سوال:
کیا پنجابی کے الفاظ اردو میں استعمال
نہیں کیے جا سکتے؟ اور اگر کیے جا سکتے ہیں تو رد و قبول کا کوئی متفقہ اصول ہے یا
نہیں؟
جواب:
۔1۔ ایک اردو ہی کی بات نہیں، دنیا کی ہر زبان نے دوسری زبانوں سے
الفاظ، محاورے، مصادر، ضرب الامثال، اور کسی نہ کسی حد تک قواعد بھی لئے اور قبول
کیے ہیں۔ چیمبرز انگلش ڈکشنری 1979 ایڈیشن میں 90 کے قریب ان زبانوں کی فہرست شامل
ہے جن کے الفاظ اور تراکیب انگریزی میں آئے اور کہیں بعینہٖ اور کہیں کچھ رد و بدل
کے ساتھ رائج ہو گئے۔ اردو کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ
اس میں 17 زبانوں کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ظاہر ہے پنجابی بھی شامل ہے۔
۔2۔ جہاں رسم الخط مواقف ہو، مثلاً اردو کے ساتھ پشتو، پنجابی،
سندھی، فارسی، عربی، کھوار، وغیرہ وہاں راجح یہ ہے کہ الفاظ کی ساخت ممکنہ حد تک
ان کی اپنی زبان کے مطابق رکھی جائے۔ جہاں رسم الخط بدل جاتا ہے، مثلاً اردو کے
مقابل جینی، جاپانی، انگریزی، فرانسیسی، تامل، ملیالم، بنگالی، سنسکرت، دیگر
بھاشائیں اور پراکرتیں؛ وہاں الفاظ کے ہجوں کا تعین ان کی صوتیت سے مطابقت کی
بنیاد پر ہوتا ہے۔
۔3۔ اردو اور پنجابی دونوں میں جملے کی ساخت (ترتیبِ نحوی اور
محاورات) کا مطالعہ کیجئے۔ بات پوری طرح کھل جاتی ہے۔ اردو نے جملے کی ساخت پنجابی
سے لی ہے، یعنی پنجابی اردو کی ماں ہے۔ پنجابی کی ایک خاص بات اس کے دو رسم الخط
ہیں۔ شاہ مکھی (فارسی سے ماخوذ) اور گورمکھی (دیوناگری سے ماخوذ)۔ ایک اندازے کے
مطابق اس وقت (پنجابی بولنے والوں میں سے) 10 کروڑ سے زیادہ لوگ شاہ مکھی سے اور
تقریباً 3 کروڑ لوگ گورمکھی سے مانوس ہیں۔ اردو کو فارسی رسم الخط ملنا بالکل فطری
بات ہے۔
۔4۔ پنجابی کے اپنے کتنے ہی لہجے ہیں جنہیں اصطلاح کی زبان میں
"بولیاں" کہا جاتا ہے۔ کہ جناب ہر 12 کوس پر "بولی" بدل جاتی
ہے۔ یوں پنجابی کی مختلف بولیوں سے وابستہ لوگوں کو ٹھیک ٹھیک اندازہ بھی نہیں
ہوتا کہ اردو اسماء و افعال میں پنجابی سے کتنے آئے ہیں۔ جملے کی ساخت دیکھیں تو
وہ ساری پنجابی ہے۔ املاء و ہجاء میں بھی کوئی بہت نمایاں فرق نہیں ہے۔ عمومی مثال
کے طور پر: کا، کے، کی ۔ دا، دے، دی ؛ جاتا، جاندا؛ کھاتا، کھاندا؛ سوتا، سوندا؛
وغیرہ کو باہم بدل دیں، اردو سے پنجابی
اور پنجابی سے اردو بن جاتی ہے۔
۔5۔ پنجابی کے مزید الفاظ جو میں یا آپ سمجھتے ہیں کہ اردو میں
رائج نہیں ہیں، وہ بھی کہیں نہ کہیں مل سکتے ہیں (لغاتیں حفظ کرنے کی چیز نہیں،
حوالے کی چیز ہیں)۔ تہذیبی اثرات کے تحت ماں اور بیٹی کے مزاج میں جو تھوڑا سا فرق
واقع ہوا ہے، اس کا اکرام کرتے ہوئے آپ اردو میں پنجابی اور دیگر مقامی زبانوں کے
الفاظ بھی لا سکتے ہیں (سلیقہ مندی آپ کا ذمہ ہے!)۔ اس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ
اردو میں ترقی ہو گی۔
۔6۔ اصول ۔ زبان میں ملائمت اور جمالیات کی سطح جس قدر بلند ہو گی،
قاری اور سامع کو اسی قدر متوجہ اور مائل کرے گی۔ زبانوں کے ملنے میں بھی یہی
ملائمت بنیاد ہونی چاہئے کہ ایک خوش ذوق اور بالغ النظر شخص کو اس میں اجنبیت
محسوس نہ ہو۔ ایک مہذب اور تعلیم یافتہ شخص کو اپنے شائستہ مزاج، خوش مذاق دوستوں
میں بیٹھ کیسی زبان بولنی چاہئے۔ یہی اصول ہے، یہی انشا پردازی ہے، یہی زبان کا
حسن ہے۔
٭٭٭٭٭
محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا)
پاکستان
اتوار 27 اگست 2017ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں