’’اختر
کو جانتے ہو؟‘‘
’’ہاں،
جانتا ہوں۔ کیوں؟‘‘
’’کتنا جانتے ہو؟‘‘
’’تقریباً آدھی عمر سے۔
اور وہ بھی مجھے جانتا ہے۔‘‘
’’کتنا جانتا ہے؟‘‘
’’میں تمہارے سوال کو
نہیں سمجھ پایا۔‘‘
’’یہ تو مجھے پتہ ہے،
وہ تمہیں کیا، تمہاری نفسیات تک کو جانتا ہے۔ ہے نا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اچھا تمہاری کتابیں
شائع ہوئے کتنا عرصہ ہوا؟‘‘
’’یہی کوئی سوا سال،
ڈیڑھ سال۔‘‘
’’کتابیں تم نے اختر کو
دیں؟ تینوں؟‘‘
’’کمال ہے! یہ کوئی
پوچھنے کی بات ہے؟ تمہیں کوئی شک ہے؟‘‘
’’نہیں، مجھے یقین
ہے۔‘‘
’’تو، پوچھتے کیوں
ہو؟‘‘
’’اُس کی رائے کیا ہے،
تمہاری شاعری کے بارے میں؟‘‘
’’اچھی رائے ہے۔‘‘
’’تمہیں کس نے بتایا کہ
اچھی رائے ہے؟ اُس کا کوئی مضمون؟‘‘
’’کتاب میں شامل ہے۔‘‘
’’وہ تو مجھے بھی پتہ
ہے۔ اُس کے بعد؟‘‘
’’اُس کے بعد؟ نہیں کوئی
خاص نہیں۔‘‘
’’تمہاری اُس سے بات
ہوئی؟‘‘
’’ہاں، ہوئی۔‘‘
’’تو پھر، یوں کرو کہ
... اپنی کتابیں ردی میں بیچ دو۔‘‘
’’کیا مطلب ہے
تمہارا؟‘‘
’’صاف ظاہر ہے، وہ ہیں
ہی اس قابل۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’جو تین کتابیں مل کر
اختر سے ایک مضمون نہ لکھوا سکیں ، انہیں ردی نہ کہوں تو کیا کہوں؟‘‘
’’دیکھو، دیکھو، تم
زیادتی کر رہے ہو۔‘‘
’’میں زیادتی نہیں کر
رہا۔ ہر کوئی یہی کہے گا!‘‘
’’کہے گا، تو میں کیا
کروں؟‘‘
’’کچھ نہیں، اپنی
کتابیں ردی میں بیچ دو، خس کم جہاں پاک۔‘‘
*****
تحریر: بسمل بزمی
(المعروف: استاد چٹکی) ... منگل 23؍ اگست 2016ء
واہ کیا خوب انداز سے تنقید فرمائی کچھ رویوں پر
جواب دیںحذف کریں