پہلا منظر
حجاز کا وسیع صحرا، آگ برساتا ہوا سورج، جھلستی ہوئی ریت پر اٹھتی گرم ہوا کے بگولوں سے بنتے ہوئے سراب؛ ان سب نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک مشتعل الرأس شتر سوار،ردیف ایک عورت اور ایک شیرخوار بچہ؛ ، جھلسا دینے والے سرمئی پتھر پر مشتمل دو پہاڑیوں کے بیچ پھیلی ڈھلان پر سواری رکتی ہے۔ وہ تینوں اونٹ سے اترتے ہیں۔ مرد اور عورت کے درمیان ہونے والا مکالمہ سرسراتی گرم ہوا کا حصہ بن جاتا ہے۔ دونوں مل کر ایک مختصر سا خیمہ گاڑتے ہیں۔ مرد کچھ دیر رکتا ہے، پھر اونٹ پر کجاوہ کستا ہے، اور سوار ہو جاتا ہے۔ عورت سے بچہ لے کر اپنی گود میں بٹھاتا ہے، عورت اونٹ کے پاس ہی کھڑی ہے: ’’آپ
ہمیں یہاں کیوں لائے ہیں اور کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہے ہیں‘‘۔
’’یہ میرے اللہ کا حکم ہے اور اس کا سہارا کافی ہے‘‘۔
’’ایسی بات ہے تو جائیے، اللہ آپ کو اپنی امان میں رکھے۔ پھر کب آئیں گے؟‘‘
’’جیسے اور جب میرا اللہ چاہے گا‘‘ یہ کہہ کر بچہ عورت کے حوالے کر دیتا ہے، دونوں کو دعائیں دے کر اونٹ کو ہانک دیتا ہے۔ عورت اپنے شیرخوار بچے کے ساتھ وہیں رک جاتی ہے۔ حدِ نگاہ تک بانجھ ریت پھیلی ہوئی ہے،نہ آدم نہ آدم زاد، نہ کوئی درخت نہ جھاڑی۔ آسمان کی ویران پہنائیوں میں اڑتا ہوا کوئی ایک پرندہ بھی دکھائی نہیں دیتا ۔ عورت اپنا مختصر سا کھانے کا سامان اور پانی کی مشک کو سمیٹ کر ایک طرف رکھ دیتی ہے اور بچہ فطرت کے عطا کردہ چشموں سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔ لطف اندوز کیوں نہ ہو! وہ اپنی ماں کی گود میں ہے، اُسے گود سے باہر کے عالم سے کیا سروکار!
سورج کی تپش میں کمی ہونے لگتی ہے اور وہ دونوں پہاڑیوں کے درمیان سے تا حدِ نظر پھیلے ریت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ ماں آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتی ہے اور اس رحمان و رحیم سے مخاطب ہوتی ہے جو ہزاروں لاکھوں ماؤں سے زیادہ مہربان ہے۔ رات کی تاریکی پھیلتی جا رہی ہے اور ماں کے لبوں اور آنکھوں سے بہتے دعاؤں کے چشمے جاری ہیں۔
***
دوسرا منظر
ماں پر ایسا کڑا وقت آن پڑا ہے کہ کسی پر کیا آیا ہو گا۔ پانی کا مشکیزہ تک خالی ہو چکا ہے اور فطرت کے چشموں سے بچے کی سیرابی مشکل ہو گئی ہے۔بچہ بلکنے لگتا ہے تو ماں اس کو خیمے میں لٹا کر جنوبی سمت والی پہاڑی پر جا چڑھتی ہے۔ صحرا کا منظر پہلے دن جیسا ہی ہے، دور دور تک انسان تو کیا کوئی پرندہ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ ماں پہاڑی سے اتر آتی ہے۔بچہ خیمے میں اکیلا ہے؛ یہ سوچ ماں کے قدموں کو مہمیز بن جاتی ہے، وہ دوڑ کر خیمے تک پہنچتی ہے، بچے کو دیکھتی ہے تو اور پریشان ہو جاتی ہے۔ پھر شمالی سمت
والی پہاڑی کی طرف جاتی ہے، پہاڑی پر چڑھتی ہے، ادھر بھی وہی عالم ہے۔ پھر وہی بچہ خیمے میں اکیلا ہے؛ وہی پہاڑی سے اتر کر خیمے کی طرف دوڑنا؛پھر جنوب والی پہاڑی کی طرف! ماں اللہ کی رحمت کا یقین دل میں لئے دونوں پہاڑیوں کے بیچ بھاگتی رہتی ہے۔
اسے بھاگتے میں بچے کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ وہ تڑپ کر خیمے کے پاس پہنچتی ہے تو ایک حیرت انگیز منظر اس کا منتظر ہے۔ بچے کے پیروں کی طرف ریت سے پانی رِس رہا ہے جو ذرا سی دیر میں چشمہ بن جاتا ہے۔ اس غیر معمولی نعمت کی عطا پر اس کی مسرت سنبھالے نہیں سنبھلتی اور وہ جوش میں پانی سے کہہ اٹھتی ہے: زَم! زَم! (ٹھہر جا، ٹھہر جا)۔ وہ پانی کے گرد ایک منڈیر سی بنا دیتی ہے، بچے کو پلاتی ہے خود پیتی ہے اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتی ہے۔ تب اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ پانی صرف پیاس کو نہیں بھوک کو بھی سیر کرتا ہے۔ نہ وہ ریت بانجھ رہتی ہے اور نہ وہ خطہ ویران رہتا ہے۔ ’’زَم زَم‘‘ اب تک چل رہا ہے اور اس کا پانی دنیا کے کونے کونے تک پہنچ رہا ہے۔
***
تیسرا منظر
تجارتی اور دیگر قافلے اس خطے میں نہیں رکتے کہ قرب و جوار میں نہ کوئی آبادی ہے نہ نخلستان اور نہ کہیں پانی ہے۔ صفا اور مروہ سے کسی قدر ہٹ کر ایک گزرگاہ پر ایک قافلہ جا رہا ہے۔ایک نوجوان حدی خوان اچانک چیخ اٹھتا ہے: ’’بابا کہاں ہیں! بابا کہاں ہیں‘‘۔
’’میں ادھر ہوں، جوان! اپنی سواری میرے برابر لے آؤ ... ہاں، بولو کیا بات ہے، کیا ہوا جو تم حدی پڑھتے پڑھتے ایک دم شور مچانے لگے؟‘‘
’’وہ دیکھئے بابا! وہ آسمان پر سفید پرندے! میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے‘‘۔ عمر رسیدہ امیر کی نظریں آسمان کی طرف اٹھتی ہیں تو وہ حیرت زدہ ہو جاتا ہے: ’’یہ پرندے! یہ تو پانی کے سفیر ہیں! مگر اس علاقے میں تو پانی کہیں نہیں۔ پھر؟ یہ پرندے یہاں کیوں چکرا رہے ہیں؟ اے جوان، جا! اس پہاڑی پر چڑھ کر دیکھ! ‘‘۔
قافلہ رک جاتا ہے، لوگوں میں کھسر پسر جاری ہے۔ بڑے بوڑھوں کے لئے اس خطے میں پانی کے سفیروں کا ہونا بہت عجیب اور ان ہونی بات ہے۔اس نوجوان کی پکار ابھرتی ہے!۔ ’’ادھر کچھ ہے! دونوں پہاڑیوں کے بیچ ایک خیمہ گڑا ہے!‘‘
’’اچھا، تم وہیں ٹھہرو! میں آ رہا ہوں‘‘۔ امیر اپنے چند سواروں کے ساتھ پہاڑی کی چوٹی پر آتا ہے۔ اور پھر وہ لوگ وادی میں اتر آتے ہیں۔ لق و دق صحرا میں ایک چھوٹا سا خیمہ، اس میں ایک عورت اور اس کا شیر خوار بچہ، سواری بھی کوئی نہیں! مزید حیرت کی بات ہے۔
گفتگو ہوتی ہے۔قافلے والے یہاں پڑاؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔ سیدہ ہاجرہ فرماتی ہیں: ’’اس وادی میں کہیں بھی خیمہ زن ہو جاؤ، مگر یاد رہے کہ پانی پر حق میرا ہے‘‘۔ اس وادی میں آبادکاری کا یہ اولین معاہدہ ہے جو نہایت پرامن ماحول میں طے پاتا ہے۔ قافلہ وادی میں آن اترتا ہے خیمے لگنے لگتے ہیں، کچھ عورتیں سیدہ کے ارد گرد جمع ہو جاتی ہیں۔ خاموش سرسراتی وادی میں جانوروں، گھنٹیوں اور انسانوں کی آوازیں کھنکنے لگتی ہیں۔ امن کے شہر مکہ کی بنیاد رکھی جا چکی ہے۔
وقت گزرتا رہا، سیدنا اسماعیل علیہ السلام شیرخواری سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی کی طرف گامزن ہوئے۔ تو چاہِ زمزم کے والی قرار پائے۔ اس وقت کسے معلوم تھا کہ اسی کنویں کے آس پاس وہ مقدس گھر ہے جسے اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے کسی نامعلوم زمانے میں تعمیر کیا تھا۔ عرشِ عظیم پر واقع بیت المعمور کی عین سیدھ میں زمین پر یہ گھر، جو ریت کی دبیز تہوں میں چھپ چکا تھا، جنات اور انسانوں کے لئے قبلہ تھا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم کی تعمیل میں پھر اس وادئ ایمن میں اترے۔ بیٹے کو ساتھ لیا اور اللہ کی طرف سے بتائی گئی نشانیوں کی روشنی میں ریت کی تہوں سے اس گھر کی بنیادیں تلاش کر لیں۔ باپ بیٹے نے مل کر معمار کا کام کیا ، پتھروں اور گارے سے جیسا اللہ نے چاہا ویسا ایک مکعب نما گھر تعمیر کیا اور جنت سے آیا ہوا ایک سفید چمکدار پتھر
اس کی متعینہ جگہ پر دیوار میں نصب کر دیا۔سیدنا اسماعیل علیہ السلام اس گھر کے متولی مقرر ہوئے۔ یہی بیت اللہ ہے یعنی اللہ کا گھر، مسجدِ حرام، خانۂ کعبہ۔ بیت اللہ کی تعمیر مکمل ہو چکی تو خالقِ ارض و سما کی طرف سے حکم آیا کہ اس گھر کو لوگوں کے لئے صاف ستھرا کریں اور لوگوں کو پکاریں کہ آؤ یہ تمہارے معبودِ حقیقی کا گھر ہے، یہاں طواف کرو، عبادت کرو، اعتکاف کرو اور اللہ کی طرف سے برکات سے نوازے جاؤ گے۔ باپ بیٹے نے دعا کی:
الٰہ آخر، یہاں بسا ایک شہر ایسا
کہ جس کے باسی
ترے جہاں کی ہر ایک نعمت سے بہرہ ور ہوں
اللہ کی حکمتوں کے قربان جائیے، وہ چشمہ جو ایک شیر خوار بچے کے قدموں سے پھوٹا تھا، وہ اس اکیلے بچے اور اس کی ماں کے لئے نہیں تھا۔ وہ وہاں آ کر آباد ہو جانے والوں کے لئے بھی تھا اور اللہ کے گھر کی زیارت اور حج کے لئے اور وقوف و اعتکاف کرنے والوں کے لئے بھی ہے، اور اسے تا قیامت جاری رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے پانی میں کچھ ایسے خواص رکھ دئے ہیں جو دنیا جہان کے کسی اور پانی میں نہیں۔
***
چوتھا منظر
دِن ابھی پوری طرح روشن نہیں ہوا کہ کوہِ صفا کی چوٹی سے ایک توانا آواز ابھرتی ہے: ’’یاصباحاہا! یاصباحاہا‘‘۔ عرب میں یہ پکار تب سنائی دیا کرتی تھی جب کسی پر کوئی مصیبت ٹوٹ پڑی ہو، کوئی رہزنی کا نشانہ بنا ہو، کوئی حملہ آور ہو رہا ہو، یا کہیں آگ لگ گئی ہو۔
لوگ باگ اپنے کام وام چھوڑ کر دوڑے کہ دیکھیں کون پکار رہا ہے اور ہوا کیا ہے۔ کسی نے دور سے دیکھ کر پہچان لیا اور پکارا: ’’یہ تو ابو قاسم ہے! ضرور کوئی بڑی بات ہو گئی ہے ورنہ وہ لوگوں کو یوں نہ بلاتا‘‘۔ لوگ جمع ہوئے پوچھا: ’’اے عبدالمطلب کے بیٹے، کیا ہوا ہے؟‘‘
’’سنو! اگر میں تم سے کہوں کہ اِس چھوٹی سی پہاڑی کے اُس پارایک لشکرِ جرار ہے جو مکہ والوں پر ابھی ٹوٹ پڑے گا، تو کیا تم یقین کر لو گے‘‘۔
’’ہاں، ہاں! کیوں نہیں؟ کہ تم نے کبھی کوئی غیرذمہ دارانہ بات نہیں کی۔‘‘
’’میں نے تم میں چالیس برس گزارے ہیں۔ تم لوگوں نے مجھے کیسا پایا‘‘۔
’’اے ابو قاسم! تم ایک شریف خاندان کے شریف بیٹے ہو۔ ہم نے تمہیں ہمیں سچا اور دیانت دار پایا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ تم کوئی الٹی سیدھی بات نہیں کرو گے بلکہ وہی کہو گے جو حق ہے۔‘‘
’’تو پھر سنو! تم سب کو ایک دن مرنا ہے اور اپنے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ جان لو کہ اللہ ہی ساری کائنات کا خالق اور مالک ہے اور کوئی اس کی پہنچ سے باہر نہیں۔ اس نے مجھ پر اپنا فرشتہ اتارا ہے اور مجھے تمہاری طرف اپنا نبی بنا کر بھیجا ہے۔ اس سے پہلے کہ موت تمہاری زبان اور حلقوم کو بند کر دے لا الٰہ الا اللہ کہہ دو، عرب و عجم تمہارے قدموں میں ہوں گے۔‘‘
ایک چمکتے دمکتے چہرے والا عمر رسیدہ مگر توانا شخص گرج کر بولا: ’’تجھ پر بتوں کی مار پڑے، اتنی سی بات کے لئے تو نے لوگوں کو دوڑایا!‘‘ وہ شخص اس دمکتے چہرے کی وجہ سے ابولہب کے لقب سے جانا جاتا تھا۔ اللہ کریم نے اس کے بڑبولے پن اور ظلم و تعدی کا جواب رہتی دنیا تک کے لوگوں کی زبان پر جاری کر دیا۔ ’’ابولہب تباہ و برباد ہو گیا۔ اس کا مال اور اس کی کمائی کچھ بھی اس کے کام نہ آیا۔ وہ بہت جلد لپٹیں مارتی آگ میں ڈالا جائے گا۔ اور اس کی عورت، خار دار ایندھن ڈھونے والی۔ اس کی گردن میں کھجور کی رسی!‘‘۔ دنیا نے دیکھا کہ ابولہب اس کے کم و بیش آٹھ برس بعد تک زندہ رہا اور اس نے مسلمانوں کا جینا حرام کئے رکھا۔ اللہ کی قدرت دیکھئے ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اللہ کا قرآن اس کے بارے میں کیا کہتا ہے، وہ ایمان کی نعمت سے محروم رہا۔ اس کی اواخر عمر کی بیماری اور موت، اس کی بیوی کا انجام سب کے سامنے ہیں۔
***
پانچواں منظر
اللہ کے گھر کے گرد لپٹی کالی چادر کے سائے میں ساتویں چکر کی تکمیل پر خود کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ چاند آدھے سے پورا یا پھر پورے سے آدھا ہو گیا ہے۔ تریسٹھ برس کی عمر، دل کا مرض، پرہیزی کھانا وہ بھی تھوڑا سا اور دوائیاں ڈھیر ساری؛ اس پر زمین کے پورے سات چکر! ریٹائرمنٹ کے بعد عام طور پر اور زوجہ مرحومہ کی رحلت کے بعد خاص طور پر اپنے کمرے تک محدود ہو جانے والے شخص نے گھٹنوں اور پاؤں کو اتنی مشقت میں کب ڈالا ہو گا۔ شاید اسی لئے بدنی محسوسات الگ ہو گئے تھے یا پھر اس کالی چادر میں جذب ہو گئے تھے۔ طبیعت ہلکی ہو گئی تھی، تھکن کا احساس ہی نہیں ہو رہا تھا۔ مسعٰی میں داخلے کے راستے کے قریب مقامِ ابراہیم کے خاصا پیچھے تھوڑی سی جگہ خالی دیکھی۔ جسم تو وہاں بیٹھ گیا مگر دل و دماغ دوسرے ہزاروں لوگوں کے ساتھ محوِ طواف رہے۔ پورے اطمینان سے دو رکعت نماز ادا کی تو وہ جو تھوڑا سا اضمحلال تھا وہ بھی جاتا رہا۔
خروج کے راستے پر آبِ زمزم کے نلکے لگے تھے۔ ریاض شاہد کا کہا یاد آیا: ’’خوب جی بھر کر پانی پیجئے گا‘‘۔ کوشش بھی کی مگر چائے کی پیالی جتنے پلاسٹک کے دو کپ ہی پی سکا تھا کہ نظر سعی میں تیز تیز قدم اٹھاتے لوگوں پر پڑی۔ یہی تو وہ راستہ ہے
جس پر سیدہ ہاجرہ پانی کی تلاش میں دوڑتی رہی تھیں! پھر حلق نے پانی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مگر اس خوف سے کہ کفرانِ نعمت نہ ہو جائے پیالی بھر اور پی لیا۔
تیر کا نشان سامنے اترتے راستے پر دائیں طرف کو اشارہ کر رہا تھا کہ صفا اِدھر ہے۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔جبل الصفا کے پاس پہنچا تو پہاڑی کا کچھ حصہ شیشے کی دیوار کے اس پاردکھائی دے رہا تھا۔ سرمئی رنگ کے دیکھنے میں ملائم مگر ناہموار پتھر اپنی سختی کا اظہار
بھی کر رہے تھے۔ سعی کے سارے راستے پر فرش باندھ دیا گیاہے، اوپر طویل چھت ہے جو دھوپ کو کسی سمت سے بھی آنے نہیں دیتی۔ اس پر بس نہیں مسعٰی پر جگہ جگہ ٹھنڈی ہوا کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ اور آبِ زمزم سے بھرے کولر رکھ دئے گئے ہیں۔
تب تو ایسا نہیں تھا! جب ایک نبی کی بیوی، ایک نبی کی ماں ایک پہاڑ اپنی پیاس کا، اور ایک شیرخوار بچے کی پیاس کا، اٹھائے تپتی جھلستی ریت پر، جلتے سورج کے عین نیچے کبھی ادھر بھاگتی تھیں کبھی ادھر۔ اس کیفیت کا تو ادراک بھی ممکن نہیں تھا!وہ وقت کیسا ہو گا جب سورج عین سروں کے اوپر دھرا ہوگا! بھائی بھائی سے، دوست دوست سے اور بیٹا باپ سے بھاگے گا، ماں اولاد سے بھاگے گی! دل گویا دمدمہ بن گیا اور سینے کی دیوار گرنے لگی۔
خانہ کعبہ کی طرف منہ کیا تو ہاتھ از خود اٹھ گئے اور آرزوئیں، خدشات، امیدیں، دعائیں سب کچھ اشکوں کی صورت بہنے لگا، قدم اٹھنے لگے۔ راستے میں ایک مقام پر سبز روشنیاں نصب کر دی گئیں ہیں۔ بتایا گیا کہ اس حصے میں تیز چلنا ہے۔ بات عین سمجھ میں آتی ہے۔ یہاں سے ننھے اسماعیل کا خیمہ نشیب میں تھا اور دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ماں کی آنکھوں سے دیکھئے تو ایسے میں قدموں کی رفتار تیز ہو جانا عین فطری بات ہے۔ جی میں آتی ہو گی کہ بچے کوبھی ایک نظر دیکھ لوں، پانی کی تلاش بدن کواور بھی دھکیل دیتی ہو گی۔ زمزم کا منبع یہیں کہیں ہے! مگر دکھائی نہیں دیتا کہ دونوں طرف سنگی دیواریں ایستادہ ہیں۔ میری رفتار کبھی تیز ہو جاتی ہے کبھی مدھم؛ خیالات اور محسوسات کے مدوجذر کا اثر قدموں پر بھی تو پڑتا ہے! میں مروہ تک پہنچ جاتا ہوں، اس کا بھی کچھ حصہ دکھائی دے رہا ہے اور اس کے سامنے بھی شیشے کی دیوار اٹھا دی گئی ہے۔ پہاڑی پر چڑھنے کے تصور ہی سے ہانپنے لگتا ہوں، رکتا ہوں دعا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اللہ کریما! خود ہی میرے کانپتے الفاظ کو معانی بھی عطا فرما اور قبولیت بھی۔
پھر صفا پر پہنچا تو یوں لگا میں بھی اس ہجوم میں شامل ہوں جو ’’یاصباحاہا، یاصباحاہا‘‘ کی پکار پر جمع ہوا تھا۔ ایک عجیب سا خیال ذہن میں کوندا۔ اس سے پہلے کہ موت تمہاری زبان اور حلقوم کو بند کر دے لا الٰہ الا اللہ کہہ دو، عرب و عجم تمہارے قدموں میں ہوں گے۔‘‘ اللہ کا شکر ہے یہاں کوئی ابولہب موجود نہیں۔ یہاں تو سارے لا الٰہ الا اللہ کے داعی ہیں! تو پھر؟ وہ عرب و عجم ہمارے قدموں میں کیوں نہیں؟ زبان بھی چل رہی ہے! پر کہیں کچھ خرابی ہے ضرور! کہیں حلقوم تو بند نہیں ہو گئے؟ کہ لاالٰہ الا اللہ زبان پر ہی رک گیا ہے، سینوں میں نہیں اتر پاتا! گڑبڑ یقیناً ہے! خرابی موجود ہے! یا ایھا الذین آمَنوا آمِنوا۔ اپنے ایمان کو تازہ کرنا ہو گا کہ یہ سعی ’’سعیِ مشکور‘‘ بن سکے۔
میری دو بیٹیاں ایک بیٹا اور ایک داماد میرے ساتھ تھے۔ سوچا میں تو بوڑھا ہو گیا، جوڑوں میں سختی آ گئی ہے یہ سارے جوان ہیں، یہ زیادہ تیز چل سکتے ہیں، میری وجہ سے سست رفتاری میں پڑ جائیں گے۔ باہم مشورہ ہوا کہ لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے رہیں گے اور میں اپنے طور پر سعی کروں گا۔ سعی مکمل کر کے وہ اس جگہ رک جائیں گے جہاں سے مطاف کو راستہ جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اپنے ہی بچوں سے الگ ہو جانے کے پیچھے اور کیا چیز کار فرما تھی۔ طواف کے ساتھ چکر، یہاں سات دوڑیں، آسمان سات، زمین کے سات پرت، ہفتے کے دن سات! چاند کے دن اٹھائیس، اہلِ بشارت کے میزبان ستر! یا اللہ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا! تیری حکمت ہے تو ہی جانے مجھے تو اتنا پتہ ہے کہ مجھے اس راستے پر مقدور بھر دوڑنا ہے جس پر سیدہ دوڑی تھیں۔ سات دوڑیں پوری ہو گئیں! زَم! زَم! انعام مل چکا! وہ بھی ایسا کہ جس سے سارا جہان فیض یاب ہو رہا ہے، ہوتا رہے گا۔ تا وقتیکہ اس زمین پر سورج آخری بار طلوع ہو جائے۔
مقررہ مقام پر پہنچا تو بچے وہاں نہیں تھے۔ گویا میں پہلے پہنچ گیا؟ یا حیرت ان بوڑھی ہڈیوں میں تو اتنی جان نہیں کہ جوانوں سے تیز دوڑ سکے! یہ کوئی اور قوت رہی ہو گی، کوئی اور جذبہ رہا ہو گا! تھکاوٹ کا احساس تک نہیں تھا۔ جی بھر کر اسماعیل علیہ السلام کے کنویں کا پانی پیا اور وہیں بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر میں بچے بھی آن ملے۔
الحمد للہ! اللہ کریما ہماری اس کمزور سی بینکی ٹیڑھی کوشش کو سعیِ مشکور بنا دے۔
*******
محمد یعقوب آسی ..... سوموار 23 مئی 2016ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں