دور کی کوڑی
شریعت کے جو ہم نے پیمان توڑے
وہ لے جا کے سب اہلِ مغرب نے جوڑے
اس سے پہلے کہ بات دور جا نکلے اور یار لوگ ہمیں ’’دقیانوسی، رجعت پسند‘‘ وغیرہ کے القابات سے نوازیں، لالہ مصری خان اور بلال میاں کی گفتگو کا کچھ مذکور ہو جائے۔ بلال میاں کے من میں سمائی کہ اپنے نظامِ تعلیم کو درست کیا جائے۔ بات بھی کچھ ایسی بری نہیں بلکہ بڑی بات ہے کہ قسمتِ نوعِ بشر ہمارے سرکاری اور نجی اسکولوں کی پیشانیوں پر لکھے ایک شعر ہی سے تو تبدیل ہوتی ہے۔ ہمارے خان لالہ کو تو وہ شعر بھی ایک آنکھ نہیں بھایا اور انہوں نے اک مقدس فرض کی تکمیل کے ڈانڈے تذلیل سے جا ملائے۔ مصری خانی متن سے گریز اولیٰ! ہم نہیں چاہتے کہ سکولوں کی طرح ہمارے مہربانوں کی پیشانیوں پر بھی اژدہے لوٹتے دکھائی دینے لگیں۔
بلال میاں کی جو شامت آئی تو براہِ راست خان لالہ سے کہہ بیٹھے: ’’میں چاہتا ہوں کہ ہمارے نظامِ تعلیم کو مغربی نظام سے ہم آہنگ کیا جائے، وہ لوگ ہم سے آگے نکلے ہیں تو اس کی وجہ تعلیم کا نظام ہے، اور ان کے بچے ابتدا ہی سے انگریزی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں‘‘۔ لاٹ صاحب کے ہندوستانی نظامِ تعلیم کی بات چھیڑنا دوستوں کو بے فائدہ رنجیدہ کرنے کا باعث ہو سکتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ لاٹ صاحب یہاں بس کلرک اور غلام پیدا کرنا چاہ رہے تھے۔ وہ تو جو چاہ رہے تھے کر گزرے مگر ہمارے پالیسی سازوں کے سر تال کو نہ جانے کیا ہوا کہ ستر سال ہونے کو آئے اس لے میں کوئی تبدیلی نہیں کر پائے۔ بلکہ معاملہ تیز ترک گام زن والا ہے کہ انگریزی کے غم میں ہم ان سے زیادہ ہلکان ہو رہے ہیں۔
بلال میاں کی حیرت کی انتہا نہیں رہی ہو گی جب لالہ مصری خان نے کہا: ’’کیوں نہیں! ضرور ہونا چاہئے بلکہ خشتِ اول سے ہونا چاہئے‘‘۔ ہاں انہوں نے بعد میں جو کچھ کہا اس سے بلال میاں پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ بڑے بوڑھوں سے سنا کہ ایک وزیرِ با تدبیر ایسے بھی ہو گزرے ہیں جو جملہ دستاویزات پر بکمالِ شفقت انگوٹھا ثبت فرمایا کرتے تھے۔ ویسے بھی، دایاں ہو یا بایاں، انگوٹھا تو انگوٹھا ہوتا ہے؛ اور ہوتا بھی کسی طاقتور کا ہے، کسی ماڑے موٹے کا تو ٹینٹوا ہی ہو سکتا ہے۔ یہ تو ہمیں نہیں معلوم کہ انگوٹھا لگاتے یا دباتے وقت ان کے سامنے ٹینٹوا کس کا ہوتا ہو گا۔
لالہ مصری خان کا اگلا ارشاد تھا: ’’بھائی! پہلی کچی سے بچوں کو سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتو میں پڑھائیے اور چوتھی پانچویں سے اردو متعارف کرائیے، پھر آگے اردو میں چلئے اور اعلیٰ جماعتوں میں انگریزی بھی پڑھائیے، عربی بھی‘‘۔ بلال میاں کے ذہن میں تو وہی بات تھی انگریزی میں ابتدائی تعلیم دینے کی، کہ ترقی کا جن انگریزی میں مقید ہے۔اور ان کا مؤقف یہ بھی تھا کہ اردو بانجھ ہے، مقامی زبانیں ان پڑھ ہونے کی دلیل ہیں؛ وغیرہ۔ گھڑوں پانی والی بات لالہ نے یہ کہی: ’’میاں صاحب زادے! فرانس والے اپنے چھوٹے بچوں کو فرانسیسی پڑھاتے ہیں، جرمنی والے جرمن پڑھاتے ہیں، روس اور چین والے علاقائی زبانوں میں پڑھاتے ہیں؛ تمہیں اپنی مقامی اور قومی زبان سے کد کیوں ہے! مغرب والوں کا طریقہ بھی تو یہی ہے‘‘۔ خان لالہ نے اتنا سا تو نہیں کہا ہو گا نا، بہت کچھ کہا ہو گا جس کا ہمیں کچھ کچھ اندازہ پہلے بھی تھا، اور کچھ ان کے چہرے پر بحال ہوتے تناؤ سے بھی ہو رہا تھا۔
ہماری سوچوں میں ایک طوفان برپا تھا مگر ہم لالہ مصری خان سے کچھ بھی نہیں کہہ سکے۔ سو، اب خودکلامیوں پر گزران ہے اور خود سے پوچھا کرتے ہیں کہ: (۱) ہمارے طبقہ اشرافیہ میں مغرب کتنا ہے اور مشرق کتنا ہے، (۲) جب وہ بہم ہوتے ہیں تو کس زبان میں بات کرتے ہیں، (۳) ترقی سے ہماری کیا مراد ہے اور کیا ہونی چاہئے، (۴) علم کس چڑیا کا نام ہے؛ وغیرہ وغیرہ۔
*******
محمد یعقوب آسیؔ ۔۔۔ سوموار: ۴؍ جنوری ۲۰۱۶ء
ایک مخصوص طرز فکر پر بہت عمدہ اور لطیف طنز
جواب دیںحذف کریںشکریہ منیر انور صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریں