منگل، 27 اکتوبر، 2015

کہہ مکرنی سے آگے




کہہ مکرنی سے آگے
(طفیل کمالزئی کے افسانوں کے تازہ مجموعے ’اچھے دنوں کا انتظار‘ کا نفسیاتی تجزیہ)



بات اس طرح کی جائے کہ اُس میں بیک وقت نفی بھی ہو اور اثبات بھی اور معنوی ابلاغ کی یہ دونوں سطحیں یکساں اجاگر ہوں تو اُسے کہہ مکرنی کہا جاتا ہے۔ اُس میں منطق، احساس، تجزیہ، سوال اور کہانی سب کچھ موجود ہو تو یہ کہہ مکرنی سے آگے کی چیز ہے۔ طفیل کمالزئی نے اسی چیز میں شاعرانہ ایجاز اور اختصار شامل کرکے جو فسوں کاری کی ہے وہ ایک خاصے کی چیز ہے۔ ظفری پاشا کہا کرتا ہے: ’’افسانہ وہ ہے جو قاری کو بے چین کردے‘‘ اور طفیل کمالزئی نے قاری کو بے چین کر دیا ہے۔ ان کا اختصار کی طرف رجحان اس بے چینی کے ساتھ حیرت بھی شامل کر دیتا ہے۔ اس طرح ہم بلاخوفِ تردید طفیل کمالزئی کو ایک کامیاب فسوں کار قرار دے سکتے ہیں۔ بات آگے بڑھانے سے قبل مناسب ہو گا کہ ’اچھے دنوں کا انتظار‘ میں شامل افسانوں کے اندر پائی جانے والی زیریں رَو کا مشاہدہ کر لیا جائے۔
§        دُھند میں لپٹی ایک لڑکی: دو محروم شخصیتوں کی ایک تیز رفتار کہانی ہے جس کے دونوں مرکزی کردار اظہار کے لئے بچوں کا سہارا لیتے ہیں۔
§        اسٹیٹس: ظاہری ٹھاٹھ باٹھ سے آگے ایک لڑکی کے مزاج میں شامل احساسِ برتری کا شاخسانہ جو اُس کی زندگی کو ویرانی کی طرف لے جا رہا ہے مگر وہ لڑکی اِس کا شعور نہیں رکھتی۔
§        الجھی ہوئی لڑکی: بھائی کو ترسی ہوئی ایک لڑکی کی نفسیات، جس کے بارے میں لوگ چہ مے گوئیوں سے آگے نہیں سوچ سکے۔
§        رکھوالا: آج کے پُر آشوب دور میں والدین کی جوان اولاد کی طرف سے لاپروائی کا نتیجہ جس میں عمارت کا رکھولا عزت کا رکھوالا بھی ہے اور اندھیرے میں روشنی کی کرن بھی کہ اُس کا جرم، جرم محسوس نہیں ہوتا۔
§        پرکھ: ایک ایسی لڑکی کی فکر کا پرتو ہے جو صاحب ذوق ہوتے ہوئے بھی اپنے ذہن میں پڑی گرہ کھولنے سے قاصر ہے۔
§        نچکیّا: فن، فنکار اور فرسودہ روایات کی تکون میں ایسے فن کار کا المیہ جو ایوارڈ اور عرفیت کے تصادم کا شکار نہیں ہونا چاہتا۔
§        دوسری لڑکی: ایک دوسری قسم کی لڑکی کا پورٹریٹ ہے جو مرد کو جنسِ مخالف سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتی۔
§        خوشبو: محبت اور مادیت کے تصادم کا خوب صورت منظر نامہ ہے جس میں دلوں کی دھڑکن نوٹوں کی کڑکڑاہٹ میں دب جاتی ہے۔
§        بے سکون آدمی: سرشاری کو ترسے ہوئے ایک صاحبِ ذوق کی حالتِ زار ہے۔ ہر حساس شخص اسی طرح سوچتا ہے۔
§        اندر کا آدمی: محنت کشوں کے اندر چھپی ہوئی حیوانی قوت کو صحیح رُخ پر چلانے والے ایک حیوان کا قصہ جس کا وجود زندگی کا متحرک رکھتا ہے۔
§        سودا: شناخت وہ چیز ہے جو کبھی برائے فروخت نہیں رہی۔ ایک خریدار کا واقعہ جع ایک قلم کار سے اُس کی شناخت خریدنے چلا تھا۔
§        راز کی بات: روایات اور پاکیزہ طرزِ عمل کے حامل نوجوانوں کے دل دادہ ایسے آدمی کی بپتا جس نے ایک نوجوان کو بے راہ روی کی طرف پہلا قدم اٹھاتے دیکھا۔
§        تازہ گل: ایک تیسری قسم کی عورت کا شکار ہونے والے ایک تازہ پھول کی کہانی جس پر خزاں آئی تو اُس کا چھوٹا بھائی گلِ تازہ کی طرح کھل رہا تھا۔
§        ڈھلتے سائے: مشرق کی دمکتی روایات پر شام کے ورُود اور مغرب زدگی کی رات کی آمد آمد میں ایک زرد ہوتی ہوئی کہانی جس کے چہرے پر ایک خاندان کی شکست و ریخت کے کرب کا عذاب دکھائی دیتا ہے۔
§        ورثہ: ایک تہی دامن کا قصہ جو اولاد کے لئے ورثہ میں کچھ نہ کچھ چھوڑ جانے کا متمنی تھا۔
§        محرّک: ایک ایسے شخص کی بدنامی کی ڈائری جو محض سوئے ظن کا نشانہ بنا اور جب بد ظنی کا طلسم ٹوٹا تو وہ شخص ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔
§        آخری کوشش: محبت کی کوئی زبان نہیں ہوتی مگر کبھی کبھی یہاں بھی الفاظ کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ ایک محبت کرنے والے کو لفظ بخشنے والے ایک ایثار پیشہ حرف گَر کا المیہ جس کا چہرہ حرف حرف جھرّیوں سے بھر ا ہوا ہے۔
§        پہچان: جی ہاں! ایسا اب بھی ہوتا ہے۔ ایک بھوکا لڑکا اور ایک بھوکا کتا، دونوں ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔
§        ابلیس: ہماری اجتماعی نفسیات کا نقشہ جس میں ہر آنے والے دن میں کوئی نہ کوئی قدر مر جاتی ہے اور ہم اُس پر آنسو بہانے کے لئے زندہ رہتے ہیں، جب کہ ابلیس قہقہے لگاتا ہے۔
§        سوال: زندگی کا اصل سرمایہ عزم و ہمت ہے۔ یہ سرمایہ ضائع ہو جائے تو ٹونے ٹوٹکوں اور پتھروں پر ایمان لے آتا ہے۔
§        اچھے دنوں کا انتظار: ایک باہمت خاتون کے اندر کی کہانی جو دنیا کی نشتر نظروں کے تابڑ توڑ حملوں کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے اور اُس کا زخمی احساس ہر کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔
§        ناطہ: ایک بیوہ کی کہانی جو ایک دوسری عورت کے سوئے ظن کا نشانہ بنی۔ یہ تریا ہٹ پر ایک بھرپور نفسیاتی طنز ہے۔


کہا جاتا ہے کہ ہر افسانے کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے۔ زیرِ نظر افسانوں میں ہر ایک کے پیچھے ایک سچی کہانی کا وجود محسوس ہوتا ہے، جن میں افسانہ نگار خود بھی نظر آ رہا ہے۔اور اُس نے اِن کہانیوں کو واقعاتی سطح سے بلند کر کے دیکھا ہے۔ شہر اور گان کی زندگی میں جہاں مادیت کے اعتبار سے فرق موجود ہے، وہیں فکری سطح پر بھی امتیاز پایا جاتا ہے۔ آج کے ترقی پذیر معاشرے میں لوگوں کی گاؤں سے شہروں کی طرف ہجرت کے ساتھ ساتھ شہری زندگی میں اخلاقی اقدار کا انحطاط پذیر ہونا ایک بدیہی امر ہے۔ سانجھ کا فقدان، گھٹن ار تنہائی کا عذاب اور سطحیت کمالزئی صاحب کو خاص طور پر پریشان کرتی ہیں۔ وہ تو خوشیوں کے ساتھ ساتھ دکھوں میں بھی سانجھ کے متمنی ہیں۔


یہ سوال اکثر سامنے آتا ہے کہ ادیبوں اور اخبار والوں کو معاشرے میں صرف برائیاں ہی کیوں نظر آتی ہیں! اصل بات یہ ہے کہ معاشرے کا نباض ہونے کی حیثیت سے ادیب پر لازم ہے کہ وہ برائی کی نشاندہی کرے اور اگر اُس کا علاج بھی تجویز کر سکے تو یہ سونے پر سہاگے والی بات ہے۔ ظفر خان نیازی نے کیا خوب کہا ہے کہ: خبر وہ ہے جو ہمارے معمولات سے ہٹ کر ہو۔ اور اخبارات میں برائی کا خبر بننا اس امر کا ثبوت ہے کہ برائی ابھی ہمارا معمول نہیں بنی ورنہ خبر بھی نہ بنتی۔ میں اس پر یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ: ڈریے اُس وقت سے جب اچھی باتیں خبر بننے لگیں گی۔ طفیل کمالزئی نے معمول کی خوبیوں سے ہٹے ہوئے واقعات کو اجاگر کیا ہے اور خبرِ محض بھی نہیں بننے دیا۔ انہوں نے اپنے گرد و پیش کے المیوں کو خبر اور کہانی سے اوپر لے جا کر دیکھا ہے اور اس مشاہدے میں اپنے قاری کو بھی شامل کیا ہے۔


بات ہو رہی تھی کہہ مکرنی کی۔ زیرِ نظر کتاب میں شامل اِن افسانوں کو دیکھئے گا: اسٹیٹس، الجھی ہوئی لڑکی، پرکھ، خوشبو، تازہ گل، اور ناطہ۔ یہ افسانے ایسے ہی مفاہیم کے حامل ہیں۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان سب میں مرکزی کردار عورت کا ہے۔ عورت اور کہہ مکرنی! کیا یہ محض اتفاق ہے، یا افسانہ نگار کی زیرک نگاہی کا مظہر ہے؟ غور فرمائیے گا۔ 



محمد یعقوب آسی ۔۔۔ ۱۲؍ نومبر ۱۹۹۶ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں