منگل، 27 اکتوبر، 2015

اوچن خراشو، انشائیہ اور صدیقی صاحب



اوچن خراشو، انشائیہ اور صدیقی صاحب

عثمان خاور کے سفرنامہ ’’ہریالیوں کے دیس میں‘‘ پر ایک نظر
(یہ مضمون مذکورہ کتاب کی تقریبِ رونمائی میں پیش کیا گیا اور بعد میں کاوش میں شائع ہوا)


او چن خراشو! جی ہاں! کیا کہنے! بہت خوب! یہی ترجمہ ہے اس کا! عثمان خاور کا سفر نامہ پڑھ کر جو پہلا تاثر بنتا ہے وہ یہی ہے، اوچن خراشو! یہ لفظ بھی اسی کتاب سے لیا گیا ہے اور صدیقی صاحب سے تو اس کتاب کے سبھی قارئین واقف ہو چکے ہوں گے۔ معراج صدیقی صاحب جو اندر سے پورے پاکستانی ہیں اور پاسپورٹ کے اعتبار سے پورے امریکی، ہریالیوں کے دیس میں جہاں جہاں عثمان خاور اور سلمان باسط کے قدم پہنچے صدیقی صاحب اُن کے ہم رکاب رہے یا یوں کہئے کہ یہ دونوں بھائی صدیقی صاحب کے ہم رکاب رہے۔ رہ گئی بات انشائیے کی! تو، یہ وہ صنفِ سخن ہے جس کی حدود کا صحیح تعین ابھی تک نہیں ہو سکا۔ ناقدین نے تعریف در تعریف کا ایک ایسا سلسلہ شروع کر رکھا ہے کہ بات کسی سرے لگتی دکھائی نہیں دیتی۔ اگر موضوعات کو چھیڑتے ہوئے، مسائل کا ادراک بہم پہنچاتے ہوئے، ان کے درمیان سے ہلکے پھلکے گزر جانے کا نام انشائیہ ہے تو پھر یہ کتاب سفر نامہ تو ہے ہی، انشائیہ بھی ہے! فاضل سفرنامہ نگار، بلکہ ہمارے ’’فاضل مسافر‘‘ کی زبان ایسی ہے کہ جملوں میں شگفتگی اور کاٹ دونوں بیک وقت پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں۔ چند مثالیں جو کتاب کی ابتدا سے ہی نظر آ جاتی ہیں ملاحظہ ہوں:

ص ۱۱..۱۲: ’’آپ کا سامان کہاں ہےَ‘‘ ایئر پورٹ پر کئی لوگوں نے پوچھا۔ ’’یہی تو ہے!‘‘ ہم نے اپنے کندھو ں سے لٹکتے ’’بے حیثیت‘‘ بیگوں کی طرف اشارہ کیا۔ ’’کمال ہے کچھ تو لے آتے، خرچہ ہی نکل آتا۔‘‘ چھلے کچھ دنوں سے ہم ٹریول ایجنٹ کے دفتر کے کئی چکر کاٹ چکے تھے۔ وہاں ایسے آزمودہ کار مہربانوں سے سابقہ پڑا تھا جنہوں نے ہمیں یہ راہ سجھائی تھی مگر ہم ایسے کورچشموں اس راہ پر سوائے تاریکی کے کچھ سجھائی نہ دیا۔ ایسا نہیں کہ ہم درویش خدامست تھے اور ہمیں مال و منالِ دنیوی سے کوئی غرض نہ تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم نے ایک دو بار سوچا بھی کہ آخر کیا مضائقہ ہے۔ اگر سفر کے اخراجات ہی پورے ہو جائیں تو بھی گھاٹے کا سودا نہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ ہم جیسے سبک سارانِ ساحل نے کہ جن سے زندگی کا بوجھ ہی اٹھائے نہیں اٹھتا، اس زائد بوجھ کو اٹھانا آدابِ سفر کے منافی جانا اور اس بھاری پتھر کو چومے بغیر ہی چھوڑ دیا۔

ص ۱۳: آپ جانتے ہیں کہ اندر کی چیزیں باہر نکلنے کا عمل ایک ناخوشگوار عمل ہے جو بسا اوقات خفت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ انسان کے اندر کتنی ہی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جنہیں وہ دوسروں کی نظر سے بچا کر رکھنا چاہتا ہے۔

ص ۲۴..۲۵: (تاشقند کے ہوائی اڈے پر) بیگ کھول کر سامان کی تلاشی لی جا چکی تو حکم ہوا ’’شو کرنسی!‘‘ یعنی جو کچھ جیب میں ہے چپ چاپ باہر نکال دو۔ کیا غیر شریفانہ طرزِ عمل ہے کہ اچھے خاصے شریف آدمی کو بیچ بازار رسوا کر دیا جائے۔ اس کے ہاتھوں میں پستول نہ تھا مگر اس کی آنکھوں میں شک کا باردو بھرا تھا۔ ہم نے عافیت اسی میں جانی کہ اس باردو کے پھٹنے کا انتظار نہ کیا جائے اور اپنے اثاثوں کا بلاتاخیر اعلان کر دیا جائے۔ اچھا ہے کامریڈ حقیقت جاننے کے بعد اپنے مطالبے پر خود ہی شرمندہ ہوں گے۔ ہم نے ڈرتے جھجکتے اپنی جیبیؓ خالی کیں اور ساری پونجی اس کے ڈیسک پر ڈھیر کردی:
لو، ہم نے دامن جھاڑ دیا .... لو جام الٹائے دیتے ہیں
’’اونلی دِس؟ بس یہی کچھ ہے؟‘‘
’’کامریڈ بھائی! ہم نے کہا نہ تھا اصل میں ہم تم سے بڑے پرولتاری ہیں۔ تم ہی ہمیں خواہ مخواہ بورژوا قرار دینے پر مُصِر تھے، اَب بھگتو!‘‘

ص ۲۵: یہ وہ مخلوق تھی جسے عرفِ عام میں گائیڈ کہا جاتا ہے اور جس کے بارے میں ہمیں نوید سنائی گئی تھی کہ چاہیں تو مرد کو چن لیں اور چاہیں تو عورت کو۔ بہت سارے لوگوں نے ہمارے سامنے یہاں کی خوبصورتی اور خصوصاً نسوانی حسن کے خوب خوب چرچے کئے تھے: ’’بڑی خوبصورت جگہ ہے جی! کوہ قاف کا نام تو سنا ہو گا۔ بس سمجھ لیں پریاں ہیں پریاں‘‘۔ مگر ان میں صنفِ نازک کا تناسب بہت کم تھا۔ اور ایک دو کو چھوڑ کر باقی سب گائید ’’صنفِ کرخت‘‘ سے تعلق رکھتے تھے اور سارے کے سارے شاہِ جنّات کے شاگرد نظر آتے تھے۔

پوری کتاب ایسی عبارتوں سے مزین ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر جملہ کہ کیا کہیں، سوائے اس کے کہ ’اوچن خراشو‘۔خاور صاحب کا اندازِ بیان، شگفتگی اور جا بجا اشعار کا بر محل استعمال قاری کو اکتانے نہیں دیتا۔ زبان میں ثقالت نام کو نہیں۔ چند حوالے ملاحظہ ہوں، فارغ وقت میں بیٹھ کر پڑھئے گا اور مزہ لیجئے گا۔

ص۲۳: تاشقند کا ایئر پورٹ قطعاً غیر مؤثر تھا۔ جہاز سے اترے ہی پرانے ماڈل کی ’’پرولتاری‘‘ بسیں مسافروں کو لے کر بغلی راستوں سے ہوتی ہوئی ایک بڑی عمارت کے پچھواڑے ایک برآمدہ نما راہداری کے سامنے آن رکیں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سابق کامریڈ پہلے تاثر کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا اپنے پاکستانی مہمانوں کے بورژوا جذبات کا ادراک کرنے سے عاری، کہ انہوں نے ہمیں ہوائی اڈے کی عمارت کے سامنے کے منظر سے محروم رکھا تھا (بعد میں معلوم ہوا کہ عمارت کی تزئین و آرائش ہو رہی تھی)۔ بسوں سے اترنے پر ایک ہڑبونگ کی کیفیت نظر آئی۔ اس طویل برآمدے کے آخری سرے پر امیگریشن کا کاؤنٹر تھا اور ہر مسافر اس مرحلے سے جلد سے جلد گزر جانا چاہتا تھا۔ مسافروں کی تعداد کچھ ایسی زیادہ بھی نہ تھی مگر نہ جانے یہ بے صبری ہمارے لاشعور کا حصہ کیوں بن چکی ہے۔ انسان اپنے ماحول اور مزاج کا کس قدر اسیر ہوتا ہے کہ اجنبی ماحول میں بھی کسی بھی پیش آمدہ صورتِ حال میں اس کے در عمل کا تعین اس کی عادت ہی کرتی ہے اور وہ ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جو بسا اوقات جگ ہنسائی کا موجب بنتی ہے۔

ص ۵۵..۵۶: پانی پیا تو خدا کا شکر ادا کیا۔ کہ پانی بہرحال ایک بہت بڑی نعمت ہے اور ازبکستان میں تو پینے کا پانی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ آپ سڑکوں پر سڑکیں ناپتے چلے جائیں، پینے کا پانی کھلے عام دستیاب نہیں ہو گا۔ شاید کچھ لوگ چھپ چھپا کر پیتے ہوں۔ ہمیں اکثر گھاس کو سیراب کرنے والے نلکوں سے منہ لگا کر پانی پینا پڑا۔ یوں نہیں ہے کہ اس ملک میں پانی کم یاب ہے یا اس کے حصول کے لئے پیسے دینے پڑتے ہیں مگر شاید یہ لوگ سادہ پانی پینے کو بدذوقی کی علامت سمجھتے ہیں۔ اسی لئے پانی کا پوچھو تو واڈکا حاضر مگر کیا کیا جائے کہ ہمیں پانی ہی سے نشہ ہوتا ہے۔ تاشقند میں ایک روز پیاس محسوس ہوئی تو ایک راہ گیر سے پوچھا۔ وہ سوچ سوچ کر ہمیں ایک چبوترے پر بنی ہوئی کچھ اس طرح کی حوضیوں کے پاس لے گیا جس طرح ہمارے ہاں گھوڑوں کے لئے پانی پینے کی جگہ بنی ہوتی ہے۔ اوپر ایک لمبے نل کے ساتھ دو تیں ٹونٹیاں لگی تھیں جن کے منہ اوپر کی جانب تھے اور ان سے فواروں کی صورت میں پانی نکل رہا تھا۔ 

بچپن میں جب کبھی تانگے کی سواری کے دوران ایسا مرحلہ آتا کوچوان کسی ایسی حوضی کے پاس گھوڑے کی باگیں کھینچتا اور اسے چمکار کر پانی پنے کی ترغیب دیتا تو گھوڑا اپنی لمبی سی گردن جھکا کر حوضی کے اندر ڈال دیتا۔ ایسے موقعوں پر مجھے ہمیشہ یہی دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں گھوڑے کی گردن تھوڑی اور نہ جھک جائے اور تانگے کا توازن خراب ہونے کے باعث کہیں ہم سب دھڑم کر کے نیچے نہ گر جائیں۔ ویسے یہ ’’دھڑم کر کے‘‘ نیچے گرنے کا خوف بچپن ہی میں نہیں، بڑے ہونے پر بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور اس کی نفسیات پر آسیب کی طرح سوار رہتا ہے۔ اس کی ساری تگ و دو اس افتادگی سے بچنے کی خواہش کا اظہار ہی تو ہے۔

اور اب کہ ہم بچپن کی سرحدوں کو بہت پچھے چھوڑ آئے تھے، زندگی کے تانگے میں جتے ہوئے دن رات سڑکوں پر دڑکی چال چلتے چلتے ہم تھک گئے تھے۔ بوجھ کھینچ کھینچ کر ہاپنپنے لگے تھے۔ ہماری کمر پر چابک کے نشان تھے اور جسم پسینے میں شرابور۔ پیاس کی شدت سے ہماری زبانیں باہر کو نکل آئی تھیں۔ حوضی سامنے تھی، ہم نے اپنی گردنیں جھکائیں اور اس کے اندر ڈال دیں۔

ص ۷۶..۷۷: ہماری بس وقفے وقفے سے رکتی۔ بعض سواریاں اترتیں، کچھ نئے مسافر چڑھ آتے مگر یہ کوئی باقاعدہ سٹاپ نہ تھے۔ جہاں کہیں کوئی دیاتی ہاتھ میں سامان کا تھیلا اٹھائے سڑک کے کنارے کھڑا بس کو رکنے کا اشارہ دیتا، بس ایک بے بس معمول کی طرح وہیں رک جاتی اور اسے لے کر پھر سے چل پڑتی۔ ایک بار بھی ایسا نہ ہوا کہ راستے میں کھڑے کسی مسافر کے لئے یا بس میں پہلے سے موجود اترنے کے خواہش مند کسی مسافر کے لئے بس نہ رکی ہو یا ڈرائیور اور کنڈیکٹر نے پہلو تہی کی کوشش کی ہو۔ یہ الگ بات کہ اس عمل میں ایک لمحے ساے زائد کی تاخیر روا نہ رکھی گئی۔ شاید آپ اس سے اتفاق نہ کریں کیونکہ راستے کی سواری اٹھانا لوکل بسوں کا کام ہوتا ہے۔ مگر یقین کیجئے مجھے اس میں محض مسافروں کی سہولت اور تکریم کی خواہش ہی کارفرما نظر آئی۔ ایا نہیں ہوا کہ راستے میں خواہ مخواہ کسی سٹاپ پر دیر تک رک کر، بار بار پریشر ہارن بجا کر اور گھنٹوں بس کو ایک فٹ آگے اور دو فٹ پیچھے دھکیلنے کی مشق کر کے، اور اندر بیٹھے مسافروں کو انتظار کے پسینے میں نہلا کر اور ان کی گالیاں اور بددعائیں سمیٹ کر بس کا پیٹ بھرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ یہ نہیں کہ سٹاپ پر کھڑی سواریوں کی راہ میں آنکھیں بچھائی جائیں اور پہلے سے اندر بیٹھے مسافر بے تکریم ٹھہریں۔ اور یقیناً ایسا بھی نہیں ہوا یہ صرف دور کی سواری کے لئے بس روکی جائے اور قریب جانے والی کم پیسوں کی سواری کے پاس سے اس تیزرفتاری سے گزرا جائے کہ اس کے چہرے پر انتظار کے کرب کے ساتھ ساتھ مایوسی کی گرد پھیل جائے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ شاید وہاں ایسا نہیں ہوتا۔

ص ۱۱۹: شہر سے باہر ایک پہاڑی پر مرزا الغ بیگ کی قدیم رصد گاہ اور میوزیم واقع ہے۔ ہم وہاں پہنچے تو ٹکٹ دینے والے بابو نے ہمارے ہاتھ میں کیمرہ دیکھ کر کہا: ’’فوٹو کھینچنے کے تین سو روبل زیادہ ہیں‘‘۔
’’ٹھیک ہے ہم فوٹو نہیں کھینچیں گے‘‘ سلمان نے کہا اور ہم کیمرہ کندھے پر لٹکائے آگے بڑھ گئے۔ ٹکٹ بابو اطمینان سے دوسرے سیاحوں کو ٹکٹ دینے میں مشغول ہو گیا۔ اگر ہم میں سے کوئی اس کی جگہ ہوتا تو کہتا کہ پہلے کیمرہ اتار کر یہاں رکھو پھر آگے جاؤ گے۔ مگر وہ ایک خوش قسمت قوم سے تعلق رکھتا تھا جس نے دوسروں پر اعتماد کرنا سیکھ لیا تھا۔ ہم البتہ اس معاملے میں کم نصیب واقع ہوئے تھے کہ نہ ہم نے اعتماد کرنا سیکھا تھا نہ اعتماد نبھانا۔ اسی لئے خود اعتمادی سے بھی کوسوں دور تھے۔
چنانچہ جونہی ہم اس کی نظروں سے اوجھل ہوئے ہم نے کیمرہ نکالا اور بغیر کسی شرمندگی یا احساسِ جرم کے اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔

ص ۱۶۰: ریلوے سٹیشن کی عمارت بلند اور کشادہ تھی ہم سامان لے کر انتظار گاہ میں داخل ہوئے تو ہال خالی خالی سا نظر آیا۔ ابھی بہت کم مسافر پہنچے تھے۔ ٹکٹ والی کھڑکی بھی بند تھی۔ ہم نے پلیٹ فارم پر جانے والے راستے کے قریب ایک کونے میں اپنا سامان رکھا اور خالی نشستوں پر براجمان ہو گئے۔ اندر جانے والا راستہ ویران پڑا تھا۔ کسی آوارہ انجن کی شنٹنگ اور خالی ڈبوں کے ٹکرانے کی آواز فضا میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ ہال کے اندر ایک ’’مائی‘‘ فرش پر پوچا مار رہی تھی۔ ڈیوٹی پر موجود سپاہی اس کی صاف کی ہوئی جگہ کو اپنے گرد آلود بوٹوں سمیت کراس کرنے لگا تو مائی نے ’’وے!‘‘ کا نعرہ لگایا اور پنچے جھاڑ کر یوں اس کے پیچھے پڑی کہ اس غریب کے لئے جان چھڑانا مشکل ہو گیا۔

ص ۱۸۳: میں اب البم کے آخری صفحے پر تھا وہ سنہری البم جسے محض چند روز قبل میں نے شوق کے کپکپاتے ہاتھوں سے کھولا تھا اور کھولنے کے 
ساتھ ہی اس کی رنگین طلسماتی دنیا مٰں کھو گیا تھا۔ اور جس کی شوخ تصویریں یوں ورق الٹ الٹ کر میرے سامنے آ رہی تھیں کہ میں نے حیرت کے مارے سانس روک رکھی تھی۔ آج میں اس کے آخری صفحے پر آ پہنچا تھا۔ قدیم کاروانی راستوں پر گرد اڑاتا، سمرقند اور بخارا سے ہوتا ہوا ہمارا مختصر قافلہ اب اس ہرے بھرے راستے کے آخر میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا۔ ہریالیوں کے اس سفر کے اختتام پر میں نے ایک لحظے کے لئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو لاتعداد منظر میری آنکھوں کے سامنے جھلملانے لگے۔ سنہری لمحوں کے بے شمار پرندے اڑتے ہوئے میرے سامنے سے گزرنے لگے۔ پہلے ایک پھر دوسرا پھر تیسرا۔۔۔

راہ چلتا مسافر جو آنکھیں کھلی رکھے، ارد گرد کی آوازوں پر دھیان دیتا ہوا جا رہا ہے، اُس کا احساس جاگتا ہے اور سوال اٹھاتا جاتا ہے۔ ایسے سوال جن کا جواب فوراً نہیں مل پاتا۔ ایسا ہی ہے یہ سفر خاور صاحب کا جو بیک وقت بدنی بھی ہے، فکری بھی اور تجزیاتی بھی۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ جس طرح فاضل مسافر نے ہلکے پھلکے اور مختصر سامان کے ساتھ سفر کیا ہے، اس کا قاری بھی اسی طرح ہلکا پھلکا گزر جاتا ہے، لطف لیتا ہوا۔ یہ کتاب عثمان خاور کے روپ میں ہماری ملاقات ایک ایسے پاکستان سے کراتی ہے جو سر بسر پاکستانی ہے، جسے ہر جگہ وطنِ عزیز کی عزت اور ناموس کا خیال رہتا ہے اور مادرِ وطن کے حوالے سے فخر کا ایک احساس بھی۔ وہ کہیں بھی معذرت خواہانہ رویہ نہیں اپناتا اور نہ کہیں پاکستانی ہونے پر شرمندہ ہوتا ہے۔ اگر کہیں ایسی صورتِ حال کا سامنا ہوا ہے جہاں اُسے اپنی صفائی پیش کرنا پڑی تو صرف وہاں جہاں اس سے پہلے کوئی معذرت خواہ قسم کا پاکستانی اپنا کام دکھا گیا ہو۔ ہمارے فاضل مسافر کا مخاطب عبدالحامد ہو یا شورُخ، آقائے محمود جان ہو یا صدیقی صاحب، نوئلہ کاری جانووا ہو یا لیلیٰ، وہ مسجد خواجہ عبد دارون میں ہو یا مقبرۂ خواجہ اسماعیل بخاری میں، بازار میں ہو، ریل میں، ہوٹل میں یا کسی سیر گاہ میں، ہر جگہ پاکستانی رہتا ہے، اوریجنل پاکستانی اور اوریجنل ٹورسٹ۔ بہت سے سفرنامہ نگار جب اپنا احوال سفر بیان کرتے ہیں تو نہ جانے کیوں کہیں یہ تاثر نہیں دے پاتے کہ انہوں نے خود کو برملا ’مسلمان‘ کہا ہو، ماسوائے کسی مجبوری یا حلال و حرام کے معاملے میں۔ دوسری طرف عثمان خاور نے ’السلام علیکم‘ کو، جو ایک دعا بھی ہے، اپنی آمد کا اعلان بھی اور یہ منادی بھی کہ آنے والا مسلمان ہے، ’’اسلامی ہتھیار‘‘ کا نام دیا ہے اور ہر مشکل وقت میں اس کو ’ماسٹر کی‘ بھی بنایا ہے۔ اس تناظر میں انہوں نے ایک عمر رسیدہ خاتون کو باہتمام پردہ کرتے دیکھا تو اسلامی اقدار کی یہ پاسداری انہیں اتنی اچھی لگی کہ اپنے سفر نامے میں اُس کی اہمیت بھی اجاگر کر دی۔ عام آدمی ایسے واقعات کہاں یاد رکھتا ہے۔

عثمان خاور سے چند ایک رسمی سی ملاقاتوں کی وجہ سے کچھ ایسا ہوا کہ جب اس سفرنامے میں انشا پردازی کے ساتھ خالص مزاح کا عنصر موجود پایا تو بڑی خوشگوار حیرت ہوئی۔ ’’مائی نیم از شوگر‘‘ اور ’’ٹومارو، ٹومارو‘‘ عقل مند را اشارہ کافی است۔ اس کتاب میں خالص مزاح بھی اپنے عمدہ معیار کے ساتھ ملتا ہے اگرچہ بہت زیادہ نہیں ہے۔

یہ کتاب دورِ حاضر کے دیگر سفرناموں سے ایک اور لحاظ سے بھی منفرد ہے۔ فاضل مصنف نے ہوائی جہاز، ریل، بس، ٹرام سبھی ذرائع سفر سے استفادہ کیا، بڑی بڑی عمارات، تاریخی مقامات، مساجد، ہوٹل، شاہراہیں، تفریح گاہیں دیکھیں۔ سب کچھ جیسے دوسرے دیکھتے ہیں مگر یہاں منفرد شے فاضل مصنف کی نظر ہے جو اِس پورے پیش منظر کے ساتھ اُس کے پس منظر اور درونِ ذات کو بھی دیکھتی ہے۔ ’لوگ کیا پہنتے ہیں‘ کے ساتھ ساتھ ’ لوگ کیا سوچتے ہیں، اور کیوں سوچتے ہیں‘ بھی خاور صاحب کے پیش نظر رہا ہے۔ اسی وجہ سے یہ سفرنامہ انسانوں کی ذات نسلوں اور قوموں کا سفر نامہ بن گیا ہے۔ کتنے ایسے مناظر ہیں جن کو عثمان خاور کے قلم نے جاندار بنا ڈالا اور قاری کے احساس کو ایک طرح کی سانجھ کی قوت سے جگایا ہے۔ مثلاً لیلیٰ کا المیہ اور نوئلہ کی مجبوریاں وہ یوں محسوس کرتے ہیں جیسے اپنے معاشرے اور اپنے گھر کا مسئلہ ہو۔ شاید اسی وجہ سے یہاں حساس قاری کی آنکھوں میں نمی اتر آتی ہے۔

روس ٹوٹ گیا، ایک جبری وحدت بکھری تو کئی وحدتیں اجاگر ہوئیں۔ روسی تہذیب کتنا عرصہ مسلط رہی؟ اس کے اثرات کب تک رہیں گے اور مٹتے مٹتے کتنا عرصہ لیں گے؟ یہ سوالات اور اُن سے آگے سوال در سوال کہ اِن نو تعمیر شدہ ریاستوں کے حوالے سے مسلم دنیا پر کیا فرض عائد ہوتا ہے؟ بحیرہ قزوین سے بحیرہ عرب تک کی معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تہذیبی تصویر میں یہ ریاستیں کیا رنگ بھرتی ہیں؟ عظمتِ رفتہ اور اسلامی اقدار کی بازیافت کا عمل کب اور کس نہج پر چلنے کی توقع ہے؟ اللہ کے بنائے ہوئے نظام کے سامنے آدمی کا وضع کردہ نظام فیل ہو جانے اور اپنے منطقی انجام کو پہنچ جانے کے بعد بر اعظم ایشیا کے قلب سے احیائے علوم کا عمل کب اور کیسے شروع ہوتا ہے؟ یہ ہیں وہ سوالات جو اِس سفرنامے کو پڑھ کر میرے ذہن میں ابھرے ہیں۔ مگر فی الوقت میرے پاس کوئی اور جواب نہیں سوائے اس کے کہ میں آنے والے وقتوں کو دیکھا کروں۔ لہٰذا میں نے جو سمجھا، بے کم و کاست بیان کر دیا۔ جہاں تک میری سوچوں نے میرا ساتھ دیا میں عثمان خاور کے ساتھ چلا اور جو میری چشمِ شعور نے مجھے دکھایا میں نے دیکھا۔ اس تناظر میں اگر میں اس کتاب کے تعارف کا حق ادا نہ کر سکوں تو یہ قصور کتاب کا نہیں میرا ہے۔

آخری بات، کہ عثمان خاور نے نہ خود کو راجہ اِندر بنا کر پیش کیا ہے اور نہ کتاب کو اپنا یا سلمان باسط کا اشتہار بننے دیا ہے۔ صدیقی صاحب کا کردار بہت اہم سہی مگر خود یہ دونوں بھائی تو مرکز میں کھڑے ہیں۔ ہمارا فاضل مسافر اپنے چاروں طرف پھیلی ٹیکسی ڈرائیوروں، گائیڈوں، ہوٹلوں کے چھوٹوں، ریلوے سٹیشن کی مائیوں، کلبوں کی ماماؤں جیسے لوگوں کی بھیڑ میں اپنے ساتھ ایک ایک کو شناخت دے کر، ساتھ لے کر چلتا ہے، اپنے قاری سمیت ۔

یوں یہ سفرنامہ ایک دو افراد کا نہیں ایک بھرے پُرے کارواں کا سفرنامہ بن جاتا ہے جس میں عثمان خاور خیرالقرون کے امرائے سفر کی طرح نمایاں بھی ہے اور ہم سفروں میں گم بھی ۔ عثمان خاور، میں اور شورخ .... اوچن خراشو!



محمد یعقوب آسی ۔۔ ۸؍ جولائی ۱۹۹۶ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں