اتوار، 4 اکتوبر، 2015

دَرشک! دَر اِیں چہ شک؟ ۔


دَرشک! دَر اِیں چہ شک؟
(اسد محمود خان کے افسانوں کی کتاب ’’درشک‘‘ پر اظہارِ جذبات)


کسی کو سفر پر نکلنا ہو تو سو طرح کی تیاریاں کرتا ہے، سامانِ سفر بہم پہنچاتا ہے، روپیہ کا انتظام کرتا ہے اور بہت کچھ! اولین طے کرنے کی بات ہے ، منزل کا تعین۔ ادب کا سفر اِس سے بہت مختلف ہے، منزل کا تعین بھی کوئی کوئی کر پاتا ہے، ورنہ ہوتا یہی ہے کہ شوقِ سفر نے سرِ جادہ ڈال دیا اور چل پڑے، جہاں لے جائے۔ اپنے ساتھ تو یہی کچھ ہوا ہے! رہی زادِ راہ کی بات، تو وہ بھی یہی کچھ ہوا کرتا ہے، یعنی شوقِ سفر۔
ہم سفر کوئی نہ تھا اور چل دئے
اجنبی تھا راستہ اور چل دئے
شدتِ شوقِ سفر مت پوچھئے
ناتواں دل کو لیا اور چل دئے

اس سفر کی ابتدا ہوتی ہی بے سروسامانی سے ہے۔ جب ایک قلم کار پہلا لفظ، پہلا شعر، پہلا افسانہ، پہلا قطعہ، پہلی غزل کہتا ہے تو اس کے پاس وہی کچھ ہوتا ہے، اولین خامہ فرسائی! وہ سامان جسے ہو سکتا ہے، دورانِ سفر وہ خود ہی بارِ بے کار سمجھ کر کہیں پھینک جائے۔ زادِ سفر تو وہ دورانِ سفر جمع کرتا ہے! منزلیں آتی ہیں گزر جاتی ہیں اور وہ نئی منزلوں کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔ اسے کیا کہئے گا؟ منزلیں مارنے کی دھُن؟ یا زادِ سفر جمع کرنے کی ہوس؟ کچھ بھی کہئے یہ ہے بڑی کام کی چیز!۔ یہاں ہم زادِ سفر ہی جمع نہیں کرتے بہت سے ہم سفر بھی بنا لیتے ہیں۔ اسد محمود خان بھی تو یہی کہتے ہیں نا: ’’میں نے ادبی سفر کا آغاز کیا تو تہی دست تھا، لیکن صد شکر کہ اب محبتوں اور دوستوں کا ایک کارواں ہم قدم ہے‘‘۔ گویا ’قلم کا سفر خود ہی زادِ سفر ہے‘۔ یہ تو بنا بنایا مصرع ہو گیا! بعض تحریریں محرک ہوتی ہیں، انہیں پڑھئے تو لگتا ہے کسی نے دل کے تاروں کو چھو لیا ہے!۔

میرا تعلق بنیادی طور پر شعر سے ہے اور وہ بھی روایتی شاعری سے۔ افسانہ تو نہیں البتہ کچھ کہانیاں مجھ سے بھی سرزد ہوئی ہیں، جن کا ذکر اگر کہیں ضمناً آ جائے تو اسے میری ان گزارشات کا تسلسل سمجھ لیجئے گا۔’’قصہ مرے افسانے کا‘‘ کے زیرِ عنوان اسد محمود خان اپنی واردات کو ایک افسانہ نما کہانی یا ایک کہانی نما افسانہ کی صورت میں بیان کر گئے ہیں، ایک ایسی خود نوشت جس میں تصنع کہیں نہیں، صنعتیں بہت ہیں۔ یہ انداز ان کے افسانوں کو شاعری جیسا رَسیلاپن دے جاتا ہے۔ افسانہ اور کہانی کے حوالے سے خالد قیوم تنولی اپنے تعارفی مضمون میں بڑی اچھی گفتگو کر گئے ہیں۔ بہت دقیق فنی اور تجزیاتی مباحث سے پہلوتہی کرتے ہوئے اِسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ تاہم اپنے ہم نشین افسانہ نگاروں (سعید گل، ظفری پاشا، لیاقت خان اور دیگر دوستوں) کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے سخن کی اس صنفِ نازک پر جو سخن طرازیاں ہوتی رہی ہیں، اُن سے جو کچھ اخذ کر سکا ہوں، اس کا خلاصہ یہاں درج کرنے کی جسارت کر رہا ہوں:۔
* افسانہ وہ ہے جس کا انجام قاری کے لئے غیر متوقع ہو، یا یہ کہ قاری کو چونکا دے، یا اس کو بے چین کر دے۔
* افسانہ وہ ہے جو قاری کو ایک عالمِ حیرت میں چھوڑ جائے اور غیر محسوس طور پر فکر کو ایک راہ بھی سجھا دے۔
* افسانہ وہ ہے جو عام زندگی کی کسی خاص حسیت کو اجاگر کرے، یا قاری کو چھیڑ کر چھوڑ دے۔ 
* ہر کہانی میں افسانہ نہیں ہوتا، ہر افسانہ میں کہانی ہوتی ہے، خواہ وہ بیانیہ ہو خواہ اشاریہ۔
* افسانہ فسوں سازی ہے اس کو سر چڑھ کر بولنا چاہئے۔
* افسانہ میں افسانہ نگار اور قاری بھی کہانی کے کردار ہوتے ہیں۔

میرے لئے یہ ساری تعریفات محترم ہیں۔ مجھے ہر کہانی ہر افسانے میں اپنی اور اپنے ارد گرد کی تلاش رہتی ہے اور میں لاشعوری طور پر اس امر کا متمنی ہوتا ہوں کہ کہانی ہو یا افسانہ مجھے اپنی لپیٹ میں لے لے۔اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ کتاب میں شامل چودہ کے چودہ افسانے مجھے اپنی داخلی کائنات کے چودہ طبق محسوس ہوئے۔ کہانی کا ماحول کوئی سا ہو، کرداروں کے نام کوئی سے ہوں یا نہ بھی ہوں، مجھے ہر افسانے میں ایک محمد یعقوب دکھائی دیا، جو میری طرح سوچتا ہے اور محسوس کرتا ہے، تڑپتا ہے اور خوش ہوتا ہے، شکایت کرتا بھی ہے نہیں بھی کرتا۔ میری اپنی کہانیوں کے سامعین اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ میرے اندر کا کہانی کار حساس اور جذباتی شخص ہے۔ اُس نے بسا اوقات مجھے میری اپنی تخلیق کردہ کہانیاں پڑھتے ہوئے سرِ محفل رُلا دیا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک کہانی کا پلاٹ، کردار، مکالمے سب کچھ وضع کردہ ہے۔ اسد محمود خان کے افسانوں کے پیچھے بھی میرا وہی ہم زاد اپنے ہونے کا احساس دلا رہا ہے۔یوں اسد محمود خان اپنے افسانوں کا کردار رہا ہو یا نہ رہا ہو، کم از کم ایک قاری اِن افسانوں کا کردار ضرور ہے، اور وہ میں ہوں۔ اسد محمود خان اپنی داستانِ حیات کا آغاز ساتویں دہائی کے آخر سے کرتے ہیں۔ اس کو اتفاق ہی کہئے گا کہ ساتویں دہائی کے اواخر میں میری ملاقات خالص دیہی پس منظر کے حامل ساڑھے پندرہ سالہ لڑکے محمد یعقوب سے ہوتی ہے جو اپنے مرحوم باپ کی تنگ دستی کا بوجھ اٹھائے حصولِ رزق کے لئے عملی تگ و دو کا آغاز کر چکا ہے۔ وہ لڑکا آج بھی میرے ساتھ ہے اور اسد محمود خان کے افسانوں کی تفہیم میں میرا راہنما اور معاون بھی۔ وہی مجھے بتا رہا ہے کہ کوئی واردات، کوئی واقعہ، سرگزشت سے آگے نکل کر دل گزشت کب بنتا ہے۔ یہ جاننے کے لئے اسد محمود خان کی دل گزشت کے چودہ مناظر کو ایک نظر دیکھنا ہو گا۔

گود ... یہ افسانہ میرے حواس پر دسمبر ۱۹۷۱ء کی اُس بھیانک رات کا منظر تازہ کر گیا، جب محمد یعقوب اپنے کمرے میں ریڈیو پر آٹھ بجے کی خبریں سنتے ہوئے بلک بلک کر رونے لگا تھا۔ دھرتی ماں کا سر اِس افسانے کے مرکزی کردار کی مٹھی میں آنے والی خاک سے جو اَٹ گیا تھا۔

دستک ... سچی بات ہے کہ یہ افسانہ پڑھ کر ایک چپ سی لگ گئی ہے۔ انسان اتنا مجبور بھی ہو سکتا ہے، بلکہ اس سے زیادہ بھی۔ لوگ، معاشرہ، بے حسی، اندر کی ٹوٹ پھوٹ، ضمیر، مجبوریاں، اعتماد، خوش فہمیاں؛ ایک مختصر سی کہانی میں سوچنے، سمجھنے اور جھنجھوڑنے والی اتنی ٹیسیں!۔

آرزو ... بہ ظاہر ایک سادہ سی کہانی ہے، فوج کا ایک سپاہی اپنے بیٹے کو فوج کے افسر کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے۔ زندگی اُس سے تو وفا نہیں کرتی، اُس بیٹے کو وردی مل جاتی ہے مگر ماں جو اپنے مرحوم شوہر کی آرزو کی امانت دار ہے، وہ بھی بیٹے کو وردی میں نہیں دیکھ سکتی کہ وہ آرزو کی امانت دار تھی، تکمیلِ آرزو کی نہیں!۔ اُس نوجوان کے دل میں کتنے طوفان اٹھے ہوں گے!!!۔ ’جو کچھ خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا‘۔

انتظار ... ایک کبھی ختم نہ ہونے والا انتظار! مادرِ وطن پر عجب وقت آن پڑا ہے، سوچنے والے ذہن میں بھی دھماکے ہونے لگتے ہیں! اس رَوِش کا بیج بونے والا اور ذمہ دار کون ہے، جو پل بھر میں بیسیوں سہاگنوں کی مانگ اجاڑ دیتی ہے، پچاسوں نومی تعلیم ادھوری چھوڑ کر اُسی بھیڑ میں شامل ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو پہلے ہی دھماکوں سے سہمی ہوئی ہے۔ آگ اور خون کے کھیل کو روکنے والا بھی تو کوئی ہو!۔

درشک ... یہ محض ایک درخت کو جذبات، محسوسات اور زبان دینے کی بات نہیں ہے، ایک بھرپور سانجھ کی کہانی اور ایک مکمل تہذیب کا آئینہ ہے۔ انسان اور فطرت کے اس تال میل میں قربانیوں کا اپنا ایک لازوال کردار ہے جو ہر دور میں کسی نہ کسی روپ میں موجود رہا ہے۔ وسائل کی بے تحاشا کھپت اور تباہی کا نظریہ اپنی جگہ، اسد محمود خان نے اُس سے کہیں آگے یہاں مٹی، پرند، مویشی، انسان، درخت سب کا ایک دوجے سے مربوط بقائے فطرت کا فلسفہ محسوساتی سطح پر جا کر پیش کیا ہے۔

چنری ... مجھے یہ افسانہ ’دستک‘ کا دوسرا پہلو محسوس ہوتا ہے۔ حقیقی بہی خواہوں کی مجبور سانسوں کی مہکار اور خون پسینہ جب عفت و ناموس کی حفاظت کرنے سے معذور ہو جائے تو بہت ساری چادریں اسی طرح لخت لخت ہوتی ہیں کہ گھر کی چوکھٹ سے ریل کی پٹڑی پر بکھرے لہو کی جھیل تک اُن کے تاگے انسانی ضمیر کو سانپ بن کر ڈسنے لگتے ہیں۔ غربت اور ٹھاٹھ باٹھ میں ایک امتیاز یہ بھی تو ہے!۔

سوہا جوڑا ... یہ افسانہ’آرزو‘ کا دوسرا رُخ ہے۔ افسانہ نگار نے بہت ہوشیاری سے نازک جذبوں کی وہ کہانی رقم کی ہے، جہاں وفورِ شوق کسی المیے کو کہیں بڑا کر دیتا ہے۔ یہ اس نوبیاہتا کی کیفیات کی داستان ہے جو اپنے جسم اور جان کو نکھار کر دل کے خدا کے استقبال کے لئے بڑھتی ہے تو اُس پر کھلتا ہے کہ وہ اب بیوی نہیں رہی، بیوہ ہو چکی ہے۔ 

سگنل ... ’انتظار‘ میں ہم اُس نومی سے مل چکے جس کو ایک دھماکے نے باپ کے سائے سے محروم کر دیا۔ افسانہ ’سگنل‘ میں ایک اور نومی اپنے کلاس فیلو کی سوچوں کو ویران کر گیا۔ سگنل زندگی کی بے ترتیب اور بے ہنگام، آماج گاہِ عجلت کو کسی ضابطے کا پابند کرتا ہے، ضابطے مر جائیں یا اُن کو نظر انداز کر دیا جائے تو کسی کا گناہ کسی اور کے لئے سزا بن جایا کرتا ہے۔

تقدیر ... ’’سر آپ کے ہاں بڑی پیاری بچی پیدا ہوئی لیکن .....‘‘ ۔ اس لیکن سے پہلے اور بعد’’ٹپ ٹپ کرتے دعا کے موتی....‘‘ ۔ زندگی جو ٹھہری!

القارعہ .... مظفر آباد کے دل دوز، چشم کشاسانحے سے ہم نے کیا سیکھا؟ ’اذا زلزلت الارض زلزالہا‘ یہ زلزلے یوں ہی تو نہیں آتے، بات کچھ اور ہے! یہ افسانہ دھڑکتے دلوں اور لرزتے آنسوؤں کے بین بین جنم لینے والی بھیگتے تبسم کی روداد ہے۔

صدی کی میت .... موت کی دہلیز کے اِس پار سے اُس پار تک جست لیتا ہوا، ایک انتہائی شدید تاثر کا حامل افسانہ ہے۔دنیا میں قائم ہونے والے رشتے ناطے پس منظر میں چلے جاتے ہیں، ختم نہیں ہوا کرتے، جب تک دنیا قائم ہے یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا، اور اسد محمودخان کی لکھی ہوئی یہ کہانی نت نئے نئے روپ میں لکھی جاتی رہے گی۔

پرچمِ ستارہ و ہلال .... بات سمجھ لینے کی ہے، ایک شعر پیش کرتا ہوں ۔
کیا خبر کیسی کیسی بہشتیں نظر میں بسا لائے تھے
مر گئے لوگ شہرِ بلا میں اماں ڈھونڈتے ڈھونڈتے

مترتا ... دوستی کے چاک پر گھومتی ایک کہانی دوسری کہانی کی جگہ لیتی ہے تو اسی طرح کی حیرتیں اٹھا کرتی ہیں، کہ چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔

اسد محمود خان کے افسانوں کا مطالعہ آپ نے بھی کیا میں نے بھی، ممکن ہے میں ان کہانیوں کو اس طرح نہ دیکھ پایا ہوں جیسے آپ نے دیکھا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ میں نے آپ کی سوچ سے روشنی لی ہو، ایک بات طے ہے کہ یہ افسانے قاری کو بے چین بھی کر دیتے ہیں، حیرت میں بھی ڈالتے ہیں، اور سوچ کو نئے راستے بھی دکھاتے ہیں۔ ’’درشک‘‘ کے ایک قاری کی حیثیت سے میں نے محسوس کیا ہے میں ان چودہ میں سے کم از کم دس افسانوں میں براہِ راست یا بالواسطہ طور پر موجود ہوں۔ اسد محمود خان کا قاری ان کی کہانیوں کا قیدی ہو یا نہ ہو، اُن کے اسلوب کا گرفتار ضرور بن جاتا ہے۔ کسی کا شعر یاد آیا:
حسنِ سبزی بہ خطِ سبز مرا کرد اسیر
دام ہم رنگِ زمیں بود گرفتار شدم

اسد محمود خان کے ہاں دام ہم رنگِ زمین نہیں، زمین (یعنی دھرتی ماں) آپ ہی دام ہے، دامن بھی، چنری بھی، گود بھی، آرزو بھی، سوہا جوڑا بھی، اورتقدیر بھی۔ پرچمِ ستارہ و ہلال کے سگنل کو دیکھنے اور اس کے اشاروں کو سمجھنے والوں کے لئے یہ خیالی جزیرہ، شہرِ آرزو بھی ہے، مترتا اور سانجھ بھی ہے۔
سانجھ سے یاد آیا، مصنف نے جا بجا پنجابی اور اس کے مختلف لہجوں کے الفاظ کی کمال ملائمت سے ہنرکاری بھی کی ہے۔ وہ اپنی تعارفی گفتگو میں بھی اور افسانوں میں بھی پنجابی زبان کے الفاظ کمال روانی سے بول جاتے ہیں:’’ ..دادی سلور کی ترامی میں ریت ڈال کر چلھی میں بھختے انگاروں پر رکھ دیتی۔ ریت ذرا گرم ہوتی تو مٹکے میں بضاعت شدہ گھر کے کھیتوں سے چنی مونگ پھلی کو چھاننے میں ڈال کر لاتی اور ترامی میں ڈال دیتی۔ کائی کے تنکوں سے ہونجا بناتی..‘‘ (قصہ میرے افسانے کا: صفحہ۲۳)

افسانوں کے افتتاحی کلمات کے بارے میں تنولی صاحب کے لکھے کو، اور ظفری پاشا اور لیاقت خان سے سنے کو، صاد کرتا ہوں۔ یہ وہ عنصر ہے جو افسانہ شروع ہوتے ہی توجہ قاری کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ ساڑھے پندرہ سالہ محمد یعقوب آنکھوں میں حیرتیں بسائے اسد محمود خان کی انگلی پکڑے کہانی میں سفر کرتا ہے، کرداروں سے ملتا ، اور اُن سے مکالمہ کرتا ہے۔ یہ سفر تمام ہونے سے پہلے ہی محمدیعقوب کے بال برسے ہوئے بادلوں جیسے سفید ہو جاتے ہیں۔ اُس کی حیران آنکھوں میں نمی سی جھلملانے لگتی ہے، اور آواز بھرّا جاتی ہے۔
*******
محمد یعقوب آسیؔ ۔۔ جمعہ ۱۱ فروری ۲۰۱۱ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں