منگل، 27 اکتوبر، 2015

کسی اور زمانے کا آدمی



کسی اور زمانے کا آدمی
یہ مضمون اظہر نقوی کے پہلے شعری مجموعہ ’’خواب سے پرے‘‘ کی تقریبِ پذیرائی منعقدہ اتوار ۲۶؍ نومبر ۲۰۰۰ء میں پڑھا گیا۔



انسان اور کائنات کا تعلق جتنا پرانا ہے اتنا ہی عجیب اور دل فریب ہے۔اوربیرونی کائنات سے کہیں زیادہ عجیب اور دلفریب کائنات انسان کی ذات کے اندر پنہاں ہے۔ انسان بیک وقت ان دونوں جہانوں میں زندہ ہے اور دونوں دنیاؤں سے نبردآزما بھی ہے۔ اندر کی دنیا کی بات کریں تو خیال کی حیثیت اوّلین ہے اور خیال کا منبع اِن دونوں دنیاؤں میں کہیں بھی واقع ہو سکتا ہے۔

جب ایک ایسے شخص کی شاعری پر بات ہو، جو کسی اور زمانے سے یہاں آنے اور ایک اور زمانے کی طرف جانے پر بات ختم کرے تو خیال کی حدود کا پھیلاؤ کتنا بڑھ جاتا ہے!
مجھ کو اِک اور زمانے کی طرف جانا ہے
میں کسی اور زمانے سے یہاں آیا ہوں

بظاہر یہ سیدھی سی بات ہے۔ دنیا میں انسان کے وُرود سے پہلے کا زمانہ، پھر انسان اور کائنات کا معروضی تعلق اور اس کے بعد ایک وہ زمانہ جس کے بارے میں سوچا تو جا سکتا ہے مگر سوچ کہاں تک ساتھ دے پاتی ہے؟ خیال کے پر بھسم ہونے سے کہاں تک محفوظ رہتے ہیں؟! یہ حصارِذات سے باہر قدم رکھنا ہے اور اِس کے لئے ادراک کی جو سطح درکار ہے وہاں خدوخال کی معروضی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔جہاں منظر بدل جاتے ہیں، سمندر لاشیں اُگل دیتا ہے ا ورسورج پگھل جاتا ہے۔ جلتے ہوئے شہر اور گھر سے نکلنے کا عمل، ذات کی نفی اور اثبات کا تصادم آئنوں کو توڑ ڈالتا ہے منظر بدل جاتے ہیں، سمندر لاشیں اُگل دیتا ہے اور سورج پگھل جاتا ہے۔

فن کار اور بالخصوص قلم کار زندگی کو ایک الگ زاویے سے دیکھتا ہے اور پھر دوسروں کو اپنے مشاہدے اور تجربے میں شریک کرتا ہے تو شعر جنم لیتا ہے۔ خاموشی حیرت و استعجاب قرار پاتی ہے اور جنوں کے حوصلوں کی آزمائش ہوتی ہے۔ اداسی آدمی کے ساتھ چلتی ہے، صدمات لذت دیتے ہیں اور نئے غموں سے ملاقات کی صورت نکلتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ فنکار کو صحبتِ درد نبھانے کا سلیقہ ہو! ایسا سلیقہ جو ہمیں اظہر نقوی کے ہاں ملتا ہے!

شعر کے فنی لوازمات کی اہمیت سے انکار نہیں مگر اِس سے کہیں آگے شعر کی فکری اور پھر محسوساتی سطح ہے اور یہیں آ کر قاری اور شاعر میں موافقت یا عدم موافقت کا سوال اٹھتا ہے۔ دونوں کی محسوساتی اور فکری سطح کا فرق ‘ ہو سکتا ہے مسئلہ پیدا کرے‘ تاہم یا د رہے کہ محسوسات کا تبادلہ اشیاء کے تبادلے سے قطعی مختلف عمل ہے۔ اس پیش منظر میں اظہر نقوی کے اشعار دم بدم رنگ بدلتی کائنات کے ساتھ چلتے دکھائی دیتے ہیں :
جانے کیوں تیز ہواؤ ں سے الجھ بیٹھے ہیں
ریت پر خواب کی تصویر بنانے والے


خواب سے پرے کا عالم‘ جہاں چاند کے اندر سورج دکھائی دیتا ہے‘ جہاں دشت نوردوں کے لئے پتھر سورج کی طرح اجالے بکھیرتے ہیں اور ستارے حیرت سے چاند کو دیکھا کرتے ہیں۔ احساس اور ادراک کی وہ سطح ہے جس کا اظہار شاید روایتی لہجے اور مستعمل زبان میں ممکن نہ ہو۔ ایسے میں لہجے اور لفظیات کو بھی اس سطح پر لانا پڑتا ہے:
خواب مُٹھی میں لئے پھرتے ہیں صحرا صحرا
ہم وہی لوگ ہیں جو دھوپ کے پر کاٹتے ہیں

سورج قتیلِ خنجرِ شب ہو گیا تو پھر
نیزے پہ اپنے سر کو سجانا پڑا ہمیں

حرف و معنی کی کائنات کا یہ مسافر اپنے اندازِ فکر سے اندازِ اظہار تک ہر لمحہ رنگ بدلتی کائنات کا ساتھ دینے کے لئے نیا لہجہ اور نئے الفاظ اپناتا ہے۔ اس کے لہجے میں آج کے انسان کا مسئلہ در آیا ہے اور اس کے الفاظ کے معانی تہوں میں بٹ گئے ہیں (یہ قاری پر منحصر ہے کہ وہ کس تہہ تک پہنچ پاتا ہے)، تاہم وہ شاخِ بریدہ کی کیفیت سے دو چار نہیں ہوتا اور انسان کے ازلی حاسّے یعنی تعلقِ خاطر سے بھی بیگانہ نہیں ہوتا۔ لفظیات کی جدت اور اظہار کا نیا پن یہاں اپنا الگ ذائقہ رکھتا ہے:
رات بھر چاند سے ہوتی رہیں تیری باتیں
رات کھولے ہیں ستاروں نے ترے راز بہت

زندگی بس یہی کچھ نہیں۔یہاں اور بھی غم ہیں اور خود کو ان کے لئے تیار بھی رکھنا ہے بلکہ انہی سے جِلا بھی پانی ہے:
افق سے پھوٹے گی تنویرِ صبحِ نو بن کر
کسی چراغ کی سرخی سحر کے نام تو ہو

خود شناسی سے عالم شناسی تک اور عالم شناسی سے اپنی بازیافت کے اس سفر میں اظہر نقوی جن تجربات سے گزرتا ہے ان کا اظہار ایسے انداز میں کرتا ہے کہ اس کے الفاظ لطف دے جاتے ہیں۔
میں نے سوچا تھا کسی اور کو کب تیرے سوا
کب ترے ہجر کے لمحوں میں خیانت کی تھی
یہ رات مجھ پہ ایک قیامت کی رات ہے
اس رات کوئی درد مرا ہم نشیں نہیں
منزلوں سے بدگماں بھی کر دیا کرتے ہیں لوگ
ہر کسی سے راستوں کا پوچھنا اچھا نہیں


اظہر نقوی کے لہجے میں ایک خاص طرح کا ٹھہراؤ پایا جاتا ہے، جس میں مسافتوں کی تھکن کے ساتھ ساتھ منزلوں کی لگن بھی ہے اور کانٹوں کی چبھن بھی۔ جذبات کی لگن بھی ہے اور واہمات کی گھٹن بھی۔ وہ کبھی نغمہ خواں ہوتا ہے تو کبھی نوحہ خواں ہوتا ہے، کبھی نعرہ زن ہوتا ہے تو کبھی خندہ زن ہوتا ہے اور یوں اس کے الفاظ اس کی وحشتوں، اس کی چاہتوں، اس کے جذبات، اس کے احساسات اور اس کے تفکرات کا ایک فطری اور حقیقی عکس بناتے ہیں۔
جب کھلیں گے گلاب آنکھوں کے
اور ہوں گے عذاب آنکھوں کے

کرتا ہے آئنوں کے حوالے سے گفتگو
یہ وقت آ گیا ہے مرے بدگمان پر

ٹوٹ جائے کا ستاروں کا غرور
جب دیے شوریدہ سر ہو جائیں گے

جمی ہے گرد آنکھوں میں کئی گمنام برسوں سے
مرے اندر نہ جانے کون بوڑھا شخص رہتا ہے

اظہر کچھ اس طرح کا پڑا اب کے قحطِ غم
زخموں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے لانا پڑا ہمیں

اپنی تمام تر آبلہ پائی اور تنہائی کے ساتھ دونوں کائناتوں کے بیچ اس کا سفر جاری ہے اور اس کے الفاظ ناطق ہیں،بلکہ یہ آبلہ پائی اس کے لئے مہمیز کی حیثیت اختیار کر گئی ہے
اتر گئی ہے رگ و پے میں آبلہ پائی
کہیں رکوں جو ذرا سا تو جان جاتی ہے

اور وہ رک بھی کیسے سکتا ہے کہ اسے تو ابھی کسی اور زمانے کی طرف جاناہے:
مجھ کو اک اور زمانے کی طرف جانا ہے
میں کسی اور زمانے سے یہاں آیا ہوں



محمد یعقوب آسی ۔۔۔ ۲۷؍ نومبر ۲۰۰۰ء

2 تبصرے: