محمد یعقوب آسی کے فنِ شعر پر احمد فاروق کا مختصر تبصرہ (بہ شکریہ: اَدَب زار)
یہ جو ایک مسلمہ طرزِ نقد
و نظر رائج ہے کہ شاعر کے ہاں فلاں فلسفہ، یہ جذبات اور وہ خیالات پائے جاتے ہیں
اور یہ کہ ان اجزا کی موجودگی اس دعوے کا کافی و شافی ثبوت ہے کہ یہ شاعری ہے،
مجھے اس سے اختلاف ہے۔ کیا اگر فلسفہ جذبات اور خیالات نثر میں بیان کر دیے جائیں
یا محض منظوم کر دیے جائیں تو یہ شاعری بن جائیں گے؟
شعر بننے کے لئے بنیادی
عنصر لفظ کا برتنا (بلکہ بسر کرنا) ہے۔ برتنے کا ہنر تو لفظ کے برتن میں اپنے
معانی ڈال دے۔ ادھر لفظ کے اندر پہلے سے بھرے معانی ہی چھلکائے جا سکیں تو بڑی بات
ہو۔ اور پھر لفظ جوڑ کر ایسا مصرع بنانا جو لفظوں کی بے روح قطار کی تہمت سے بچ
سکے کارِ دیگر ہے۔
بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں
کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتشؔ
مرصع ساز کا
حشو و زوائد سے پاک مصرع
زبانِ حال سے دعویٰ کرے کہ اک لفظ ہو نہ پائے اِدھر سے اُدھر مرا۔ پھر لفظوں کو
یوں ہم آمیز کرنا کہ آمیختہ نئے معانی سے چمک جائے، کہ پتھر کے ٹکڑے مل کر پانی کا
سا بہاؤ دکھائیں۔ فطرت کی مرصع سازی سے ایک مثال دیکھیں کہ آکسیجن کے اپنے معانی،
ہائیڈروجن کے اپنے معانی، ان کی بندش سے بنا پانی، یکسر مختلف کہ اجزا کے معانی یک
قلم منسوخ۔ مگر ان اجزا کو یوں ملانا ایک جوکھم ہے۔
اس سب جوکھم سے عہدہ برآ
ہونے کی مثالیں دیکھئے:
شہر پہ چھایا ہے سناٹا
کیا جانے کب کیا ہو جائے
اُن زلفوں کی یاد دلائیں
شام کے لمبے لمبے سائے
ہم سفر کوئی نہ تھا اور
چل دیے
اجنبی تھا راستہ اور چل
دیے
شدّتِ شوقِ سفر مت پوچھیے
ناتواں دل کو لیا اور چل
دیے
اہل محفل کی جبینیں دیکھ
کر
خوش رہو، ہم نے کہا، اور
چل دیے
عشق پروانوں کا بھی سچا
نہیں
شمع کا شعلہ بجھا اور چل
دیے
میری بچی بھولپن میں بات
ایسی کہہ گئی
مجھ کو یاد آئیں بڑی شدت
سے اماں جان کل
کیا خبر کیسی کیسی بہشتیں
نظر میں بسا لائے تھے
مر گئے لوگ شہرِ بلا میں
اماں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
میرے جذبوں کے بازو بھی
لگتا ہے جیسے کہ شل ہو گئے
سرد لاشوں میں ٹھٹھری
ہوئی بجلیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
یوں خیالوں کی تصویر
قرطاس پر کیسے بن پائے گی
لفظ کھو جائیں گے فن کی
باریکیاں ڈھنڈتے ڈھونڈتے
ہم سا بے خانماں ہو کسی
رنج میں مبتلا کس لئے
اپنا گھر ہی نہ تھا تھک
گئیں آندھیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
لو، کسی کوئے بے نام میں
جا کے وہ بے خبر کھو گیا
روزناموں میں چھپتی ہوئی
سرخیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
آدمی کیا ہے یہ جان لینا
تو آسیؔ بڑی بات ہے
سوچ پتھرا گئی رشتۂ جسم و
جاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
میں اسے دیکھتا تھا، وہ
مجھ کو
خامشی میں کلام کیا کیا
تھے
شہر میں ہم اداس رہتے ہیں
دشت میں شاد کام کیا کیا
تھے
شام ہونے کو آئی تو سوچا
آج کرنے کے کام کیا کیا
تھے
جو ستارے بجھا دیے تو نے
گردشِ صبح و شام! کیا کیا
تھے
بند کوچے کے دوسری جانب
راستے بے شمار نکلے ہیں
زندگی اک دم حسین لگنے
لگی مجذوب کو
اک نگاہِ ناز نے کیا کیا
نہ جادو کر دیے
تھا وہ اک یعقوب آسیؔ
دفعتاً یاد آ گیا
میری گردن میں حمائل کس
نے بازو کر دیے
ازل کے حبس کدوں میں چلی
ہوا تازہ
نگاہِ ناز نے وا کر دیے
ہیں باب عجیب
من پاگل جو ساری رات
بناتا ہے
لے جاتا ہے دِن تصویریں
بھی اپنی
اس شہر کا کیا جانئے کیا
ہو کے رہے گا
ہر شخص بضد ہے کہ خدا ہو
کے رہے گا
سرِ شام ہے جو بجھا بجھا
یہ چراغِ دل
دمِ صبح پاؤ گے اطلاعِ
فراغِ دل
اعتماد اپنے لکھے پر کچھ
مجھے یوں بھی ہوا
پڑھتے پڑھتے بھول جاتا
ہوں، بتا دیتے ہیں دوست
زندگی درد کا دریا ہی سہی
پر، ہمدم
موج در موج بڑا لطف ہے
پیراکی میں
عمر نے چہرے پہ صدیوں کی
کہانی لکھ دی
زندگی ٹیڑھی لکیروں نے
لکھی ہاتھوں پر
آپ کرتے ہیں بات خوابوں
کی
اور ہم نیند کو ترستے ہیں
اک عجب سلسلہ شکست کا ہے
اشک بھی ٹوٹ کر برستے ہیں
فلسفہ، جذبات، خیالات آپ
جانیں، مجھے تو ان اشعار میں وہ لفظ ملے جو یاد رہ جائیں گے۔
احمد فاروق .... بدھ ۲۵؍ مئی ۲۰۱۶ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں