پیر، 22 جون، 2015

۔۔۔۔ اَمبوا لاگا بُور ۔۔۔


اَمبوا لاگا بُور

جناب مشتاق عاجزؔ کی کتاب ’’سمپورن‘‘ کا طالب علمانہ مطالعہ


من کا بالک بھی عجب ضدی بنا ہے۔ کسی نہ کسی بات پہ اکساتا ہی رہتا ہے اور پھر اَڑ جاتا ہے کہ میرا کہا ہو کے رہے! نہیں تو میں رُوٹھا، کہ رُوٹھا۔ ایک گھڑی کہنے لگا: ’سمپورن‘ پر کچھ کہو، کچھ لکھو، کچھ بولو!‘‘۔ لاکھ سمجھایا، کہ: بالکے! یہ بندہ جو خود کو عاجزؔ کہتا ہے، اور دِکھتا بھی ویسا ہے، باتیں بھی ویسی کرتا ہے؛ اس کی بات پہ بات کرنا بہت کٹھن ہے، حرف عاجز ٹھہرتے ہیں۔ سب شبد، سب اکھر، سب پورنے بیچ چوراہے کے چھوڑ کے چل دیں گے اور تو مجھ سے پوچھتا رہ جائے گا کہ اب کدھر کی راہ لینی ہے، اور اِن ادھورے پورنوں کا کرنا کیا ہے!! لیکن یہ اڑیل بالکا نِت کی طرح اپنی کہی پہ اَڑ گیا: ’’تم عاجز آؤ، کچھ بھی کرو، ’سمپورن‘ پر بات کئے بناں نہیں بننے کی!‘‘ سو، ایک جتن کئے لیتے ہیں، کچھ سپھلتا ہو گئی تو واہ وا، نہ بھی ہوئی تو اتنا تو ہو گا، کہ ایک تو اِس بالک سے کہنے جوگے ہو جائیں گے کہ ہم نے تیرا کہا کر دیا۔ دوجا، ’سمپورن‘ کے عاجزؔ کو یہ گلہ تو نہیں ہو گا کہ کچھ کہا نہیں۔ تو، صاحبو! اپنی سی کرتا ہوں؛ بھلی لگے تو اِس فقیر کو سیس دیجو، اور بھلی نہ لگے تو بھی سیس ہی دیجو، اَسیس مت دیجو کہ مجھے اسیس سے بہت ڈر لگتا ہے۔ جھڑک لیجو، میری کہی کو ان کہنی کہہ لیجو، پر اَسیس نہ دیجو!! کہ میرے لفظ بھلے کوئی اور بات پہنچانے سے عاجزرہے ہوں پر اس بات کا پتہ ضرور دیں گے کہ من کا یہ بالک بھلے کتنا اڑیل ہے، اِس میں کھوٹ نام کو نہیں۔

یہ فقیر تو رہا اپنی جگہ، خود مشتاق عاجز بھی اپنی اس گیان پوتھی ’سمپورن‘ میں اسی بالک من کی بال ہٹ کے آگے عاجز دِکھتا ہے۔ پوتھی کا ہر دوہا پکار پکار کے کہہ رہا ہے کہ کوی نے اپنے جی کی باتیں پورے سچ سے لکھی ہیں۔ اُس کی گیان کتھا ’’میں ناہیں سب توں‘‘ دیکھ لیجئے، کیسی سچی اور سُچی باتیں کر گیا ہے! لکھتا ہے:۔
’’یہ جو میں چھیالیس برسوں سے ٹوٹا پھوٹا شعر کہہ رہا ہوں، بچپن سے اب تک آڑی ترچھی لکیروں سے نقش ابھارتا اور رنگوں سے سنوارتا چلا آ رہا ہوں اور لڑکپن سے بڑھاپے تک سنے سنائے گیت گنگناتا اور چھوٹے موٹے ساز سے سر برآمد کرتا ہوں مگر تخلیق کار کہلانے کی جسارت نہیں کی تو اس کا سبب یہ ہے کہ پہلے سے موجود لفظوں، لکیروں اور سروں کو دائیں بائیں، آگے پیچھے اور اوپر نیچے کر کے ان کو کسی نئے اور خوبصورت انداز میں مرتب کر لینے والا شخص جمال پسند، ہنر مند، اور سلیقہ شعار فن کار تو کہلا سکتا ہے مگر تخلیق کار کہلانے کا مجاز نہیں۔ بھلا شعر گوئی، تصویر کشی اور صدا کاری میں میرا کیا کمال ہے کہ میں تخلیق کار ہونے کا دعویٰ کر سکوں۔ یہ سارا کمال تو اس اکمل و کامل ذات کا ہے جس نے کائنات کی بساط بچھائی، مُٹھی بھر ماٹی سے انسان کا پتلا تراشا اور اُسے پران بخشے۔ یہ اعجاز تو اس حسنِ کرشمہ ساز کا ہے جسے ربِّ جمیل نے خلق کیا اور کائنات بھر میں نسلِ انسانی کے گرد و پیش بکھیر دیا، جس نے اشیاء بنائیں اور آدم کو اُن کے نام سکھائے جو الفاظ اور آواز کا خالق ہے جس نے رنگ و آہنگ کی دنیائیں آباد کیں، جس نے گولائیاں اور گہرائیاں پیدا کیں، بلندی اور پستی بنائی، افقی، عمودی متوازی اور آڑے ترچھے خطوط سے نقوشِ کائنات ابھارے، دائروں، قوسوں زاویوں اور ہندی اشکال اے ایک جہانِ حیرت ترتیب دیا، جو رنگوں کی بوقلمونی کا مالک و خالق ہے، جس نے ہر ذی روح کو حواس بخشے مگر انسان کو حواس سے سوا احساس سے نوازا، جس نے اولادِ آدم کو سوچنے سمجھنے کا شعرو اور جذبات کے اظہار کا سلیقہ بخشا اور جس نے اپنے انعام و اکرام سے کچھ انسانوں کو ذوقِ نظر اور ذوقِ سلیم کی دولت سے مالا مال کر کے اپنی تسبیح کے لیے لفظوں، آوازوں، لہجوں، لکیروں اور رنگوں کے چناؤ اور برتاؤ کا ہنر سکھایا‘‘۔
’’میں بھی ان لاکھوں، کروڑوں ادنیٰ بندوں میں سے ایک ہوں جنہیں قادرِ مطلق نے عقل و شعور کی روشنی عطا کی، نورِ بصارت کے ساتھ نورِ بصیرت دیا، جن پر رب کریم نے علم و آگہی کے در وا کئے، جن کو متاعِ عشق، دولتِ دردِ دل اور سوز و گداز کی نعمتوں کے لئے چنا گیا اور جن کو بے حد و بے کنار سوادِ ہنر سے دستِ ہنر کی خیرات نصیب ہوئی۔ جو الفاظ کو مرتب، منظم اور متوازن کر کے شعر کہتے ہیں۔ ایک تناسب سے لکیریں کھینچ کر نقش ابھارتے اور موزوں رنگوں کو آمیخت کر کے تصویر بناتے ہیں اور اپنے لحنِ اثر انگیز میں حسین اتار چڑھاؤ پیدا کر کے گیت گنگناتے اور سُر الاپتے ہیں‘‘۔
’’ہاں ۔۔۔ میں جذبات و محسوسات کے لیے ربِّ جمیل کے جہانِ حسن و جمال سے استفادہ کرتا ہوں۔ میں نقال ہوں، فنکار ہوں، جدت طراز ہوں مگر تخلیق کار نہیں کہ تخلیق تو صرف اور صرف خالقِ کائنات کو زیبا ہے، میں تو بس لفظوں، لکیروں اور لہجوں سے حسن کا تأثر ابھار کر خالقِ حسن و جمال کی تسبیح کرتا ہوں۔ بے شک وہی واحد تخلیق کار اور سب سے بڑا فن کار ہے سو میں اپنے سب فن پارے اسی کے نام کرتا ہوں۔ ’سمپورن‘ کے اشعار، ان کے مضامین، ان میں سموئے جذبات و خیالات اور تصاویر اسی کی دین ہیں‘‘۔

ع: ’’اتنا سچ بول گیا ہے، ارے پگلے! پاگل!‘‘ کنویں کا مینڈک! مشتاق عاجزؔ نہیں، یہ فقیر ہے! سیلاب میں بہتی اُس مچھلی کا تو سبھی نے سنا ہے جو ساگر سے ایک کنویں میں جا گری تھی۔ کنویں کے قدیمی باسی مینڈک سے ہوئی اس کی بات چیت بھی سب کو ازبر ہے۔ اپنی بدھی کا حال بھی اُس مینڈک کی چھلانگ جیسا ہی تو ہے۔ دوہے کی شبدالی، چال، سُر کے بارے جو تھوڑا بہت جانا کچھ تو علامہ غلام یعقوب انور کی پُستکوں سے اور کچھ ڈاکٹر سید ہارون اور امین خیال کے لکھے لیکھوں سے جانا۔ کنویں کا مینڈک کیا جانے کہ ساگر کتنا کھلا ہوتا ہے! اسی کے مصداق یہ فقیر تو یہ بھی نہیں جانتا کہ کہ اپنے کو نِرسُدھ پکارے، کہ نِرسُوجھ کہے! ماترا، لگھو، گورو، چرن، چھند کے اس گورکھ دھندے میں وسرام ہی بھلی! بات وہیں آن اڑی جہاں سے چلی تھی: بول کو مانگے بالکا، چپ کو مانے نائیں۔ من کی گپھا سے اچھلے ان چم چم چم چم دوہوں پر نظر بھی من کی اکھیوں کی ڈالوں اور کتھا بھی من سے پھوٹے شبدوں میں کہوں تب بات بنے۔


مشتاق عاجز نے کتاب کو دس حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
پہلا حصہ: کھرج ... دھرم اشلوک : وحدانیت کا تصور، کن اور نظامِ کائنات، سات کی اہمیت، نیکی کا تصور، دھیان اورگیان، نعت و منقبت، اخلاقِ نبوی ، تن اور من
دوسرا حصہ: رکھب ... ماٹی مان: تخلیقِ آدم، روحِ اخلاق، روح اور بت، سانس کا تار، موت و حیات، عقل و دل
تیسرا حصہ: گندھار ... مایا موہ: متاعِ غرور، حبِ دنیا، دنیا اور اخلاقیات
چوتھا حصہ: مدھم ... دھیان دھارا: تفکر، ذات پات اور تقسیمِ آدم، اخلاق و اقدار، عمل اور تقدیر
پانچواں حصہ: پنچم ... گیان گیتا: سلامتِ طبع، عقلِ سلیم اور فکرِ سلیم، پن گن تن من دھن، درونِ ذات، روحِ عبادت
چھٹا حصہ: دھیوت ... روپ سروپ: حسن، رومان، جمالیات
ساتواں حصہ: نکھار ... برہن بین: کیفیاتِ ہجر، شکوے، تمنائے وصال
آٹھواں حصہ: الاپ ... پریم پنتھ: عشق، تپش، تن اور من، لگن
نواں حصہ: استھائی ... بجوگ روگ: قوتِ عشق، عقل اور دل، یادیں اور آرزویں
دسواں حصہ: انترہ ... سنجوگ: وصال اور لذاتِ وصال، فنا فی الحبّ


’’کھوج‘‘ سے ’’انترہ‘‘ تک مشتاق عاجز ایک کثیرالجہات فلسفہ بیان کرتا ہے اور اپنے مضامین کو ایک منطقی تسلسل میں یوں بیان کرتا چلا جاتا ہے کہ لذتِ فکر و نظر ایک سہ آتشہ سے متعارف ہوتے ہیں۔
اکتارا اک تار کا باجا، جو باجے من بھائے
دوجا تار لگے جو اس میں باج اَسَت ہو جائے

یہ دوہا پڑھتے مجھے اللہ کریم کا فرمان یاد آ گیا کہ اگر کائنات میں دو خدا ہوتے تو فساد برپا ہو جاتا۔ سو انسان پر لازم ہے کہ وہ بھی اس واحدہٗ لاشریک پر یقین و ایمان کے اکتارے میں کوئی دوجا تار نہ ٹانکے نہیں تو ست جاتا رہے گا۔ دوہے کی روایت اور لفظیات میں پوربی لفظیات، ہندو تہذیب اور الٰہیات کا ہونا تو ظاہر ہے فطری سی بات ہے اور یہ بھی کہ زبان اپنی تہذیب کی مظہر ہوا کرتی ہے۔ رام، شیام، آتما، پرماتما، پرمیشور، اوتار کی اصطلاحات ہندو دھرم کی نمائندہ ہیں؛ گانا، سر، سنگیت بھی ہندو دھرم کی مبادیات و لوازمات میں شامل ہے۔ سو، یہ تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ زبان اور لفظیات پر جتنا اثر دین دھرم کا ہوتا ہے شاید ہی کسی اور تہذیبی عنصر کا ہوتا ہو گا۔ دوہے میں لامحالا ان لفظیات کو بھی ساتھ ہی وارد ہونا تھا۔ مشتاق عاجز نے انہیں ناموں اور علامات کو معنوی طور پر اسلامی الٰہیات کی طرف منسوب کیا ہے۔ سو، ہم بھی ان کو اسی حوالے سے دیکھیں گے۔

یہاں میں اپنے من بالک کے اس سوال کا جواب شاید  نہ دے پاؤں کہ مشتاق عاجز نے اللہ جل جلالہٗ اور محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے مبارکہ براہِ راست ادا کرنے کی سعادت کیوں حاصل نہیں کی۔  بہت عام سی بات ہے کہ پرماتما، بھگوان، ایشور، اور اللہ سب کے مطالب ایک لئے جاتے ہیں، نبی اور اوتارکو ہم معنی سمجھا جاتا ہے اوریہ کہ یہ صرف زبان اور لفظوں کا فرق ہے۔ میرے من کا بالک تو کہتا ہے کہ: اس مقام پر پہنچ کر جہاں ایک کی جگہ دوسرا اسم آتا ہے، اور اس اسم کی صفات آتی ہیں، لغاتوں سے قطع نظر، وہاں اس سے منسلک تصورات بھی ساتھ آتے ہیں اور عقائد بھی؛ اور مجھے اسی کی ماننی پڑتی ہے۔ یہ تو خیر، میرا اور بالکے کا جھگڑا ہے، تا دیر چلے گا، بات ’’سمپورن‘‘ کی ہو رہی ہے، ادھر چلتے ہیں۔

پہلے باب میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور امر کن، کائنات کی تخلیق و تکوین اور تقویم و نظام، کائنات ، اللہ کریم کی قدرتِ کاملہ اور قوانینِ فطرت، کا بیان ہے۔ سہ آتشہ یوں کہ ایک توموضوع کے ساتھ رچاؤ، دوسرے دھرتی کے ساتھ جڑت، اور تیسرے اس کا معجز نما اختصارِ لفظی اور عُمُقِ معنوی۔ دوہے میں اظہار پر متعدد پابندیاں لاگو ہوتی ہیں: ایک مخصوص لے، جسے بحر کہہ لیجئے، اس کی ایک خاص نہج کی لفظیات اور تیسری بات غزل کے شعر والی کہ دو مصرعوں میں بات پوری کرنی ہے۔ موضوع کی سانجھ اور تسلسل کے باوجود دوہا اپنی جگہ ایک مضبوط اکائی رکھتا ہے۔
کُن آہاتا، کُن انہاتا، کن اَنہَد کی تان
اس نادا پر ناچ رہے ہیں کیا آتم کیا پران
ہر وینا، ہر باجے میں ہے سات سروں کی باج
ہر آروہی امروہی پر اکتارے کا راج

یہاں اکتارا علامتی سطح پر ایک واحد رب کے حکم اور فیصلے اور قدرت کا مذکور ہے۔ سات کے ہندسے کی اہمیت کو شاعر اپنے انداز سے دیکھتا ہے ہم اپنے انداز سے دیکھتے ہیں: سات آسمان، ہفتے کے ساتھ دِن، تخلیق و ترتیبِ ارض و سما کے سات ادوار اللہ کی قدرت کا اقرار ہیں جس کا حکم اور اختیار ہر ہر معلوم، معدوم اور موہوم پر حاوی ہے۔ کوئی چیز قدرت کے بنائے ہوئے قوانین سے باہر نہیں جا سکتی۔ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات کا مقام عنایت فرمایا تو اس کے لئے ضابطہء حیات بھی متعین کر دیا اور اختیار بھی دے دیا کہ چاہو تو مان لو، چاہو تو انکار کر دو، مگر یاد رہے کہ تم اللہ کی پہنچ سے باہر نہیں جا سکتے۔ یہ بھی بتا دیا کہ تمہیں لوٹنا ہماری طرف ہے اور پھر حساب لینا ہمارا کام ہے۔ سو، انسان کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ مان لے اور غیر مشروط طور پر اس کے آگے سرنگوں ہو جائے، اور اس کو ہر وقت ہر حال میں یاد رکھے، کہ دینِ فطرت کی روح یہی ہے۔
جب تک تن کا تونبا باجے پی کا راگ الاپ
جس نے من کا تار بجایا نام اسی کا جاپ

انسان کو اللہ نے اپنا نائب مقرر فرمایا اور جو کچھ زمین و آسمان کے اندر ہے سب کچھ اس کے لئے تسخیر کر دیا اور ایک بہترین انسان کے آنے کی خوش خبری بھی دے دی۔ یہی وہ انسان ہے جو خیر البشر ہے اور فخر آدمیت ہے، وہ جس کی ہر جبنشِ لب اور جنبشِ دست و بازو اللہ کی رضا اور منشا کا عملی نمونہ ہے۔ حضرتِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کا ایک ایک پل، ایک ایک سانس،ایک ایک مسکان دستورِ حیات ہے۔ آپ خیر الوریٰ ہیں، عقل و شعور، فہم و فراست، اخلاق و کردار کا ایسا نمونہ کہ ویسا نہ پہلے ہوا نہ بعد میں اور نہ ہو گا۔ اللہ کا وہ بندہ جو اللہ کے ہاں بندوں کا اور بندوں کے ہاں اللہ کا سفیر ہے اور جن و انس کو جس کی اطاعت اور اتباع کا مکلف بنایا گیا ہے، اور جس کی سادگی ایسی سادگی ہے جس میں سب سہولتیں ہی سہولتیں ہیں۔
ایسا گیانی جس کے من میں پرماتم کا نور
بھاشن بھاشن ایسی شکشا بدلے جگ دستور
قول وچن کا سچا پکا بول امَر انمول
متر، امتر کی پیاس بجھائیں امرت جیسے بول

آپ ﷺ سرورِ کونین ہیں اور ساری خدائی کو آپ کی سیادت و قیادت میں جمع ہونا ہے۔ عرب و عجم کے شاہان کا کر و فر آپ کی سادہ زندگی کے حضور باج گزار ہے۔ مشتاق عاجز کی معجز بیانی ملاحظہ ہو:
بان چٹائی راج سنگھاسن اور دو جگ پہ راج
میں بھی توری پرجا راجا، رکھیو موری لاج

اپنی گزارشات کی طوالت کا خوف نہ ہوتا تو میں مشتاق عاجز کے ایک ایک دوہے میں اسلوب اور اظہار کی پرتیں کھولنے کی سعی کرتا۔ اس کے کلام کی ایک بہت بڑی خوبی اپنے کہے کے معانی کے ساتھ پرخلوص تلوث ہے۔ تلازمہ سازی کا حسن ذوقِ نظر کو اسیر کر لینے کی خاصیت رکھتا ہے، شرط بس ایک ہے کہ مشتاق عاجز کا قاری مشتاق عاجز کے ساتھ رہ کر اُس کے عجز کی کرامات کا مشاہدہ کرے۔

اللہ کریم نے انسانوں کے نام اپنے آخری پیغام میں جہاں انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل اور مدارج کو بیان فرما دیا ہے وہیں انسان کو تکریم بھی عطا کی اور ذریعہء تکریم یعنی قلم بھی۔ ارشاد ہوتا ہے: پڑھئے اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے سب کچھ پیدا کیا، اس رب کے نام کے ساتھ جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا فرمایا۔ پڑھئے اور آپ کا رب بہت اکرام والا ہے جس نے قلم سے علم عطا فرمایا؛ انسان کو وہ کچھ سکھا دیا جسے وہ جانتا بھی نہیں تھا۔ انسان کی تخلیق کے اول اول مراحل میں کھنکھناتی ہوئی ٹھیکری جیسی مٹی کا حوالہ بھی ہے اور گیلی مٹی کا بھی جس کو اللہ کریم نے جیسا چاہا ایک صورت دی اور پھر اپنے امر (روح) کو داخل کر کے اسے نہ صرف یہ کہ جیتا جاگتا دیکھتا بھالتا انسان بنا دیا بلکہ اپنا نائب بھی مقرر فرما دیا کہ خاک کا یہ پُتلا زمین میں اللہ کا نظام نافذ کرے گا۔ اسے اس کا جوڑا، اسی سے عطا کیا اور دونوں کو جب تک چاہا، اپنے خاص باغات میں رہنے دیا۔ واپس تو اسے زمین پر ہی آنا تھا کہ اس کے عمل کا میدان سجنا ہی زمین پر تھا، اس کی انسانیت کو جلا بھی اسی زمین کی تلخ و شیریں، گرم و سرد اور خشک و تر فضا اور ماحول میں سعی پیہم سے ملنی تھی۔ اور اسے اسی مٹی میں کندن بننا تھا۔

مٹی کے حوالے سے مشتاق عاجز کی معانی آفرینی جہاں اس کے علم کی گہرائی کی آئینہ دار ہے وہیں اس کی چابک دستی کا ثبوت بھی ہے۔ مٹی، تخلیق کا جوہر، اللہ کی نعمتوں کا کبھی ختم نہ ہونے والا ذخیرہ، زندگی کا منبع، کم مایہ بھی اور گراں مایہ بھی، جس سے وہ سب کچھ نکلتا ہے جسے اللہ کا حکم نکال لاتا ہے اور وہ سب کچھ اس میں سما جاتا ہے جسے سمونے کا اسے حکم دیا جاتا ہے۔ یہی مٹی انسان کی اوقات بھی ہے، اس کے لئے ماں کی گود بھی، مرنے کے بعد اس کا ٹھکانا بھی اور اس کی مساعی کا روزنامچہ بھی۔ ہمارا شاعر کچھ یوں رقم طراز ہوتا ہے۔
تو ماٹی کی مورت مورکھ، ماٹی کا کیا مان
مان اسی کو ساجے جس نے بخشے تجھ کو پران
دانا ہے تو ماٹی ہو کر اپنا روپ نکھار
دانے سے پھلواری پھوٹے مہکے سب سنسار
ماٹی کو گلزار بنا لے، بیج لگن کا بو
آنکھوں سے برسا وہ برکھا ماٹی جل تھل ہو

یہاں انتخاب بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ مشتاق عاجز کا ہر دوہا نقل کرنے کے قابل ہے، معانی آفرینی، لفظوں کا چناؤ اور بہاؤ، اظہار کی روانی اور بے ساختہ پن، مٹی سے رشتہ اور عظمت آدم؛ ان کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہر ہر دوہے پر بات کی جائے۔ مگر نہ تو یہ مضمون اتنی طوالت کا متحمل ہو سکے گا اور نہ اس فقیر کی بوڑھی ہڈیاں اتنی طویل نویسی کا بوجھ سہہ پائیں گی۔ اس دوہے کو دیکھئے اور ان کو بھی جو پہلے نقل کر چکا ہوں، اور مشتاق عاجز کی دقتِ نظر کا اندازہ خود لگا لیجئے، اور یہ بھی کہ وہ انسان کو کہاں دیکھنا چاہ رہا ہے۔
پاک پوتر ہے ماٹی تیری بنے جو تو انسان
ماٹی کی اس بھومی پر ہے تو ماٹی کا مان 

یہاں مجھے وہ اپنے اسلوب میں مفسر دکھائی دیتا ہے اللہ کریم کے ان ارشادات کا: ہم نے انسان کو بہترین تقویم میں پیدا کیا اور پھر اس کو اسفل السافلین کی طرف دھکیل دیا، ماسوائے ان لوگوں کے جنہوں نے دل و جان سے تسلیم کیا اور نیکی کما گئے۔ سو، اُن کے لئے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔ ماٹی کی اس مورت کی کتھا سناتے سناتے وہ ماٹی اور آتما کے بچھڑ جانے جانے تک پہنچتا ہے تو اس کے ہاں فکر، احساس اور اظہار یک جان ہو جاتے ہیں۔
تن ماٹی کا پنجرا جس میں پنچھی رہے اداس
دانْو لگے تو توڑ کے پنجرا اُڑ جائے آکاس
تنن تنن تن تونبا باجے جب تک باجے تار
ٹوٹا دم کا تار تو تن کا تونبا ہے بے کار
من ماٹی کا کچا کوٹھا روح کنْواری نار
چل ری گوری دیس پیا کے، لینے آئے کہار

مشتاق عاجز کے الفاظ کی تپش اور تڑپ کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، بیان کرنے میں احساس کے یہ آبگینے ٹوٹ بھی سکتے ہیں۔

کہاروں کے آنے تک کا سمے انسان کو اسی ماٹی کی دنیا میں بِتانا ہے، سو وہ اس دنیا کی طرف مائل تو ہو گا، کہ یہ ایک بدیہی عمل ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جہاں یہ میلان اس کے من پر ماٹی بن کر لِپ گیا، وہ اسی کے بوجھ میں دب کر اپنے الوہی مقام اور منصبِ نیابت سے محروم ہو گیا۔ آسمان سے اتری وعید بھی سنتے چلئے: تباہی ہے ہر شیخی خورے پر جو مال جمع کرتا ہے، اسے سینت سینت کر گن گن کر رکھتا ہے اور گمان کرتا ہے کہ اس مال کے زور پر وہ امر ہو جائے گا۔ نہیں! ایسا نہیں ہو گا، بلکہ اسے بھٹی میں جھونک دیا جائے گا۔ مشتاق عاجز کی فکرِ رسا کا کرشمہ دیکھئے۔
سونا روپا مال سمیٹا ریشم لیا لپیٹ
ہیرے کھائے موتی چابے بھرا نہ پاپی پیٹ
تکڑی تولی لالچ کی اور جھوٹ کے رکھے باٹ
لالہ جی پرلوک سدھارے تالا لاگا گھاٹ

اوسط حجم کے مشکیزے جتنا یہ پاپی پیٹ آپ نہیں بھرتا تو جہنم کا پیٹ بھرنے کا سامان کرنے لگتا ہے۔ یہی ہوسِ زر ہے جو انسان کو ٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہر قارون فکر اپنی عمر، اپنی صلاحیتیں، اپنا ذہنی اور قلبی سکون سے اسی مال کی حفاظت اور مزید کی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے اور خود بھی اسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ سکون اور تعیش کے سارے مادی لوازمات رکھتے ہوئے بھی اس کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔ بقول انور مسعود:
بسے دارم اطاقِ خواب انور
ولیکن خواب در دیدہ ندارم

اور ہمارا یہ شاعر مشتاق عاجز کہتا ہے:
مایا لوبھ ہے گڑ کا شیرہ، ماکھی کے من بھائے
چکھنے بیٹھے پنکھ پھنسائے، اڑے تو اڑ نہ پائے 
دنیا چنچل پچھل پیری، لگے سجیلی نار
سجی سجائی اس ڈائن کی شوبھا ہے دن چار
نرم ملائم پھندے اس کے اور سنہرے جال
نقلی مال کے دام بٹورے اور کرے کنگال
دنیا من کو بھا جائے تو جائے من کا چین
من کا چین گنوا کر لوبھی بین کرے دن رین

مجھے یہاں ایک مشہور حکایت یاد آ گئی: دستِ قدرت نے جنت کا نقشہ پہاڑ کی چوٹی پر بنایا اور جہنم کا وادی میں، بیچ میں دنیا کا۔ باقی سب سپاٹ چھوڑ دیا کہ جنت کے باغات اور جہنم کی لپٹیں سب کچھ صاف دکھائی دے۔ کہنے والے کہنے لگے کہ یوں ہے تو کوئی ایک شخص بھی ڈھلان کو نہیں جائے گا۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ کمرِ کوہ سے چوٹی کی طرف نوکیلے پتھر، خاردار جھاڑیاں اور کھائیاں نمودار ہو گئیں اور باغات چھپ گئے۔ ادھر وادی کی طرف خیابان و گلستان، برگ و بر اور کہنی ان کہنی عیاشیوں کا سامان یوں بہم ہوا کہ لپٹوں تک کسی کی آنکھ جائے نہ کان ۔ کہنے والے کہنے لگے یوں ہے تو کوئی ایک شخص بھی چوٹی کو نہیں جائے گا۔ صدا �آئی کہ جسے اوپر کو جانے کا دم ہو گا، وہ ان نوکیلے پتھروں، جھاڑیوں کھائیوں کو خاطر میں نہیں لائے گا اور چاہے ہانپتے کانپتے پائے، کلہء کوہ کو پا لے گا ؛ وہ نیچے جانے والا جس پھل کو چکھے گا پھوک پائے گا اور رسیلے کی تلاش میں نیچے لڑھکتا چلا جائے گا، اور آخر کو اوندھے منہ شعلوں میں گر پڑے گا۔ اب یہ دوہا پڑھئے۔
دنیا بوڑھی وِدھوا اوڑھے سر پر چنری لال
عقل کے اندھے اس پر ریجھیں منہ سے ٹپکے رال

کتاب کے اگلے دو باب ’’دھیان دھارا‘‘ اور ’’گیان گیتا‘‘ باہم متصل ہیں۔ یوں کہہ لیجئے کہ انسان جن حقائق کا مطالعہ کرتا ہے وہ دھیان ہے اور جو نتائج اخذ کرتا ہے وہ گیان ہے۔ مشتاق عاجز کی گوہر شناس نظر، مطالعہ اور تفکر اسے بتاتے ہیں کہ:
گہرا ساگر دھیان کا جس کی تھاہ کا موتی گیان
جو پاتال سے موتی لائے اس کو مان مہان 

دینِ فطرت ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کا وہ جتن کرے۔ اپنی منزل پانے کو اس کی طرف سفر کرناہو گا۔ قدرت نے ساری نعمتیں انسان کے لئے بنائی ہیں اور انسان کو اپنے لئے تخلیق کیا ہے۔ اس کی زندگی لکھ دی گئی، موت لکھ دی گئی رزق لکھ دیا گیا، علم لکھ دیا گیا اور یہ بھی لکھ دیا گیا کہ اس سب کچھ کو حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں ہلانے پڑیں گے۔
وقت پہ جس نے کھیتی بیجی وہ اصلی دہقان
لمبی تان کے سو جائے تو گھاس اگے کھلیان
اجیارے میں راہ سفر کی جلدی سے کٹ جائے
شام ڈھلے جو چلے مسافر پگ پگ ٹھوکر کھائے
ریکھاؤں میں کیا رکھا ہے مڑ مڑ ریکھ نہ دیکھ
ریکھا تیری مٹھی میں ہے لکھ لے اپنے لیکھ


حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے کہا ہے:
پابندیء تقدیر کہ پابندیء احکام
یہ مسئلہ مشکل نہیں ہے مردِ خرد مند
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند

یہی دعوتِ عمل مشتاق عاجز کے ہاں پائی جاتی ہے۔ انسان کو آپ اپنی مساعی کا قوام بنانا ہے اور اس کو اعلیٰ اور مفید مقصد کے لئے کام میں لانا ہے۔ نیک و بد کا امتیاز اخلاقیات کی بنیاد ہے۔ اچھی اقدار کو معروف اور بری اقدار کو منکر کہا گیا۔ اور بتا دیا گیا کہ معروف کو اپنانا ہے منکر سے بچنا ہے کہ تقویٰ اور اعلیٰ انسانی اقدار کا پاس ہی روئے زمین پر بسنے والوں کے لئے امن و آشتی کا ضامن ہے۔
لوبھ کرودھ ہیں سانپ سپولے اگلیں منہ سے آگ
اتم بیر وہی جو کیلے ایسے زہری ناگ
ساگر سے بھر لائے گاگر بدرا جل برسائے
جل ندیا میں، ندیا آخر ساگر میں مل جائے

دھیان اور گیان کے اس مرکب عمل کا کچھ نہ کچھ حاصل بھی تو رہا ہو گا۔ تیل جلتا ہے تو روشنی ہوتی ہے؛ ایک کا لوبھ دوجے سے ٹکراتا ہے تو نفرتیں اور عداوتیں جنم لیتی ہیں؛ پن گن ہے اور گن پن ہے؛ دھیان اور گیان ایک دوجے کے شانہ بشانہ چلتے ہیں۔ مشتاق عاجز نے ایسے کتنے ہی موتی پاتال سے ڈھونڈ لا کر اپنے قاری کے سامنے ڈھیر لگا دیا۔ اس باب میں پند و نصائح بھی ہیں تاہم ان کا انداز خشک اور بیزارکن ناصحانہ نہیں بلکہ دل پذیر اور دل ربا ہے۔ بعض دوہے تو ایسے ہیں کہ کچھ بعید نہیں کل وہ کہاوت کا درجہ پا لیں۔ فکری اور اخلاقی قدر و قیمت، بیان کی چاشنی اور انسانی مزاج سے ہم آہنگی، زبان کا چٹخارہ، لفظیات کا موضوعات کے ساتھ وہ قوام بنایا ہے کہ اس کی شیرینی روح میں اتار لینے کو جی چاہتا ہے۔
مندر مسجد ماتھا گھس کے گیا نہ من کا میل
تیرتھ کے سو چکر کاٹے رہے بیل کے بیل
لوبھ جگت کی پھرے اڑائے جانے کت کت اور
جت جائے چت چنتا رکھنا راہ تکت ہے گور
گور گپھا میں گھور اندھیرا دیپ جلے نہ کوئے
من میں پُن کی جوت جگا لے دور اندھیرا ہوئے
پُن اور گن کی مایا جتنی بانٹو بڑھتی جائے
ہُن کی مایا ڈھلتی چھایا، ہُن پر کیا اترائے


دوہوں کا ایک وصفِ خاص جو مشتاق عاجز کے دوہوں میں وصفِ عام بن گیا ہے وہ سلاست اور سہولت ہے۔ الفاظ جھرنے سے اترتے پانی کی صورت نرمی اور روانی سے ایک دوسرے کے پیچھے یوں آتے ہیں کہ ثقالت کو راہ نہیں ملتی، نہ ادا کرنے میں اور نہ معانی و مطالب میں۔ حسنِ تکرار اور صوتی رعایت میں مشتاق عاجز کے دقیق فلسفیانہ مضامین راگنیاں بن جاتے ہیں۔ عالمِ فانی کی بے ثباتی، موت اور اس کے بعد پھر زندگی، قبر، قبر کی تاریکی میں اعمالِ صالحہ کی روشنی، پن، گن اور ہن کی مثلث؛ یہ مضامین کسی واعظ کی زبانی سننے کا عمل جتنا بوجھل ہو سکتا تھا، مشتاق عاجز کے ہاں اتنا ہی لطیف ہو جاتا ہے۔دو بہت ہی خوب صورت دوہے نقل کرتا ہوں، ان ہشت پہلو تراشیدہ ہیروں کو ہر زاویے سے دیکھئے گا، اور دیکھئے گا کہ کس پہلو کیا کیا رنگ جھلکتے ہیں۔ کچھ باتیں، جیسے میں نے پہلے عرض کیا، محسوس کی جا سکتی ہیں، بیان کرنے میں ان کی نزاکت مانع ہوتی ہے۔
بھور بھئے گھر آنگن چھوڑا جا نکلا کت جا
سونا آنگن باٹ نہارے سانجھ بھئی گھر آ
من میں پی کی پیت بسا لے، من سندر ہو جائے
پیتم کے من بھائے سندرتا من میں آن سمائے

میں نے کہیں کہا تھا کہ ’’بوٹے تے بولیاں، دونہاں نوں مٹی چاہی دی اے‘‘۔ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ زبان تہذیب کا اعلیٰ ترین مظہر ہوتی ہے۔جب اس میں انشا، سلیقہ اور جمالیات شامل ہو تو اسے ادب کہتے ہیں۔ لوک ادب کا نمایاں وصف یہ ہوتا ہے کہ اس میں دھیان بھی اور گیان بھی دھرتی سے پھوٹتے ہیں اور ان میں پایا جانے والا دھرتی کا رس محسوسات اور سماعتوں کو نہال کر جاتا ہے۔ رومان اور جمالیات لازم و ملزوم ہیں ایک کے بغیر دوسرے کا تصور محال ہے۔ ’’روپ سروپ‘‘ میں یہی رومانی جمالیات کارفرما ہے۔ اس باب میں مشتاق عاجز کی پیکر تراشی کی صلاحتیں عروج پر دکھائی دیتی ہیں۔ اس کا دقیق مشاہدہ، ملکہء اظہار اور شاعرانہ اندازِ نظر، رومان پسند طبع اور فن کارانہ قوتِ تجزیہ اس کے طبع زاد دوہوں کو لوک شاعری بنا دیتے ہیں۔ یہاں اس کے دوہوں کی خاص بات نرمی، حسن، زبان و اسلوب اور مرقع نگاری کی دھنک ہے۔ سارے دوہے یہاں نقل کرنا ممکن نہیں کچھ بے شست نمونے دیکھئے۔
ہونٹ گلابی، نین شرابی اور نشیلی چال
امبر ڈول نہ جائے گوری اپنا آپ سنبھال
نرم کومل چنچل گوری جیوں پارا بے چین
چین چرائے چنچل چتون، نیند اڑائیں نین
مدھ کا بھر کٹورا جوبن چھلک چھلک ترسائے
ترس ترس مر جائیں پیاسے ہاے رے یہ اَنیائے
سر پر دھر کر گاگر گوری مٹک مٹک لہرائے
لچک لچک بل کھائے کمریا بھومی گھومی جائے


حسن اور عشق کا رشتہ بھی کیا عجیب رشتہ ہے۔ شعری روایت میں حسن کو بے پروا اور عشق کو سراپا لگن کہا جاتا ہے۔ بے داد کے سارے الزامات بھی حسن کو دئے جاتے ہیں۔ سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ عشق کا مرجع و مقصود اگر حسن ہے تو حسن کا مرجع و مقصود کیا ہے؟ حسن ایسا بے پروا بھی نہیں ہو سکتا، نہیں تو وہ حسن ہوتا ہی نہیں۔ اس کا حسن ہونا بھی تو آخر کسی کے لئے ہے نا! کہ کوئی اس کو چاہے، اس کے لئے تڑپے، اس تک پہنچنے کے جتن کرے۔ یعنی حسن کو مطلوب ہونے کی طلب ہے تو اس کا تقاضا کس سے ہے؟ عشق سے، نا! گویا حسن خود بھی تو عشق کا طالب ہے؛ طالب بھی اور مطلوب بھی جب کہ عشق طلب ہی طلب ہے؟ اس سوال کا جواب اگلے باب میں تلاش کریں گے، یہاں حسن کے کچھ اور زاویے دیکھتے چلئے۔
روپ نگر کی راج کماری کرے دلوں پر راج
راجے راج کُنْور سب بھولے راج سبھا کے کاج
سینے سے جب آنچل ڈھلکے غنچے آنکھ چرائیں
کھلتا جوبن دیکھ کے کلیاں گھونگھٹ میں شرمائیں
مہکی مہکی آنچ بدن کی دہکی دہکی آگ
بہکی بہکی بانی کا سر چھیڑے دیپک راگ


رومانی روایت میں محبوبی عام طور پر تانیث کے حصے میں آئی ہے۔ محبوب کو کبھی ہیر کا سراپا دیا جاتا ہے تو کبھی سوہنی کا، کبھی شیریں کا تو کبھی سسی کا، اور کبھی درخانئے کا۔ ان کے لئے جہاں کوئی رانجھا بے چینیوں کے سر بکھراتا ہے تو کہیں کوئی مہینوال اپنے ماس سے بنی سوغات لاتا ہے۔ کہیں فرہاد پتھروں کا سینہ چیرتا ہے تو کہیں پنوں اسیری کاٹتا ہے اور کہیں آدم خان پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ برصغیر میں تانیث عاشقی سے بھی سرفراز ہے۔ جوگی جنگل جنگل پھرتا ہے اور جوگن اس کے لئے ترس تڑپ رہی ہوتی ہے۔ صوفیا نے بھی رومانی روایت میں تانیثی لہجہ اختیار کیا اور محبوب کو تذکیر میں رکھا ہے۔ فراق کی کیفیات اور نازک احساسات کے اظہار کو جو رنگ جہاں بھا جائے، محبوب کی توجہ پا لے۔برہا کی تپش دونوں طرف کارفرما ہوتی ہے۔ محبوبِ حقیقی کا بھی تو کہا جاتا ہے کہ جب اس نے چاہا کہ مجھے کوئی اپنے طور پر پہنچاننے کی کوشش کرے تو اس نے کائنات تخلیق کی اور انسان کو بنایا۔ صمد تو وہ ایک ذات ہے، سارے تو صمد نہیں ہو سکتے؛ عاشق بھی تڑپتا ہے اور معشوق بھی۔ ’’برہن بین‘‘ کے باب میں ایسی کیفیات اور تپش کا اظہار کرنے میں مشتاق عاجز کے الفاظ بھی تپنے اور تڑپنے لگتے ہیں، اور ان کی کاٹ قاری کے محسوسات پر حاوی ہو جاتی ہے۔
بن میں کویل شور مچائے من میں ناچے مور
تن میں ساون آگ لگائے، آن ملو چت چور
چوڑی کی چھنکار سجے نہ پایل کی جھنکار
چھن چھن چھُن چھُن سن کر لاگے تن من تیز کٹار


نسائیت کی وہ ساری رنگینیاں جو روپ سروپ میں قاری کو گدگداتی ہیں، برہن بین میں نسائی جذبات کا مہجور مہجور اور شرمایا سا اظہار اور حیا کی رنگینیاں اس کو اور بھی نکھار دیتی ہیں۔ آم پر بور لگنے کی رومانویت کے رنگ ہی سارے اپنے ہیں! شوخ و شنگ بھی، نرم و نازک بھی، گدگدی کرتے ہوئے بھی اور کچھ نئے نئے احساسات سے روشناس کراتے ہوئے بھی۔توجہ فرمائیے گا کہ اس سے زیادہ کھل کر بات کرنے میں بات کا حسن جاتا ہے۔
سَکھیاں پوچھیں روگ جیا کا، اکھیاں کھولیں بھید
چپ سادھوں تو آہیں نکلیں سینے میں سو چھید
نیر بہاؤں پیاس بجھاؤں دیکھوں پی کی باٹ
چولھا چوکا چھوڑ کے بیٹھی دوار بچھائی کھاٹ
ماتھے بندیا آن سجاؤ، مانگ بھرو سیندور
جھولا آن جلاؤ متوا، امبوا لاگا بور

بچھڑی ہوئی روحوں کی یہ کرلاٹ اور ملن کی منہ زور آشا خوش ذوق قارئین پر محسوسات کے ان دیکھے آفاق کے در وا کر رہی ہے۔ مشتاق عاجز کے دھڑکتے ہوئے الفاظ ان بچھڑی ہوئی روحوں کی ساری بے چینیاں نہ صرف اپنے اندر سمو لیتے ہیں، بلکہ اپنے قاری کو بھی انہی بے ترتیب دھڑکنوں سے شناسا کر جاتے ہیں۔

اس عالمگیر موضوع کے تسلسل میں قاری پریم پنتھ کے مرحلے میں داخل ہوتا ہے اور اُن تمام کیفیات سے دوچار ہوتا ہے جن میں تپش بھی ہے اور لگن بھی۔ مشتاق عاجز کا فن یہاں بلندی اور گہرائی ہر دو کو احاطہ کرتا ہے۔ ’’صوفلسفی‘‘ مزاج کا حامل ہمارا شاعر یہاں جدائی کی ٹیس خود بھی محسوس کرتا ہے اور اپنے قاری کو بھی محسوس کراتا ہے۔ پروفیسر انور مسعود کا یہ قول، میں پتہ نہیں کتنے مقامات پر بیان کر چکا ہوں، کہ: شعر وہ ہے جو آپ کو چھیڑ دے اور آپ کا ذہن اس کے پیچھے یوں لپکے جیسے بچہ تتلی کے پیچھے بھاگتا ہے۔ مشتاق عاجز کے دوہوں کے تناظر میں پروفیسر صاحب کی اس تتلی کے اڑتے کھلتے سمٹتے رنگوں کی معنویت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور اس پر مستزاد اس کی منحنی اڑان ہے جو وارداتِ قلبی کی طرح کسی بھی لمحے کوئی بھی رخ اختیار کر سکتی ہے۔ چند دوہے نقل کر رہا ہوں ان میں اس تتلی کی کیفیات بھی مترشح ہیں اور ان کا نفسیاتی تجزیہ بھی از خود شاملِ کلام ہے۔
جن اکھین سے نیر نہ ٹپکے وہ اکھین ویران
منوا دکھ سے خالی ہے تو جیون ہے شمشان
جس تن لاگے سو تن جانے اور نہ جانیں لوگ
من کی پیڑا جانے جس کے جی کو لاگا روگ

برہا کی آگ کا تاپ دوطرفہ ہوتا ہے اور اس کا اثر ایک سا بھی ہو سکتا ہے، مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ پر ہو جیسا بھی، سکھ چین کو بھسم کر ڈالتا ہے۔آگہی کی اس منزل پر جذبہ صادق ہے تو ملن ہو نہ ہو، وہ آپ کندن بن جاتا ہے، نہیں تو راکھ رہ جاتی ہے اور اس کا ہونا نہ ہونا برابر۔
آگہی آگ ہی تو ہوتی ہے
کوئی کندن کوئی غبار ہوا

مشتاق عاجز کا بیان اور اس کی چاشنی ملاحظہ کیجئے۔
پریم اگن میں جل کر کندن ہو جائے جو نار
اس کے تن سے چھو جائے تو نار بنے گلزار


اس کے ہاں جل ساگر سے اٹھتا ہے، میگھا اور برکھا کا روپ دھار کے بھومی پر آن پڑتا ہے اور ماٹی میں مل جاتا ہے۔ تب کہیں وہ پھر اسی ساگر سے جا ملتا ہے ، وہ کتنی کٹھنائیوں سے لڑتا بھڑتا ہے تب کہیں اس پر سنجوگ کا سمے آتا ہے۔ اس کٹھنائی کا ایک روپ یہ بھی ہے۔
ساغر سب کی پیاس بجھائے خود پیاسا رہ جائے
دھرتی پر جو بادل برسے اپنا آپ مٹائے

بجوگ کے سارے روگ تو کوئی کیا گِنوائے گا! کوئی ایک دو چار دس تو ہوتے نہیں۔ محب کی ہستی کا ایک ایک انگ آپ روگ بن جاتا ہے۔ وہ اندر ہی اندر ایسی آگ میں جلتا رہتا ہے جس کا دھواں بھی باہر نہیں نکلتا، نکلے بھی تو وہی جل، کبھی بادل، کبھی ٹھنڈی آہیں اور کبھی آنسو، کبھی جگنو تو کبھی تارے۔
ساون کی من بھاون بیلا بدرا گھر گھر آئے
شیتل شیتل پون جھکورا من کا چین چرائے
ساون بھادوں برسے برکھا نت برسیں میرے نین
جب سے پی پردیس سدھارے آٹھ پہر کی رین

آٹھ پہر کی رات میں بیان کیا گیا کرب برہا کی ایسی نادیدہ مگر جان گسل کیفیت ہے جسے بیان کرنے کی کوشش میں بات تارے گننے سے بھی آگے نکل جاتی ہے کہ تارے آنکھوں سے گرنے لگتے ہیں۔
تارے آنکھ مچولی کھیلیں یاد تہاری آئے
پورن ماشی چندا چمکے من میں آگ لگائے

ایسی گھور تاریکی میں اس منہ زور آرزو کو اور کیوں کر بیان کیجئے گا کہ۔
دیکھ تو موری اور منوہر میں بھی تو منہار
چھلک رہا مورا جوبن چھیلا، دہک رہا انگار

طلب صادق ہو تو رائیگاں نہیں جاتی۔ چاہے لاکھوں قیامتوں، کروڑوں عمروں کے بعد آئے وصل کا مرحلہ آ ہی جاتا ہے۔ سنجوگ مشتاق عاجز کے ہاں ایک بہت وسیع علامت ہے جس کا پھیلاؤ انسان سے انسان تک اور پھر انسان سے بھگوان تک ہے۔ یہاں آ کر لفظ پی کے معانی یکسر بدل جاتے ہیں اور کل اور جزو کو ایک کر جاتے ہیں۔ بات توفیق کی ہے، اور نصیب کی جسے جو مل جائے۔ جس نے محبوب کو پا لیا وہ شہیدِ محبت ٹھہرا، اور جو نہیں پا سکا وہ سرے سے معدوم ہو گیا۔ ہجر کے سارے آتشیں سفر اور مرحلے وصال کی لذت سے شناسا ہوتے ہیں تو سب کچھ بھول جاتا ہے اور پھر چاروں اور بھی، من کے اندر بھی، بہار ہی بہار ہوتی ہے، پھول ہی پھول ہوتے ہیں۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ پچھلا سارا سفر پھولوں کے سنگ ہوا ہے۔ محبوب اور محب یک جان ہو جاتے ہیں اور من و تو کا امتیاز اٹھ جاتا ہے۔
اَن آدی بے انت پیا کا تھاما میں نے ہاتھ
جگ جگ کا سنجوگ ہمارا جنم جنم کا ساتھ
میں پیتم میں، پیتم مجھ میں، پیتم میری جان
میں ماٹی کی مورت لیکن مجھ میں بسے بھگوان

یہاں آ کر ہم مشتاق عاجز کے لہجے اور لفظیات میں بھی نمایاں تبدیلی دیکھتے ہیں۔ وہ جتنی شدتِ درد کے ساتھ بجوگ اور برہا کا حال کہتا ہے اس سے کہیں زیادہ مسرت کے ساتھ سنجوگ کے طبعی اور قلبی مناظر کی تخییل کرتا ہے۔ وہی بارش جو کبھی چھم چھم برستے نین کی تصویر ہوتی تھی، اس کی رم جھم میں پی کی آواز سنائی دیتی ہے۔ راستے پھولوں سے لد جاتے ہیں، اور صدیوں کی کٹھنائیاں کہیں دور دھول میں کھو جاتی ہیں۔
پھولوں میں مہکار پیا کی اور اسی کے رنگ
گلشن گلشن گھوم رہی میں اپنے پیا کے سنگ
جب سے پی کی اور چلی میں کھلے ڈگر میں پھول
پھولوں میں من اٹکا جائے راہ نہ جاؤں بھول

خود دہی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اپنی کوئی مرضی منشا بھی باقی نہیں رہتی، زندگی کا نام پیار ہو جاتا ہے اور پیار کا نام زندگی۔ تسلیم و رضا اسی غیر مشروط خود سپردگی کا نام ہی توہے۔
پیتم کا جب نام جپوں تو منوا ہو آنند
پیت پیا کی جیون دھارا پیتم کی سوگند
منوا چاہے یوں ہو جائے پی چاہے یوں ہو
جو پی چاہے سو ہو جائے من چاہا کیوں ہو
کٹھ پتلی اور ڈوری کا ہے جنم جنم کا ساتھ
جیسا چاہے ناچ نچائے ڈوری والا ہاتھ


مطالعے کا پہلا دور تکمیل پذیر ہوا، ابھی سیکھنے کی اور بہت باتیں باقی ہیں۔ مشتاق عاجز کے طبع زاد، لوک رنگ دوہوں کے اس مجموعے کا نام بجائے خود بہت اہم ہے۔ ’’سمپورن‘‘ سات کے سات راگوں کے یکجا ہونے کا نام ہے۔ یہ فقیر راگ رنگ سے ویسا شناسا ہوتا تو اور بات تھی، راگ سے اپنا علمی تعلق رہا ہی نہیں، رنگ سے البتہ کچھ کچھ علاقہ رہا ہے۔ دھنک کے سات رنگ، زندگی کی رنگا رنگی کی علامت ہیں۔ سائنس والے کہتے ہیں کہ یہ سات رنگ ایک دوجے میں جذب ہورہیں تو چاندنی بن جاتی ہے۔ سفید دودھیا چاندنی، زندگی کی پہنائیوں کا استعارہ، نور اور پاکیزگی کی علامت اور اسی میں سارے رنگ پنہاں ہوتے ہیں؛ وہ بنیادی سات رنگ بھی اور ان کے جزوی ملاپ سے بننے والے ہزاروں لاکھوں رنگ اور جن کا شاید کوئی نام نہیں۔ سمپورن میں پنہاں اور عیاں کی رنگینیوں اور چابک دستی کا کچھ مختصر بیان ہو جائے۔

مشتاق عاجز نے دھرتی سے، اور دھرتی کی رِیت سے جڑ کر شاعری کی ہے اور بھومی کی باس رس اس کے قاری کے ذہن و دل کو شانت کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مٹی، لوبان، خوشبو، مہمان، سیوا، پنجرا، پنچھی، بالک، ریت، درد، تن، کٹیا، کچا کوٹھا، کنواری نار، پراتی، سندیس، پن، پاپ، گن، دھن، کانٹے، ساگر، بادل، دھاگا، نوکر چاکر، ناؤ، ریشم، مسجد، مندر، کتاب، بیل، پھل جھڑی، سدھ بدھ مدھ، ساون بھادوں، منگل، سچی بات، جھوٹی قسم، وچن، کلپنا، دیوالی، پنگھٹ، گاگر، جوبن، جھولا، انبوا، بور، سیندور، مانگ، چھن چھن، چھُن چھُن، آنگن؛ زندگی سے اتنا گہرا اور تفصیلی رابطہ شاعری میں ہو اور قاری نہال نہ ہو، مشکل بات ہے۔

مشتاق عاجز نے لفظوں کی بصری اور صوتی ساخت سے بھی فن آفرینی کا کام لیا ہے، اور تکرار کو ایسے حسین پیرائے میں لائے ہیں کہ شعر قاری کے اندر لہرئیے لیتا محسوس ہوتا ہے۔
جب سے ڈالا کان میں بالا، بالا من بے چین
تم بن مورا جیون سونا جیوں کاجل بن نین

رعایاتِ لفظی و معنوی کی بات اس لئے نہیں کروں گا کہ مجھے ایک بھی ایسا شعر دکھائی نہیں دیا جس میں کوئی لفظ خالی محسوس ہوا ہو۔ اس کی رعایات، علامتیں اور استعارے اپنی پوری معنوی اور حسیاتی قوت کے ساتھ اجاگر ہوتے ہیں۔ چند شعر پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، کتاب کا مطالعہ خود کر لیجئے گا۔
گھور اندھیرا، دور سویرا جانا ہے اس پار
ناؤ پرانی، گہرا پانی، چھوٹ گئے پتوار
پھول کھلے ہرجائی بھنورا رس چوسے اڑ جائے
دیپ جلے تو پریم پتنگا اپنے پنکھ جلائے
سب کے سر پر چھاتا تانے دھوپ جلے چھتنار
سکھ بانٹے اور کشٹ اٹھائے پریمی اور اوتار
بابل کا گھر چھوڑ کے گوری سنگ پیا کے جا
پریتم توہے لینے آئے پریت کی ریت نبھا

ترکیب سازی بہت احتیاط طلب امر ہوتا ہے۔ اس میں جہاں لفظی بازی گری کو اپنے کام میں لانا ہے وہاںیہ اہتمام بھی کرنا ہوتا ہے کہ لفظ خالی منقش کٹورے ہی نہ رہ جائیں۔ مشتاق عاجز کی پختہ کاری کا ثمر ہمیں بہت بھرپور اور تازہ کار تراکیب کی صورت میں ملتا ہے: مایا موہ، سمپورن راگ، گھور گپھا، انتم پریتم، گن ونتی، کچی کٹیا، کچا کوٹھا، پن کی دمڑی، نِردھن دھنوان، بوڑھی وِدھوا، پرانی پاپن، دھیان دھارا، پن کی جوت، دیپ شکھا، باٹ نہارن، لاگ لگن کی آگ، آٹھ پہر کی رین، بالا من، آشا دیپ، چڑیا جتنا پیٹ، گیان گیتا، گن دھارا؛ وغیرہ۔


ع:’’ اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں‘‘ کے مصداق ایک دو جگہ پر میں ٹھٹکا ضرور ہوں۔ مجھے مشتاق عاجز کے لکھے پر اعتماد بھی ہے تاہم دل میں آئی بات فاضل شاعر کے قارئین و ناقدین کے حضور پیش کر دینے میں کوئی قباحت بھی نہیں پاتا۔
(۱)۔ فٹ نوٹس میں کہیں ’’لالہ گولک رام‘‘ کی وضاحت بھی کر دیتے!
(۲)۔ یہ ایک دوہا مجھے چال میں کچھ الگ سا لگا:
اس بالی کے دانے سونا، دھوپ جلے جو بالی
اس بالی کی کیا ہریالی جو دانوں سے خالی
(۳) تکرارِ لفظی حسنِ فن ہے، پر ایک آنچ کی کمی رہ جائے تو ماٹی اکسیر نہیں بن پاتی۔
ماٹی کو اکسیر بنانا ہے پارکھ کا کام
پارکھ کے جب ہاتھ لگے تو ماٹی جم کا جام
تن ماٹی کا پنجرا جس میں پنچھی رہے اداس
دانْو لگے تو توڑ کے پنجرا اُڑ جائے آکاس
تیرے من کے اندر مندر مسجد اور کنشت
اپنے من کا نرگ جہنم کر لے سورگ بہشت
نیند بھری سب اکھیاں دیکھیں سپنوں کا سنسار
جو جاگیں پی درشن پائیں اور کریں دیدار
(۴) تکرار کی بہت خوب صورت مثالیں مطالعے میں پیش کر چکا ہوں، یہاں بھی پیش کر دوں۔
ساگر سے بھر لائے گاگر بادل جل برسائے
جل ندیا میں، ندیا آخر ساگر میں مل جائے
سر پر دھر کر گاگر گوری مٹک مٹک لہرائے
لچک لچک بل کھائے کمریا بھومی گھومی جائے

احباب کی محبتوں کے لئے تشکر کے اظہار کے ساتھ اپنی گزارشیں اور جسارتیں سمیٹتا ہوں۔ اختتامِ کلام مشتاق عاجز کے اس شعر پر جو مجھے بے حد پسند آیا۔
ماتھے بندیا آن سجاؤ مانگ بھرو سیندور
جھولا آن جھلاؤ متوا، امبوا لاگا بور
*****
بدھ ۴؍ فروری ۲۰۱۵ء 

4 تبصرے:

  1. بہت خوبصورت شاعری پر جاندار تبصرہ ہے- مشتاق عاجز صاحب کو انٹرنیٹ پر ہی پچھلے دنوں پڑھا اور پھر تلاش کے نتیجے میں یہ تحریر گوگل نے پیش کر دی- رنگا رنگ خیالات پر محیط بہت پختہ شاعری پڑھ کر لطف اٹھایا- بہت ساری دعائیں-

    جواب دیںحذف کریں
  2. آداب۔ اصل حسن تو مشتاق عاجز کے کلام کا ہے محترم، ان کی ساری عمر اسی دشت کی سیاحی میں گزری ہے۔ اس فقیر سے تو بس ایک کتاب کا مطالعہ پیش ہو سکا ہے۔ آپ کو اچھا لگا، اپنی محنت ٹھکانے لگی۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. میں گنگ ہوں۔
    تذکرہ مشتاق عاجز کی سمپورن کا اور بیان یعقوب آسی صاحب کا۔
    ایک چیز ہی دم بخود کرنے کے لیے کافی تھی۔ چہ جائیکہ دو۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بہت شکریہ جناب۔ تاہم بات وہی ہے کہ کتاب ہی اتنی اچھی لگی، اب میں اگر لکھتا نہیں تو کیا کرتا؟ ۔۔

      حذف کریں