جمعرات، 24 مارچ، 2016

اب کیا ہوا؟





اب کیا ہوا؟


لالہ مصری خان پر حسبِ معمول بے زاری طاری تھی۔ ہم نے رسماً پوچھ لیا کہ اب کیا ہوا۔ وہ تو گویا بھرے بیٹھے تھے۔ کہنے لگے: "یارا، یہ لوگ غریب محنت کشوں کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کو ذرا خیال نہیں آتا! یارا، تم کسی غریب کی مدد نہیں کر سکتے تو اس کا مذاق تو نہ اڑاؤ!" ہمارے استفسار پر لالہ مصری خان نے یہ چھوٹا سا واقعہ سنایا۔
۔۔۔
ایک پٹھان پھیری والا آتا ہے یہاں، سائیکل پر پھرا کرتا ہے۔ سوکھی روٹیاں، ٹین ڈبہ، کچرا خریدتا ہے۔ چارے چوکر والے کو اور کباڑ والےکو بیچ کر اپنی دیہاڑی کماتا ہے جیسی بھی ہو۔ ابھی کچھ دیر پہلے نوری صاحب نے اس سے پوچھا "سوکھی روٹیاں کس بھاؤ لیتے ہو، اور بیچتے کس بھاؤ ہو"۔
جواب ملا: "بیس روپے کلو لیتا ہوں اور چارے چوکر والے کو پچیس روپے کلو بیچتا ہوں"۔
نوری صاحب نے فتویٰ دیا: "پانچ روپے کلو پیچھے منافع! پانچ کلو کے پیچھے پچیس روپے کماتے ہو۔ یہ تو سود ہے بچے، اتنا منافع!؟"
پھیری والے نے خاصی برداشت کا مظاہرہ کیا: "آپ کیا سمجھتے ہو بابا، پچیس روپے بہت ہے؟"
"ہاں تو، بہت ہے نا! اور ٹین ڈبے سے بھی کچھ تو کماتے ہو گے" یہ کہا اور نوری صاحب گھر کے اندر چلے گئے۔ پھیری والے نے اپنے ساری بیزاری ہم پر انڈیل دی۔ وہ کہہ رہا تھا۔ "اس بابے کو دیکھو! میں گلی گلی پھرتا ہوں، سوکھی روٹیاں، ٹین ڈبا اکٹھا کرتا ہوں۔ سارا دن جان مارتا ہوں۔ اور یہ لوگ! نہ لینا نہ دینا باتیں بناتے ہیں، مجھے کہتا ہے یہ سود ہے"۔ وہ اور بھی بہت کچھ کہتا رہا۔ کسی غریب محنت کش کا مذاق اڑایا جائے گا تو وہ کہے گا ہی۔
ہم نے اس سے کہا: "بات سنو بچے! تم لوگ جو ہو نا، گلی گلی پھر کر رزق ڈھونڈنے والے، تمہیں دل بڑا رکھنا چاہئے۔ یہ باتیں بنانے والے لوگ چھوٹے دل والے ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں کی پروا نہ کیا کرو"۔ اس نے سلام کیا اور سائیکل پر سوار ہو گیا۔
۔۔۔
لالہ مصری خان واقعہ سنا چکے تو ہمیں محسوس ہوا کہ ساری بے زاری ہم پر سوار ہو گئی ہے۔ لالہ ہماری طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے پوچھ رہے ہوں: اب کیا ہوا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدرِ احمر کے قلم سے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں