اتوار، 28 جون، 2015

تھا وہ اک یعقوب آسی (6) ۔




تھا وہ اک یعقوب آسی

خود دار شخص میں ایک خوبی لازماََ ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کی خود داری کا بھی خیال کرتا ہے۔ ایسے شخص کے ساتھ متواتر سات آٹھ برس تک کام کرنے کے بعد میری سرکاری عادات کس حد تک ’’بگڑ‘‘ چکی تھیں، آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

بہت بعد میں جب کالج کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہو گیا، خان صاحب الیکٹریکل انجینئرنگ میں سبجیکٹ سپیشلسٹ بنائے گئے۔ اساتذہ کے سیلیکشن بوڑد میں انہیں آنا ہوتا تھا۔ وہ جب بھی آتے میٹنگ وغیرہ سے فارغ ہوتے تو سِوِل بلاک کے ٹیرس پر پچاس ساٹھ پرانے ملازم ایک بڑا سا دائرہ بنا کر کھڑے ہیں، درمیان میں خان صاحب۔ ستر برس کی عمر میں بھی ان کا وہی ٹھہرا ٹھہرا سا انداز اور کھنکتا ہوا لہجہ ہے، ہر شخص کی طرف متوجہ ہیں۔ باتیں ہو رہی ہیں، اور مزے کی بات کہ کوئی سرکاری بات نہیں ہو رہی، سب ذاتی!۔ خاصی دیر بعد کہتے ہیں: ’’اب ہم تھک گئے! اب اتنی دیر کھڑے نہیں رہ سکتے، ہم چلیں گے‘‘۔

واللہ خیر الرازقین ! اس ارشادِ باری تعالیٰ کی ایک عملی تفسیر مجھ پر بیتی ہے۔ اس کو میں نے جس طرح دیکھا ہے، ہو سکتا ہے آپ کو بہت عجیب بات لگے مگر عملاََ ایسا ہوا ہے۔ جب سے روٹی کے چکر میں گھر سے نکلا ہوں ظاہر ہے کمانے والا تو ایک میں ہی تھا۔ شادی ہوئی بچے ہوئے، گھر بڑا ہوتا گیا، افراد کی تعداد بھی اور ضرورتیں بھی۔ اس کا نقشہ (تاریخوں، مہینوں کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ) کچھ یوں بنتا ہے۔
۔1۔ جب میں تھا اور میری اماں تھیں، زیادہ وقت بے روزگاری کا گزرا۔ شادی بھی بے روگاری کے دنوں میں ہو گئی۔
۔2۔ اللہ نے پہلی بچی سے نوازا تو مجھے سکیل 5 کی کلرکی مل گئی، دوسری بچی سے نوازا تو میں سکیل 8 میں چلا گیا، پھر سکیل 10 میں، تیسری بچی پیدا ہوئی تو مجھے چار ایڈوانس انکریمنٹس مل گئی۔
۔3۔ پھر پہلا بیٹا ہوا تو مجھے سکیل 15 مل گیا۔ تیسرے بیٹے کی پیدائش تک چار بچے سکول میں مختلف درجوں میں تھے اور مجھے سکیل 17 مل چکا تھا۔ پھر آخری دو بچوں کی پیدائش اور سکیل 18 ۔
۔ اللہ اکبر! یہ اُسی اللہ کے اپنے حساب ہیں! ورنہ ملازمت میں آنے کے بعد میں نے جو واحد تیر مارا تھا وہ یہ تھا کہ میٹرک کے پانچ سال بعد ایف اے کیا وہ بھی سیکنڈ ڈویژن میں اور پھر پانچ سال بعد بی اے کیا تو وہ بھی سیکنڈ ڈویژن میں اور بائی پارٹس!۔ ایم اے انگلش کی آدھی تیاری ہو گئی تھی، امتحان دینے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ ایک دوست نے پوچھا تھا، ماں کی دعاؤں کی رسائی کا۔ یہ جو کچھ مجھے ملا اور ملتا چلا آ رہا ہے اس میں کتنا حصہ ان دعاؤں کا ہے، آپ ہی حساب کر لیجئے۔

یہیں پر بس نہیں ہے! ریٹائرمنٹ، بیوی کی وفات، پوتے پوتیاں، بہوئیں۔ بیتے بھی اچھا کما رہے ہیں الحمد للہ اور خالص تنخواہ کما رہے ہیں، میری اپنی پنشن خاصی معقول ہے، اتنی تو میری تنخواہ بھی نہیں تھی۔ اللہ جانے اس میں کون کس کے نصیب سے کھا رہا ہے۔ پھول کلیوں جیسے توتلی زبانوں والے ننھے منے؟ یا پھر میں؟ یا ان کے والدین (میرے بچے)؟ یہ حساب اپنے بس کا نہیں۔

رہی بات ادب کی، یہ تو بقول پروفیسر احسان اکبر ’’گھر پھونک تماشا‘‘ ہے۔ 1972-1973 کے بعد بارہ سال کی خاموشی اور پھر حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا میں شمولیت 1985۔ تیس برس ہو گئے حرف سے تعلق بنے، سو چل رہا ہے۔ یہ شعبہ ہی الگ ہے۔
زندگی کی رنگا رنگی کے پس منظر اور پیش منظر میں بہت کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔ بندہ روتا ہی رہے، یا ہنستا ہی رہے دونوں رویے غیرمتوازن ہیں۔ رونے کی بات پہ رونا بھی آتا ہے، ہنسنے کی بات پہ ہنسی بھی آتی ہے، کبھی وہ زہرخندہ بھی ہوتی ہے اور معصوم بھی۔ یہی معاملہ دیگر کیفیات کا ہے؛ غصہ، جھلاہٹ، مایوسی، مسرت، حسرت، خفت وغیرہ وغیرہ ہم کسی کو بھی منہا تو نہیں کر سکتے۔ ہاں کس کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، یہ بھی کچھ ایسا سادہ فیصلہ نہیں ہوتا، یہاں بھی کئی عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ ایک بات البتہ طے ہے! سب کچھ ہمارے اندر ہی سے پھوٹے اور ہم اپنے گرد و پیش سے مستغنی ہو کر اس اندرونی موج کے مطابق چلتے جائیں، ناممکن! سب کچھ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ معاشرے میں رہنا جو ہوا! بَن بسرام شاعری میں تو بہت اچھا لگتا ہے، عملاََ کیسا ہوتا ہے، اپنا تجربہ نہیں ہے۔

معاشرے میں ہمارے عمل پر اثر انداز ہونے والے لوگ بنیادی طور پر وہی ہوتے ہیں جن کے ساتھ ہمارا کچھ تعلق واسطہ ہو۔ اور جتنا یہ تعلق واسطہ گہرا یا اہم ہو گا اتنا ہی ہم ایک دوسرے کا اثر قبول کریں گے (یہ دوطرفہ عمل ہے)۔ نیک نیتی اور خلوص، بد نیتی اور منافقت؛ اس کو ٹھیک ٹھیک پا لینے کا دعویٰ کم از کم میں تو نہیں کرتا۔ ہاں، واقعاتی سطح پر ہر انسان تجزیہ کرتا ہے اور شخصی یا غیرشخصی حوالے سے کوئی نہ کوئی خیال جسے تحقیق والے ہیپوتھیسس کہتے ہیں، بنتا ضرور ہے۔ بات پھر پھرا کے آ جاتی ہے شخصیات پر اور واقعات پر تو کیوں نہ کچھ اور شخصیات کا ذکر ہو جائے، کچھ اہم واقعات کا بھی۔ اہمیت کے پہلو بھی تو متنوع ہیں، نا! چلئے یوں ہی سہی۔

پروفیسر خان صاحب کے بعد پروفیسر ڈاکٹر علوی صاحب پرنسپل بنے تو دفتر میں میرے لئے جیسے کام ہی کوئی نہیں رہا، ہمہ وقت بے کار؟ دس دن بیس دن ایک مہینہ، گویا میرا کام صرف فون ملا کر دینا رہ گیا؟ ڈاکٹر علوی صاحب یہیں ٹیکسلا میں مکینیکل ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے، اور شناسائی بھی عمدہ تھی۔ ایسے میں اُن کا لاتعلقی کا سا رویہ میرے لئے بہت بڑا سوالیہ نشان تھا۔ اُن سے براہِ راست پوچھا بھی نہیں جا سکتا تھا، سو میں نے اپنے طور پر وجہ کی تلاش شروع کر دی۔ کھلا یہ کہ میرے ایک ’’مہربان‘‘ جو مجھ سے خاصے سینئر تھے، ڈاکٹر صاحب کے پاس الٹی سیدھی ہانک جاتے اور جس دن وہ کوئی نیا گل کھلاتے، جاتے جاتے مجھ پر کوئی جملہ بھی چست کر جاتے۔ میں نے مصلحتاََ خاموشی اختیار کئے رکھی۔ ڈاکٹر علوی صاحب بھی پنجابی بولنے میں سہولت محسوس کرتے تھے اور ان کی گفتگو میں خان صاحب والا رکھ رکھاؤ نہیں تھا۔ ایک دن مجھے طلب کر لیا، اور کہا: ’’میرے کول لوکی تیرے خلاف گلاں کردے رہندے نیں، توں کوئی گل وی نہیں کیتی (یعنی اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہا)‘‘۔ میں کچھ کچھ سمجھ گیا مگر پوری بات واضح نہیں تھی، عرض کیا: ’’تسی صفائی طلب کرو تے میں کوئی گل کراں! مینوں کیہ پتہ کس نے کیہ کہیا اے۔‘‘ (واضح کر دوں کہ ڈائریکٹر امورِ طلباء دوسرے ڈاکٹر صاحب تھے وہ سِوِل انجینئر تھے)۔ اس دن کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھے تھوڑا تھوڑا کام دینا شروع کیا اور ساتھ ہی کہتے: ’’کر لئیں گا؟‘‘ میرا بہت کچھ کہنے کو جی چاہتا مگر ۔۔ وہی خاموشی۔
ہوتے ہوتے یوں ہوا کہ ڈاکٹر علوی صاحب مجھ پر محاورے کی مصداق آنکھیں بند کر کے اعتماد کرنے لگے۔ میرے لئے اُن کا یہ اعتماد بہت بڑی آزمائش بھی تھا۔ ایک دن کہنے لگے: ’’توں اپنی صفائی پیش نہیں کیتی‘‘ میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا، وہ مسکرا رہے تھے۔ میں نے کہا: ’’ہن لوڑ نہیں رہی، سر‘‘۔ ہمارے ایک ایڈمن افسر (آفس سپرنٹنڈنٹ) ہوا کرتے تھے، کوئی بے کار سی وہ بھی کر دیتے تھے مگر کسی کے کہنے پر۔ ایک دن (کسی اور کے کہے پر) مجھ سے کہنے لگے: ’’آسی صاب، کیہ کردے ہندے اوں سارا دِن‘‘ ’’کچھ وی نہیں جی‘‘۔ ’’تسیں ایتھے میرے کول بیٹھیا کروں، علوی صاحب نے کہہ دتا اے‘‘ ’’اچھا جی، میں ذرا اوہناں کولوں پچھ لواں‘‘۔’’نہیں نہیں رہن دیوں، بیٹھوں اوتھے ای‘‘۔ مجھے ان کی سادگی پر بہت ہنسی آئی۔ میں نے پوچھا: ’’تسیں ایہ گل چوہدری دے کہن تے کیتی اے نا؟‘‘ ہنس کر بولے: ’’آہو یار‘‘۔ مذکورہ چوہدری صاحب سامنے بیٹھے تھے ان سے بولے: ’’چوہری! توں مینوں مرواؤں گا کسے دن۔‘‘ بات مذاق میں ٹل گئی۔

ادھر اکاؤئنٹس میں ایڈمن افسر کی نئی پوسٹ آ گئی تو وہ جملے کسنے والے صاحب (اگرچہ گریجوایٹ نہیں تھے) اپنی طوالتِ خدمات کی بنا پر ترقی پا گئے۔ مجھے ان کی ترقی نے خاصا پرسکون کر دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد ہمارے سادہ دل ایڈمن افسر صاحب 60 سال کی عمر کو پہنچ کر ریٹائر ہو گئے تو انہی جملہ خان صاحب کو اِس سیکشن کی نگرانی سونپ دی گئی۔ میرا تو سلسلہ الگ تھا، چوہدری صاحب کو جملہ خان صاحب کی براہِ راست ماتحتی میں خاصا ’’مزہ‘‘ آیا۔ وہ میرے پاس بھی اپنے نگران باس کی ’’شکایت ‘‘ کرنے لگتے تو میں کبھی کیپسول کی صورت میں کبھی ویسے اُن کو جتا ضرور دیتا کہ ۔۔ ۔۔ وغیرہ، وغیرہ۔
میں اس وقت تک سکیل 10 میں تھا۔ ایک درخواست ڈال دی کہ گریڈ 16 کی تازہ ویکینسی پر مجھے ترقی دی جائے۔ اپنے چوہدری صاحب نے بھی درخواست دے دی۔ وہ اسسٹنٹ کے کیڈر میں سب سے سینئر تھے اور میں سٹینوگرافر کے کیڈر میں۔ کارکردگی کے اعتبار سے ہم دونوں ’’اے۔ون‘‘ تھے۔ پرنسپل صاحب کے لئے مسئلہ بن گیا، کہ سیٹ ایک ہے بندے دو ہیں، اور دونوں کا ریکارڈ وغیرہ سب ٹھیک ہے، پروموشن کے لئے دونوں حق دار ہیں۔ اب ہونا کیا چاہئے؟ کس کی سفارش کی جائے؟ پروموشن کا اختیار وائس چانسلر صاحب کے پاس تھا۔
ایک اور اسسٹنٹ تھے تیسرے یا چوتھے نمبر پر، یار لوگوں نے ان کا نام ’’اسٹنٹ‘‘ رکھا ہوا تھا۔ کچھ کچھ سیاست میں بھی قدم رکھتے تھے۔ وہ بھی نہ صرف میدان میں آ گئے بلکہ ڈاکٹر صاحب کے کچھ پرانے دوستوں سے کہلوایا، وغیرہ۔ اس طرح کی خبریں خفیہ نہیں رہا کرتیں۔ ایک دن دفتر میں آتے ہی ڈاکٹر صاحب نے مجھے طلب کر لیا: ’’آسی، اندر آ ذرا‘‘۔ یا اللہ خیر۔ میں اندر گیا تو چھوٹتے ہی بولے: ’’توں میرے لئی کیہ مسئلہ بنیا ایں؟‘‘ میں سمجھ گیا، اور کہا: ’’مسئلہ میں کیویں بنیا، سر؟ مسئلہ تے اوہ بنیا نا، جیہڑا سفارشاں پواندا پھردا اے‘‘۔ انہوں نے مری بات کو بہ ظاہر ان سنی کرتے ہوئے کہا: ’’بیٹھ!‘‘ ۔ اس کے بعد کی گفتگو واقعی بڑی دل چسپ ہے۔ آپ بھی شامل ہوجئے۔ ’’تہاڈے دونہاں چوں سینئر کون اے؟‘‘ (تم دونوں میں سینئر کون ہے؟)
’’کیڈر وچ اودھر چوہدری سینئر اے، ایدھر میں سینئر آں، سروس اس دی زیادہ اے‘‘۔ (کیڈر میں اُدھر چوہدری سینئر ہے، اِدھر میں سینئر ہوں، سروس اس کی زیادہ ہے۔)
’’تے اوہ، اوہ تیجا؟‘‘ (اور وہ تیسرا؟)
’’اوہ تے بہت پچھے وے جی، اک بندہ اس توں سینئر اے جنہے شاید درخواست نہیں دتی، تسیں میرے تے کاہدا غصہ کڈھ رہے او؟‘‘ (وہ تو بہت پیچھے ہے جی، ایک شخص اس سے سینئر ہے جس نے شاید درخواست نہیں دی، آپ مجھ پر کس بات کا غصہ نکال رہے ہیں؟)
’’اوہ، یار! اوہ سفارشاں پواندا پھردا اے۔ فلانے تے فلانے نوں جاندا ایں نا۔‘‘ (او، یار! وہ سفارشیں کرواتا پھر رہا ہے۔ فلاں اور فلاں کو جانتے ہو، نا؟)
’’ہاں جی تہاڈے پرانے بیلی نیں‘‘ (جی، وہ آپ کے پرانے دوست ہیں۔)
’’نرے بیلی نہیں، کلاس فیلو! ۔۔ اوہ دونویں میری جان نوں آئے نیں، کہ جی اس نوں پروموٹ کراؤ‘‘ (نرے دوست نہیں، کلاس فیلو! وہ دونوں میری جان کو آئے ہوئے ہیں کہ جی اس کو پروموٹ کرائیں۔)
’’مینوں اک گل دسو سر! میں جدوں دی درخواست دتی اے، کدی کدھرے اک واری وی، میں خود یا میرے لئی کسے نیں تہانوں کہیا ہووے‘‘ (مجھے ایک بات بتائیے سر! میں نے جب سے درخواست دی ہے، کبھی کہیں ایک بار بھیخود میں نے یا میرے لئے کسی اور نے آپ سے کہا ہو؟)
’’بالکل نہیں، چوہدری نے کسے توں تے نہیں اکھوایا پر آپ ہر ویلے چمبڑیا رہندا اے۔‘‘ (بالکل نہیں۔ چوہدری نے کسی سے تو نہیں کہلوایا مگر خود ہر وقت چمٹا رہتا ہے۔)
’’پھر، کر لئو فیصلہ، اک سیٹ اے چوہدری نوں سروس دا فائدہ دیو! مکاؤ جھگڑا‘‘ (تو پھر کر لیجئے فیصلہ، ایک سیٹ ہے چوہدری کو سروس کا فائدہ دیجئے، جھگڑا ختم کیجئے)
’’میں چوہدری نوں کرا دیاں گا پروموٹ! پھر نہ کہیں‘‘ (میں چوہدری کو پروموٹ کرا دوں گا! پھر نہ کہنا۔)
’’ٹھیک اے جی نہیں کہندا۔‘‘(ٹھیک ہے جی، نہیں کہوں گا۔) میں نے بات ختم کر دی۔
’’پر یار، میں چوہدری دی وی حق تلفی نہیں کرنا چاہندا نہ تینوں گوانا چاہندا آں۔ سیٹ اک اے، جے ۔۔۔‘‘(لیکن یار، میں چوہدری کی بھی حق تلفی نہیں کرنا چاہتا اور نہ تمہیں ضائع کرنا چاہتا ہوں۔ سیٹ ایک ہے، اگر ۔۔۔) انہوں نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ اور مجھے جانے کو کہہ دیا۔
ایک ڈیڑھ مہینے تک مکمل خاموشی رہی۔ اور پھر ایک دن یونیورسٹی سے سرکاری حکم نامہ آ گیا۔ اس کے اہم نکات یہ تھے:
۔1۔ چوہدری ۔۔ ۔۔ کو ترقی دے کر ایڈمن افسر بنایا جاتا ہے اور مین آفس میں موجود خالی سیٹ پر تعینات کیا جاتا ہے۔
۔2۔ شعبہ امتحانات میں ایڈمن افسر کی ایک سیٹ فراہم کی جاتی ہے، اور محمد یعقوب آسی کو ترقی دے کر اس سیٹ پر ایڈمن افسر بنایا جاتا ہے۔
۔3۔ یہ حکمنامہ تاریخِ اجراء سے مؤثر ہے۔ (یعنی جس تاریخ کو حکم جاری ہوا)۔

ہوا یہ تھا، جو بات ڈاکٹر صاحب نے ادھوری چھوڑ دی تھی۔ ان کو خیال آیا کہ ایک سیٹ تو موجود ہے، ایک سیٹ نئی لے لی جائے، اور دونوں کو ترقی دے دی جائے۔ اس پر انہوں نے وائس چانسلر کو قائل کر لیا تھا اور یوں کسی کی بھی حق تلفی نہیں ہونے دی تھی۔ یہ دوسرا موقع تھا جب میرے لئے نئی سیٹ مہیا کی گئی ہو۔ اس سے پہلے محکمہ شناختی کارڈ میں میرے لئے سٹینوگرافر کی نئی سیٹ پیدا کی گئی تھی۔ اس کی تفصیلات بیان نہیں ہو سکیں کہ بات کسی اور طرف نکل گئی تھی۔ اب اس کی تفصیل میں جانے کا موقع بھی نہیں رہا۔
۱۱ جون ۲۰۱۴ء

 اور وہ جو انور وٹو صاحب تھے، جنہوں نے کہا تھا ’’میں نے کون سا یہاں رہنا ہے‘‘ وہ واقعی نہیں رہے۔ انہوں نے، جب مجھ سے ملے تھے، میٹرک اور ڈی کام کیا ہوا تھا۔ بعد میں بی اے کا امتحان دیا، اچھے نمبروں سے کامیاب ہوئے اور پھر بنجاب پبلک سروس کا امتحان بھی پاس کر لیا اور ساہی والے کے قریب ایک سرکاری فارم ’’نورپور ڈیری فارم‘‘ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن کر ٹیکسلا سے رخصت ہو گئے۔ مختلف سرکاری محکموں میں پھرتے پھراتے، پنجاب سکرٹریٹ (لاہور) میں ڈپٹی سکرٹری فنانس بن گئے۔ دورانِ ملازمت ان کو دل کا دورہ پڑا جس سے جاں بر نہ ہو سکے۔ اللہ مغفرت کرے، دھُن کے پکے تھے۔

ایک نوجوان اور ایسا ہے جس کا ذکر نہ کرنا انسانی عزم و ہمت کی نفی کرنے کے مترادف ہو گا، وہ ہے اختر شادؔ۔ اپنی سہولت کے لئے اختر کہے لیتے ہیں۔
یہ 1979 کی بات ہے۔ کالج نے اکیڈیمک شعبوں میں لیبارٹری اٹنڈنٹ کی بھرتی کا نوٹس جاری کیا۔ جملہ کاروائیوں سے گزر کر دوسرے کچھ امید واروں کے ساتھ اختر بھی بھرتی ہوا۔ میں چونکہ مرکز میں بیٹھا ہوا تھا، ہر نئے آنے والے کی حاضری رپورٹ کو پرنسپل صاحب منظور کیا کرتے۔ میں نے اختر کے کاغذات دیکھے تو اس کی فوٹو نے میری توجہ کھینچ لی۔ اس کی آنکھیں بہت گہری اور چمکدار لگ رہی تھیں۔ رسمی کاروائی تو ظاہر ہے ہو ہی جانی تھی۔ میں نے اپنے تجسس کے ہاتھوں اس کو بلوا بھیجا کہ دیکھیں تو سہی یہ کون لڑکا ہے۔
وہ میرے پاس آیا تو گھبرایا ہوا لگتا تھا، کہ پرنسپل آفس سے کسی اور کو تو نہیں بلوایا گیا، مجھے ہی کیوں۔ میں نے اُسے بٹھایا اور بتایا کہ بھائی آپ کو پرنسپل صاحب نے نہیں میں نے بلوایا ہے، میں آپ سے ملنا چاہ رہا تھا۔ پھر میں نے اختر سے اچھا خاصا غیر رسمی انٹرویو کر ڈالا۔ اختر کے والد ایک مقامی صنعتی ادارے میں سکیورٹی گارڈ تھے۔ اختر نے میٹرک کا امتحان ایک مقامی سکول سے پاس کیا۔ اس سے بڑی بہنیں تھیں، بھائیوں میں وہ سب سے بڑا تھا۔ اس لئے میٹرک کی سند ملتے ہی نوکری کی تلاش میں نکلا اور پہلے ہی مرحلے میں اس کو نوکری مل بھی گئی۔ میرے ذہن میں اپنا ماضی گھوم گیا جو اختر کی نسبت کہیں مشکل تھا، ظاہر ہے وہ سب کچھ اُسے بتانے کا نہیں تھا۔ علم و تعلیم اور عمومی مطالعہ اس کی باتوں میں جھلکتا تھا اور شعور میں وہ اپنی عمر سے بڑا لگتا تھا۔ اِس طبقے کے لوگ اپنی طبعی عمر سے بڑے ہوا کرتے ہیں۔

اختر سے کبھی کینٹین پر ملاقات ہو جاتی، کبھی ڈیپارٹمنٹ میں اور کبھی کبھار وہ میرے پاس بھی آ جاتا۔ اس کی باتیں اچھی لگتیں، ان میں عصری شعور بھی ہوتا اور دکھ بھی، امیدیں بھی اور خدشات بھی۔ اور اس کا لہجہ خاصا نپا تلا تھا، اس میں لڑکپن نہیں تھا۔
پھر یوں ہوا کہ میں کوئی چھ ماہ کے لئے اس منظر سے ہٹ گیا (یہ کہانی پھر سہی)، میں واپس آیا تو اختر نوکری چھوڑ کر جا چکا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ مجھے یاد تو آتا مگر میں نے اسے تلاش بھی نہیں کیا۔ کوئی چھ برس بعد اُس سے حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا کے اجلاس میں ملاقات ہوئی جو میرے لئے خوشگوار حیرت کا باعث تھی۔ شعر و ادب سے ہٹ کر یہاں انسانی حوالوں کی کچھ باتیں تازہ کرتے ہیں۔
وہ بھی اسی صنعتی یونٹ میں ملازم تھا جہاں اس کے والد صاحب تھے۔ کالج کی نسبت اسے زیادہ تنخواہ ملتی تھی مگر وہ مطمئن نہیں تھا۔ اکثر کہا کرتا کہ غریب کے بچے کو بھی غریب ہی رہنا ہے اور اس کے بچوں کو بھی۔ اس کو یہ دکھ بھی تھا کہ غریبوں سے ہمدردی کے نعرے لگانے والے بھی غریب ہی کا استحصال کرتے ہیں۔ میں نے اسے ایف اے کرنے کا مشورہ دیا تو وہ تپ گیا، اور بعد میں مان بھی گیا۔ ایف اے کی سند بھی اس کی نوکری میں کوئی تبدیلی نہ لا سکی تو وہ اور بھی پریشان ہو گیا۔ میری تحریک پر اس نے بی اے کی تیاری شروع کر دی۔ جس دن اُسے بی اے کا رزلٹ کارڈ ملا وہ میرے پاس گھر پر آیا، میرا خیال تھا پھر کہے گا کہ اب کیا کہتے ہو؟ بی اے تو کیا میں ڈاکٹریٹ بھی کر لوں تو مجھے مزدوری ہی کرنی ہے۔ مگر ۔۔۔ اس کا جملہ: ’’میں ایم اے اردو کروں گا اور ریگولر کروں گا‘‘۔ مجھے حیران کر گیا۔ میں نے کہا: تمھارا دماغ ٹھیک ہے؟ نوکری چھوڑو گے، کیا؟ کہنے لگا کچھ کرتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں