منگل، 27 اکتوبر، 2015

اخترِ صبح


اخترِ صبح
پرویز اختر کے شعری مجموعہ ’سائبان ہاتھوں کا‘ پر ایک نظر (شاملِ کتاب)


حرف کا رشتہ بھی کیا عجیب رشتہ ہے۔ رشتے تو اور بھی ہیں! بلکہ انسان توانسان کہلاتا ہی اس لئے ہے کہ وہ رشتوں کا پابند ہے۔رشتوں کے یہ بندھن نہ ہوں تو انسان اور ڈھور ڈنگر میں کوئی امتیاز نہ رہ جائے۔ ایک رشتہ جسم کا ہے تو ایک جان کا ، اور ایک جسم و جاں کا رشتہ ہے اور کوئی انسان اس رشتے کو نبھاتے میں کہاں تک جا سکتا ہے، یہ بات جناب پرویز اختر کی نگاہِ تیز سے پنہاں نہیں رہ سکتی۔ سرسبز دیہات میں گھرے صنعتی شہر فیصل آباد کے گلی کوچوں میں جوان ہونے والا پرویز اختر رشتوں کی پاسداری کے لئے عرب کے تپتے صحراؤں کی طرف نکل گیا۔ مجھ جیسا کم ہمت شخص بھی اتنا تو کر گزرا کہ صحرا کو نہ سہی کوہسار کو چل نکلا، اسی رشتہٗ جسم و جاں کی تلاش میں۔ یہ الگ بات کہ اُدھر سوچوں میں صحرا کی سی وسعت آتی ہے تو اِدھر پتھروں کے ساتھ رہتے رہتے سوچیں بھی پتھرا جاتی ہیں:
آدمی کیا ہے یہ جان لینا تو آسیؔ بڑی بات ہے
سوچ پتھرا گئی رشتۂ جسم وجاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے

جسم و جان کے اس رشتے کو قائم رکھنے کی سعی میں اختر پر کتنے سخت مرحلے گزرے ہوں گے اور وہ کن حالات سے گزراہو گا کہ راحتیں اُس کی ہمت بندھانے کی بجائے حوصلے توڑنے کے درپے نظر آتی ہیں:
دھوپ شدت کی تھی، گرمِ سفر تھا کوئی
حوصلہ ٹوٹ گیا رہ میں شجر آتے ہی

’’سائبان ہاتھوں کا‘‘ اسی کڑی دھوپ سے نبرد آزما رہنے کا استعارہ ہے۔ اختر کا جتنا کلام میری نظروں سے گزرا ہے اس میں سب سے نمایاں عنصر زندگی کی تگ و تاز ہے، جس کا ہر لمحہ زندہ محسوس ہوتا ہے۔

واضح کرتا چلوں کہ میں پرویز اختر کو اختر کہنا زیادہ پسند کرتا ہوں، حالانکہ خود اُس نے اپنے نام کے جزوِ اول یعنی پرویز کو بطور تخلص استعمال کیا ہے۔اپنی اس پسند کی وجہ سے شعوری طور پر شاید میں خود بھی واقف نہیں تاہم ایک علامت ہے جومیرے اس عمل کا جواز کہلا سکتی ہے، اور وہ ہے اس کا اپنا نام۔اسے اتفاق ہی کہئے کہ مجھے اُس کے موصولہ کلام میں ستارے کا صرف ایک حوالہ دکھائی دیا،جس کے ساتھ ہی چراغ اور سورج کا حوالہ موجود ہے:
وہاں آفتاب ہتھیلیوں پہ لئے ہوئے کئی لوگ تھے
مجھے اپنا آپ عجب لگا، کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں
مجھے اپنے پیاروں کی صورتیں ذرا دیکھنی تھیں قریب سے
نہیں چاند تارے ملے تو کیا، کہ چراغ تھا مرے ہاتھ میں

چاند، تارے، چراغ، آفتاب؛ یہ سب روشنی اور زندگی کی علامات ہیں۔ اسی روشنی کے حوالے سے اُسے اختر کہنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ ویسے ہی جیسے اختر کو زندگی کی باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔مجھے اُس کے الفاظ بولتے اور دھڑکتے محسوس ہوتے ہیں۔ اختر بڑے خوبصورت انداز میں زندگی کی چھوٹی بڑی دلداریوں کا احوال بیان کر جاتا ہے۔ اس کے ہاں گھر اور گھر کے لوگ اپنے حقیقی اور معنوی پیش منظر کے ساتھ وارد ہوتے ہیں:
کیسے دن بھر کی تھکن پل میں اتر جاتی ہے
بچے سینے سے جو لگ جاتے ہیں گھر آتے ہی
بتاؤ بچوں کو کالی کریں نہ دیواریں
وہ کہہ بھی سکتا تھا، آخر مکان اُس کا تھا
اہلِ خانہ سے جو ہو جاتی ہے رنجش پرویزؔ
چھوڑنے کوئی نہیں آتا ہے دروازے تک
اتنا احساس دلوں میں نہیں جاگا اب تک
ہم میں رنجش ہو تو بچوں پہ اثر پڑتا ہے
ان کے چہروں سے نہ سنجیدگی ٹپکے کیوں کر
میرے بچوں کو ہیں معلوم مسائل میرے
میں خود ڈرا ہوا تھا، پہ ہمت سی آگئی
جب بچہ ڈر کے میرے گلے سے لپٹ گیا
اُسے ابھی سے نہیں ہے پسند پابندی
وہ لڑکا لکھتا نہیں حاشیے کے اندر کیوں

اختر جب گھر سے باہر نکلتا ہے تو اُس کا احساس اُسے کہیں رنجیدہ کرتا ہے اور کہیں فکر مند، کہیں وہ خوف اور واہموں کا شکار ہوتا ہے تو کہیں عزم و ہمت کا درس دیتا ہے۔یوں اُس کے ہاں کسی یوٹوپیا کی بجائے جیتے جاگتے شہر ملتے ہیں،اپنے حقیقی مسائل اور رنگوں کے ساتھ!
کسی دباؤ میں آ کر وہ تم سے ہارا تھا
تمہاری جیت مجھے کس لئے نہ مات لگے
ہیں ایک جیسے مسائل سبھی کے ساتھ لگے
کسی کی بات ہو اپنے ہی گھر کی بات لگے
مجھ کو اخبار سے کیا کام کہ دن چڑھتے ہی
گھیر لیتے ہیں مجھے اپنے مسائل میرے
دلوں پہ چھائے ہوئے ڈر کا کر لو اندازہ
کہ لوگ دن میں بھی رکھتے ہیں بند دروازے

جیتے جاگتے شہر کے ان مسائل میں جہاں انصاف پر حرف آتاہے، اور کوئی معاشرتی ناہمواری دکھائی دیتی ہے، اختر اُس پر تڑپ اٹھتا ہے۔ایسی صورتِ حال پر اس کا اندازِ اظہار کسی قدر کھردرا بھی ہو جاتا ہے،اور یہ رد عمل انسانی سلامتِ طبع کے عین مطابق ہے۔ ایسے میں وہ کہیں براہ راست انداز اختیار کرتا ہے تو کہیں سوالیہ لہجہ،اور سوال ایسا اٹھا جاتا ہے جس میں جواب ازخود پنہاں ہوتا ہے:
میرے بچوں کے تحفظ کی ضمانت جو نہیں
نام قاتل کا بتاتے ہوئے ڈر جاتا ہوں
منصفِ وقت ہے خود میرے گناہوں میں شریک
جرم ثابت نہیں مجھ پر کوئی ہونے والا
وہی اک وارداتِ قتل کا ہے عینی شاہد
وہی اس سانحے سے بے خبر کیوں لگ رہا ہے
منصف کو بس سزائیں سنانے سے کام تھا
مجرم وہ کیوں بنا تھا پتا ہی نہیں چلا
وہ بھی دور آئے کہ ظالم کو عدالت سے ملے
لوگ لکھیں جو سزا شہر کی دیواروں پر
جس کو اخبار نہیں مصلحتاً چھاپ سکے
جا بجا ہم نے پڑھا شہر کی دیواروں پر

بہ ایں ہمہ اُسے انسانوں سے پیار ہے، اور انسان کی مجبوریوں کا ادراک بھی ہے۔ وہ کہیں انسانی نفسیات کی گرہیں کھولتا ہے تو کہیں اُس کے دکھوں پر سانجھ کا اظہار کرتا ہے۔ اُس کے بعض اشعار کی محسوساتی سطح لفظوں سے کہیں اوپر اٹھ جاتی ہے، اور اُس کا قاری اُس کی فسوں کاری کی داد دئے بغیر نہیں رہ سکتا:
کہتے ہیں نقشِ پا، کہ رکا تھا وہ دیر تک
دستک دئے بغیر جو در سے پلٹ گیا
ثابت ہوا کہ میری زمیں مجھ کو راس تھی
آکر بلندیوں میں مرا وزن گھٹ گیا
سوتا نہیں تھا میں تو کبھی فرشِ سنگ پر
آج اتنا تھک چکا تھا پتا ہی نہیں چلا
تو کیا پرندہ زمیں سے فرار چاہتا ہے
پروں کے کھلتے ہی جاتا ہے آسماں پر کیوں
بدل کر بھیس میں پہچان اپنی کھو رہا ہوں
مگر یہ جاں بچانے کو بدلنا پڑ رہا ہے
ممکن نہیں کہ بدلے زبانوں کا ذائقہ
اترے گی اب نہ کوئی کتاب آسمان سے
تھا یہ تنہائی پسندی کا تقاضا پرویزؔ
میں نے دانستہ مکاں بھی لیا کونے والا
میں وہی ہوں کہ پلاتے ہی جسے آبِ حیات
لوگ اِک قحط زدہ شہر میں چھوڑ آئے تھے
کچے رنگوں سے ہے بیٹے نے بنائی تصویر
کہہ دو بارش سے نہ آئے مری دیوار کے پاس

اختر کی شاعری کا خاص وصف اس کی سہل نگاری ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ شعر کی زبان کو آسان بنانا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ اُس کے بعض اشعار لفظی سطح پر اتنے سادہ اور معنوی سطح پر اتنے عمیق ہیں کہ حیرت ہوتی ہے:
یہی بہتر ہے کہ مضبوط ہوں رشتے ورنہ
کون بچ سکتا ہے گر چھت سے ہو دیوار جدا
پانیوں سے تھا گزر میرا ہوا سے تیرا
کیا عجب ہے جو رہی دونوں کی رفتار جدا
کتنا دشوار ہے ہر اک سے مراسم رکھنا
وہ جو پاس آئے تو یہ دور بھی ہو سکتا ہے
تم نہیں جاؤ گے کیا اپنے وطن اب کے برس
پوچھتا ہے مجھے اکثر یہ کھلونے والا
نہ بوند بوند کو ترسے مری زمیں پرویزؔ
مرا مزاج اگر بادلوں کے ہاتھ لگے
ہم میں رنجش تھی وہ حیران سا لگتا کیوں تھا
رات بھر بیٹا پریشان سا لگتا کیوں تھا
رات بھر لکھا گیا شہر کی دیواروں پر
اگلے دن کچھ بھی نہ تھا شہر کی دیواروں پر

اختر نے بہت اچھا کیا کہ اظہار کو نئی نئی اور نامانوس بحروں کے تجربوں کی بھینٹ نہیں چڑھایا۔اُس کا اندازِفکر اور اندازِاظہار اتنا صاف ہے کہ اُسے طویل اور مشکل تراکیب گھڑنے کی ضرورت ہی نہیں ۔یہ وہ اوصاف ہیں جو اختر کو خواص تک محدود رکھنے کی بجائے اردو شاعری کے عام قاری تک پہنچنے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں، اور اُسے ہر دل عزیز بناتے ہیں۔

مجھے یقین ہے صبح کے اس ستارے کی روشنی طلوعِ سحر تک اختر کے قاری کا ساتھ دے گی۔ اس پر مستزاد یہ کہ تیز دھوپ میں ہاتھوں کا سائبان بنا نے کا گُر ہر کسی کو آتا ہی کب ہے!

محمد یعقوب آسی ۔۔۔ ۲؍ نومبر ۲۰۰۵ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں