بدھ، 20 فروری، 2019

جناب مشتاق عاجزؔ کی مختصر ترین خود نوشت




جنابِ مشتاق عاجزؔ کا مکتوب بنام محمد یعقوب آسیؔ
نوشتہ غیر مؤرخہ ۔۔ موصول: 19 فروری 2019ء


اس مکتوب کو جناب مشتاق عاجزؔ کی مختصر ترین خود نوشت قرار دیا جا سکتا ہے


۔1۔
          میرے اجداد موضع سیدن (علاقہ چھچھ) کے رہنے والے تھے۔ددھیال اعوان تھے اور ننھیال شیخ؛ زمیندار تھے۔اپنی بارانی اور چاہی زمین  میں کھیتی باڑی کرتے تھے۔ میرے دادا کے دو ہی بیٹے تھا۔ چچا جی دادا پردادا کی طرح کاشتکاری ہی کرتے رہے اور ان کے اکلوتے بیٹے بھی مگر میرے والد پولیس کے ملازم تھے۔ نانا کے پانچ بھائی تھے۔ پانچوں نے کاشت کاری کی البتہ ان میں دو اپنی اپنی بیل گاڑی پر مال برداری بھی کرتے رہے جو کشمیرتک مال لے جاتے اور وہاں سے خشک میوہ جات لاتے تھے۔ میرے نانا نے بیل گاڑی کی بجائے ایک لاری خرید لی۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران میں وہ ایک فوجی قافلے کے ساتھ سامانِ حرب (اسلحہ بارود وغیرہ) اور کچھ فوجی لے کر بنوں گئے اور پھر وہیں گے ہو رہے۔
          قیامِ پاکستان کے بعد وہ تا دمِ مرگ وہیں رہے اور اُن کی بس بنوں سے لکی مروت تک چلتی رہی۔ خود بوڑھے ہو گئے تو میرے اکلوتے ماموں بس چلانے لگے۔ اس کے بعد ماموں نے ایک ٹرک بھی لے لیا اور ساری عمر روڈ ٹرانسپورٹ سے ہی وابستہ رہے۔ نانا اوران کے پانچوں بھائی ان پڑھ تھے ماموں بس پانچ جماعتیں ہی پڑھے تھے۔ میرے نانا کی اکلوتی بیٹی،میری والدہ بھی پڑھی لکھی نہ تھیں۔ والد مڈل پاس تھے۔ میرے دو بڑے بھائیوں میں بڑا مڈل تک پڑھا تھا جو پنجابی پولیس سے سب انسپکٹرریٹائر ہوا اور دوسرا پرائمری پاس بھی نہ تھا جو گورنمنٹ کنٹریکٹر تھا۔ دونوں فوت ہو چکے ہیں۔
          میں اپنے خاندان کا کیا، گاؤں کا پہلا گریجوایٹ تھا۔ میری زندگی اپنے گاؤں میں نہیں بلکہ کیمپبل پور میں گزری ہے سو میں نے تعلیم حاصل کی اور سرکاری ملازمت کرتا رہا۔ جبکہ میرے آباء میں کوئی بھی فرد پڑھا لکھا اور تعلیم یافتہ نہ تھا۔ ورثے میں قرطاس و قلم ملا نہ کتاب اور ذوقِ مطالعہ۔

۔2۔
          میری پیدائش 1944ء میں جنڈ نامی قصبے میں ہوئی جہاں میرے والد انچارج پولیس چوکی تھے اور میری والدہ مجھ سے دو سال بڑے بیٹے (جو میری پیدائش سے سال بھر بعد فوت ہو گیا)، میرے دو بڑے بھائیوں اور ایک بہن (جن کی والدہ فوت ہو چکی تھیں) سمیت رہائش پذیر تھیں۔
          جنڈ ایک دیہاتی قصبہ تھا جہاں میری زندگی کا صرف پہلا سال ہی گزرا کہ میری والدہ اپنے پہلے بیٹے کی وفات کے بعد جنڈ چھوڑ کر کیمپبل پور میں آ بسی تھیں، سو میں یہیں سکول میں داخل ہوا جہاں میری تاریخ پیدائش یکم اپریل 1944ء درج کرائی گئی۔ مجھے ایم بی (اے وی) مڈل سکول کیمپبل پور (موجودہ اٹک) میں داخل کرایا گیا تھا اور میں نے اسی سکول سے مڈل سٹینڈرڈ امتحان پاس کیا تھا۔ اس کے بعد، میں گورنمنٹ ہائی سکول کیمپبل پور (موجودہ گورنمنٹ پائلٹ ہائر سیکنڈری سکول، اٹک) میں داخل ہوا اور یہیں سے 1960ء میں میٹرک کیا۔

۔3۔
          شاعری مزاج میں شامل تھی۔ جس کا علم مجھے اس وقت ہوا جب میں گراموفون پر اور سینما ہاؤس میں سنے گیتوں کی دھن پر نیا مکھڑا لکھ کر سنی ہوئی دھن پر گاتااور محسوس کرتا بلکہ جان لیتا تھا کہ مطلوبہ دھن میں گایا ہوا میرا اپنا مکھڑا سنے ہوئے مکھڑے کے عین مطابق ہے۔ حادثے (جن کی طرف آپ کا اشارہ ہے) کسی ایسے شخص کو شاعر تو نہیں بنا سکتے جسے یہ ہنر ودیعت نہ ہوا ہو۔ جسے شعر کی سطر (مصرعے) اور نثر کی سطر (جملے) میں واضح فرق کا ادراک نہ ہو اور جس کا مزاج شعر کے لئے موزں نہ ہو۔ ہاں، ایسے حادثے شاعر کے جذبات، محسوسات اور مزاج کو ضرور بدلتے ہیں جس کے نتیجے میں اس کی شاعری کے موضوعات مضامین اور انداز و اسلوب میں تغیر رونما ہوتا ہے۔ ایسے حادثات میرے اندر چھپے شاعر پر بھی اثر انداز ہوئے ہیں مگر مجھے شاعر بنانے میں ان حادثات کا کوئی کردار نہیں۔ البتہ انہوں نے میری شاعری کو نئے زاویوں سے آشنا کر کے اس میں نکھار اور وقار ضرور پیدا کیا ہے۔
          بزرگوں میں کوئی بھی صاحبِ قلم اور شاعر یا نثّار نہ تھا کہ کسی سے اکتسابِ فیض کرتا۔ فلمی گیتوں، گائی ہوئی غزلوں اور تائب رضوی (مرحوم) اور ان کے ہم عصر اور ہم نشین بزرگ اور سینئر اساتذہ کی صحبت اور قرب سے ضرور فیض یاب ہوا اور ان بزرگوں میںتائب مرحوم کے علاوہ سعداللہ کلیم، جعفر ملک، اعجاز سلیم، حیدر واسطی اور شاہد پانی پتی (مرحومین) شامل تھے۔

۔4۔
          ایف اے اور بی اے گورنمنٹ ڈگری کالج، کیمپبل پور (موجودہ گورنمنٹ بوائز پوسٹ گریجوایٹ کالج اٹک) سے کیا۔ بی ایڈ گورنمنٹ سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے، ایم اے اردو (پرائیویٹ) پنجاب یونیورسٹی لاہور سے؛ اور ایم ایڈ (سیکنڈری ایجوکیشن) آئی ای آر (انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن ایند ریسرچ یعنی ادارۂ تعلیم و تحقیق) لاہور سے کیا۔

۔5۔
          ملازمت کا آغازبطور ہیڈماسٹر گورنمنٹ مڈل سکول جَبّی کَسراں (تحصیل فرح جنگ ضلع کیمپبل پور) سے یکم نومبر 1966ء کو کیا۔ 1972ء سے 1978ء تک ہائی مدارس میں سینئر انگلش ٹیچر (ایس ای ٹی) سیکنڈری سکول ٹیچر (ایس ایس ٹی) رہا۔ 1979ء سے 1987ء تک اے ڈی آئی ایس (اسسٹنٹ ڈسٹرکت انسپکٹر آف سکولز) اور اے ای او (اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر) رہا۔ 1988ء میں میں ہیڈماسٹر ہائی سکول، 1989ء تا 1993ء ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر اور 1994 تا 10۔ فروری 1998ء سینئر ہیڈماسٹر (یہ پوسٹ کا نام ہے) رہا؛ اور 53 سال، 10 ماہ، 9 دن کی عمر میں بوجہ عارضہ قلب (ماہرینِ امراضِ قلب کے فیصلے کے مطابق) ریٹائرمنٹ لے لی۔

۔6۔
          شاعری کے علاوہ ۔۔ اردو میں تین افسانے کہانیاں، ایک انشائیہ، ایک اخباری کالم، چند شخصی خاکے، ایک مجموعہ مکتوبات اور درجن بھر شعری مجموعوں کے دیباچے لکھے اور اپنی یادداشتوںپر مشتمل اپنی سوانح لکھی (جو ابھی غیر مطبوعہ ہے)۔ پنجابی میں صرف ایک افسانہ کہانی؛ چھاچھی میں چار کہانیاں افسانےاور اپنے شعری مجموعے ”پھلاہی“کا پیش لفظ لکھا۔

۔7۔
مطبوعہ کتب ۔۔۔٭  آئینے سے باہر (شاعری) 2000ء،٭  الاپ (غزلیں) 2008ء، ٭ سمپورن (دوہے) 2011ء، ٭  پھلاہی (پنجابی چھاچھی شاعری) 2016ء، ٭ زندگی گیت ہے (گیت) 2018ء۔
زیرِ ترتیب کتب ۔۔۔ ٭  عجزِ بیان (مجموعۂ نعت)، ٭ دھجیاں گریباں کی (خود نوشت سوانح)۔

۔8۔
          کہاں تصوف اور کہاں یہ ناچیز! دل کا گداز اللہ کی دین ہے۔ رحم دلی اسی رقیق القلبی کی عطا ہے۔ خدمتِ خلق اور مخلوقِ خدا سے محبت نے عشق مجازی کا روپ دھارا جس نے عجز اورایثار کی نعمت عطا کی۔ اگر میرے خیالات اور رولوں سے تصوف کی مہک آتی ہے تو بس رحم دلی، خدمت، محبت، عجز اور ایثار ہی کو منازلِ سلوک جان لیجئے۔ عشق ایثار اور ترکِ طلب ہے اور ترکِ طلب استغناء۔ بس یہی ہے رویہ جس نے مجھ ایسے ناکارہ کو آپ کی نظر میں صوفی بنا دیا، ورنہ مجھے صوفی ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں۔

۔9۔
          سُر اور لَے کا ادراک کسبی نہیں وہبی ہے۔ گلوکاری اسی ادراک کا عملی مظاہرہ تھا۔ جو سُر سماعت کو بھایا وہ اپنی تال اور لَے سمیت اندر سما گیا اور میں نے گائک کی نقل کر کے گا دیا۔ بس اتنی سی ہے میری گلوکاری۔ جس شخص کو سُر کا اِدراک ہے وہ سنی ہوئی دھن کو گلے سےنکال سکتا ہے اور جو شخص کوئی سُر یا دھن گلے سے نکال کستا ہے وہ اس سُر کو کسی بھی ساز سے برآمد کر سکتا ہے، استاد سے سیکھ کر آسانی اور جلدی سے اور بغیر استاد کے محنت اور ریاضت سے ذرا دیر اور مشکل سے۔ میں صرف بینجو بجاتا رہا اور محض اپنے شعور، شوق اور محنت اور ریاض سے۔ کوئی استاد میسر آتا تو اس سے صرف راگ راگنیاں اور گانے یا بجانے کے آداب سیکھتا۔
          سکول ہی میں رنگوں کا مزاج، امتزاج، اور استعمال سیکھ گیا تھا۔ قوتِ متخیلہ کچھ تیز تھی۔ دیکھی ہوئی شے کے خیالوں میں محفوظ نقش کاغذ پر اتار لیتا تھا۔ سکول کے ڈرائنگ ماسٹر رانا محمد اقبال (مرحوم) نے توازن، تناسب، ترتیب اور تنظیم کا شعور اور علم دے دیا تھا۔ سکول کی زندگی میں بھی اور اس کے بعد شوقیہ تصاویر بناتے بناتے کچھ مہارت حاصل کر لی۔ کچھ مصوروں کی صحبت بھی میسر آئی، کچھ بڑے مصوروں کے شاہکار دیکھ کر بھی سیکھا اور اللہ کے فضل و کرم سے فن میں جدت، ندرت اور صفائی (کسی حد تک) آ ہی گئی۔
          شاعری کا شعور بھی وہبی تھا۔ در اصل طبع موزوں تھی تمام فنونِ لطیفہ کے لئے۔ جمال آشنائی، جمال پسندی فطرت میں شامل تھی اور جمال میری نظر میں حسنِ توازن، حسنِ تناسب، حسنِ ترتیب اور حسنِ تنظیم (ڈسپلن) کا مظہر ہے۔ سو، جمال افزائی اور جمال آفرینی مجھے لازم بھی تھی اور سہل بھی۔ شاعری بھی میں نے فلمی گیتوں سے سیکھی۔ جیسے گانے کے سر نقل کرتا تھا ویسے ہی گیتوں کے مکھڑے اور بول بھی اپنے الفاظ میں نقل کر لیتا تھا۔ اوزان اور بحور کا جب پتہ تھا، نہ اب ہے۔ تھاپ پر پرکھ لیتا تھا۔ اب بھی کہیں اپنےیا کسی کے مصرعے پر کوئی شک ہو تو اپنے طریقے سے پرکھ لیتا ہوں۔
          موسیقی، گلوکاری، مصوّری اور شاعری سیکھنے کے لئے کسی استاد کی باقاعدہ شاگردی نہیں کی لیکن تمام موسیقاروں، گلوکاروں، سارے مصوّروں اور سبھی سینیئر جونیئرشعراء کو اپنا استاد مانتا ہوں کہ سبھی سےکچھ نہ کچھ اکتسابِ فیض کیا اور فیض پایا ہے۔

۔10۔
          بچپن لڑکپن (زمانہ طالب علمی) میں بھگت کبیر داس کے دو تین دوہے پڑھے تھے۔ شاعری شعار کی تو ٹی وی پر مشاعرے سنتے سنتے جمیل الدین عالی کے دوہے ان کے مخصوس ترنم میں سنے۔ ان کے دوہوں کے ہلکے پھلکے مضامین بھی اچھے لگے اور ان کا دوہوں کے لئے مخصوص ترنم بھی بھایا۔ لیکن دوہا کہنے کا شوق نہ چرایا۔ کوئی دس بار برس پہلے (جب میں ریٹائرمنٹ کے بعد بطور شاعر متعارف ہو چکا تھا) حضرو کے خاور چودھری نے اپنے دوہے سنائےاور کتاب چھاپنے کا ارادہ ظاہر کیا تو کچھ دن بعد دوہا کہنے کو جی چاہا مگر عملاً کوئی دوہا نہ لکھا۔ اور جب لکھنا چاہا تو محسوس کیا کہ خاور اور کبیر داس کے دوہوں کی بحر ایک ہی ہے مگر عالی صاحب کے دوہوں کی بحر ان سے مختلف ہے۔ مجھے عالی صاحب کی بحر زیاد مترنم اور رواں لگی۔
          پھر ایک صبح مجھے اپنے اور خاور کے مشترک دوست ملک محمد اعظم نے فون کر کے بتایا نہ اس نے خواب میں دیکھا میری تیسری کتاب شائع ہوئی ہے جس پر یہ شعر (اب شعر کیا لکھنا) لکھاہے۔ میں نے وہ دو مصرعےملک اعظم خالد کے حکم کی تعمیل میں کاغذ پر لکھ لئے اور محسوس کیا کہ اس شعر کی زبان اور بحر عالی صاحب کے دوہوں سے مماثل ہے۔ شاید اسی شام میں نے اس بحر میں کوئی تیس پینتیس متفرق دوہے لکھ لئے۔ لگا جیسے میں دوہا لکھ سکتا ہوں۔
          تیسری کتاب کا خواب اعظم خالدؔ نے دیکھا تھا اور دوہا میں لکھ سکتا تھا۔ سوچا ایک نئی صنف میں ایک نئی کتاب لائی جا سکتی ہے۔ سو، میرے اندر کے معلم اور مدرس نے مضامین مہیا کئے، ہندی فلموں کے مکالموں اور گیتوں نے زبان و الفاظ عنایت کئے اور مشقِ سخن نے عالیؔ جی کی بحر میں دوہا کہنے کی جرأت دی اور میں ایک کم مقبول صنف میں نئی کتاب لے آیا۔ پذیرائی بھی ہوئی اور اپنی شعر گوئی پر اعتماد بھی بحال ہوا۔ اس سارے عمل کے بعد میں نے جناب ڈاکٹر طاہر سعید، جناب امین خیال کے دوہے بھی پڑھے اور خواجہ دل محمد دلؔ کےبھی۔ پھر ایک روز ڈاکٹرسلیم اختر صاحب کا مضمون ”دوہا نگر“ پڑھا تو دوہے کی جانکاری ہوئی۔ پرتو روہیلہ صاحب کے دوہے بھی پڑھے۔ قتیل شفائی اور کشور ناہید کے بھی بلکہ میرپور خاص کے جناب تاج قائم خانی کے بھی اور خود پر اعتماد بحال ہوا (مگر مزید دوہا کہنے کی ہمت نہ ہوئی)۔
          گیت نگاری میں نے محض یہ پڑھ کر اور جان کر کی کہ ”دوہار اور گیت اس دھرتی کی اپنی اصناف ہیں“۔ طبع موزوں تھی، میدان وسیع تھا۔ جانتا تھا کہ گیت نسوانی جذبات کے بے ساختہ اظہار ہے۔ سینکڑوں گیت یاد تھے۔ بڑی آسانی سے تین ماہ میں 80 گیت لکھ لئے اور پنجابی کے شعری مجموعہ ”پھلاہی“ کی اشاعت اور پذیرائی کے بعد جلد ہی گیت کا مجموعہ لے آیا۔ یوں جانئے اپنی دھرتی کی دو شعری اصناف لکھ کر اور پنجابی چھاچھی زبان میں شاعری کا مجموعہ مرتب کر کے دھرتی اور پنجابی زبان کا حق اور اپنافرض ادا کیا ہے۔

۔11۔
          دوستوں کا کہنا ہے کہ میں غزل کا شاعر ہوں جب کہ میں اپنے آپ کو محدود کرنے کے حق میں نہیں، یہ اور بات کہ میں نے نظم پر توجہ نہیں دی اور غزل میرے زمانے سے بہت آگےجا چکی ہے۔

۔12۔
          قریبی دوستوں میں سے تو صرف دو چار ہی صاحبِ قلم ہیں۔ باقی سارے کے سارے صاحبِ دل اور محبت کرنے والے دوست ہیں جن سے نصف صدی پر محیط بے بدل دوستی ہے۔ جو چندرخصت ہو چکے ہیں ان میں صرف دو ہی شاعر تھے مگر ان کی شاعری کتابی صورت میں سامنے نہ آئی۔ باقی مرحومین میں سے دو کو موسیقی سے شغف تھا، گانے بجانے کے رسیا تھے صاحبِ قلم نہ تھے۔ کئی اہلِ قلم خواتین و حضرات سے بڑے مضبوط اور بے لوث محبت کے رشتے ہیں مگر انہیں ”قریبی دوست“ کیسےکہوں کہ ان میں سےکچھ عزیز برخوردار ہیں، کچھ محسن ہیں۔ کچھ سے احترام کا رشتہ ہے۔ ان کے نام گنوائے دیتا ہوں۔
۔۔۔ محمد اعظم خالدؔ: ”فرصتِ نگاہ“ (سفر نامہ)۔
۔۔۔ ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ
۔۔۔ شہاب صفدر
٭٭٭٭٭





محمد یعقوب آسیؔ ۔۔ 20۔فروری 2019ء




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں