اتوار، 20 ستمبر، 2015

چیرہ نگاہی اس کی



چیرہ نگاہی اس کی
یہ مضمون سلمان باسط کی کتاب خاکی خاکے کی تقریبِ پذیرائی (منعقدہ ۷؍ جون ۱۹۹۹ء ) میں پڑھا گیا اور بعد ازاں ماہنامہ کاوش ٹیکسلا (اگست ۱۹۹۹ء) میں شائع ہوا


مزاح لکھنا بلاشبہ ایک مشکل کام ہے اور اس وقت یہ مشکل تر ہو جاتا ہے جب آپ کسی کا شخصی خاکہ لکھ رہے ہوں۔ شخصی حوالے سے لکھی گئی ہلکی پھلکی تحریر  دراصل اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ خاکہ نگار نے ایک بھاری ذمہ داری قبول کی! بات ذرا سی اِدھر سے اُدھر ہو گئی تو ساری چابک دستی جانئے دھری کی دھری رہ گئی اور گناہ لازم ٹھہرا۔ اس طرح سلمان باسط نے اپنے معاصر ادیبوں کے شخصی خاکے لکھنے کا  جو خطرناک کام اپنے ذمہ لیا تھا، وہ اگر بخیر و خوبی انجام کو پہنچا ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ فاضل خاکہ نگار چابک دست ہے، بلکہ کہیں کہیں تو چابک بدست نظر آتا ہے۔

مزاح کے حربوں کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر انور مسعود نے ایک بار کہا تھا کہ ایک حربہ مبالغہ ہے: کہ ایسی چیزوں کو جو اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی ہیں، نمایاں کیا جائے، جیسے کارٹون ہے۔ خاکی خاکے میں شامل مضامین میں سلمان باسط نے برش سے نہیں بلکہ لفظوں سے کارٹون بنائے ہیں اور اس خوبی سے بنائے ہیں کہ جس کا کارٹون  بنایا ہے وہ بھی رنجیدہ نہیں ہوتا بلکہ لطف لیتا ہے۔ بظاہر معمول کی باتوں کو ہمارے فاضل خاکہ نگار کی چیرہ نگاہی نے کیا روپ دیا ہے، ملاحظہ فرمائیے:

* جب وہ بولتا ہے تو صرف وہی بولتا ہے۔ دوسرے تمام لوگ آواز اور عِلم کے آہنگ میں کمزور ساز کی طرح گھٹ کر رہ جاتے ہیں۔ مگر ہوتا یوں ہے کہ ایسے میں وہ بعض اوقات اس ریلوے انجن کی طرح دکھائی دیتا ہے جو بے مقصد ریلوے پٹڑیوں پر اِدھر سے اُدھر شنٹنگ کرتا رہتا ہے اور اس بات سے قطعاً لاتعلق ہوتا ہے کہ پیچھے کم از کم ایک آدھ بوگی ہی لگا لے۔ 
(کالا چٹا پہاڑ: ص ۵۶)

* موصوف اتنی دھیمی آواز میں گفتگو کرتے ہیں کہ ان کے انتہائی قریب  بیٹھے ہوئے شخص کو بھی انہیں سننے کے لئے آلۂ سماعت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ غالباً انہیں صرف بات کرنا مقصود ہوتا ہے، سنانا نہیں۔ 
(بھائی جان: ص ۶۵)

* بات اتنی آہستگی سے کرتا ہے جیسے کوئی راز کہہ رہا ہو چاہے وہ صرف یہی کہنا چاہ رہا ہو کہ وہ سرسید کالج راولپنڈی میں پروفیسر ہے، لیکن لہجے کا دھیماپن اور گفتگو کا ٹھہراؤ اس بات کو بھی سربستہ راز بنا دے گا اور یوں لگے گا جیسے وہ ایٹم بم بنانے کا فارمولا بتا رہا ہے۔ 
(جنابِ عالی: ص ۴۲)

* ۱س کی شخصیت اور گفتگو میں عجیب سا ڈھیلاپن پایا جاتا ہے۔ اس کی گفتگو سے سردیوں کے موسم میں اونگھتی دوپہر کا احساس ہوتا ہے۔ شاید علمِ عروض کا اثر اس کے بات کرنے کے انداز پر بھی پڑا ہے لہٰذا وہ ایک مخصوص بحر میں بات کرتا ہے اور اس کا یہ گفتگو کا انداز اتنا ڈھیلا  ہوتا ہے کہ سننے والے کو جمائیاں آنے لگتی ہیں۔ 
(عروضیا: ص ۱۰۳)

سلمان باسط ایک اچھے شاعر ہیں، اچھے کالم نگار ہیں، ڈرامہ لکھتے بھی ہیں (کرتے بھی ہیں)۔ گویا ادب کی ہر صنف میں بقول اپنے ’’ٹھیک ٹھاک منہ مارتے ہیں‘‘۔ ان ہمہ جہت تجربوں نے ان کے خاکوں کو متنوع بنا دیا ہے۔ ان میں بیک وقت طنز و مزاح بھی ہے، انشاء پردازی بھی اور شاعرانہ اندازِ اظہار بھی۔ انشاء پردازی کی ایک مثال دیکھئے:

* خیر سے اس مرحلے سے گزرے تو اس نومولود کی مناسب دیکھ بھال کے لئے  ذوقؔ ، غالبؔ اور میر انیسؔ کی کلیات نے آیا کے فرائض سنبھال لئے۔ کئی دفعہ آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے دِلّی کے لال قلعے اور کوچہ بَلّی ماراں میں بھی لے جایا گیا۔ ان پیچیدہ دلیلوں جیسی گلیوں سے گزرتے ہوئے کئی بار اس معصوم کی نگاہ رعائتِ لفظی اور مجاز مرسل پر پڑی مگر کم سنی کی وجہ سے آشنائی کے جرم سے باز رہا۔ یہ ننھا جب لڑکپن کی حدود سے گزر رہا تھا تو کئی بار تشبیہات و تراکیب سے آنکھ لڑی،  کلاسیکی ادب کے محمل میں بیٹھی لیلیٰ نے اس پر کئی بار نگاہِ غلط انداز ڈالی۔ عنفوانِ شباب کے تجربوں سے گزر کر جب یہ جوانِ رعنا بازارِ ادب میں نکلا تو اس کی مڈبھیڑ رؤف امیرؔ سے ہو گئی۔ بس پھر کیا تھا! عروض اور تقطیع کی بھٹی نے اس کا رنگ سنولانا شروع کر دیا۔ اساتذہ سے لے کر عہدِ حاضر تک کے شعراء رؤف امیرؔ اور مبارک شاہ کے سامنے دست بستہ کھڑے اصلاح لیتے پائے گئے۔ یہاں تک کہ غالبؔ کا اغلاط نامہ بھی تیار کیا گیا۔ 
(شاہِ جنات: ص ۸۳)

منظر نگاری سے ایک قدم گے جا کر فاضل خاکہ نگار نے منظر آفرینی کے ہنر سے کام لیا ہے۔ ایک مثال دیکھئے:

* کبھی کبھی تو وہ اپنے چہرے مہرے سے ایک بھرے پرے خاندان کی بے بے نظر آتا ہے جو گاؤں کے آبائی مکان کے صحن کے ایک کونے میں بنے ہوئے گرمائی باورچی خانے میں ہنڈیا کے پاس بیٹھ کر آنکھوں سے ممتا کی پھوار برسانے کے ساتھ ساتھ بچوں کو اور ان کے بچوں کو آلو گوشت رکابیوں میں ڈال ڈال کر دینے میں مصروف ہو۔ ہاں البتہ اس کی آنکھوں پر سجی عینک اسے تھوڑی دیر کے لئے دانشوری کا تڑکا لگا دیتی ہے۔ مگر عینک اتارنے کے بعد وہی شیخوپورے کا دیسی محمد منشا نکل آتا ہے جس کی آواز میں گھر کے دودھ سے نکلے ہوئے مکھن کی ملائمت ہے۔ (حسبِ منشا: ص ۹۶)

سلمان باسط کے خاکی خاکوں کی ایک بہت نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ آدمیت احترامِ آدمی ست کے بڑی سختی سے قائل بھی ہیں اور اس پر عامل بھی ہیں۔ اور جہاں رشتوں کی بات ہو وہاں بہت حساس بھی۔ کتاب میں شامل تمام خاکوں میں ’’فردِ خاکہ‘‘ کے لئے صیغہ واحد غائب استعمال کیا گیا ہے مگر عثمان خاور کے خاکے میں (جو فاضل خاکہ نگار کے بڑے بھائی ہیں) یہ صیغہ جمع غائب میں بدل گیا ہے۔ اور، مجھے یقین ہے کہ یہ احترام کے جذبے کا اثر ہے۔ دیگر خاکوں میں بھی یہ احترام پوری طرح رو بہ عمل دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً:

* یہ ٹھیک ہے کہ یعقوب کی قسمت میں آس کے دامن سے لپٹے رہنا ہی لکھا ہے لیکن وہ تو اپنی شخصیت کے حسن کے اعتبار سے یوسف ہے اور ماحول کے اعتبار سے یوسفِ بے کارواں۔ آج میں نے اس کے بے مثال حسن کی ایک جھلک اپنی انگلیاں کاٹ کر آپ کو دکھا دی ہے۔ اب انگلیاں کاٹنے کی باری آپ کی ہے۔ 
(عروضیا: ص ۱۰۴)

میں نے شروع میں کارٹون کی بات کی تھی۔ انور مسعود ہی کی کہی ہوئی ایک بات دہراتا ہوں کہ: شعر وہ ہے جو آپ کو چھیڑ دے، جس کے پیچھے ذہن یوں لپکے  جیسے بچہ تتلی کے پیچھے دوڑتا ہے۔ اس چھیڑ کو مؤثر بنانے کے لئے لازمی ہوتا ہے کہ  بات وقت کے حوالے سے کی جائے۔ اور مثالیں اور واقعات اس دور کے ہوں جس میں بات کی جا رہی ہے۔ یہاں زیرِ نظر کتاب سے کچھ ایسے اقتباسات پیش کروں گا جس میں فاضل خاکہ نگار انشائیے کے انداز میں موضوعات کو چھیڑتے ہوئے چلے جا رہے ہیں۔اور ملکی،  علاقائی اور بین الاقوامی حالات و واقعات کو اپنے خاکوں کے ساتھ منسلک بھی کرتے جاتے ہیں۔ لفظیات اور رعایاتِ لفظی و معنوی کی چاشنی اپنی جگہ اہم ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:

* آج کل کلنٹن تو اس طرح انٹرنیٹ پر چھایا ہوا ہے جس طرح امریکا پوری دنیا پر تسلط جمائے ہوئے ہے لیکن جس طرح امریکا دنیا بھر پر چھائے رہنے کے باوجود بدنام ہے اسی طرح کلنٹن بھی انٹرنیٹ پر ہر وقت موجود رہنے کے باوجود صرف اخلاق باختگی کا پیکر نظر آتا ہے۔ 
(جنابِ عالی: ص ۴۴)

* کسی خاتون کا خاکہ لکھنا اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ ایٹمی دھماکہ کرنا۔ ایٹمی دھماکہ کرنے سے پہلے جس طرح ہزار بار سوچنا پڑتا ہے، چاروں اطراف میں وفود بھیجنے پڑتے ہیں، رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے لے لئے جتن کرنے پڑتے  ہیں اور اس کے بعد جس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس طرح کے تابکاری  اثرات پھیلتے ہیں اور جس طرح تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے اس سے صرف دو شخصیات  واقف ہیں، اول الذکر میاں نواز شریف اور مؤخر الذکر یہ خاکسار۔ 
(آپی دھاپا: ص ۷۵)

* اس دوران آپ اسے سلام کر لیں، گالی دے لیں یا اس کے سامنے سے چپ چاپ گزر جائیں، وہ کسی ردِ عمل کا مظاہرہ نہیں کرے گا کیونکہ وہ اس وقت کسی قسم کا  ردِ عمل ظاہر کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہو گا۔ اور ایسا صرف اس لئے ہے کہ وہ اس  وقت ایسی کیفیت سے گزر رہا ہوتا ہے جس سے صرف ایک ماں، شاعر یا بھینس واقف ہیں۔ یہ  ماں شاعر اور بھینس کی مثلث میں نے ارادتاً بیان کی ہے کیونکہ ایک تو باپ، نثر نگار اور بھینسا بہر حال اس کیفیت سے ناآشنا ہوتے ہیں اور فریقِ ثانی کی مذکورہ کیفیت کے دوران بھی مزے سے ڈکارتے رہتے ہیں، دوسرے بھینس انور مسعود کا محبوب استعارہ ہے۔ 
(مجمع باز: ص۳۵)

* سر تا سر مشکل ہی مشکل، سر بالخصوص مشکل، چہرے پر مشکل سی نیم متشرع داڑھی جو ہر مسلک اور ہر وضع کے لوگوں کو دھوکا دے جاتی ہے۔ شریعت، وضع داری اور دنیا داری کے اصولوں پر مرتّبہ یہ داڑھی اظہارالحق کے چہرے کا پہلا عکس ہے۔  داڑھی کے بعد آنے والی جزئیات اگرچہ زیادہ اسلام پسند نہیں مگر چونکہ ہمارے ہاں اسلام بتدریج نافذ ہو رہا ہے اس لئے پریشانی والی کوئی بات نہیں۔
(اظہار بھی مشکل ہے: ص۲۹)

سلمان باسط نے ہلکے پھلکے انداز میں مختلف شخصیات کا مطالعہ ایک انسان، ایک خاک کے پُتلے کے طور پر کیا ہے اور حتی الوسع فن کو نہیں چھیڑا۔ خاکہ  لکھتے ہوئے بھی وہ متانت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ انہوں نے انشائیہ کے انداز پر لفظیات بھی اپنی تراشی ہیں اور تشبیہات ایسی اختراع کی ہیں کہ وہ جہاں جمالیات کے روائتی تقاضوں کو پورا کرتی ہیں وہیں دورِ حاضر کے ادبی رویّوں کو بھی خوبی سے  اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں، اور سلمان باسط کی جدت طرازی کا مظہر ہیں۔ مثال کے طور پر: سردیوں کی اونگھتی ہوئی دوپہر، دو چار بے ترتیب زلفیں اور شعر پڑھنے کا لچکیلا  انداز، بورژوائی ترقی پسندی، خبردار قسم کی ناک، افسانوی قرضے، غلط العام الفاظ کا دلیرانہ درست استعمال، ایمان زدہ قلوب، شخصیت کا مقدور بھر تأثر، چنی سی انگریزی ... وغیرہ


خاکوں کے عنوانات کی معنویت اور ’’فردِ خاکہ‘‘ کے ساتھ اس کی مناسبت سلمان باسط کی قوّتِ مشاہدہ اور باریک بینی بلکہ چیرہ نگاہی کا بے مثل ثبوت ہیں۔ یہ کتاب چودہ افراد کے مطالعے کا ایسا مجموعہ ہے جو نہ صرف انشاء نگاری کی ایک خوبصورت مثال ہے، بلکہ خاکہ نگاری کی روائت میں ’’اگلا قدم‘‘ کہلانے کی بجا طور پر مستحق ہے۔ 

**********
محمد یعقوب آسیؔ   ۷؍ جون ۱۹۹۹ء 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں