے ملتے ضرور۔ وہ تمہارا انتظار کرتی رہی ہوں گی۔
لچھن:  ہاں، بیوی نے بتایا تھا۔
چھکن: اور کیا بتایا تھا؟ خیر، جو بھی بتایا تھا، تم جانو۔ اب پریشانی کس بات کی ہے۔
لچھن:  یہی تو سمجھ میں نہیں آ رہا۔
چھکن: میری سمجھ میں تو آ رہا ہے۔
لچھن:  کیا؟
چھکن: تمہاری ماں کو تم سے پھر اذیت پہنچی ہے۔
لچھن:  کیا مطلب؟ پھر؟؟؟
چھکن: ہاں، تمہیں اماں سے ناراض ہونے کا حق کس نے دیا۔
لچھن:  شکایت مجھے بھی تو ہو سکتی ہے؟
چھکن: کیسی شکایت؟ اماں نے تم سے کہا کہ نماز نہ پڑھا کرو؟ یا کہا کہ بیوی کو ناحق طلاق دے دو؟
لچھن:  یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو؟ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔
چھکن: اگر ایسا کچھ نہیں کہا تو تمہیں اماں سے ناراض ہونے کا کوئی حق نہیں۔
لچھن:  ....... (خاموشی) ........
چھکن: تمہارا مسئلہ میری سمجھ میں آ گیا ہے۔ 
لچھن:  وہ کیا؟
چھکن: اماں کو تم سے جو اذیت پہنچی ہے تمہاری بے کلی اسی کا ردِ عمل ہے۔
لچھن:  تم میری اماں کو نہیں جانتے۔
چھکن: یہ تم نے ’’میری اماں‘‘ کہا؟
لچھن:  ہاں، کیوں؟
چھکن:  اگر وہ تمہاری اماں ہیں تو تم ان سے ملے کیوں نہیں؟
لچھن:  ....... (خاموشی) ........
چھکن: دیکھو، تمہارے اندر کا شریف آدمی ابھی زندہ ہے، وہی تمہیں بے چین کر رہا ہے۔
لچھن:  مگر ......
چھکن: مگر وگر کچھ نہیں۔ ایک بار پھر گاؤں جاؤ اور واپس تب آنا جب وہ تم سے راضی ہو جائیں۔
لچھن:  یہ تو بہت مشکل ہے۔ انہیں راضی کرے گا کون؟
چھکن: تم! اور کون؟
لچھن:  یہ ناممکن ہے۔
چھکن:  واقعی؟ 
لچھن:  ہاں۔
چھکن:  ٹھیک ہے، ابھی تم جاؤ اور جب اماں تم سے راضی ہو جائیں تو مجھے بتا دینا۔
لچھن:  اور اگر وہ راضی نہ ہوں تو؟
چھکن:  تو ... ممکن ہے تم مجھ سے نہ مل سکو۔
لچھن:  ....... (خاموشی) ........

ړ ړ ړ ړ ړ ړ ړ

محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان ہفتہ .... ۱۰؍ جون ۲۰۱۷ء


6 تبصرے:

  1. ماں کے درجے اور اس کی تعظیم کا درس دیتی ایک تحریر جس کا اختتام ضرورت سے کچھ زیادہ شدت کا مظہر ہے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ایک بے تکلف دوست کو اتنا حق تو دیں نا، کہ وہ آپ کو دھمکی دے سکے۔ ۔ زبان و بیان، اسلوب اور کرداروں کے بارے میں بھی تو کچھ کہئے۔

      حذف کریں
  2. اللہ پاک نے کا حکم ہے کہ والدین کو اف تک نہ کہو۔ اس مختصر سی تحریر میں اتنا کچھ چھپا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ آخر میں صرف پچھتاوا اور خاموشی

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت عمدہ تحریر۔۔۔
    ہمارے ساتھ بھی اکثر ایسے ہی ہوتا ہے۔۔ جب ماں کیساتھ کسی معاملے میں تیزی کر جاتے ہیں۔ تو پھر بےچین سے رہتے ہیں۔۔
    باقی دوست ہو تو ایسا۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. عمدہ مکالمہ جس میں گفتگو، اشارے کنایے، ضرف و نحو اور روز مرہ گفتگو کے آداب کو ملحوظ رکھا گیا۔
    بیانیہ بھی خوب ہے۔
    خصوصاً موضوع کے ساتھ عمدگی سے انصاف کیا گیا۔
    آسی صاحب اتنے خوبصورت موضوع پر بہترین تحریر پر داد قبول فرمائیے۔

    جواب دیںحذف کریں