انسان کی ذاتی، نجی، اجتماعی، ریاستی
(الغرض ساری دنیاوی) زندگی کی اخلاقیات اور ضابطے ضروریات، سماجیات، عبادات، حقوق
اور فرائض، اخلاص؛ احتساب اور حساب، حیات بعد الموت، ایمانیات؛ اموال و املاک؛
اکتساب و اِنفاق؛ حقوق اللہ، حقوق العباد؛ ملل و امم کی تاریخ اور عبرت، علمِ
نافع، کائنات کا مطالعہ اور اس سے فائدہ اٹھانا؛ یہ سب کچھ ”دین“ میں شامل ہے۔ اور
دین کا منبع قرآن و حدیث ہے۔
جو قوم، طبقہ،معاشرہ، ملت دین پر جتنی زیادہ عمدگی سے چلے گی، اتنا فائدہ پائے گی۔ اِعراض کرنے والی قوم کو اپنا کیا بھگتنا پڑتا ہے، قانونِ فطرت یہی ہے۔ مسلمان قوم کے زوال کا سبب دین نہیں، دین سے اِعراض ہے۔ پہلی امتوں کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا ہے۔
جو قوم، طبقہ،معاشرہ، ملت دین پر جتنی زیادہ عمدگی سے چلے گی، اتنا فائدہ پائے گی۔ اِعراض کرنے والی قوم کو اپنا کیا بھگتنا پڑتا ہے، قانونِ فطرت یہی ہے۔ مسلمان قوم کے زوال کا سبب دین نہیں، دین سے اِعراض ہے۔ پہلی امتوں کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا ہے۔
جس کا جی چاہے مان لے، جس کا جی نہ چاہے نہ مانے۔ اللہ
کریم نے انسان کو اختیار بھی دیا ہے اور وہ اس کا حساب بھی رکھتا ہے۔ آخرت تو ہے
ہی، اللہ کریم کبھی اسی دنیا میں انسان کے کئے کے اثرات بھی دکھا دیتا ہے۔ یاد
رکھنے کی بات یہ ہے کہ اللہ کریم نے ایمان لانے والوں اور نہ لانے والوں میں جو
خطِ امتیاز کھینچا ہے، اس کو پہلے ماننا ہو گا، بقیہ امور کی بنیاد یہی ہے: اسلام
یا انکار (بیچ کا کوئی راستہ نہیں)! اسلام
کے معانی اور مطالب بہت معروف ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ اِس کو ٹھیک طور پر
سمجھا اور اپنایا جائے۔
مومِن اور منکِر ؛ عمل دونوں کا اسی دنیا میں ہے۔ اور اجر؟ کافر کا
اجر، اگر کوئی ہے تو اللہ ظلم نہیں کرتا، اس کا اجر اسے اِسی دنیا میں دے دیتا ہے
کہ اُس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں؛ ایمان نہ لانے والا معاملہ اللہ کریم خود
نمٹائے گا۔ مومِن کا اجر، کچھ یہاں ہے کچھ وہاں ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہاں کب
کیا عطا کرنا ہے، اور کیا چیز وہاں کے لئے رکھ لینی ہے۔
قرآن سے لَو لگانی ہو گی۔ اس کے بغیر نہ ہدایت مل سکتی ہے نہ فلاح ۔ وماعلینا
الالبلاغ۔
محمد یعقوب آسیؔ منگل 13
نومبر 2018ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں