ابوجبل (پہاڑ کا باپ) کی کنیت اس پر بہر لحاظ
صادق آتی تھی اور اس نے تب اختیار کی تھی جو وہ باپ کے مرنے پر قبیلے کا سردار بنا
تھا۔ اس کے باپ کا ادھیڑ عمر خادم ابوالخیر اس کا موروثی خادم بنا۔ اس کی عادت
تھی، کوئی بھی بات ہو جاتی تو کہتا: "اس میں بھی بھلائی ہے"۔ ابو جبل ہر
ہفتے کی شام اپنی بستی سے دور نکل جاتا اور عام طور پر اگلے دن واپس آتا۔ ابوالخیر اس کے
ساتھ ہوتا۔
وہ بھی ہفتے کا دن تھا۔ ابوجبل پھل کاٹتے ہوئے اپنی انگلی کاٹ
بیٹھا۔ خادم اپنی عادت کے مطابق بولا: "اس میں بھی بھلائی ہے"۔ ابوجبل
کو اس بات پر بہت غصہ آیا کہ میری انگلی کٹنے میں کون سی بھلائی ہے۔ اس نے خادم کو
ہاتھ پاؤں باندھ کر ایک کونے میں ڈآل دیا اور اس پر ایک نگران مقرر کر دیا۔
ابوالخیر نے کہا: "اس میں بھی بھلائی ہے"۔ ابوجبل نے ایک متکبرانہ قہقہہ
لگایا اور خاموش ہو رہا۔
شام ہوئی، ابوالخیر جو صحرائی راستوں کا شناسا تھا، وہ تو بندھا
پڑا تھا۔ ابوجبل نے گھوڑا نکالا اور تنہا نکل کھڑا ہوا۔ رات دودھیا چاندنی میں
نہائی ہوئی تھی۔ اسی میں مگن، وہ راستے سے بھٹک گیا۔ اسے خبر ہی تب ہوئی جب وہ دس
بارہ گھڑسواروں کے نرغے میں آ چکا تھا۔ اس نے لڑنا بے کار جانا اور خود کو
گھڑسواروں کے حوالے کر دیا۔ وہ اسے خاصا دور ایک خیمہ بستی میں لے گئے اور اسے
رسیوں میں جکڑ کر سردار کے سامنے پیش کر دیا۔ یہ کوئی صحرا نورد قبیلہ تھا، ان کی
رسم تھی کہ پورے چاند کی رات اگر ہفتے اور اتوار کے بیچ پڑتی تو وہ کسی اجنبی کو
پکڑ لاتے اور اس کی گردن کے خون سے اپنے دیوتا کی مورتی کو تر کرتے۔ ابو جبل پر
ایک نگران مقرر کر دیا گیا۔ وہ انتہائی مایوسی کے عالم میں چاند کو گھورنے لگا۔
اسے ابوالخیر کا خیال آیا، کہ وہ یہاں قید میں بھی ہوتا تو کہتا:
اس میں بھی بھلائی ہے۔ احمق کہیں کا۔ ایک شخص نگران کے پاس آیا تو نگران نے کہا:
اس کی ایک انگلی تازہ کٹی ہوئی ہے۔ لگتا ہے آج کل میں کٹی ہے۔ آنے والا تیزی واپس
پلٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ابوجبل کو چھوڑا جا چکا تھا۔ وہ لوگ کسی زخمی یا جسمانی
نقص والے شخص کو اپنے دیوتا کی بھینٹ نہیں چڑھاتے تھے۔
ابوجبل وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور رات پر ادھر ادھر بھٹکتا ہوا دن
چڑھے اپنی بستی میں لوٹ آیا۔ کچھ ہی دیر میں سردار کی گرفتاری اور رہائی کی بات
بستی کا ہر فرد جان چکا تھا۔ سردار نے ابوالخیر سے کہا: چلو، مان لیا کہ میری
انگلی کٹنے میں میری بھلائی تھی، مگر تمہارے یہاں بندھے ہونے میں کس کی بھلائی
ہوئی۔ خادم نے جواب دیا: میری۔ میں یہاں نہ پڑا ہوتا تو تمہارے ساتھ ہوتا، تمہاری
انگلی کٹی ہوئی ہے، وہ لوگ مجھے بھینٹ چڑھا دیتے۔ ابوجبل زچ ہو کر اپنے خادم کو
گھورنے لگا۔ خادم بولا: "اس میں بھی بھلائی ہے"۔ ابوجبل کو ہنسی آ گئی
اور اس نے خادم کی بندشیں کھولنے کا حکم دے دیا۔
ع: اس میں بھی کوئی بات بھلائی کی ہے مضمر
۔ (عربی سے ماخوذ) ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں