حضر در سفر
اپنی
نوعیت کا انوکھا سفر ہے یہ! اپنی ذات کی تلاش اور جستجو کا یہ سفر ہوتا ہی تب ہے
جب اللہ کی ذات سے منظوری کا عندیہ مل جاتا ہے۔ کچھ کچھ تو مسافر پر بھی منحصر ہے
کہ وہ اس سفر میں کیا لے کر جاتا ہے اور بہ توفیقِ الٰہی کیا لے کر لوٹتا ہے۔ مکہ
مکرمہ میں عارضی قیام گاہ(ہوٹل) سے اللہ کے گھر تک کا سفر قدموں کی گنتی میں بہت
مناسب تھا۔ اتنا مناسب کہ میرے بوڑھے گھٹنے میرے جسم کو اٹھا کر بہ سہولت پہنچ
جاتے تھے۔ ہاں اس تھوڑے سے فاصلے کے اندر کتنے سفر تھے اور ہر سفر کے اندر پھر
کتنے سفر تھے، اور ہیں؛ ان کی پیمائش کے لئے زمان و مکان کے مروجہ پیمانے نہیں
چلتے۔ وہ عالم ہی الگ ہے! ہر قدم پر یوں لگتا ہے کہ ابھی کوئی کہہ دے گا: ’’الم اقل
لک انک لن تستطیع معی صبرا‘‘!؟ وہاں تو مسئلہ صبر کا درپیش ہوا تھا، وہ بھی اللہ
کے ایک جلیل القدر پیغمبر کو! یہاں تو خبر کا مسئلہ بھی ہے، اور اپنی اوقات کا
بھی۔ جہاں فرشتے بھی یہی عرض کر پاتے ہوں کہ ’’سبحانک لا علم لنا الا ما
علّمتنا‘‘، وہاں میری کیا مجال اور کیا حیثیت!۔
بہ
این ہمہ امن والے شہر میں امن والے گھر کی طرف بے سروسامانی کا یہ سفر دو سفید
چادروں میں شروع ہوا۔ گلی سے سڑک تک چند قدم چلا تو مکہ ٹاور (المعروف ’’بڑی
گھڑی‘‘) کی سوئیاں اتنی سامنے اور واضح تھیں کہ ان کا خاموش پیغام سنا جا سکتا
تھا: ’’بہت دیر سے آئے ہو! پھر بھی چلو، آ تو گئے ہو! کوشش کرو بامراد واپس جاؤ!
یہاں سے نامراد جاتا ہی وہ ہے جو کوئی مراد رکھتا ہی نہ ہو۔ ادب ملحوظ رہے! تم
حدودِ حرم میں بھی ہو اور احرام میں بھی!‘‘ ایسے میں گردن کے تناؤ کا کیا کام؟
نظریں جھک گئیں اور پتہ نہیں اندر کہاں سے دو چشمے جاری ہو گئے۔ لبیک! اللھم لبیک!
چلتے
چلتے کبوتروں کی مانوس سی غٹرغوں کا ہلکا سا شور سنائی دیا تو نگاہیں اٹھا کر
دیکھا۔ اس جگہ کو عوامی زبان میں ’’کبوتروں والا پل‘‘ کہا جاتا ہے۔ سڑک پر اتنے
لوگ تھے کہ سر ہی سر دکھائی دے رہے تھے! سارے پیدل! سواریاں اگر کسی کی تھیں بھی
تو سڑک کے ساتھ ساتھ ایک طرف کھڑی تھیں۔ اس پورے منظر میں سب سے منفرد چیز سرمئی
دھاریوں والے وہ کبوتر تھے جو بلامبالغہ ہزاروں کی تعداد میں سڑک کے بیچوں بیچ
موجود تھے۔ ان میں سے کچھ ٹھمک ٹھمک چل پھر رہے تھے، کچھ سڑک پر ڈھیروں کے حساب سے
پڑا دانا چگنے میں مگن تھے۔ ان معصوم پرندوں کو سڑک کر چلتے ہزاروں انسانوں کی بھی
کوئی پروا نہیں تھی۔ کبھی ایک آدھ کبوتر اپنی جگہ سے اٹھتا، چند فٹ کی مختصر سی
اڑان بھرتا اور دوسرے کبوتروں میں شامل ہو جاتا۔ میں نے ایک بلی بھی دیکھی جو مزے
سے کبوتروں کے بیچ ٹہل رہی تھی اور لگتا نہیں تھا کہ وہ شکار کے لئے آئی ہو گی۔
’’قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طورِ سینا کی اور امن والے اس شہر کی!‘‘ خوف تو
دور کی بات وہاں تو کھٹکا تک نہیں تھا۔
مجھے
اپنے کانوں کے غاروں کی گہرائی سے بھی آگے ایک مہربان اور پریقین آواز کی گونج سنائی
دی: ’’لا تحزن! ان اللہ معنا!‘‘۔ اللہ اکبر! کائنات کا بہترین انسان ، اسوۂ حسنہ
کی سند کا حامل، اللہ کا محبوب ترین بندہ؛ اور اس کے ساتھ ’’دو میں سے دوسرا‘‘ جو
یثرب کو مدینہ بنانے کے سفرپر نکلے تھے! ان کے لئے مکڑی نے غار کے منہ پر جالا
ایسے تن دیا تھا، جیسے عرصے سے کوئی اس غار کے دہانے تک نہ پہنچا ہو۔ کبوتر نے
گھونسلہ بنا لیا تھا، اور اتنے سکون سے بیٹھا تھا کہ اس نے ان بہترین انسانوں کا
پیچھا کرنے والوں کو بھی نظر انداز کر دیا، اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔ تو یہ کبوتر
کسی سے کیوں خائف ہوں گے بھلا! لبیک اللھم لبیک! لبیک لا شریک لک لبیک! ان الحمد
والنعمۃ لک و الملک! لا شریک لک۔
اللہ
کے گھر کی طرف سفر، اللہ کے گھر میں حاضری کے اس کو سفر کہئے گا، یا حضر کہئے گا؟
یہ حضر بھی ہے سفر بھی ہے اور یہی سفر میں حضر بھی ہے۔ لبیک! اللھم لبیک! میں حاضر
ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہوں۔ یہ قلب و روح کے ساتھ اپنے معبودِ حقیقی کے دربار
میں حاضری کا سفر ہے۔ اللہ کریم جس کی حاضری کو شرفِ قبولیت بخش دے۔ یا اللہ میں
حاضر ہوں، مجھے قبول فرما لے اور مجھ سے کوئی ایسا کام لے لے، جو تجھے محبوب ہو،
کہ کل بھی میری حاضری لگ جائے۔ آمین!
محمد
یعقوب آسیؔ
جمعہ
المبارک 19؍ فروری 2016ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں