نہیں سمجھے؟ حالانکہ یہ
ایسی مشکل بات بھی نہیں! ’’پرائی شادی میں عبدل‘‘ کا تو پتہ ہے نا، یہ وہی ہے۔ پر،
ایک ذرا فرق کے ساتھ کہ یہاں مذکور عبدل یا جُمّے کی بجائے ہمارے اپنے لاڈلے بسمل
بزمی المعروف استاد چُٹکی ہیں۔ ان کی بپتا انہی کی زبانی سنتے تو اچھا تھا کہ ہم
تو ٹھہرے زبانِ غیر، سو ہم سے شرحِ آرزو کیا ہو گی! تاہم جو کچھ ہمارے پلے پڑا، وہ
عرض کئے دیتے ہیں۔
حضرت ایک بزم میں جا گھسے
جہاں کچھ لوگ ’’ادبی‘‘ گفتگو کر رہے تھے۔ عظیم حلقی نام کے ایک شاعر کی غزل نما
چیز واہ واہ سبحان اللہ کی موجوں پر اچھل رہی تھی۔ ایک علامہ صاحب فرما رہے تھے کہ
عظیم حلقی نے اردو اور فارسی کو ’’ذم‘‘ کر کے ایک نایاب فن پارہ تخلیق کیا ہے۔
ہم اس ’’ذم‘‘ کی املاء تک
کیوں کر پہنچ گئے؟ وہ یوں کہ استاد چٹکی سدا کے نچلے، اپنی سیمابی عادت کے ہاتھوں
مجبور، پوچھ بیٹھے کہ اس کی املاء کیا ہے۔ علامہ صاحب اپنی جگہ سے اٹھے اور تختہء
سپید پر سرخ مارکر سے لفظ ’’ذم‘‘ لکھ دیا۔ فی زمانہ تختہ بھی سفید ہو چکا ہے؛ سنتے
ہیں کہ اس سے پہلے بھی سرخ نہیں بلکہ سیاہ ہوا کرتا تھا۔ لہو بھی تو یہی کرتا ہے۔
جب تک زندہ رگوں میں رواں رہتا ہے، سرخ رہتا ہے اور جب جم جائے یا بہہ نکلے تو
سیاہ ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔ سفید تو آج کل رگوں میں رہتے ہوئے بھی ہو جاتا ہے۔
زمانے والوں کا شکوہ کوئی کیا کرے گا، بھلا۔
حضرت کو وہاں صرف ایک
خاتون دکھائی دیں۔ اُن کے پیچھے جا بیٹھے، ہولے سے کچھ کہا اور ایک شذرہ لکھ کراُن
کو تھما دیا، لکھا تھا:’’ ان صاحب کو ذم اور ضم کے معانی سمجھا دیجئے گا‘‘۔ ان
محترمہ نے خاصے ڈرے ہوئے لہجے میں علامہ صاحب سے عرض کیا:’’ دیکھ لیجئے گا، شاید
لکھنے میں انگلیاں بھٹک گئی ہوں، ویسے آپ غلط کہہ نہیں سکتے‘‘۔ استاد کو یقین کی
حد تک شک ہے کہ خود محترمہ بھی اس فرق کو اہمیت نہیں دیتیں، کہ کیا ہے، ایک املاء
کی بات ہی تو ہے۔
برا ہو حضرت کی تُوتری کا کہ بولنے سے پھر نہیں رہے۔ عظیم حلقی صاحب کو مشورہ مفت عنایت کر ڈالا کہ فرصت ہو تو امیر خسرو کو پڑھ لیں۔ بس جناب، پھر کیا تھا! حلقی صاحب پورا حلق پھاڑ کر گویا ہوئے: ’’پڑھ لیں گے، جب ضرورت ہو گی‘‘۔ استاد پھر بھی باز نہیں آئے، امیر خسرو کی ’’بتیاں‘‘ پڑھ کر سنا دی۔ تاہم خیر گزری کہ فوراً وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے نہیں تو عظیم حلقی صاحب کے عظیم حلق میں کچا ہی اتر گئے ہوتے۔ کہہ رہے تھے کہ: ’’ اول تو اس بزم میں جاؤں گا ہی نہیں اور گیا بھی تو منہ پر پٹی باندھ کر بیٹھوں گا‘‘۔
ہم نے عرض کیا: ’’حضرت آپ
کو منہ کی پٹی کے علاوہ ہاتھوں کے لئے رسی کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے کہ آپ ٹھہرے
بلند بانگ! بندھے منہ کو کھلے ہاتھوں سے کھول لینا کیا مشکل ہے! بہتر ہے کہ ان کو
سلوا لیجئے، سرجری ہم کئے دیتے ہیں‘‘۔ حضرت کی نظریں آدم خور ہو رہی تھیں، تاہم
حیرت کا مقام تھا کہ بولے کچھ نہیں۔ ہم نے اپنی جسارت جاری رکھی، اور عرض کیا:
’’ویسے آپ یہ تو فرمائیے کہ آپ وہاں گئے کس حیثیت میں تھے؟‘‘ ۔ زخم خوردہ لہجے میں
بولے: ’’جُمّا جنج نال‘‘۔ اُن کی آنکھوں میں نمی اترتی دیکھ کر ہمیں احساس ہوا کہ
یہ سوال ہی بہت تلخ تھا۔ اُن کی توتری نہیں رکتی تو اپنی کہاں رکتی ہے۔ بات تو ایک
ہی ہے!۔
٭٭٭٭٭
۔۔۔۔ بدرِ احمر ... سوموار ۱۷؍ اپریل ۲۰۱۷ء
بہت خوب.....عمدہ
جواب دیںحذف کریںخوب ۔۔۔ کمال است
جواب دیںحذف کریں