اتوار، 22 نومبر، 2015

ہمزہ کیسے لکھیں اور کہاں لکھیں



ہمزہ کیسے لکھیں اور کہاں لکھیں
جناب ذیشان نصر کے ایک سوال کے جواب میں


اصول و قواعد کی بحث تو خیر خاصی طویل ہے، میں نے اس پر کچھ لکھا بھی ہے۔ کسی وقت میرے بلاگ کا چکر لگائیے۔ ایک مضمون تو ہے ’’ہمزاتِ ہمزہ‘‘ اس کے علاوہ ایک مقام پر میں نے ’’یائے مستور‘‘ پر بھی بحث کی ہے، اور ہمزہ مستور پر بھی (اس وقت یاد نہیں کہاں کی ہے)۔

فی الحال الفاظ زیرِ بحث کے بارے میں عرض کئے دیتا ہوں۔ شمع یہ سودائئِ دل سوزئِ پروانہ ہے (چھوٹے ہمزہ کے ساتھ، زیر چھوٹے ہمزہ پر واقع ہو گی)۔ یہاں خط کی شکل درست نہیں بن رہی۔ ترتیبِ حروف یہ ہے: سو دا ئیءِ دل سوزیءِ پروانہ (ی کے اوپر چھوٹا ہمزہ اور اس ہمزہ پر زیر)۔واضح رہے کہ اصولی طور پر زیرِ اضافت یہاں ی پر واقع ہوتی ہے، یعنی: ’’سودائیِ دل سوزیِ پروانہ‘‘ یہ املاء درست ہے۔ تاہم ایک روایت چلی آتی ہے کہ ایسی ی پر جہاں زیر واقع ہو ہمزہ اضافی لکھتے ہیں اور زیر کی علامت ہمزہ پر منتقل ہو جاتی ہے، سو یہاں چھوٹا ہمزہ بناتے ہیں۔ سودائئِ دل سوزئِ پروانہ (سودائیِ دل سوزیِ پروانہ) فرق ان میں صرف خطاطی کا ہے، اور کوئی فرق نہیں۔

ایسا ہی معاملہ ’’بے تابئِ الفت‘‘ کا ہے۔ ترتیب: بے تابیءِ الفت ( ترجیحاً چھوٹا ہمزہ زیر کے ساتھ) اور اگر پڑھنے میں دقت کا خدشہ ہو تو بڑا ہمزہ ی کے بعد لکھ کر اس پر زیر لگائیں گے۔ یا پھر ہمزہ لکھیں گے ہی نہیں: بے تابیِ الفت (تاہم ایسے میں غلط گمان یہ ممکن ہے کہ لکھی ہوئی زیر حرف ماقبل ی کی ہے، اس لئے ہمزہ لکھنا اولیٰ۔ زندگئِ جاوداں کا بھی یہی معاملہ ہے۔

مجموعی طور پر میں سفارش کروں گا کہ آپ ایسی ی پر چھوٹا ہمزہ لگائیں اور زیر کی علامت نہ لکھیں، پڑھنے والا از خود سمجھ جائے گا کہ یہاں ہمزہ پر زیر واقع ہو رہا ہے: سودائئ دل سوزئ پروانہ (سودائی کی شکل خطاطی میں ٹھیک کر لیجئے: سودائئ ) ، زندگئ جاوداں، بے تابئ الفت، گرمئ محفل، شوخئ تحریر؛ وغیرہ۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ایسا ہمزہ ی کے بعد لکھا جائے گا: گرمئی محفل یا شوخئی تحریر لکھنا قطعی طور پر غلط ہے۔ بقیہ الفاظ کو اسی پر قیاس کر لیں۔  ایک بات یاد رہے کہ الف مقصورہ (لیلیٰ، دعویٰ) اور الف کو اس حوالے سے مماثل قیاس کریں گے اور ترکیب کی صورت میں املاء یوں ہو گی: لیلائے شب، دعوائے حق، دنیائے دنی، بالائے لب، نوائے سروش؛ وغیرہ۔

سلسلۂ کوہسار، قصۂ غم، فسانۂ آزاد؛ وغیرہ۔ ان میں ہ کے بعد چھوٹا ہمزہ ہے اور زیر اس ہمزہ پر ہے۔ تاہم جیسے پہلے کہا گیا: ہ، ی پر چھوٹا ہمزہ عام طور پر لکھا ہی تب جاتا ہے جب وہاں زیرِ اضافت یا زیرِ توصیف واقع ہو رہا ہو، لہٰذا زیر کی علامت حذف بھی کر دیں تو پڑھنے میں مسئلہ نہیں بنتا۔ مہدی مجروح دو الگ الگ لفظ ہیں۔ مراد ہے : میر مہدی مجروح  (مرزا غالب کے قریبی ساتھی تھے)... میر مہدی (نام) مجروح (تخلص)... اس پر اضافت نہیں ہے۔ ترکیب کی صورت یہ ہو گی: مہدئ موعود، وادئ فاران، بازئ دِل؛ وغیرہ۔

فارسی اور عربی میں ی کو گول (ی) یا لمبی (ے) کسی بھی طرح لکھ دیں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چھوٹی ی، بڑی ے کا فرق اردو اور پنجابی وغیرہ سے خاص ہے۔ مے (شراب) کو بہت سارے دوست مئے لکھتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ میکدہ، میخانہ وغیرہ سے بھی عیاں ہے کہ ’’مے‘‘ ایک دو حرفی لفظ ہے۔ اس کو مَے لکھیں یا مَی ایک ہی بات ہے، مئے کا کوئی جواز نہیں۔ اسی نہج پر درست املا ہے: مۓ شبانہ، مےءِ شبانہ (رات کی بچی ہوئی شراب)۔ اس کو مئے شبانہ یا مئی شبانہ لکھنا کسی طور بھی درست نہیں۔ ایسا ہی معاملہ شے، طے، کے، قے، درپے (سب یائے لین)؛ کا ہے۔ درست املا: مے، شے، طے، کے (مراد ہے کیخسرو)، قے، درپے؛ مۓ ناب، شۓ نایاب، درپۓ آزار؛ ترکیب میں ہمزہ ایسی ے کے بعد واقع ہوتا ہے، حسبِ خط اس کو چھوٹا ہمزہ لکھیں، بڑا ہمزہ لکھیں وہ ضرورت کی بات ہے۔  مئے، شئے، طئے، کئے، قئے، درپئے؛ وغیرہ لکھنا درست نہیں ہے۔

یائے معروف کے بعد ایسا اضافی ہمزہ واقع  ہونے کی دو مثالوں کے ساتھ ان گزارشات کو سمیٹتے ہیں۔ (1) درست املاء: شومیِ قسمت، شومیٔ قسمت، شومیءِ قسمت ۔۔۔ غلط املاء: شومئی قسمت۔ (2) درست املاء: والیِ شہر، والیٔ شہر، والیءِ شہر ۔۔۔ غلط املاء: والئی شہر۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد یعقوب آسیؔ
ہفتہ ۲۱ نومبر ۲۰۱۵ء

3 تبصرے:

  1. بہت بہت شکریہ استاذِ گرامی آپ نے اس قدر شفقت کے ساتھ مفصل جواب تحریر فرمایا.. جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آداب ۔ یہ آپ کا حق ہے، ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جزاکم اللہ۔

      حذف کریں
  2. شیخِ محترم جزاکم اللہ خیرا

    جواب دیںحذف کریں