منگل، 27 اکتوبر، 2015

خواب گھروندے ۔ آنسو آگ بجھانے نکلے




خواب گھروندے
نوجوان شاعر نوشیروان عادلؔ کے پہلے شعری مجموعے ’’آنسو آگ بجھانے نکلے‘‘
کا فکری مطالعہ



خواب زندگی کی علامت ہے۔ نیند اور موت میں امتیاز ہوتا ہی خواب سے ہے۔ انسان اور بہائم میں اور بہت سے امتیازات کے ساتھ ایک امتیاز خواب ہے۔ کہتے ہیں کہ بہائم خواب نہیں دیکھتے، اگر دیکھتے بھی ہوں تو اُس کی تفہیم اور تعبیر سے یقیناً معذور ہیں۔ انسان سوتے میں بھی خواب دیکھتا ہے اور جاگتے میں بھی۔ اچھے خواب، برے خواب، خوش کن خواب، ڈراؤنے خواب، یاد رہ جانے والے خواب اور بھول جانے والے خواب۔ اور پھر اُن کی تعبیر کے بارے میں سوچتا ہے تو کبھی خوش ہوتا ہے کبھی مغموم، کبھی فرحاں ہوتا ہے کبھی خائف، کبھی نازاں ہوتا ہے کبھی شرمندہ۔ خواب بھی تو سارے شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتے۔ بہ ایں ہمہ، انسان اپنے ارادوں کا تانا بانا بُنتا ہے، اور ان کو پورا ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔ اپنے پیاروں کے متعلق سوچتا ہے۔ اپنی خواہشوں، تمناؤں اور آرزوؤں کے گھروندے اور محل تعمیر کرتا ہے۔ مستقبل کے لئے منصوبے بناتا ہے قابلِ عمل بھی اور ناقابلِ عمل بھی۔ یہی تو انسان کا خاصہ ہے۔

ایک انسان ہوتے ہوئے، نوشیروان عادلؔ بھی خواب بنتا ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ اس کے سارے خواب ذاتی نہیں، بہت سے خواب غیرذاتی ہیں۔ وہ خواب بنتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے۔ اور اُن کی تعبیر بھی چاہتا ہے۔ اور جب اُس کے خواب ٹوٹتے ہیں تو وہ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے اور برملا کہہ اٹھتا ہے:
دھیرے دھیرے ٹوٹ گئے ہیں
ہم اندر سے ٹوٹ گئے ہیں

کیا معلوم جہاں والوں کو
خواب کسی کے ٹوٹ گئے ہیں

ٹوٹ گیا ہے سب کچھ عادلؔ
خواب گھروندے ٹوٹ گئے ہیں

اور پھر اس کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ اس سے ایسے ہی خوبصورت اور دل موہ لینے والے شعر کہلواتی ہے۔ اس کے خواب اس کا سرمایۂ حیات بھی ہیں اور سرمایۂ سفر بھی۔ اس کے خواب اسے خوف زدہ بھی کرتے ہیں اور فکرمند بھی:
چلتا ہوں تو پاؤں کو پکڑ لیتی ہے دھرتی
کوئی مجھے اس خواب کی تعبیر بتائے

فکر مندی اور خوف کی یہ کیفیت ایک مسلسل شب بیداری پر منتج ہوتی ہے اور ایسے میں دل کے قریب بسنے والے کسی راحتِ جاں کا خیال اسے اور بھی بے چین کر دیتا ہے۔ جب خواب ٹوٹتے ہیں تو نیندیں روٹھ جایا کرتی ہیں:
یہ رت جگوں کا عذاب کب تک سہوں گا عادلؔ
مجھے گلے سے کوئی لگائے تو نیند آئے

وہ مرا چین لے گیا تو کیا
چین سے وہ بھی سو نہیں سکتا

وہ تجھے بھول بھی چکے عادلؔ
اور تو بے قرار ہے اب تک

عادلؔ ہم سا پاگل کوئی کیا ہو گا
پتھر دل سے آس لگائے پھرتے ہیں

اپنے دل آرام کی یادیں اور اس سے وابستہ ناآسودہ امیدیں اسے مزید بے چین کر دیتی ہیں تو وہ اپنی اس کیفیت کا اظہار یوں کرتا ہے:
تھکا ہوا ہے وجود سارا، یہ مانتا ہوں
مگر خیالوں سے کوئی جائے تو نیند آئے

خوابوں کی دنیا سے باہر ایک جیتی جاگتی دنیا ہے۔ انسان یہاں نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے جاتا ہے۔ اس جہانِ فانی میں رنج و الم بھی ہیں اور فرحت و انبساط بھی۔ جہاں اس دنیا کی رنگینیاں انسان کو خود سے اور خدا سے بے گانہ کر دیتی ہیں، وہیں اس کی سختیاں بڑے بڑوں کا پتہ پانی کر دیتی ہیں۔ یہاں زندگی کرنا کوئی بازیچۂ اطفال نہیں ہے۔ یہاں رہنا ہے تو خود کو منواناہو گا:
اپنے ہونے کا یقیں ہم کو دلانا ہوگا
ورنہ پیروں تلے یہ دنیا کچل جائے گی

کہا جاتا ہے کہ اللہ معاف کر دیتا ہے دنیا معاف نہیں کرتی۔ جہاں یہ مظہر مکافاتِ عمل کاایک حصہ ہے، وہیں دنیا کی بے رحمی اور چیرہ نگاہی کا ایک ثبوت بھی ہے، خاص طور پر کمزوروں کو تو یہ دنیا کبھی معاف نہیں کرتی اور انہیں جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات کی صورت میں بھگتنی پڑتی ہے:
دنیا پہ مرے گھر کے کئی راز کھلے تھے
جس وقت مرے صحن کی دیوار گری تھی

سبطِ علی صباؔ اور علی مطہر اشعرؔ کے حوالوں سے قطعی طور پر ہٹ کر یہاں شاعر نے بیک وقت کئی سوال اٹھا دئے ہیں۔ اس کی شاعری میں اس کی طلبِ ادراک جا بجا نظر آتی ہے۔ وہ بہت کچھ جاننا چاہتا ہے اور اسے اس امر کا بخوبی احساس ہے کہ اس کے سوالوں کا جواب ہر کس و ناکس کے پاس نہیں۔ وہ کسی اہلِ نظر کا متلاشی ہے : 
دھند پھیلی ہے چار سو عادلؔ
مجھ کو رستہ نظر نہیں آتا

کو بہ کو اک صدا دے رہا ہوں
کیا یہاں کوئی اہل نظر ہے؟

اندھیرا چھا گیا ہے راستے میں
مجھے پہنچاؤ کوئی آشیاں تک

خواب، استدراک، ادراک، نظر، تخیل اور وجدان کی اس دھماچوکڑی میں وہ کئی مشاہدے کرتا ہے۔ آنکھوں میں خواب گھروندے ہی نہیں بھرے پُرے شہر بساتا ہے اور جب اُن کے تاراج ہونے کا تماشا کرتا ہے تو اس کی آنکھیں کبھی بادل بن جاتی ہیں تو کبھی دریا اور کبھی سمندر۔ اس حوالے سے اس کے چیدہ چیدہ اشعار ملاحظہ ہوں:
زندگی پوچھنے لگی مجھ سے
چاہتا کیا ہے آدمی مجھ سے

یہ زندگی کا سفر بھی عجیب ہے عادلؔ
قدم قدم پہ نیا راستہ دکھائی دے

میری آنکھوں سے گوہر نکلتے رہے
میرے اندر سمندر اچھلتا رہا

آیا اک سیلاب تو سب کچھ ڈوب گیا
آنکھوں میں اک شہر بسایا تھا میں نے

کوئی قیمت مرے اشکوں کی نہیں تھی عادلؔ
یوں ہی برسائے تھے صحراؤں پہ بادل میں نے

سمندر کو ترے اشکوں سے کیا لینا
یونہی تنہا سرِ ساحل نہ رویا کر

دنیا مجھ کو دیکھ کے روتی رہتی ہے
میں دنیا کو دیکھ کے ہنستا رہتا ہوں

روز مرتا ہے کوئی روز اجڑتا ہے کوئی
روز اخبار میں اک تازہ خبر دیکھتا ہوں

پہچان اپنے آپ کی دشوار ہو گئی
روندا گیا ہے پاؤں تلے اس قدر مجھے

رونے اور ہنسنے کے اس عمل سے نوشیروان عادلؔ نے بہت کچھ سیکھا ہے اور جو سیکھا ہے اس کا برملا اظہارکیا ہے۔وہ دیکھتا ہے کہ مختصر سی اس زندگی میں نرے دکھ ہی دکھ نہیں رنگینیاں بھی ہیں اور اپنی تمام تر نامہربانیوں کے باوجود یہ زندگی اسے بھلی لگتی ہے:
زیست نے کیا نہیں کیا مجھ سے
مجھ کو لگتی ہے یہ بھلی پھر بھی

سیکھنے کے عمل میں وہ سب سے پہلے اپنی ذات کا ادراک حاصل کرتا ہے اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں سمیت۔ وہ خود کہتا ہے: 
خود کو جتنا بھی معتبر سمجھوں
پھر بھی اپنی خطا نظر آئے

نہیں تھی کیا اسے خبر کہ ہم نہیں تو کچھ نہیں
امیرِ شہر آج ہم گداؤں سے الجھ پڑا

ہاتھ میرا نہ تھاما کسی شخص نے
میں پھسلتا رہا، خود سنبھلتا رہا

وہ اپنی جد و جہد سے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ:
جب کوئی آسرا نہیں ملتا
آدمی خود بہ خود سنبھلتا ہے

اسے غفلتوں میں نہ کر بسر ذرا غور کر
ہے یہ زندگی بڑی مختصر ذرا غور کر

نوشیروان عادلؔ کا یہ مثبت اور پر عزم رویہ اسے اعتماد اور یقین سے مالامال کر دیتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ چاہت انسان کے خمیر میں شامل ہے اور وہ مستقل طور پر نفرت پسند نہیں ہو سکتا۔ تاہم ہمیں خود نگری سے کام لینا ہوگا، اور اپنے جوہر کی حفاظت کرنی ہوگی، چاہے اس میں ایک نہیں ہزار جان سے فدا ہوناپڑے:
چاہتوں کی زمین میں کوئی
بیج نفرت کے بو نہیں سکتا

اپنے ہونے کا یقیں ہم کو دلانا ہو گا
ورنہ پیروں تلے یہ دنیا کچل جائے گی

دیکھ، مانگے ہوئے پھولوں سے کہیں بہتر ہے
اپنے اجڑے ہوئے گلشن کو بسایا جائے

مرے لہو سے فروزاں ہے زندگی تیری
مرے بغیر ترا دیپ جل نہیں سکتا

میں دنیا کو راس نہ آیا
دنیا مجھ کو راس نہ آئی
دنیا کی اس قید سے عادلؔ
سب نے مر کر جان چھڑائی

ہزار جان سے جانا قبول ہے عادلؔ
میں اپنا فیصلہ لیکن بدل نہیں سکتا

تمام فیصلے منظور کر لئے اس کے
انا کی بات پہ لیکن اڑا ہوا ہوں میں

تلخ و شیریں کے اس تسلسل اور تواتر کے نتیجے میں اُس کے ہاں ایک قلندرانہ انداز ابھرتا ہے کہ:
زندگی جس طرح کی ہو عادلؔ
زندگی ہے تو زندگی پھر بھی

اسے اپنی جد و جہد پر اعتماد بھی ہے اور وہ اس پر مطمئن بھی ہے کہ:
کٹے ہوئے ہیں مرے آج بال و پر لیکن
میں جب اڑوں گا، زمانہ اڑان دیکھے گا

ہمارے بعد رہِ غم پہ جب چلے گا کوئی
ہمارے پیروں کے عادلؔ نشان دیکھے گا

تعلقِ خاطر اردو شاعری میں ایک مضبوط روایت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہجر و وصال کی کیفیات، لب و عارض کی نقشہ گری، گل و بلبل کا مکالمہ، تصویرِ حسن، تفسیرِ عشق، بے اعتنائی اور ستم گری کی شکایت وغیرہ کے موضوعات ہر زمانے کے شعراء میں مقبول رہے ہیں۔ نوشیروان عادلؔ کی شاعری میں بھی اس روایت سے مضبوط رشتہ دکھائی دیتا ہے۔ تاہم اس کا اندازِ احساس اور اندازِ اظہارکسی قدر مختلف ہے۔ اس کے ہاں روایتی ملائمت کے ساتھ ساتھ عہدِ حاضر کی تلخ نوائی کا عنصر صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ملاحظہ ہو:
رخ سے پردہ نہ اٹھا، رہنے دے
دل میں کچھ خوفِ خدا رہنے دے

میری تربت کے لئے پھول نہ توڑ
اِن کو شاخوں پہ کھلا رہنے دے

میں اکیلا نہیں تھا شبِ ہجر میں
اک دیا بھی مرے ساتھ جلتا رہا

یا پھر تیرا نام زباں پر ہوتا ہے
یا پھر اپنی غزلیں گاتا رہتا ہوں

اس کا لہجہ، ہو سکتا ہے، بعض نقادوں کے ہاں اس نازک موضوع کا متحمل قرار نہ پائے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جذبِ دروں اور غمِ جاناں کے اظہار نے بدلتے وقت کے ساتھ کئی نئے نئے لہجے قبول کئے ہیں۔ صداؤں کی رنگا رنگی میں نوشروان عادلؔ نے ارادی طور پر اپنے لب و لہجہ کو برقرار رکھا ہے۔اس حوالے سے اس کے چند اشعار نقل کئے جاتے ہیں:
خود اپنے رنگ میں ہی بات ڈھنگ سے ہو گی
کسی کا لہجہ کسی کی زباں تلاش نہ کر

تیری کتنی بڑی عنایت ہے
لطف میرے بیان میں رکھا

جس طرح چاہتا تھا میں عادلؔ
بات ویسی نہ بن سکی مجھ سے

زمین دیکھے گی اور آسمان دیکھے گا
مجھے عروج پہ اک دن جہان دیکھے گا

انسان بیک وقت کئی دنیاؤں میں رہ رہا ہوتا ہے۔ غمِ جاناں اور غمِ دوراں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔احساسات ایک شخص کے حوالے سے بھی سو طرح کے ہو سکتے ہیں۔ کبھی وصال کی لذت ہے تو کبھی ہجر کا غم، کبھی بے اعتنائی کا شکوہ ہے تو کبھی بے خبری کا، کبھی بیزاری کا اظہار کبھی بے بسی کا، کبھی خرداور جنون کی کشمکش ہے تو کبھی محرومیوں کا جان لیوا احساس، کبھی واہمے ہیں تو کبھی مایوسی۔ کبھی اپنی بات اس انداز میں کی جاتی ہے کہ وہ ہر شخص کو اپنی بات لگتی ہے اور کبھی دوسروں کی بات یوں کی جاتی ہے کہ وہ اپنی بن جاتی ہے۔ ملی جلی چند مثالیں:
اُس نے اک بار خود کو دیکھا تھا
آئینہ بے قرار ہے اب تک

ہنستے ہوئے چہرے پہ تھے کچھ اشک بھی عادلؔ
معلوم نہیں ہم کو، وہ غم تھا کہ خوشی تھی

جو شام ہوتے ہی تارا دکھائی دیتا ہے
کسی کے ہجر کا مارا دکھائی دیتا ہے

گلشن گلشن دھول اڑائی
پھر بھی خوشبو ہاتھ نہ آئی

بس اسی ڈر سے نہیں پیار کا اظہار کیا
دوسری سمت سے انکار بھی ہو سکتا ہے

میں جھوٹی محبت کو محبت نہیں کہتا
کوئی بھی مری لاش پہ آنسو نہ بہائے

خواہشوں کی قبروں پر
اب دیے جلاؤں گا

دل کی دنیا کے باہر ایک دنیااور ہے، حقائق اور حوادث کی دنیا۔ زندگی کے تمام جسمانی اور روحانی، جبلی اور فطری، فکری اور فنی لوازمات اسی دنیا سے وابستہ ہیں جس میں انسان کو زندہ رہنا ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں انسان کو دوسروں پر بھی انحصار کرنا ہوتا ہے اور خود پر بھی۔ راہِ حیات میں ہمیشہ گل فشانیاں نہیں ہوتیں، خار زار بھی اسی راہ میں آتے ہیں۔ یہ سفر دل کَش بھی ہے، اور دل کُش بھی، دل دوز بھی ہے اور دل آساء بھی۔ اچھائی اور برائی کی قوتیں اس کرہ ارض پر انسان کے ہبوط سے بھی پہلے کارفرما ہو گئی تھیں اور یہ معرکہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل ہی اس وجہ سے ہوا کہ اسے اچھائی اور برائی میں کسی ایک کا انتخاب کرنے کا اختیار دیا گیا۔ یہ اختیار دراصل ایسی بڑی ذمہ داری ہے جو کسی اور مخلوق پر اِس طرح نہیں ڈالی گئی جس طرح انسان پر۔ سو، زندگی کے اس سفر میں سنبھل سنبھل کر چلنا ناگزیر ہے۔ ایک ذرا پاؤں میں لغزش ہوئی، تو برائی کی قوتوں کو انسان پر غلبہ حاصل ہو گیا اور وہ انسانیت کے درجے سے گر کر قعر مذلت میں جا پڑا:
سنبھل سنبھل کر قدم اٹھانا پڑیں گے عادلؔ
قدم قدم پر یہ زندگی ڈگمگا رہی ہے

منتظر کھڑے ہیں وہ
کب میں ڈگمگاؤں گا

نوشیروان عادلؔ ایسے میں اپنی ذمہ داریوں سے بے خبر نہیں۔ اسی لئے تو وہ کہتا ہے کہ:
میرے ساتھ آ جاؤ
راستہ دکھاؤں گا

ادھر اُس کے مشاہدات اور واردات کچھ اور ہی نقشہ بنا رہے ہیں اور وہ کبھی دکھ کا شکار ہوتا ہے تو کبھی اندیشے اسے گھیر لیتے ہیں۔ عظیم انسانی اقدار میں روز افزوں تنزل اسے گرفتہ دل کر دیتا ہے۔ روز مرہ زندگی کے جو نقوش اس کے حساس ذہن پر مرتب ہوتے ہیں، ان سے وہ پریشان بھی ہوتا ہے اور ان پریشانیوں سے بنرد آزما ہونے کے لئے نئی نئی سوچیں بھی اس کے نہاں خانۂ فکر میں پرورش پانے لگتی ہیں۔ تخیلات کی اِس دھوپ چھاؤں کا حاصل اس کے کچھ ایسے اشعار ہیں:
توڑ کر لوگ پھینک دیتے ہیں
کون سمجھے ملال پھولوں کا

اتنا نہ محبت پہ یقین رکھ عادلؔ
دل گھروندا ترا مسمار بھی ہو سکتا ہے

جہاں تھا نفرتوں کا راج عادلؔ
میں کب کا اس جہاں کو چھوڑ آیا

نہ پھڑپھڑا اے مری جان، چھوڑ دوں گا تجھے
مرے بدن میں مقید ہے تو، قفس میں نہیں

کوئی بھی شخص اسے قید کر نہیں سکتا
مرے خیال کا سب سے جدا پرندہ ہے

دن گزرتے رہے، عمر ڈھلتی رہی
آئنہ رنگ اپنا بدلتا رہا

زندگی تجھ سے شکایت نہیں مجھ کو لیکن
درد ہی درد اٹھائے ہیں مسلسل میں نے

ہماری پیاس کی مقدار پوچھتا ہے وہ
اسی لئے تو ہتھیلی پہ لکھ دیا دریا

لوٹنے والا مجھے کون ہے معلوم نہیں
میں کسی شخص کو الزام نہیں دے سکتا

وہ عمل اور مکافاتِ عمل کا بڑی باریکی سے مشاہدہ کرتا ہے اور احتساب بھی۔ اپنی اور دوسروں کی کوتاہیاں اسے بے چین کر دیتی ہیں اور وہ بے یقینی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ یہ بے یقینی اور بے سمتی نوشیروان عادلؔ کی فکر میں نہیں بلکہ معاشرے میں پائی جاتی ہے جس کا نقشہ وہ کھینچ رہا ہے۔ موسم اور جغرافیہ اس کے ہاں ایک مضبوط علامت کے طور پر ابھرتا ہے۔ اس حوالے سے غبار، آندھی، دھوپ ، دھواں ، ریت اس کے ہاں ووسیع معانی رکھتے ہیں:
یہاں تو کچھ بھی دکھائی دیتا نہیں ہے عادلؔ
ہوا کے چہرے پہ گرد اتنی جمی ہوئی ہے

چل پڑتے ہیں کیوں دیوانے
صحراؤں میں پھول کھلانے

کٹتی جائے دل کی دھرتی
لازم ہیں کچھ پیڑ لگانے

اک مسلسل غبار ہے اب تک
آپ کا انتظار ہے اب تک

ریت ہمارے گھر تک پہنچی
یاد کیا ہم کو صحرا نے

یاد آ جاتے ہیں اک شخص کے آنسو عادلؔ
اس لئے مجھ سے سمندر نہیں دیکھا جاتا

آندھیاں منہ چھپا کے روتی ہیں
جب کوئی آشیاں نہیں رہتا

کڑکتی دھوپ تھی، سایہ قریب تھا، لیکن
مرے وجود پہ سب اختیار اس کا تھا

کیوں اسے توڑتے ہو اپنی ہوس کی خاطر
شاخ پر تم سے گل تر نہیں دیکھا جاتا

نوشیروان عادلؔ کے مشاہدات اسے جہاں رنجیدہ کرتے ہیں وہیں اسے ایک خاص انداز کا عزم اور حوصلہ بھی دیتے ہیں۔ وہ اپنے بے باک تجربات پوری ایمان داری سے اپنے قاری تک پہنچاتا ہے:
وار کرنا اسے نہیں آتا
وار کو روک جو نہیں سکتا

میں حقیقت بیان کرتا ہوں
اس لئے ہیں سبھی خفا مجھ سے

بس ایک سچ پہ زباں کاٹ دی گئی جس کی
وہ اپنے حق میں بھلا کس طرح صفائی دے

مجھے تو قتل ہونا تھا ترے ہاتھوں
نہ رویا کر مرے قاتل، نہ رویا کر

اس نے اک بار کہا تھا کہ اڑا کر عادلؔ
آج بیٹھا ہوں میں پر اپنے کٹا کر عادلؔ

بھروسا کر کے اپنے رہنما پر
لٹا بیٹھے ہیں ہم تو کارواں تک

کارزارِ حیات میں چو مکھی لڑائی لڑتے ہوئے اس کا احساس گھائل ہو جاتا ہے تو وہ ڈانواں ڈول ہونے لگتا ہے۔ ایسی کیفیت میں وہ خود کو بھی موردِ الزام ٹھہراتا ہے اور حوادث پر بھی نظر رکھتا ہے۔ اس کا اظہار اس کے زخمی احساس کی کچھ اس طرح نمائندگی کرتا ہے:
اس میں عادلؔ اور کسی کا دوش نہیں
اپنے گھر کو آپ جلایا تھا میں نے

نہیں کہ یوں ہی روانی میں آ گیا دریا
وجود برف کا پگھلا تو پھر بنا دریا

تمام شہر کو یہ ہم سفر بنا لے گا
اسی طرح سے اگر جوش میں رہا دریا

خوف اور درماندگی کے اس عالم میں اس کا تخیل اسے اپنے مطلوبِ جاں کی طرف لے جاتا ہے۔ زمانے کی کڑی چوکڑی میں یہی ایک مقام ہے جہاں وہ خود کو فراموش کر سکتا ہے۔ تاہم خدشات جو اسے حوادث نے عطا کئے ہیں یہاں بھی اس کے ساتھ چلتے ہیں اور وہ بیک وقت کئی کیفیتوں کے امتزاج اور تضاد کا مزا لیتا ہے:
میرے گھر کو بھول نہ جانا
نام لکھا ہے دروازے پر

وہ مصیبت میں مبتلا ہو گا
اس کی تصویر گر گئی مجھ سے

آنسو آگ بجھانے نکلے
جب تیری تصویر جلائی

اس سارے پیش منظر اور پس منظر میں ہم اس سے بہت سی مثبت امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں۔ اور اس لئے بھی کہ دورِ حاضر کے حوالے سے تلخ نوائی کرنے والا نوشیروان عادلؔ جب نازک بیانی پر آتا ہے تو ایسی ایسی غزلیں کہہ جاتا ہے:
چراغوں کو بجھاؤ، جل نہ جائے
مرا گھر، اے ہواؤ، جل نہ جائے
دھواں سا اٹھ رہا ہے پانیوں سے
مری کاغذ کی ناؤ، جل نہ جائے
شجر شعلے اگلنے پر تلا ہے
پرندے کو اڑاؤ، جل نہ جائے
لگی ہے آگ میرے صحنِ دل میں
کہیں سینے کا گھاؤ، جل نہ جائے
محبت آگ ہے میں جانتا ہوں
تم اپنا دل بچاؤ، جل نہ جائے
کہیں اس آتشِ فرقت میں عادلؔ
ہمارا رکھ رکھاؤ، جل نہ جائے

نوشیروان عادلؔ کی اب تک کی شاعری کو دیکھتے ہوئے ہم بجا طور پر یہ امید کر سکتے ہیں کہ یہ نوجوان ایک نمایاں مقام حاصل کرے گا۔ اور سوچنے کا جو ملکہ اسے حاصل ہے وہ اپنی راہیں خود بنائے گا۔


 محمد یعقوب آسی ۔۔۔۱۴؍ مارچ ۲۰۰۵ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں