جمعہ، 15 جولائی، 2016

اصطلاحات کی اردو میں تحویل






اصطلاحات کی اردو میں تحویل


ایک توجہ طلب بات! کہ ہم کسی  لفظ کو کیوں بدلنا چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے سہولت کے لئے اور اس لئے کہ اپنے انفرادی علمی میدان کے مطابق ہر شخص ان الفاظ، اصطلاحات اور اسماء کو بہتر طور پر سمجھ سکے اور سمجھا سکے۔ اب اگر میں انگریزی کا ایک مشکل لفظ نکال کر اس کی جگہ فارسی یا عربی کا اتنا ہی مشکل لفظ ڈال دوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ تراجم آسان تر ہونے چاہئیں۔ اس میں ادبیت اور تراکیب سازی کا اہتمام قطعاً ضروری نہیں۔ ہمارے اصطلاح ساز کے ہاں کچھ رابطہ الفاظ (کا، کے، کی، اور، پر، میں، سے؛ وغیرہ) پتہ نہیں کیوں ناپسندیدہ ہیں۔ یا ہم عربی اور فارسی ترکیب سازی کا جو ماحول ادب کی زبان میں دیکھتے ہیں وہی بازار اور لیبارٹری میں بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اصطلاحات سازی میں اردوئے معلیٰ یا مسجع زبان کی بجائے تفہیم، بلاغت اور ادائیگی کی سہولت کو زیادہ اہمیت دی جانی چاہئے۔

زبان تو زندگی کے سارے میدانوں کے لئے ہوتی ہے اور ہر علمی میدان کی طرح عملی شعبوں کی لفظیات بھی اپنی اپنی ہوتی ہیں۔ جمالیات، قواعدِ لسان، صرف و نحو، ترصیع و تسجیع کی اہمیت بالکل بجا، مگر اپنے میدان میں! اصطلاحات کی تحویل میں ہمیں اپنے لوگوں کو زبان دان نہیں بنانا ان کے لئے آسانی پیدا کرنی ہے اور ان کے شعبوں کو زبان دینی ہے؛ زبان دانی کا شعبہ الگ ہے۔ اپنے اپنے شوق، رجحانات اور ترجیحات پر ہر فرد کو آزادانہ فیصلے اور مزید طلبِ علم کا اختیار حاصل ہے۔ 

روزمرہ کی زبان کے طور پر اصطلاحات اور تراجم میں اگر ہم ایسی تفصیلات میں پڑ جائیں مثال کے طور پر "ربڑ ایک درخت کا نام بھی ہے، غلیل میں لگنے والی فیتی بھی ربڑ ہوتی ہے۔ شیشوں کے درمیان اور رگڑ کو روکنے کے لئے بھی ربڑ ہوتی ہے، ان سب میں لفظی سطح پر بھی فرق ہونا چاہے"۔ میرا نہیں خیال کہ یوں ہم کوئی آسانی بہم پہنچائیں گے۔ اپنے اپنے فیلڈ کے لحاظ سے ایک ہی لفظ متعدد مفاہیم بھی رکھ سکتا ہے۔ ایک دو مثالیں: ۔۔ گوڈا ۔۔ مستری کا اپنا ہے، پہلوان کا اپنا ہے، ہڈی جوڑ والے کا اپنا ہے، ٹھنڈی کُٹ کا اپنا ہے، حتیٰ کہ چاند کا گوڈا اپنا ہے۔ ۔۔ ہانڈی ۔۔ مستری کی اپنی ہے، باورچی کی اپنی ہے، عطار کی اپنی ہے، خمیر اٹھانے والے کی اپنی ہے، انجینئر کی اپنی ہے۔ کبھی کوئی مسئلہ نہیں بنا، نہ ہانڈی کا نہ گوڈے کا۔ ایسے الفاظ رائج کیجئے۔ عوام بھی سمجھتے ہیں، خواص بھی سمجھتے ہیں اور کم و بیش ہر متعلقہ شخص کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ کس ہانڈی یا کوڈے کی بات ہو رہی ہے۔

اطباء مولی کے نمک کو مولی کا نمک کیوں نہیں لکھتے، جوہرِ بادنجان  ہی کیوں لکھتے ہیں؟   ہومیو پیتھی والوں سے کوئی پوچھے کہ (AquaTurmerika) ہی کیوں، ہلدی کا پانی کیوں نہیں؟ عام خوردنی نمک جو بازار میں 10 روپے کلو ملتا ہے میڈیکل سٹور پر وہ 500 روپے کا 50 گرام کیسے ہو جاتا ہے؟ اس کا ایک اجنبی سا نام جو کسی جناتی زبان میں لکھا ہوتا ہے اور بس! وہ انگریزی بھی نہیں ہوتی! 

ایک زمانے میں ہمیں جنرک ناموں کا دورہ بھی پڑا تھا۔ ڈیٹول ساٹھ برس پہلے بھی اسی نام سے  معروف تھا، آج بھی اسی نام سے معروف تھا۔ دورے کے زمانے میں اسے جو نام تفویض کیا گیا وہ کم از کم ایسا ضرور تھا کہ اسے استعمال کرنے کی نوبت نہیں آتی تھی، جرثومے بھی نام سنتے ہی مرگِ مفاجات کا شکار ہو جاتے ہوں گے! اس فقیر کی طرف سے یادِ ماضی کا ایک تحفہ سمجھ لیجئے! وہ تھا: diiodohydrooxychloroxylenol ۔ کہئے کیسا لگا! 


ع: میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند



محمد یعقوب آسیؔ

جمعہ 15 جولائی، 2016ء

1 تبصرہ: