ہفتہ، 27 جون، 2015

تھا وہ اک یعقوب آسی (2)۔


تھا وہ اک یعقوب آسی


۔۔۔ یہ 1968 کی بات ہے۔ وہاں مجھے ایک ایسے دفتر میں کام کرنا تھا جس کا کل عملہ میں خود تھا۔

بی آر بی نہر : یہ وہی نہر ہے جس کو 1965 میں ’’غازی نہر‘‘ کا ’’خطاب‘‘ دیا گیا تھا۔ اس کا پورا نام ہے بی آر بی ڈی (بمباں والا، راوی، بیدیاں، دیپال پور) لنک کینال ۔ یہ ہیڈ بمباں والا (دریائے چناب) سے پانی لیتی ہے، دریائے راوی کے نیچے سے گزرتی ہے اور بیدیاں سے ہوتی ہوئی دیپال پور کے قریب دریائے ستلج میں گر جاتی ہے۔ راستے میں متعدد مقامات پر زرعی اور شہری مقاصد کے لئے پانی مہیا کرتی ہے۔ اہلِ لاہور شالامار نہر سے بخوبی واقف ہیں جو شالامار باغ تک آب رسانی کرتی ہے۔ دوسری اور اس سے بڑی نہر لاہور برانچ ہے۔ یہ لاہور شہر کے پار ٹھوکر نیازبیگ تک جاتی ہے جہاں سے چھوٹے کھالوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ یہ دونوں نہریں جلو موڑ کے قریب اسی غازی نہر سے نکلتی ہیں۔ اس کے علاوہ بی آر بی نہر ایک بہت بڑا اور طویل دفاعی مورچہ بھی ہے۔

مختلف متعینہ مقامات پر پانی کے بہاؤ اور مقدار کی پیمائش کی جاتی ہے ۔ کسی ایک پوائنٹ پر نہر میں بہتے ہوئے پانی کی مقدار کو محکمہ جاتی زبان میں ’’ڈسچارج‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا پیمانہ ’’کیوسک‘‘ ہے یعنی ’’مکعب فٹ فی سیکند‘‘۔


جن برسوں میں وہاں کام کرتا تھا، نہر کے کنارے کنارے ایسے تمام پوائنٹ پرانی طرز کی ٹیلیفون لائن کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے۔ پرانے زمانے کے بیٹری والے سیٹ تھے جن میں ایک ہینڈل سے ڈائنمو کو گھمایا جاتا تو ساری لائن پر موجود ٹیلیفون بج اٹھتے۔ میں نے اگر مثال کے طور پر ’’بیدیاں‘‘ سے بات کرنی ہے تو میں کہتا ’’ہیلو بیدیاں‘‘ اور جواب ملتا: ’’ہاں جی، یہ بیدیاں ہے اللہ دتا بول رہا ہوں‘‘۔ باقی لوگوں کی مرضی پر منحصر تھا کہ وہ اپنے ٹیلیفون بند کر دیتے ہیں یا لائن پر رہتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ اس کی ہر کال کانفرنس کال ہو سکتی تھی کہ جتنے لوگ لائن پر ہیں، اگر ان کی بیٹریاں ٹھیک ہیں تو وہ سب بات چیت میں شریک ہو سکتے تھے۔ یوں کبھی کبھار ’’ٹیلیفونی پرھیا‘‘ بھی منعقد ہو جاتی۔ نمبر ڈائل کرنے والا فون پوری لائن پر صرف میرے پاس تھا۔ یوں میری بڑی ذمہ داری کچھ یوں تھی:
۔1۔ ہر تین گھنٹے بعد سارے گیج پوائنٹس سے ڈسچارج روپورٹیں لینا، اور ان کا باقاعدہ ریکارڈ رکھنا۔
۔2۔ رپورٹوں کا تجزیہ کرنا کہ کہیں کسی بھی غیر معمولی کمی بیشی یا بہاؤ میں رکاوٹ کو نوٹ کرنا (ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا تھا)۔
۔3۔ دن میں تین بار ان رپورٹوں کی سمری بنا کر ڈویژنل آفس میں متعین فرد کو ٹیلیفون پر بول بول کر لکھوانا ۔
۔4۔ روزانہ ڈویژنل آفس (برڈ وُڈ روڈ) اور کینال ٹیلیگراف آفس (دھرم پورہ: موجودہ مصطفےٰ آباد) جانے والے ڈاک رنر کو گزشتہ کل کی ساری رپورٹیں اور سمریاں لفافوں میں بند کر کے دینا۔

رسمی طور پر میرے انچارج ایک اوورسیئر صاحب تھے جن کو میری ذمہ داری سے عملاََ کوئی علاقہ نہیں تھا۔ ایس ڈی او صاحب کا دفتر میرے قریب تھا وہ آتے جاتے میرا ریکارڈ کبھی دیکھ لیتے تھے۔ میں اپنے کام میں اصلاََ ایکس ای این صاحب کو جواب دہ تھا۔ اور وہ جب ضرورت محسوس کرتے ٹیلیفون پر ہی پوچھ تاچھ لیتے۔ روزانہ کی رپورٹوں اور سمریوں میں شاید ہی کبھی کوئی تشنگی رہی ہو۔

میری یہ اولین ملازمت تھی جس نے مجھے نوعمری ہی سے ذمہ دارانہ رویہ اپنانے کی عادت بخشی (مشکلات، سختیاں وغیرہ اپنے مقام پر بدستور)۔ دوسری بڑی چیز جو مجھے یہاں سے حاصل ہوئی وہ ہے خود اعتمادی، کہ مجھے کام کرنا بھی خود تھا، اور اس کی تکمیل پڑتال وغیرہ کو دیکھنا بھی خود ہی تھا۔ اپنے برابر کے اور اپنے سے کہیں ’’بڑے‘‘ لوگوں کے ساتھ روزانہ کے معاملات نے مجھے بات کرنے کا سلیقہ بھی سکھا دیا۔ نقصان البتہ یہ ہوا کہ میرے متعدد حاسدین پیدا ہو گئے۔ تاہم جہاں حاسدین اپنا رنگ دکھاتے رہے وہیں میرے کچھ مخلص دوست اور ہمدرد بھی اپنا رنگ جماتے رہے۔

دو برس سے کچھ اوپر کسی قدر سکون سے گزر گئے۔ ہر مہینے کبھی آدھی تنخواہ اور کبھی کم زیادہ اماں کو بھیج دیتا یا خود جا کے مل بھی آتا، پیسے بھی دے آتا۔ ہمارے دیہات میں ایک پوسٹ مین تے راؤ صاحب،  لنگڑا کر چلا کرتے تھے مگر گاؤں گاؤں جا کر ایک ایک مکتوب الیہ سے خود مل کر چٹھیاں پہنچایا کرتے۔ راؤ صاحب کو میں اپنے طالب علمی (سکول) کے زمانے سے جانتا تھا، ان کی محنت اور کام کے ساتھ وابستگی کی لوگ مثال دیا کرتے تھے۔
ایک مہینے مجھے اماں کا پیغام ملا کہ پیسے نہیں پہنچے، جب کہ مجھے پاس منی آرڈر کی واپسی رسید مل چکی تھی۔ مقامی ڈاک خانے میں بات کی تو پتہ چلا مجھے تحریری شکایت پی ایم جی کو کرنی ہو گی۔ اور یہ بھی پتہ چلا کہ ڈاک خانے کے دفاتر کے نام  خط لکھنا ہو تو ڈاک ٹکٹ نہیں لگانے ہوتے۔ میں نے پی ایم جی صاحب کو اپنی شکایت اور واپسی رسید کی فوٹو کاپی ارسال کر دی اور اماں کو لکھ دیا کہ فی الحال اڑوس پڑوس سے کچھ پیسے ادھار لے کر کام چلائیں۔ دو تین ماہ گزر گئے مجھے اپنی درخواست کا کوئی ردِ عمل نہیں ملا۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ پیسے یا تو گئے یا پھر ان کے پیچھے اتنا بھاگنا پڑے گا کہ اس سے زیادہ خرچ ہو جائیں گے۔ ایک دن مجھے ڈاک سے ایک خاصا ’’صحت مند‘‘ پلندہ ملا، جس میں میری درخواست اور اس پر ہونے والی کارگزاری کی تفصیل تھی۔ خلاصہ کچھ یوں ہے:
راؤ صاحب کی ٹرانسفر کسی دوسرے علاقے میں ہو گئی اور ان کی جگہ ایک دوسرا پوسٹ میں آ گیا۔ اس نے ایک دو ماہ تک جائزہ لیا اور شاید ٹیسٹ کیس میرا ہی بنایا۔ اماں انگوٹھا لگاتی تھیں۔ ڈاکئے نے انگوٹھا اپنے گھر سے کسی کا لگوا لیا ہو گا، گواہ کے جعلی دستخط کئے اور پیسے جیب میں فارم ڈاک خانے میں۔ واضح رہے کہ تب تک قومی شناختی کارڈ کا کوئی تصور نہیں تھا، محکمانہ شناختی کارڈ البتہ ہوتے تھے۔ میری درخواست پر کارروائی ہوئی تو ڈاکئے کی چوری پکڑی گئی۔ اس کو تو اپنی ملازمت کی پڑ گئی، تاہم اسے معافی نامے کی شرط پر موقع دیا گیا کہ غبن کے پیسے اماں کو ادا کر دے۔ اس نے پیسے واپس کر دئے، اور گاؤں کے نمبردار اور ایک دو معتبرین سے کہہ کہلوا کر اماں سے معافی نامہ لکھوا لیا۔ تاہم اُس کا علاقہ بدل دیا گیا اور راؤ صاحب پھر ہمارے دیہات میں تعینات ہو گئے۔
رقم کتنی تھی؟ یہی کوئی پچیس یا تیس روپے رہی ہو گی کہ میر کل تنخواہ پینسٹھ روپے ماہوار تھی۔ یہ 1971 سے پہلے کی بات ہے۔

ڈویژنل آفس میں میرا ہم مرتبہ ایک لڑکا تھا، طاہر محمود۔ ٹیلیفون پر اسی سے بات ہوا کرتی، سو، باہم بے تکلفی پیدا ہو گئی۔ ایک دن اس نے بتایا کہ ایک اوورسیئر کے خلاف ایک گمنام درخواست پہنچی ہے، جس میں خاصے بڑے الزامات لگائے گئے ہیں۔ از راہِ تجسس اس سے درخواست کی نقل منگوا لی، پڑھی پھاڑ کے پھینک دی۔ ادھر اوورسیئر صاحب کی جواب طلبی ہوئی تو اُن کا سارا زور اس بات پر تھا کہ درخواست گزار کا پتہ لگایا جائے۔ عجیب تماشا بن گیا، ایک ایک کو بلا کر کہا جا رہا ہے کہ قرآن شریف پر قسم دو کہ نہ میں نے درخواست دی ہے، نہ مجھے پتہ ہے کہ اس میں کیا لکھا ہے۔
ظاہر ہے میری باری بھی آ گئی۔ میں نے کہہ دیا کہ آدھی بات کی قسم دوں گا! یہ کہ میں نے درخواست نہیں دی۔ رہی دوسری آدھی بات کہ درخواست میں کیا لکھا ہے؛ وہ میرے علم میں ہے لہٰذا اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ دوسروں کے لئے خاصی دل چسپ صورتِ حال رہی ہو گی اور یہ سوال اپنی جگہ اہم رہا ہو گا کہ جناب محمد یعقوب کو درخواست کے مندرجات کیوں کر معلوم ہیں۔ میں کسی بھی صورت میں طاہر محمود کا نام نہیں لے سکتا تھا کہ اس نے مجھے فوٹوکاپی بھیجی ہے۔ میں اپنے دوست کے اعتماد کو اتنی بڑی ٹھیس کیسے پہنچا دوں۔ درخواست کے مندرجات میں ایسی اطلاعات بھی تھیں جو اوورسیئر صاحب کا کوئی بہت قریبی یا راز دان ہی جان سکتا تھا۔ 
آخر کار مجھے کہا گیا کہ یا تو مان جاؤ کہ درخواست تم نے دی ہے۔ یا اس شخص کا نام بتاؤ جس نے تمہیں وہ ساری باتیں بتائیں جو درخواست میں شامل ہیں یا پھر ملازمت سے مستعفی ہو جاؤ نہیں تو ہم تمہاری چھٹی کرا دیں گے۔ میں نے استعفیٰ دیا، دیہاڑیوں کے بقیہ پیسے لئے اور اماں کے پاس پہنچ گیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بعد میں مجھے تجربے کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑی۔ میری تحریری درخواست پر جاری کئے جانے والے سرٹیفکیٹ پر دستخط انہیں اوورسیئر صاحب کے ہیں اور توثیق کے دستخط اس وقت کے ایس ڈی او صاحب کے ہیں۔ سرٹیفکیٹ کے مندرجات میں یہ بات شامل ہے کہ ملازم مذکور اچھے چال چلن کا حامل اور دیانت دار شخص پایا گیا ۔

اسکول کے زمانے کا ایک واقع سنتے چلئے
ابا فوت ہوئے تو اُن پر اس وقت تقریباََ سترہ سو روپے قرضہ تھا، تب مزدور کی دیہاڑی دو روپے ہوتی تھی۔ آج مزدور چار سو پانچ سو روپے سے کم پر نہیں ملتا۔ تب کا سترہ سو آج کا تقریباََ ڈیڑھ لاکھ بنتا ہے۔ اماں نے مال مویشی بیچ کر وہ سترہ سو چکا دئے کسی سے نہیں کہا کہ مجھے تو خود دو روٹی کی فکر پڑی ہے۔ جو کچھ بچا اس کو خرچ کیا اور مجھے سے بڑے بھائی اور بہن کی شادیاں کر دیں۔ اب میں تھا، اور اماں تھیں اور اللہ تو ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہی ہوتا ہے۔ 
میں جسمانی طور پر بھی اتنا کمزور تھا کہ دیہاڑی، مشقت وغیرہ کر ہی نہ پاتا۔ بڑے بھائی شادی کے کوئی سال سوا سال بعد پوسٹنگ ہو کر ڈھاکہ (مشرقی پاکستان) چلے گئے۔ ان کی تنخواہ بھابی کے نام آیا کرتی، ان کی مرضی ہوتی تو سو احسان جتا کر دس بیس روپے اماں کے ہاتھ پر رکھ دیتیں نہیں تو نہ سہی۔ اماں سارا دن ہاتھ کی سوئی سے لوگوں کے کپڑے سیا کرتیں اور رات میں سوت کاتا کرتیں۔ بہ این ہمہ نوبت بہ این جا رسید کہ چولھا بجھنے لگا۔ اماں نے اپنی ساری خود داری کو ایک طرف رکھا اور مجھے کہنے لگیں: تمہارے فلاں (رشتے کے) چاچا ہر سال زکوٰۃ دیتے ہیں۔ ان سے کہو ہماری کچھ مدد کر دیں۔ میں نے وعدہ تو کر لیا کہ کہوں گا، مگر سوال کرنے کی ’’ہمت‘‘ کہاں سے لاتا۔ تین دن تک اپنے آپ سے لڑتا رہا، اماں روز پوچھتیں، میں ٹال دیتا۔ چوتھے دن انہوں نے زور دے کر کہا تو میں نے زندگی میں پہلی بار ماں کا کہا ماننے سے انکار کر دیا۔ میں نے کہا: اماں، سکول چھوڑ دیتا ہوں، دیہاڑی کر لوں گا، جتنی جوگا ہوں مزدوری کر لوں گا مگر یہ جو تو نے کہا ہے مجھ سے نہیں ہو گا۔ اس دن اماں سارا دن روتی رہیں، مجھے معلوم تھا کہ ان کا رونا میرے انکار کی وجہ سے نہیں تھا۔ میں بھی سارا دن روتا رہا، میرا ایک دکھ تو یہ تھا کہ میں اماں کا حکم ماننے جوگا بھی نہیں؟ اور دوسرا وہی، جو اماں کا تھا۔ کچھ کہنے سننے کی ضرورت ہی کسے تھی۔
شام ہوئی تو میں انا کی لاش اٹھائے چاچا کے گھر چلا گیا اور بصد ہزار مشکل وہ بات کہہ دی جو مجھے آج بھی تکلیف دے رہی ہے۔ ’’چاچا زکوٰۃ سے کچھ پیسے  ۔ ۔۔‘‘ اور پھر میرے لفظ آنکھوں سے بہہ نکلے۔ چاچا نے مجھے تسلی دی، بیٹا گھبراؤ نہیں، تم میرے عزیز ہو پر مجبوری یہ ہے کہ زکوٰۃ اپنے رشتہ داروں کو نہیں دی جاتی۔ ان کی منطق وہ جانیں، میں گھر واپس آ گیا اور اماں کو بتا دیا جو چاچا نے کہا تھا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اماں کے آنسو ان کی مسکراہٹ سے چمک اٹھے۔ انہوں نے مجھے سینے سے لگا لیا اور کہا: بیٹا! اللہ ہے نا، وہ ہمارے لئے کافی ہے، تو بالکل بے فکر ہو جا۔ چھٹی کا دن ہوتا میں کسی کے ہاں چھوٹا موٹا کام کرا دیا کرتا، کبھی ایک روپیہ مل جاتا کبھی دو بھی مل جاتے۔ جیسے تیسے رات کو پیٹ بھر کر سو جاتے اور میں صبح بستہ اٹھا کر سکول چلا جاتا۔ میرے دسویں جماعت کے امتحان ہو گئے تب اماں نے کہا تھا: بیٹا میں اب تھک گئی ہوں۔ اور پھر میں جلو موڑ چلا گیا تھا۔

جلو موڑ والی نوکری تو خیر جاتی رہی، وہ بیان ہو چکا مجھے جلو موڑ سے ملا بھی بہت کچھ! میں اس پر اپنے اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔ بندہ تو ویسے بھی شکر ادا نہیں کر پاتا۔ ہر سانس میں کلمہء شکر ادا کرے تو بھی آدھی سانس کا شکر بھی ادا نہیں ہوتا۔ دعوے کوئی جتنے بڑے کرتا پھرے۔ جلو موڑ نے مجھے دوست دیے۔ ایک تو وہ طاہر محمود تھا، ایک سلیم شیخ تھا اس کا گھر کرشن نگر میں تھا، میں سلیم کے گھر جایا کرتا تھا اور اس کی والدہ کو امی کہہ کر بلاتا تھا۔ ایک میرے محلے (کالونی) کا لڑکا، میرے ایک بزرگ ملازم ساتھی کا بیٹا الیاس بیگ تھا، اور بھی دوست تھے مگر یہ تینوں نمایاں تھے۔ الیاس بیگ کو دسویں جماعت کی انگریزی کی تیاری میں نے کرائی تھی، اس کے والد مرزا اکبر علی بیگ میری بہت قدر کرتے تھے۔ میرے ایک ایکس ای این صاحب تھے شیخ صاحب کہنا ہی کافی ہو گا۔ سلیم شیخ ان کا شاید ماموں زاد تھا یا چچا زاد، اب مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ ان کا ذکر آگے آئے گا، نام اس لئے بھی لکھ دیے کہ اجنبیت کا احساس جاتا رہے۔

وقت بہت ہوتا تھا میرے پاس اور پابندی یہ تھی کہ دفتر چھوڑ کر بندہ کہیں آگے پیچھے نہیں ہو سکتا تھا۔ صبح سویرے چھ بجے پہلی رپورٹ جمع کی، کاغذات تیار کئے، فون پر سے فارغ ہوئے، ڈاک رنر کے لئے دو لفافے تیار کئے اور پھر ناشتہ۔ پھر نو بجے، پھر بارہ بجے، پھر تین بجے۔ ہر تین گھنٹے بعد کوئی آدھ گھنٹے کا کام ہوتا۔ پڑھنے سے لگاؤ تو تھا ہی، دو تین سستے سستے ادبی پرچے لگوا لئے، اس سے زیادہ کی جیب اجازت نہیں دیتی تھی۔ اوراق فنون تب بھی نکلتے تھے مگر ان کی قیمت سن کر غش آتا تھا، خریدنے کی جرات کون کرے۔ سوچا ایف اے کی تیاری کرتے ہیں۔ عربی کا کورس اس لئے بھی اچھا لگا کہ چلئے اور کچھ ہو نہ ہو، قرآن شریف پڑھنا تو آ جائے گا، کچھ کچھ معانی بھی جان جائیں گے۔ ’’عربی کا معلم‘‘ پہلی کتاب تھی جو میں نے خریدی۔ امریکن سنٹر اور برٹش کونسل لائبریری کی رکنیت مفت تھی، پندرہ دن میں ایک بار سائیکل کرائے پر لیتا، پہلی کتابیں واپس کرتا اور ایشو کروا کر لے آتا۔ انگریزی ناول شاعری سمجھ کچھ نہیں آتا تھا مگر پڑھتا جاتا پڑھتا جاتا، پھر ہولے ہولے انگریزی بھی سمجھ میں آنے لگ گئی، نصاب کی کتاب بھی رکھی تھی، مگر پڑھتا کم ہی تھا۔ زیادہ وقت عربی کو دیتا، وہ بھی پڑھانے والا کوئی نہیں، ٹیوشن فیس ادا کرنے کو کچھ نہیں؛ سو، خود ہی استاد، خود ہی شاگرد۔ ادھر دفتر کے کام میں خود ہی چپڑاسی، خود ہی بابو، اور خود ہی افسر ۔ ہانڈی روٹی پکانا بھی کچھ کچھ آ گیا، بازار کا کھانا نہ تو کام و دہن سے لگا کھاتا تھا نہ جیب سے۔ گویا جلو موڑ نے جینے کے کچھ حربے سکھا دیے۔

ایک سستا سا ریڈیو لے لیا تھا۔ دو بڑی دل چسپیاں تھیں، ایک تو خبریں سننا اور دوسرے غیر فلمی گیت اور غزلیں۔ ریڈیو لاہور کا پروگرام ’’ندائے حق‘‘، اسلام آباد کا ’’آوازِ دوست‘‘، پشاور کا ’’سب رنگ‘‘، کراچی کا ’’اردو ڈراما‘‘ میرے پسندیدہ نشریے تھے۔ ویسے ریڈیو کم و بیش سارا دن بولا کرتا، مگر دھیمی آواز میں۔ بلند آہنگی میرے مزاج کا حصہ ہی نہیں تھی۔ ایف اے کا امتحان تو نہ دے سکا کہ نوکری چھوڑنی پڑی، مگر کچھ کچھ لکھنے کی طرف طبیعت مائل ہونے لگی۔
جس رات سقوطِ ڈھاکہ کی خبر نشر ہوئی وہ رات میں نے کیسے گزاری میرا اللہ جانتا ہے۔ قومی المیے میں میرے دو ذاتی المیے بھی شامل تھے، ایک تو بڑے بھائی اور ایک بہت پیارے ہم جماعت ڈھاکہ میں تھے۔ دونوں فوجی سپاہی تھے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ان کے جنگی قیدی ہو جانے کی خبر سکون آور ہوئی۔ یہ چلئے زندہ تو ہیں۔
کچھ سنبھالا ملا تو ایک پنجابی نظم کہی اور لاہور سے شائع ہونے والے ماہانہ ’’پنجابی زبان‘‘ کو بھیج بھی دی۔ ڈاکٹر رشید انور ایڈیٹر تھے، انہوں نے چھاپ بھی دی۔ پھر ایک کہانی لکھی ’’ماں دا خط، قیدی پتر دے ناں‘‘ وہ بھی ’’پنجابی زبان‘‘ میں شائع ہوا۔ مہینہ وار ’’لہراں‘‘ مجھے خاصا مشکل لگتا تھا، تاہم میں اسے باقاعدگی سے پڑھا کرتا۔ میرے ہم جماعت دوست کی والدہ فوت ہوئی، جب وہ ادھر قیدی تھا تو میں نے اس کو بھی ایک کہانی میں بیان کرنے کی کوشش کی ’’ماسی فتح‘‘ نامی یہ کہانی لہراں میں شائع ہوئی۔ یہ غالباََ 1972 کے اوائل کی بات ہے۔ اچھی بات یہ رہی کہ ان تینوں کاوشوں میں ایڈیٹر صاحبان کو بہت تھوڑی اصلاح کرنی پڑی۔

میں نے پہلے بھی کہیں یہ بات کہی تھی یا لکھی تھی کہ میرا تعلق اس طبقے سے تھا جہاں بچپن کے بعد بڑھاپا آتا ہے۔ ان دونوں کے بیچ کی زندگی روٹی کے دو پاٹوں میں پس کر گرد و غبار کی صورت اڑ جاتی ہے۔ روٹی کمانا کوئی آسان کام ہے؟ ہاں اگر کوئی اپنے ایمان اور ضمیر کی قیمت پر کمانا چاہے تو شاید یہی کام بہت آسان ہو جاتا ہو گا۔ یہ ضمیر بھی عجیب بادشاہ ہے کہ غریبوں سے چمٹا رہتا ہے، یہ نہ کرو، وہ نہ کرو، یہ ٹھیک نہیں، وہ غلط ہے وغیرہ۔ ہزاروں لاکھوں ایسے رہے ہوں گے جو خود تو ہڈیوں کا ڈھانچا بن جاتے ہیں مگر اِس ضمیر کو پال پال کر مضبوط اور توانا کرتے رہتے ہیں۔ شاید ان کی زندگی کا محور ہی یہ ضمیر ہو، وہ اسی کو دیکھ دیکھ جیتے ہوں۔ انہی ہزاروں لاکھوں میں ایک وہ بارہ تیرہ سال کا زرد رُو لڑکا بھی رہا ہو گا جس کے بچپن کا آخری عمل اپنے باپ کے پاؤں دابنا ہو اور پھر زندگی کی آدھی صدی گم کرنے کے بعد اکیسویں صدی کی ڈیڑھ دہائی گزر جانے پر اسے پتہ چلا ہو کہ میں تو بوڑھا ہو چکا ہوں۔ہمارے طبقے کے لوگوں کی بڑی بڑی خوشیاں بھی اور عظیم غم بھی دوسروں کی نظر میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ ہوا کریں میرے لئے تو بڑے ہیں نا! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میری وہ آدھی صدی کہیں گم نہیں ہوئی۔ مجھے وہ کچھ دے گئی جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

جلو موڑ سے گاؤں واپسی ہوئی تو یہ فکر اور مضبوط ہو گئی کہ جناب کمانا کیسے ہے؟ اور وہ بھی ایسا کہ روٹی حلق سے نرمی کے ساتھ اتر جائے، اس میں کوئی احساسِ جرم یا کسی کی حق تلفی کا کانٹا نہ ہو جو گلے میں اٹک جائے۔ غریب آدمی کی ضروریات ہی کیا ہوتی ہیں! دیکھا جائے تو ضروریات تو غریب اور امیر دونوں کی ایک سی ہوتی ہیں، وہ الگ بات کہ کوئی اِسراف اور تعیش کو بھی ضرورت بنا لے اور اُن کو پورا کرنے میں اندر ہی اندر غریب سے غریب تر ہوتا چلا جائے۔ مجھے ایسی غربت سے بہت ڈر لگتا تھا۔ اسی ڈر سے محفوظ رہنے کے لئے گاؤں میں چھوٹی موٹی محنت مزدوری کرنے لگا، شہر میں روئی پیلنے اور تیل نکالنے کا ایک کارخانہ تھا، وہاں کام کرنے لگا۔ وہاں اپنی ہڈیوں سے زیادہ وزنی کڑاہے اٹھاتا اور شام کو دو روپے ملتے تو اس میں اپنے پسینے کی خوشبو محسوس کر کے نہال ہو جاتا۔ 
مگر اُس دل کا کیا کیجئے گا جس کو اللہ کریم ایک ماں کے سینے میں رکھ دیتا ہے۔ رمضان شریف آ گیا تو ماں نے کام پر جانے سے منع کر دیا کہ بیٹا روزہ رکھ کر ایسی مشقت نہیں کر پائے گا۔ پوچھا اماں روٹی بھی تو کھانی ہے، بولیں بیٹا! اللہ ہے نا! عید کے بعد چلے جانا کارخانے تب تک کوئی اور چھوٹا موٹا کر لے۔

رات کو اپنی پرانی خریدی ہوئی ایف اے کی کتابیں نکال کر بیٹھ جاتا اور لالٹین کی مدھم روشنی میں حرفوں سے کرنیں کشید کیا کرتا۔ اماں نماز پڑھ کے بظاہر سو جاتیں تو میرا کورس کی کتابوں سے مکالمہ شروع ہوتا۔ رات میں کسی وقت ان کی آنکھ کھلتی تو پوچھتیں: تو سویا نہیں اب تک؟ میں ہولے سے نہیں کہتا، اماں کہتیں سو جا! رات گزر گئی ہے، مگر زور دے کر نہ کہتیں۔ ان کے تو خیالات ہی اور ہو رہے تھے۔ بیٹا روٹی لتے کے چکر میں تھا اور اماں بہو لانے کی سوچ رہی تھیں۔ ایک دن ایک سفید ریش بزرگ ہمارے ہاں مہمان ہوئے۔ میں ان کے نام سے واقف تھا اور یہ جانتا تھا کہ دور پار سے میرے ماموں ہوتے ہیں اور اوکاڑا شہر میں رہتے ہیں، کسی سرکاری دفتر میں چپڑاسی ہیں۔ دن کا کچھ حصہ ہمارے ساتھ گزارا اور چلے گئے۔ دو تین دن بعد اماں ان کے ہاں گئیں، پھر ماموں کے بڑے صاحب زادے آئے، ان سے میں پہلے بھی مل چکا تھا۔ وہ ایک پرانی سی سائیکل پر گاؤں گاؤں پھرا کرتے، مرغیوں بطخوں کے انڈے خریدا کرتے اور شہر میں بیچ دیا کرتے تھے۔ انہوں نے میرا گویا انٹرویو سا لیا: کیا کرتے ہو، کیا سوچتے ہو، آگے کیا ارادہ ہے وغیرہ۔ وہ چلے گئے تو اماں نے بتایا کہ میں تیرے لئے لڑکی ڈھونڈ رہی تھی، وہ مل گئی ہے، اب بات پکی کرنی ہے۔ کہا: اماں ادھر کھانے کی پڑی ہے اور آپ بہو لانے کے چکر میں ہیں۔ دو ڈھِڈیاں پلنی مشکل ہو رہی ہیں، آپ کی بھتیجی کو بھی تو کچھ کھانے پہننےکو چاہئے ہو گا۔ جواب میں اماں کا وہی ایک جملہ، جس کا انکار نہ کبھی ہوا، نہ ہو سکتا ہے! ’’اللہ ہے نا! ‘‘
بات پکی ہو گئی، مبارک سلامت کے تبادلے بھی ہو گئے تو اماں کے دل میں ایک اور خدشہ ابھرنے لگا کہ میرا کیا ہے، آج مرے کل دوجا دِن، میں مر مرا گئی تو کون یہ بات نبھائے گا! وہ لوگ بیٹی والے ہیں، کب تک انتظار کریں گے،کہیں پھسل ہی نہ جائیں۔ لڑکا رُل جائے گا۔ جلدی جلدی میں بیاہ تو ہو نہیں سکتا نکاح کر دیتے ہیں، لڑکا ادھر آنے جانے جوگا ہو جائے گا، مل ملا کے روزگار کا بھی کچھ نہ کچھ ہو رہے گا۔ سو بزرگوں نے مل بیٹھ کر میرا اور عائشہ کا نکاح کر دیا۔ تب میری عمر یہی کوئی بیس سال تھی، اور اُس کی مجھ سے کوئی دو سال کم۔

اللہ کے کام حکمت سے خالی نہیں ہوتے۔ میں ایف اے کے پرائیویٹ امتحان کا داخلہ بھیج چکا تھا جن دنوں نکاح کی سنت ادا ہوئی۔ بعد میں ڈیٹ شیٹ آئی تو اوکاڑا شہر میں برلا ستلج ہائی سکول میرا امتحانی مرکز تھا۔ اوپر تلے دس پرچے کوئی بیس دن کا کل پروگرام، گاؤں سے رینالہ خورد شہر، وہاں سے اوکاڑا اور پھر سکول !! اماں سے اجازت لے کر کتابیں اٹھائیں اور ماماجی کا دروازہ آن کھٹکھٹایا۔ بہت سکون سے امتحان دیا اور ظاہر ہے بیگم سے گپ شپ تو ہونی ہی تھی! میرے اکلوتے ہم زلف جو عمر میں میرے چچا لگتے تھے، اور میری رشتے کی بہن جو بلامبالغہ میری خالہ لگتی تھیں ان کی محبتیں میرے لئے ماں کے بعد سب سے زیادہ پر خلوص تھیں۔ بعد ازاں، اماں فوت ہوئیں تو میں نے باجی کے دامن میں پناہ لے لی تھی۔ اور جس دن باجی فوت ہوئیں، مجھے یوں لگا جیسے میری ماں ایک بار پھر مر گئی ہو۔

بیگم کے بڑے بھائی (اصل نام عنایت اللہ) نے اپنا ایک اختیاری نام رکھا ہوا تھا: سردار سعید عنایت اللہ وفا چوہدری ٹھیکے دار۔ اخبار بیچا کرتے تھے۔ مجھے بھی ساتھ ملا لیا، مگر وہ کام اپنے مزاج کا نہیں تھا۔ بھائی جان (ہم زلف) ایک مدت سے کچہری میں کام کرتے آ رہے تھے، مجھے بھی ایک وکیل کے ساتھ منشی رکھوا دیا۔ بیگم کے ہاتھ کی پکی روٹی ملنے لگی، کپڑے جیسے بھی تھے استری ہونے لگے۔ 
ملک شہادت علی نوناری ایڈووکیٹ کا تعلق دریا کے علاقے سے تھا، جس تہذیب کو ’’جانگلی‘‘ کہا جاتا ہے۔ ملک صاحب کے پاس اسی علاقے سے فوجداری کیس آیا کرتے تھے۔ خرچہ وغیرہ کر کے کوئی بیس روپے ہفتہ بچ رہتے وہ میں ہر ہفتے اماں کو دے آتا، چھٹی کا دن ان کے ساتھ گزارتا اور پھر ملک صاحب کے پاس حاضر ہو جاتا۔ مالی حالات میں کچھ بہتری آنے لگی، کہ مجھے نہانے کو کالے صابن کی بجائے لائف بوائے ملنے لگا تھا۔ معمول کے مطابق ایک دن میں اماں سے ملنے گیا، شام کو کھانا وغیرہ کھا کر ہم ماں بیٹا چولھے کے پاس بیٹھے تھے، میں نے پیسے دیے تو اماں نے نہیں لئے: بیٹا رہنے دو۔ میں بھانپ تو گیا کہ کہیں کچھ گڑبڑ ہے۔ میں کہتا رہا، اماں انکار کرتی رہیں، میں کریدنے لگا تو انہوں نے دل کی بات کھول دی جسے سن کر میں سناٹے میں آ گیا۔ وہ کہہ رہی تھیں: بیٹا، میں نے سنا ہے کہ وکیل لوگ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کے پیسے لیتے ہیں۔ اور انہیں اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ وہ کسی بے گناہ کے وکیل ہیں یا گناہگار کے۔ انہیں اپنے بندے کو بچانا اور دوسرے کے بندے کو پھنسانا ہوتا ہے۔ وہ یہ کام نہ کر سکیں تو لوگ ان کے پاس آتے ہیں نہیں۔ وہ جو کمائے گا، اپنے منشی کو بھی اسی سے دے گا نا! نہیں بیٹا! میں اس طرح کے پیسے نہیں لے سکتی۔ چھٹی کا دن گزرا ، میں ملک صاحب کے پاس حاضر ہوا اور ان کو بتایا کہ میں یہ منشی گیری چھوڑ رہا ہوں۔ ان سے اجازت لے کر بھائی جان کے تھڑے پر گیا اور پھر عائشہ، ماماجی، باجی، وغیرہ سے رخصت ہو کر ماں کے پاس حاضر ہو گیا۔ کچھ ہی مہینوں بعد رخصتی عمل میں آئی۔ عائشہ گاؤں میں کیا آ گئی میرے تفکرات دو چند سہ چند ہو گئے۔ وہ جو لاڈ اور خوشیوں اور مستیوں خرمستیوں کے دن ہوتے ہیں میرے لئے قطعی مختلف تھے۔

بیاہ شادیاں رشتے اپنے جیسے لوگوں سے ہوں تو اس کے فائدے بھی بہت ہوتے ہیں۔ اور عزیزوں رشتہ داروں میں ہوں تو اور بھی اچھی بات ہے۔ نیتوں اور دلوں کا صاف ہونا البتہ ہر جگہ شرط ہے، کوئی اپنا ہو یا پرایا۔۔ ضمناََ ایک واقعہ سنتے چلئے۔
یہاں راولپنڈی میں ادب کے حوالے سے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، نام میں کیا رکھا ہے چلئے اپنی سہولت کے لئے انہیں خاکوانی کہہ لیجئے۔ موصوف کی آنکھ کسی سیٹھ کی لاڈلی بیٹی سے لڑ گئی۔ سیٹھ صاحب نے بھی کوئی فلمی ڈائیلاگ نہیں بولے اور نہ کوئی رقیبِ رو سیاہ وارد ہوا، خاکوانی صاحب سیٹھ کی بیٹی کو بیاہ کر تین مرلے کے ایک مکان میں لے آئے جس کے مالکانہ حقوق اس کمپنی کے پاس تھے جس میں موصوف کے ابا حضور ملازم تھے۔ یار لوگ ولیمے کی دعوت میں جمع ہوئے تو باتوں سے باتیں چل نکلیں۔ میں نے پوچھ ہی لیا کہ یار خاکوانی تمہاری ’’سیٹھ زادی‘‘ یہاں رہنے سے تو رہیں! کیا کر رہے ہو؟ بولے: آج شام ہم اسلام آباد جا رہے ہیں، ایک مکان کرائے پر لے لیا ہے۔ ہم سے نہ رہا گیا، پوچھا: سسرال کے ہاں انیکسی میں رہو گے؟ یا الگ۔ بولے: مکان کرائے پہ لے لیا ہے تین ہزار ماہوار پر۔ ان دنوں موصوف لیکچرار تھے اور ان کی تنخواہ الاؤنس وغیرہ ملا کر کوئی اٹھائیس سو روپے بنتی تھی۔ سیٹھ صاحب کی انڈسٹریل ایریا میں ایک فیکٹری تھی۔ سینکڑوں مزدوروں کے ساتھ ساتھ خاکوانی صاحب جیسے بیسیوں لوگ ان کے آگے دست بستہ حاضر ہوتے تھے۔ ایسے میں ہمارے خاکوانی صاحب کہاں فٹ بیٹھتے ہیں، یہ سوال ہم ادیب دوستوں کا مشترکہ سوال تھا۔ کسی نے کچھ کہہ دیا، تو کوئی چپکا ہو رہا کہ بھائی وہ جانے وہ جانے، جنہوں نے کیا ہے کچھ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہو گا۔ مگر اس کو کیا کہئے گا؟ کہ تین چار مہینے بعد ملنے والی خبر کے مطابق خاکوانی صاحب کو سسرال نے ڈسٹ بن میں پھینک دیا تاہم اس سے پہلے طلاق نامے پر دستخط لینا نہیں بھولے۔ اس کے پیچھے کتنی بھی کہانیاں ہوں جو کسی حیرت ڈائجسٹ کا حصہ بن سکتی ہوں۔ سب سے بڑا اور نمایاں فرق ’’اسٹیٹس‘‘ کا تھا۔
مشہور کہاوت ہے کہ : مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ، ماڑے کو ماڑا ملے سینہ کھول کھول۔
یہیں ایک اچھی خبر بھی ہے کہ بعد ازاں موصوف کی اپنے رشتہ داروں میں اسی لڑکی سے شادی ہوئی، جسے وہ کبھی رد فرما چکے تھے۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق خاکوانی صاحب کا گھر خوشیوں کا گہوارا ہے۔ ما شاء اللہ۔
آخری تدوین‏جون 7, 2014

مجھے نہیں معلوم کہ میں جو کچھ اب کہنے جا رہا ہوں اسے میرا واہمہ سمجھا جائے گا یا اعتقاد یا نفسیاتی مسئلہ؛ تاہم اپنے محسوسات پوری دیانت داری سے درج کر رہا ہوں۔
شروع شروع میں بہت سارے تخلص اختیار کئے مگر کوئی ذہن میں جم نہیں سکا۔ آخرکار ’’عاصی‘‘ اختیار کیا۔ اور ایف اے کے داخلہ فارم میں لکھ بھی دیا۔ میں اس کے معانی ’’گناہ گار‘‘ سمجھتا تھا، اور اعتراف میں کوئی قباحت بھی نہیں تھی کہ کچھ احساسات انسان کو نیکی کی طرف لانے میں تحریک کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ ایک موقعے پر یہ کھلا کہ ’’عاصی‘‘ کے درست معانی ’’گناہ گار‘‘ نہیں ’’نافرمان‘‘ ہیں۔ ایک طرح کی بے چینی سی لگی ہوئی تھی، کہ اب تو یہ ریکارڈ پر بھی آ جائے گا!! کیا ہونا چاہئے۔ سعید آسی صاحب ایک کالم نگار ہوتے تھے، ان کا نام دیکھا تو ذہن میں گویا ایک جھماکا سا ہوا: ’’یار یہ ٹھیک ہے!‘‘ آس سے آسی، پُر امید، جسے انگریزی والے آپٹیمسٹ کہتے ہیں۔ سو، اپنے طور پر یہی اختیار کر لیا۔ اللہ بھلا کرے ملتان بورڈ والوں کا کہ ایف اے کی سند پر انہوں نے نام صرف رومن میں لکھا، اردو عبارت میں ہوتا تو شاید بات مختلف ہو جاتی۔ بہت بعد میں بی اے کا داخلہ فارم بھیجا تو اس پر اردو اور انگریزی دونوں میں نام لکھنا تھا۔ ایک مدت بعد بی اے کی سند ملی تو اس پر دونوں خطوں میں نام لکھا ہوا تھا، اردو خط میں ’’محمد یعقوب آسی‘‘۔ بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کا پہلا نام ’’ملتان یونیورسٹی‘‘ تھا۔ لفظ آسی کی معنویت ایک بار پھر زیرِ بحث آئی جب لفظیات اور ساختیات کا کچھ شعور ہوا۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن میں تھی کہ ’’نام اچھے رکھا کرو‘‘ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کچھ ساتھیوں کے نام تبدیل بھی فرمائے۔ بہت ساری لغاتیں کھنگالنے کے بعد ایک بہت خوبصورت بات دریافت ہوئی۔ لفظ آسی کی اصل اسوۃ ہے، یعنی طرزِ حیات اور آسی کا مفہوم ہے اچھے اطوار میں زندگی کرنے والا۔ اللہ کا شکر ادا کیا اور دعا بھی کی کرتا بھی ہوں کہ اللہ مجھے اپنے اس اختیاری نام کا پاس رکھنے جوگا کر دے۔ آمین۔
سب سے چھوٹے بیٹے کا نام محمد حسان طلحہ ہے۔ حسان سے ایک نِک نیم ’’سانی‘‘ ایسا چلا کہ وہی نام کی جگہ چل نکلا۔ لفظ آسی کی معنویت کا معاملہ در اصل ’’سانی‘‘ سے اٹھا تھا۔ سوچا کہ یارو ایسا تو نہیں کہ ’’سانی‘‘ ایک مہمل لفظ نکلے یا کوئی ایسا ویسا ہو، ذرا دیکھا تو چاہئے! یہاں بھی ایک بہت خوبصورت بات سامنے آئی۔ ’’سانی‘‘ عربی محاورے میں وہ شخص ہے جو کنواں کھودے اور اس کا پانی دوسروں کو بھی پلائے۔ میں نے بچے سے کہا کہ یار، اس کو باقاعدہ طور پر اختیار کر لو کہ اس میں ایثار، ہمدردی، مؤدت، دریا دلی اور کچھ کر گزرنے کے معانی پائے جاتے ہیں۔ اور اب کے بعد اس نام سے پکارے جانے پر برا نہ منانا۔
 ‏جون 7, 2014

ایک دن سلیم شیخ اچانک میرے گاؤں آن پہنچا۔ کہنے لگا: تمہیں تو پتہ نہیں ہو گا، بھائی جان (شیخ صاحب) کو ’’تین سو تین رشوت خوروں‘‘ میں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے اور انہوں نے کچھ دوستوں سے مل کر ایک کارپوریشن بنا لی ہے۔ حال ہی میں شاہدرہ والی ٹول ٹیکس کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔ انہیں ایک اکاؤنٹنٹ کی ضرورت ہے، ان سے مل لو۔ میں ظاہر ہے بھاگا بھاگا شاہدرہ پہنچا، شیخ صاحب سے ملا تو انہوں نے مجھے نوکری دے دی۔ شاہدرہ ریلوے سٹیشن کے پاس ایک حجرہ سا تھا، اس میں ایک بجلی کا بلب لگ سکتا تھا اور کچھ نہیں، دس روپے مہینہ کرائے پر مل گیا۔ باہر ایک ہاتھ نلکا لگا تھا جو یقیناََ کسی ’’سانی‘‘ کی طرف سے صدقہء جاریہ تھا۔ ضروریات کے لئے ریلوے سٹیشن کے باتھ روم کفایت کر جاتے۔ روٹی ریلوے سٹیشن کے باہر مسافر ہوٹل اور چھپر ہوٹل سے مل جاتی، نرخ بھی مناسب تھے۔ ایک سو اسی روپے ماہوار تنخواہ پیش کی گئی، ظاہر ہے قبول تو کرنی ہی تھی۔ اس دور میں بابو کی تنخواہ سے بہر حال زیادہ تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔ جاری  ہے۔

14 تبصرے:

  1. جوابات
    1. جب تک کوئی باضابطہ طریقہ پتہ نہیں چل جاتا، اس کو بُک مارک کر لیجئے۔

      بلاگ کے عنوان مثلاً "مِری آنکھیں مجھے دے دو" پر کلک کریں۔ صفحہ دوبارہ کھلے گا۔ اپنے کممپیوٹر کے کی بورڈ پر "کنٹرول۔ڈی" دبائیں۔ اوپر بار میں ایک نام از خود تجویز ہو جائے گا، اسے اوکے کر دیں۔ یہی نام بار پر محفوظ ہو جائے گا۔ جب بھی بلاگ دیکھنا چاہیں اس محفوظ شدہ نام کو کلک کر لیں۔

      حذف کریں
    2. شکریہ اس طرح کروں گی میں اب

      حذف کریں
    3. میں نے کچھ سائٹس بک مارک کی ہوئی ہیں، اس سے مجھے خاصی سہولت ہو گئی ہے۔

      حذف کریں
  2. کسی سے پوچھتا ہوں، مجھے بھی نہیں معلوم۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شاید اردو میں ہے اس لیے یہاں معلوم نہیں ہورہا ۔۔ ورنہ بلاگ خود آپشن دیتا ہے

      حذف کریں
    2. ذوالقرنین سے بات ہوئی ہے۔ عید کے بعد سیٹنگ کی خامیاں بھی دور کریں گے اور کچھ بہتری کی بھی کوشش کریں گے۔ میزے ذہن میں کتنی ہی چیزیں ہیں جو توجہ طلب ہیں۔

      حذف کریں
  3. میں نے پہلے بھی کہیں یہ بات کہی تھی یا لکھی تھی کہ میرا تعلق اس طبقے سے تھا جہاں بچپن کے بعد بڑھاپا آتا ہے۔۔۔

    خوب ہے ۔۔سب کچھ بہت اچھا۔۔۔ بات اکثر ہم سنتے ہیں مگر بتانے کا انداز بہت منفرد ہے ۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. سبحان اللہ ـــــــــــــــــــــــــــ سچی گل انج لگدی اے جیویں اپنی آکھی ہووے ــــــــــــــــ

    جواب دیںحذف کریں
  5. آداب، جناب چیمہ صاحب اور محترمہ سعدیہ۔ دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. ماشاء اللہ کچھ حصہ پڑھا ہے اچھا لگ رہا ہے اور دلچسپی جاری ہے

    جواب دیںحذف کریں
  7. ماشاء اللہ کچھ حصہ پڑھا ہے اچھا لگ رہا ہے اور دلچسپی جاری ہے

    جواب دیںحذف کریں